سبت کا دِن

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛ تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛  تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

گزشتہ دنوں برصغیر کے معروف فکشن رائٹر  محمد حمید شاہد کی تازہ ترین تصنیف اور ان کی خود نوشت ”خوشبو کی دیوار کے پیچھے“ کا  ابتدائیہ ہم نے قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا،یہاں اس خودنوشت کا پہلا باب پیش کیا جارہا ہے،آنے والے دنوں میں اس کی مزید قسطیں پیش کی جائیں گی۔ ادارہ

میں اپنے والدین کا پہلا نہیں چوتھا بچہ تھا لہٰذا کوئی گماں باندھ سکتا ہے کہ میری پیدائش اُس گھر میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہ رہا ہوگا۔ وہ ایک ننھے منے وجودکو پاکر خوش ہوئے ہوں گے مگر اُتنا نہیں جتنا کوئی اپنی پہلی اولاد پر خوش ہوتا ہے۔  میرے ماں باپ پہلی پہلی اولاد کی خوشی میری پیدائش سے دس برس پہلے منا چکے تھے۔ میں 1957ء میں پیدا ہوا تھا اور سب سے بڑے بھائی جاوید 1947ءمیں ۔ بہن زرینہ اور بھائی خورشیدہم دو کے بیچ آئے تھےاور اپنے حصے کی توجہ اور محبتیں سمیٹ رہے تھے ۔

میرے بعد اس گھر میں بچوں کی پیدائش کا سلسلہ رُکا نہیں تھا ؛ وحید، نوید،شاہد،زاہد اور بہن امینہ ۔اور جب میں ہوش سنبھال چکا تھا تو بہ چشم خود مشاہدہ کر رہا تھا کہ ہر وجود کی آمد پر یوں خوشی منائی جاتی تھی جیسے کہ وہ پہلا بچہ ہو۔ ہر بچے کو اباجی نے گھٹی پلائی ۔ کان میں اذان بھی وہی دیتے ۔ اس مقصد کے لیے ایک کاغذ کو گول گول لپیٹ کر اس کی کیف سی بنا لی جاتی تھی اور وہ کیف کے کھلے سرے میں منہ رکھ لیتے۔  اس کیف کے ذریعے بچے کے کان میں پہنچائی جانے والی آواز بہت مدہم رکھی جاتی تھی؛یوں جیسے سرگوشی کی جارہی ہو۔

اس موقع پر شیرینی تقسیم ہوتی۔ ساتویں دِن نائی گھر آتا ۔ نومولود کی جھنڈ اُترائی ہوتی۔ جو بال اُترتے اُن کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی جاتی ۔ ساتویں روز عقیقہ ہوتا۔بچے کا نام بھی اسی روز رکھا جاتا ۔ لڑکا ہوتا تو ساتویں روز ہی ختنے ہوتے ۔ ختنے ہسپتال میں نہیں نائی کیا کرتا تھا۔ عزیز اقربا جمع ہوتے مکھڈی حلوا پکتا ۔ شہر کے خواجہ سراآ دھمکتے ۔ناچتے گاتے اورجب تک انہیں وہ سب دِے نہ دیا جاتا جس کی وہ توقع باندھ کر آئے ہوتے تو ٹلتے نہ تھے۔ میں تصور باندھ سکتا ہوں کہ میری پیدائش کے بعد بھی یہ سارا ہنگامہ رہا ہوگا۔

کسی زچہ کے ہسپتال میں داخل ہونے اور اُس کے لیبر روم میں گائنی ڈاکٹر کی نگرانی میں آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش یوں لگتا ہے جیسے معمول بنتا جارہا ہے ۔ تب گھر میں پیدا ہونا معمول تھا اور ہسپتال جانے کا مطلب تھا معاملہ ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔  میں ہسپتال میں نہیں اپنے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ میں ہی کیا ہم سب بہن بھائی گھر کے ایک مخصوص کمرے میں پیدا ہوئے تھے ۔  جب میں چھوٹا ہونے کے باوجود چیزوں کو سمجھنے لگا تھا تب مجھے اندازہ ہو جایا کرتا تھا کہ گھر میں نئے بچے کی آمد آمد ہے۔

دائی اماں گھر میں گھستیں تو میں چوکنا ہو جاتا ۔ دوسری نشانی وہ دہکتے انگاروں سے بھری ہوئی پرات تھی جو اس کمرے کے وسط میں رکھ دی جاتی۔ تیسری نشانی ہرمل کی دُھونی تھی۔ یہ نام میں نے دائی اماں سے سنا تھا جو پرات کے کوئلوں پر کچھ ایسا ڈالا دیتی تھیں کہ تڑ تڑ کی آواز اور بہت سارا دھواں نکلتا تھا ۔ اس دھوئیں کی خاص مہک تھی، جس سے وہ سارا کمرہ بھر جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کمرہ بند ہو جاتا۔ اب دائی اماں کو کچھ چاہیے ہوتا تو تھوڑا ساپٹ کھول کر منھ نکالتیں اورکہہ دیتیں۔ جو چاہیے ہوتا میں یا کوئی دوسرا بھائی بھاگ کر لے آتا اور انہیں تھما دیتے تھے ۔

کمرے کا دروازہ بند رہتا اور ہمیں اس کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جاتا تھامگر ہمارے کان اسی کی سمت لگے رہتے تھے۔  وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر  باہر نکلتیں تو ہم اُن کی طرف لپکتے ۔ وہ ہم سے بے نیازیوں گھر کے بڑوں کی طرف بڑھ جاتیں جیسے کوئی علاقہ فتح کرکے نکلی ہوں ۔ ایک ایک کو مبارکباد دیتیں اور جس کے بس میں جو ہوتا انہیں انعام دیتا۔موقع پا کر ہم کمرے میں گھس جاتے تھے۔

میں بتا چکا ہوں کہ بچوں کے ختنے بھی گھر میں ہی ہوا کرتے تھے۔ جس طرح کا چلن اب ہو چلا ہے کہ ہسپتال گئے ،ختنے کے نام پر چھوٹے سےپروسیجر سے ماس کٹوا کر الگ کروایا ، بڑا سا بل ادا کیا اور گھر لوٹ آئے۔ ڈاکٹر نے مرہم پٹی کر دی ، سو وقت پر زخم مندمل ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا ۔ اور یہ سارا کچھ یوں خاموشی سے ہو جاتا ہے کہ کسی عزیز رشتہ دار کو خبر تک نہیں ہوتی ۔ ہمارے وقتوں میں ختنوں کا اہتمام اہم واقعہ ہوجاتا تھا ۔

اس رسم کو مسلمانی بٹھانا یا سنت کروانا کہتے ۔ جنہیں اس تقریب میں بلایا جانا مقصود ہوتا اُن کی فہرست بنتی اور نائی کے حوالے کر دی جاتی۔ وہ خوشی خوشی دعوت دینے گھر گھر جاتا تھا کہ بدلے میں اسے ہر گھر سے کچھ نہ کچھ مل جاتاتھا ۔ تقریب والے روز نائی اپنی رچھانی لے کر صحن کے وسط میں بیٹھ جاتا اور ایک صحنک منگواتا۔ صحنک اپنے سامنے اوندھاتے ہوئے اس پر رچھانی سے نکالے گئے اوزار رکھتا۔ یہ اوزار کیا تھے ؛ ایک استرا، ایک وٹی، چمڑے کی پٹیّ، نرسل کا بالشت بھر ٹکڑا ، سرمچو۔ وہ پہلے اُسترے کو وٹی پر تیز کرتا پھر چمڑے کی پٹیّ پر رگڑ رگڑ کراس کی دھار بناتا تھا۔کچھ کاغذ جلا کر اُن کی راکھ بناتا اور صحنک پر ایک طرف ڈھیر کر لیتا۔

اس کام سے فارغ ہو کر وہ اماں ابا کو بچہ لانے کو کہتا ۔ جب تک بچہ لایا جاتا وہ کچھ اوزار رچھانی میں سمیٹ کر صحنک کا وسطی حصہ خالی کر چکا ہوتا۔ بچے کو اُس کے دونوں پاؤں تھامتے ہوئے اور پشت بازؤوں پر سہارتے ہوئے صحنک پر یوں بٹھایا جاتا کہ اس کا رُخ نائیکی طرف ہوتا تھا ۔ وہ اپنے اوزار لے کر بچے کی ٹانگوں کے بیچ گھس جاتا ۔ جس ماس کو کاٹ کر الگ کیا جانا ہوتا اس میں پہلے سرمچو پھیر کر تسلی کی جاتی کہ وہ کہیں چپکا ہوا نہ ہو اور اس پر قلم کی طرح کٹا ہوا نرسل چڑھا دیتا ۔ پھر وہ استرا اٹھاتا اور اس کی تیز دھار سے ماس کاٹ کر الگ کر دیتا ۔

جہاں سے ماس کٹ کر الگ ہوتا تھا وہاں سے خون بہہ نکلتا اور ہم جو اس منظر کو دیکھ رہے ہوتے تھے سہم جایا کرتے تھے ۔ نائی اپنے کام میں مصروف رہتا اور خون روکنے کے لیے اوپر راکھ ڈال دیتا تھا ۔ اس دوران اگر بچہ پیشاب کر دیتا تو وہ اس کی دھار ہتھیلی پر روک کر زخم پر گرادیتا۔ میں نے اسے کہتے سنا تھا کہ اس طرح زخم جلد مندمل ہوتا تھا۔ لیجئے اس کاکام مکمل ہوا ۔ کھلی ٹانگوں کے ساتھ بچہ واپس لایا جاتا اور ماں کے حوالے ہو جاتا ۔

یہ عمل مکمل ہوتے ہی سارے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ۔ مراثنیں ڈھول پیٹ پیٹ کر ویلیں وصول کرتیں۔ تحائف کا تبادلہ ہوتا اور کھانے کے لیے دستر خوان بچھ جاتا تھا۔خوشی کا یہ اہتمام ہم سب بھائیوں کے لیے ہوا تھا۔

تیسرے مہینے کی وہ تئیس تھی اور سن کا بتا چکا ہوں اُنیس سو ستاون، جس تاریخ کو میں پیدا ہواتھا۔ لندن میں رہنے والی علم الاعداد کی ایک ماہر خاتون ہیں مشعیل بچانن، اُن کا یہ دعویٰ میں نے پڑھ رکھا ہے کہ جس تاریخ کو کوئی پیدا ہوتا ہے اُس عدد کا بھی پیدا ہونے والے کی شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔ اب یہ دعویٰ درست ہے یا نادرست ،میں نے مشعیل کو پڑھ کر اس بحث کو ایک طرف رکھا اور جھٹ 23 تاریخ نکال کر اس کی ذیل میں لکھا ہوا پڑھا تھا۔

اس تحریر کے مطابق میں ایسے لوگوں میں سے تھا جو (دروغ  بر گردن مشعیل) مسحور کن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ سفر کے اتنے شوقین کہ ہر دَم پا بہ رکاب رہتے ہیں۔ من موجی اورہنگامہ بپا کرنے والے۔ دوسروں کی مدد کرنا اور انہیں مفید مشورے دینا بھی ان کی شخصیت کا ایک جزو ہو جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ ۔ اِن میں سے ساری باتیں مجھ پر ٹھیک نہیں بیٹھتیں؛ مثلاً تھوڑا سا من موجی تو میں ہوں مگر ہر سفر سے پہلے میرا دِل بیٹھنے لگتا ہے یہ الگ بات کہ سفر آغاز ہو جائے تو میرا وجود تجسس سے بھر جاتا ہے۔

قسمت اور مزاج آنکنے کے لیے ہاتھ کی لکیروں سے بھی مدد لی جاتی ہے ۔ یہ اگست 2008 کی بات یاد آگئی ۔ میں اور نجیبہ عارف لاہور کسی پروگرام میں شرکت کے لیے گئے تو وقت نکال کر محمد سلیم الرحمن سے ملنے اُن کے گھر پہنچ گئے تھے۔ وہیں ہاتھ کی لکیروں پر بات چل نکلی۔ نجیبہ کو اس کی کافی سدھ بدھ تھی ہم اپنے ہاتھ کھولے اُن سے لکیروں کے بھید جان رہے تھے کہ اس موقع کی ایک تصویر محمدعارف جمیل نے بنالی۔ میں نے وہ تصویر ایک نوٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دِی جس پر دلچسپ ردعمل آیا تھا۔ پہلے اپنا نوٹ مقتبس کردیتا ہوں۔ ردعمل پر ایک آدھ بات بعد میں؛

“میں ان سب ہاتھوں کی بابت نہیں بتاؤں گا جو اس تصویر میں ہیں کہ کون سا ہاتھ کس کا ہے،تاہم اتنا بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک میرا ہے اور دوسرا ایک بہت محترم اور سینئر ادیب کا۔ جب سے میں نےمحترم ادیب کے نفیس اور نازک ہاتھ اور اس پر کھدی لکیریں دیکھی ہیں میری پامسٹری میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں کیرو کی طرف دھیان جانا یقینی تھا اور دھیان اس طرف گیا بھی۔ کہتے ہیں 1936ءمیں کیلیفورنیا میں اپنے کمرے میں چپکے سے مر جانے والا”اے سٹڈی آف ڈسٹنی” والا فکشن نگار ولیم جان وارنر اور کیرو دوالگ الگ شخص نہیں تھے۔ تاہم میرے دھیان پرجس نے دستک دی، وہ فکشن نگار نہیں ایک پامسٹ تھا۔ ایک ایسا شخص جو دنیا بھر میں کیرو کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اگرچہ آئرلینڈ کا رہنے والا تھا مگر اس نے اس فن اور اس فن سے جڑے ہوئے سارے بھید تب سیکھے تھے جب وہ ہندوستان آیاتھا اوربمبئی میں ایک برہمن سے ملا تھا۔ اس برہمن کو اس نے اپنا گرو مان لیا۔ یہ گرو اسے مہاراشٹرا لے گیا اور اس علمی خزانے تک رسائی دی جس کی مدد سے وہ ہاتھ کی لکیریں دیکھتاتھا اور شخصیت کے سارے راز اس پر کھل جایا کرتے تھے۔اس کی اس موضوع پر کئی تصانیف ہیں اورکہا جاتا ہے کہ وہ جو بتایا کرتا عین مین ویسا ہی ہوتا تھا۔

کیا دست شناسی واقعی ایساعلم ہے کہ کسی کے ماضی میں جھانکا جا سکے، اس کے حال کی بابت جانا جاسکے اور اس کے مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکے ۔ مجھے ہمیشہ شک رہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر جب جب میرا ہاتھ کسی نے دیکھا اور کچھ ایسی باتوں کی جانب اشارہ کیا جو بس میں ہی جانتا تھا تو میں حیرت کے مقابل ہوتا رہا ہوں ۔ ایسے میں اس گماں کا گزرنا بھی یقینی ہوتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس پامسٹری میں ایسا ہے کہ ہاتھ دیکھنے والے پر شخصیت پر بیت چکے لمحے کھل جاتے ہوں گے، جی کم از کم انسان کے ماضی کے باب میں۔

وہ لکیریں جو ایک بچہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے، کہتے ہیں اس پر دل، دماغ، قسمت، شہرت اور زندگی کی لکیریں ہوتی ہیں۔ کہہ لیجئے بچہ اس باب میں سب کچھ مٹھی میں بند کرکے لاتا ہے جو ایک اچھے پامسٹ پر مٹھی کھلتے ہی کتاب کی طرح کھلنے لگتی ہیں۔

ہاتھ کی ساخت، اس پر بنے ہوئے ابھار جنہیں عطارد، زہرہ، مشتری، زحل، مریخ اور چاند کے علاوہ سورج کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، یوں سمجھئے لکیروں کی صورت لکھی گئی عبارت پروہ اعراب ہیں جو اس عبارت کو ڈھنگ سے پڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جس نرم و نازک ہاتھ کا میں نے عین آغاز میں ذکر کیا بتا چکا ہوں کہ وہ ایک بہت محترم ادیب کا ہاتھ ہے۔ میں نے اپنے ہاتھ کی لکیروں کو ان کے ہاتھ کی لکیروں سے ملایا، میرے ہاتھ پرویسی ہی دل کی لکیر تھی، جیسی اُن کی تھی۔ دماغ، قسمت ،شہرت اور زندگی ، سب لکیریں لگ بھگ ایک جیسی، مگر ہاتھ کی بناوٹ اس پر بنے ہوئے ابھار سب اتنے مختلف تھے کہ مجھے لگا سب کچھ مختلف ہو گیا تھا ، ان عبارتوں کی طرح جن میں مضمون ایک سا ہوتا ہے مگراپنے اسلوب کی وجہ سے وہ اتنی مختلف ہو جاتی ہیں کہ مضمون کہیں پیچھے رہ جایاکرتا ہے ۔”

پچاس سے زائد لوگوں نے اس نوٹ پر اپنی اپنی ماہرانہ رائے دی تھی۔ کچھ دوستوں نے میرا ہاتھ پہچان لیا اور اس باب میں دلچسپ باتیں کہہ دیں۔ دوسروں کے بارے میں جو کہا گیا اسے حذف کرتے ہوئے ایک دو آرا یہاں نقل کیے دیتا ہوں بہ طور خاص وہ جنہوں نے مجھے چونکایا تھا:

محمود رضا سید:” رائٹ ہینڈ پر لکھا ہے محمد حمید شاہد…شاہد صاحب آپ کا ہاتھ وزنی ہے مگر آپ کے پاس بھی عروج ہی عروج ہے میں یہ دو چار لائینیں اس لیے لکھ رہا ہوں [کہ[ میرے والد محترم ریاضی دان تھے اور پامسٹری اُن کا پسندیدہ سبجیکٹ تھا۔”

فیض عالم بابر:” دوسرا ہاتھ جو نظر آرہا ہے اس میں زحل اور عطارد کے اُبھار کے درمیان سے ایک لکیر نیچے کو گر رہی ہے یہ پیشاب کے امراض ،قطرے آنے وغیرہ کی علامت ہے اس کے ہاتھ میں تقدیر اور دماغی لائن کے ملاپ سے ایک تکون بن رہی ہے جو بہت اچھی علامت ہے ایسا شخص تقدیر کا دھنی ہے غیب سے مشکل سے مشکل کام بن جاتا ہے ۔”

خدا وند کریم کے فضل سے مجھے اپنے پڑھنے والوں سے اتنی محبت ملی کہ کم کم کسی کا مقدر ہوئی ہوگی۔ پھر یوں بھی ہے کہ جب جب مجھ پر مشکل وقت پڑا تو ہمیشہ غیب سے مدد آئی اورمجھےیوں لگتا رہا جیسے میرے سامنے کامیابیوں کے دروازے کھلتے چلے جارہے تھے ۔ اگر مجھے یہ بتایا جارہا تھا کہ یہی کچھ میری ہاتھ کی لکیریں بھی کہہ رہی تھیں تو میرا چونکنا تو بنتا ہی تھا۔ اب رہی یہ بات کہ میں پیشاب کے قطروں کا مریض ہو سکتا تھا تو یہ بات اس حد تک درست ہے کہ میں گردوں کی پتھری کا مریض رہا ہوں اور اب بھی ہوں حالاں کہ تین دفعہ پتھری نکلوا چکا ہوں۔ خیریہ بات ضمناً آگئی تھی ذِکر تو بچپن کا ہو رہا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ


رجب علی بیگ سرور کی’’فسانہ عجائب‘‘پڑھ رہا تھا، وہیں غلام علی ہمدانی مصحفی کے ایک شعر پر نظر پڑی تھی۔ اِسی مضمون کا ہے جس پر بات چل رہی ہے۔:

اُسے دیکھ طفلی میں، کہتی تھی دایہ

یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے

مصحفی نے یہ کب کہا ؟کیوں کہا؟ اور کس کے حوالے سے کہا؟ میں اس تلاش میں تھوڑا سا وقت لگانے اور کچھ نہ ہاتھ آنے کے بعد اوب کر اور یہ سوچ کر ایک طرف ہو بیٹھا تھا کہ موصوف کی دایہ کے تخمینے آخر کہاں تک درست ہو سکتے تھے؟اس تلاش میں اگر کچھ ہاتھ آیا تو اتنا کہ’’انتخابِ سخن‘‘ جلد ششم مرتبہ حسرت موہانی میں اس شعر کا پہلا مصرع یوں تھا:

کہے تھی یہ طفلی میں دیکھ اس کو دایہ

میری دائی اماں کو میری پیدائش پر اور مجھے دیکھتے ہی کیا سوجھا ہوگا مجھے اس کی کھوج نہ تھی؛ 23 مارچ کو اُس برس دِن کیا تھا ، اس کی کھوج البتہ رہی۔ یہ بتانے سے پہلے کہ وہ دِن کو ن سا تھا، آپ کی توجہ اُس انگریزی نظم کی طرف چاہیے جسے آج کل کے بچے بہت شوق سے پڑھتے ہیں؛

  Monday’s child is fair of face

Tuesday’s child is full of grace

Wednesday’s child is full of woe

Thursday’s child has far to go

Friday’s child is loving and giving

Saturday’s child works hard for a living

And the child that is born on the Sabbath day

Is bonny and blithe and good and gay.

امی جان نے بتا رکھا ہے کہ جس روز میں پیدا ہوا وہ ہفتہ کا دِن تھا۔نظم میں”سبت ڈے”یہی ہفتہ ہے ۔ یہودیوں کے مقدس ترین دنوں میں سے اہم ترین دن۔ سبت جمعہ کو غروب آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور ہفتے کو غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔   اس دِن پیدا ہونے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ نظم کی آخری دو لائنیں پڑھ لیجئے، میں نے پہلی بار پڑھی تھیں اور ’’bonny‘‘،’’blithe‘‘ اور’’good‘‘ کے الفاظ پر آئینہ دیکھنے کودوڑا تھا مگر’’gay‘‘ کا لفظ پڑھا اور دھیان میں وہ معنی آئے جو وقت گزرنے کے ساتھ کچھ زیادہ ہی رواج پا گئےہیں تو پسینے چھوٹ گئے تھے ۔ فوراً انگریزی لغت اُٹھا کر دیکھا اور اس میں معروف معنوں کے بعد’’ نرم دِل‘‘ اور’’بے پروا‘‘ لکھا پا یا تو کچھ حوصلہ ہوا تھا۔

نظم کی بات ہو گئی مگر”سبت ڈے”کی گونج ابھی تک میرے اندر باقی ہے۔ دِھیان رہ رہ کرسورۃ الاعراف کی اُن آیات کی طرف ہورہا ہے جن میں اصحاب السبت  کا ذکر آیا ہے ۔ایسے میں مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے لیے ہفتے والا دِن پورے ہفتے کا ہو گیا ہے۔ ایک ہفتہ ایک مہینے میں کا اور ایک مہینہ ایک برس کا ۔ یہ برس میری زندگی کو محیط ہے ۔ میرے سامنے وقت کے پانیوں سے خواہشات کی مچھلیاں اُچھل اُچھل کرباہر آتی ہیں ۔ یہ وہی رنگ برنگی اور فربہ مچھلیاں ہیں جن کا شکار مجھے منع ہے۔

میں ضبط کرتا ہوں ، مگر پھر بھی میرے اندر ہی کہیں ان مچھلیوں کی سمت ایک جھول پڑتا ہے اور ایک لپک پیدا ہوتی ہے۔  مجھے اور زیادہ ضبط کرنا پڑتا ہے؛ آخری حد تک ضبط۔ حتی کہ وہ مچھلیاں پھسل کر واپس پانی میں چلی جاتی ہیں۔ روایت ہے کہ قران پاک میں بیان ہونے والا اصحاب السبت  والا واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ یہود کو ہفتے والے دِن شکار کی ممانعت تھی ؛ عین اُس روز جب مچھلیاں زیادہ تعداد میں اُچھل اُچھل کر سامنے آتی تھیں ۔ یہود ہفتے کو پانی کا رُخ اُن نالیوں کی سمت موڑ لیاکرتے جو انہوں نے مچھلیوں کو وہاں پھنسا کر باقی دنوں میں شکار کرنے کے لیے بنا لی تھیں۔ گویایہ ایک حیلہ تھا اطاعت کا جھانسہ دِے کر اطاعت سے نکلنے کا ۔ مجھے یاد ہے ابا جان نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا؛

’’بیٹا ! خواہشات یوم سبت کو پانی سے کود کودکر باہر آتی مچھلیوں جیسی ہوتی ہیں۔ ایک پکڑو گے، دوسری اُچھل کر سامنے آئے گی، تھیلا بھر جائے گا دِل نہیں بھرے گا، یہاں تک اصحابِ سبت کی طرح ہلاکت مقدر ہو جائے گی۔بیٹا! جب دوسروں سے چھپ کریا کسی کودھوکا دِے کر کچھ حاصل کرنے کو دِل چاہے تو سمجھ جانا بات ضرورت سے بڑھ گئی ہے۔‘‘

تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔

اور ہاں امی جان نے یہ بھی بتایا تھا کہ میرے پیدا ہونے کاوقت دِن ڈھلے کا تھا۔ سارا دِن وہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہی تھیں ۔ دوپہر سب کو کھانا دیا اور پھر انہیں محسوس ہوا تھا کہ اب وہ زیادہ چل پھر نہ سکیں گی لہٰذا دائی کو بلوا نا چاہا ۔ دائی کا گھر ذرا فاصلے پر تھا کھجوروں والے محلے میں ۔ کس کوبھیجتیں کہ اسے لے آتا ۔ بچے باہر گلی میں کھیلنے نکلے ہوئے تھے مگر اب وہ وہاں نہیں تھے۔ شاید پیپل والے تھڑے کی طرف نکل گئے تھے ۔

امی جان اسی پریشانی میں تھیں کہ داداجان کسی کام سے گھر میں داخل ہوئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف درد اور بے چینی ایسی کہ ایک پل قرار نہ تھا اور دوسری طرف انہیں اس حجاب نے آلیا تھا کہ اپنے سسر سے کیسے کہیں کہ دائی کو بلوانا ہے۔ہمارے دادا جان نے بھی شاید اپنی بہو پریشانی دیکھ لی تھی ۔ پوچھا :’’خیریت تو ہے ؟‘‘ امی جان انہیں کیا بتاتیں، بہانہ بنادیا کہ وہ بچوں کے لیے پریشان ہیں گلی میں نکلے تھے اب وہاں نہیں ہیں ۔ دادا جان وہیں سے باہر نکل گئے اور بچوں کو ڈھونڈ کر لے آئے ۔  امی جان کا کہنا ہے کہ میرے بڑے بھائی کے دائی کی طرف جانے اور اسے بلا لانے تک وہ نڈھال ہو کر بستر گر چکی تھیں۔

(جاری)

Next Article

جموں و کشمیر: پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو واپس لانے کے عدالتی حکم کے خلاف وزارت داخلہ کی اپیل

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ خاتون کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔خاتون کو  پہلگام حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ: ایکس / کشمیر پولیس

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ رخشندہ راشد کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا ۔ رخشندہ کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا(ایم ٹی وی)پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، وزارت داخلہ نے جسٹس راہل بھارتی کے 6 جون کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ بنچ کے سامنے لیٹرز پیٹنٹ اپیل دائر کی، جس میں مرکزی ہوم سکریٹری کو راشد کو دس دنوں کے اندر ہندوستان  واپس لانے کی ہدایت کی گئی  تھی۔

منگل کو جج نے وزارت داخلہ سے تعمیلی رپورٹ  طلب کی اور وزارت کو اس معاملے پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے دس دن کا اضافی وقت دیا۔

خاتون کے وکیل انکور شرما نے اخبار کو بتایا کہ جج نے وزارت داخلہ سے تعمیل پر اصرار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اپیل دائر ہونے کے باوجود ابھی تک حکم پر کوئی روک نہیں ہے۔ اپیل کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کرے گا۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ 29 اپریل کو ملک بدری کے وقت ایل ٹی وی موجود نہیں تھا۔دوسری جانب راشد نے اپنی درخواست میں کہا تھاکہ انہوں نے جنوری میں ایل ٹی وی کی تجدید کے لیے درخواست دی تھی اور درخواست کبھی مسترد نہیں کی گئی۔

لانگ-ٹرم ویزا ہولڈر

گزشتہ 22اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد – جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے، وزارت داخلہ نے تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر دیے اور انہیں 29 اپریل تک ملک چھوڑنے کو کہا۔

اس فیصلےمیں طویل مدتی ویزا رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں سے شادی شدہ پاکستانی خواتین کو بھی استثنیٰ دیا گیا تھا ۔

راشد دونوں زمروں میں آتی ہیں، پاکستانی شہری ہونے کے ناطے، ایک ہندوستانی سے شادی شدہ، لانگ-ٹرم ویزا پر جموں میں گزشتہ 38 سالوں سے مقیم ہیں، جس کی ہر سال تجدید کی جاتی ہے۔

انہوں نے 1996 میں ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اس درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا

راشد کی بیٹی فاطمہ شیخ نے کہا کہ ان کی والدہ کو 29 اپریل کو پولیس نے حقائق کو توڑ مروڑ کرہندوستان سے باہر نکال دیا۔

شیخ نے کہا، ‘ہمیں پہلگام دہشت گردانہ حملے سے دکھ ہوا ہے، لیکن میری والدہ کو کس بنیاد پر ہندوستان سے ڈی پورٹ کیا گیا؟ ہم نے جنوری میں طویل مدتی ویزا میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی، پھر بھی پولیس کی جانب سے ‘ہندوستان چھوڑو’ نوٹس میں کہا گیا کہ ہم نے 8 مارچ کو درخواست دی تھی۔ 26 اپریل کو مجھے ایف آر آر او سے ای میل موصول ہوا کہ درخواست پر کارروائی کی جا رہی ہے،پھر بھی انہیں  29 اپریل کو ڈی پورٹ کیا گیا۔’

انہوں نےبتایا، ‘پھر 9 مئی کو مجھے دوبارہ ایک ای میل موصول ہوا کہ درخواست کو منظوری کے لیے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔’

جلدبازی میں کارروائی

ان کی بیٹی نے بتایا کہ پولیس اہلکار صبح 7 بجے ان کے گھر کے باہر آئے اور راشد کو پنجاب کے اٹاری سرحدی چوکی پر لے گئے، جہاں سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ہمیں اپنے وکیلوں سے بات بھی نہیں کرنے دی۔ وہ انہیں ملک بدر کرنے کی اتنی جلدی میں تھے۔ وہ ساری زندگی جموں میں رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں کیسے زندہ رہے گی؟ وہاں مہنگائی بہت ہے، وہاں اس کا کوئی نہیں ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی والدہ کا پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اکیلی رہ رہی ہے اور ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 6 جون کو جسٹس راہل بھارتی نے مرکزی ہوم سکریٹری کو کیس کے حقائق اور حالات کی غیر معمولی نوعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کو پاکستان سے واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس حصہ ہیں اور اس لیے ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب آئینی عدالت کو کسی کیس کی میرٹ سے قطع نظر ایس او ایس جیسی رعایت دینا پڑتی ہے، جس پر وقت رہتے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔’

Next Article

ایلون مسک اور امبانی کو سیٹلائٹ اسپیکٹرم: خدشات اور خطرات

ہندوستانی حکومت نے ایلون مسک کی اسٹارلنک اور امبانی کی جیو سمیت کچھ کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس کی منظوری  دے  دی ہے، لیکن نیلامی کے بغیر ہوئے اس مختص  پر سوال اٹھائے جا رہے  ہیں۔ کیایہ الاٹمنٹ شفاف ہے؟ کیا اس سے قومی مفاد کو خطرہ ہے اور معاشی نقصان کا اندیشہ ہے؟

ایلون مسک اور امبانی کی کمپنیوں کو ہوئے سیٹلائٹ مختص سے  کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ | (بائیں سے) مکیش امبانی اور ایلون مسک، پس منظر میں اسٹارلنک سیٹلائٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: ریلائنس/وکی پیڈیا اور برٹانیکا)

قومی سلامتی کو خطرہ ۔ معاشی نقصان کا اندیشہ۔ حکومت کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان۔

یہ چند سوالات ہیں جو حکومت ہند کی جانب سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک اور مکیش امبانی کی کمپنی جیو سمیت متعدد کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی باضابطہ منظوری کے بعد اٹھ رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک یہ عام نہیں کیا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن شرائط کے تحت اور کس شرح پر ان کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر پون گوینکانے تصدیق کی کہ اسٹار لنک کے لیے زیادہ تر رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ہندوستان جیسے وسیع ملک میں پہاڑی یا دور دراز کے علاقوں میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس یک انقلابی حل بن سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اکیلےا سٹار لنک   100 سے زیادہ ممالک کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے جس طرح سے کچھ کمپنیوں کو اس سروس کی منظوری دی ہے اس سے کئی سنگین سوال پیدا ہوتے ہیں۔

سب سے پہلا، مودی حکومت نے ان کمپنیوں کو لائسنس نیلامی کے عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ محض ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے  دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اسٹار لنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو جاری کیے جا رہے لائسنس کی شرائط کیا ہیں۔ اس سے جانبداری اور وسائل کے غیرشفاف مختص کا سوال اٹھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 2023 میں کہا گیا ہے کہ سیٹلائٹ خدمات کے لیے اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ نیلامی کے بجائے ‘ایڈمنسٹریٹو پروسس’ یعنی انتظامی فیصلے کے ذریعے کیا جائے گا۔

حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت کے کابینہ سکریٹری ڈاکٹر ٹی وی سومناتھن اور ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری نیرج متل کو خط لکھ کر اس موضوع پر سوال اٹھا رہے ہیں  ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور قومی مفاد کو خطرہ

دی وائر سے بات کرتے ہوئے شرما نے کہا،’اسٹار لنک جیسی کمپنیوں کو براہ راست سیٹلائٹ اسپیکٹرم سونپنا سپریم کورٹ کے 2 جی اسپیکٹرم کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے وسائل کی تقسیم ایک شفاف اور عوامی عمل کے ذریعے کی جانی چاہیے، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔’

سابق سکریٹری نے اس بات کو طے  کرنے کے لیے آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا اسپیکٹرم کی تقسیم نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیا حکومت نے اس عمل میں نجی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے؟

شرما اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی مانتے ہیں۔ ‘اسٹار لنک کے امریکی فوج کے ساتھ روابط ہیں۔ انہیں ہندوستان میں سیٹلائٹ سے براہ راست نگرانی کرنے کی اجازت دینا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ جدید جنگ کا ایک اوزار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک غیر ملکی کمپنیوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ایران کی پارلیامنٹ نے حال ہی میں اسٹار لنک پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد بیرونی اثرات کو روکنے کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

روس اور چین میں بھی اسٹار لنک کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل روس میں بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جنہیں خرید کر اسٹار لنک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس استعمال کی جا رہی ہے۔

اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس یوکرین سے سوڈان تک تنازعات والے علاقوں میں فوری اور نسبتاً محفوظ رابطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت ڈرون اور دیگر جدید فوجی ٹکنالوجی کے آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے – جو آج جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اسٹار لنک ڈیوائسز کے آسان اور تیز ایکٹیویشن ہارڈویئر کی وجہ سے ایلون مسک کا اسپیس ایکس بہت سے پرتشدد تنازعات کا حصہ بن جا رہا ہے۔

ہندوستان بھی اس کا خمیازہ بھگت چکاہے۔ پانچ ماہ قبل دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منی پور میں عسکریت پسند گروپ حکومت کی انٹرنیٹ پابندی کو چکمہ دینے کے لیے اسٹار لنک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹار لنک کی خدمات ابھی تک ہندوستان میں شروع نہیں کی گئی ہیں، لیکن منی پور سے متصل ملک میانمار میں اس کی اجازت ہے۔ میتیئی علیحدگی پسند عسکریت پسند تنظیم ‘پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور (پی ایل اے)’کے ایک رہنما کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کر دیا، تو انہوں نے انٹرنیٹ کے لیے اسٹار لنک ڈیوائسز کا سہارا لیا۔

سرکاری خزانے کو نقصان کا اندیشہ

چونکہ حکومت نے نہیں بتایا  ہے کہ اسپیکٹرم کس شرح پرسونپا گیا ہے، اس لیے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے۔ نیز، جس طرح سے اسپیکٹرم الاٹ کیا گیا ہے اس سے اجارہ داری کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

شرماکہتے ہیں،’اسٹار لنک ہندوستان کے معروف ٹیلی کام آپریٹرجیواور ایئر ٹیل کے ساتھ ایک ‘کارٹیل’ بنا رہا ہے، جو انہیں سیٹلائٹ اسپیکٹرم پر اجارہ داری کی اجازت دے سکتا ہے – اور اس سے لاکھوں صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’

حکومت شروع سے ہی اس معاملے پر شفافیت سے گریز کرتی رہی ہے۔ اس سال مارچ میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے لوک سبھا میں وزیر مواصلات سے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔ اس وقت حکومت نے کسی بھی درخواست گزار کی فہرست شیئر نہیں کی تھی۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے وزیر مواصلات سے پوچھا تھا؛

الف- ہندوستانی حکومت سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو کس طرح منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

ب-جب اسپیکٹرم نیلامی کے بجائے انتظامی فیصلے کے ذریعے مختص کیا جائے گا، تو حکومت شفافیت، غیرجانبدار اورا سپیکٹرم کے بہترین استعمال کو کیسے یقینی بنائے گی؟

ج- خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر، ملک میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو آسان بنانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

د-  حکومت نے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے غلط استعمال یا حفاظتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اختیار کیے گئے حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے؟

 وزیر مملکت برائے مواصلات، ڈاکٹر پیمسانی چندر شیکھر نے جواب دیا تھاکہ یہ کمپنیاں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہونی چاہیے اور تمام حفاظتی شرائط کی تعمیل ضروری ہے – جیسے کہ سیٹلائٹ گیٹ وے ہندوستان میں ہونا چاہیے، تمام ٹریفک وہیں سے ہو کر گزرے، اور سرحدوں پر بفر زون بنایا جائے۔

منیش تیواری کے سوالات

اس کے بعد ، اپریل 2025 میں، وینکٹیش نائک، ڈائریکٹر، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آئی) نے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔

آر ٹی آئی درخواست اور سی پی آئی او کا گول مول جواب

آر ٹی آئی کے ذریعے پوچھا گیا تھاکہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی اجازت سے متعلق کیا شرائط ہیں؟ کن کمپنیوں نے اپلائی کیا، کن کن شرائط پر منظوری ملی۔

مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کے ناموں کا تو انکشاف کیا جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے کا لائسنس دیا گیا، لیکن اس کے تحت استعمال ہونے والے معیارات، شرائط اور عمل کی وضاحت کرنے والے دستاویزات کو شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔

پہلی اپیل دائر کیے جانے کے بعد 28 مئی کو، فرسٹ درخواست گزار اتھارٹی نے اپنا حکم جاری کیا، جس میں ان کمپنیوں کی فہرست شیئر کی جنہیں لائسنس دیا گیا ہے، لیکن دیگر معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور 8(1)(ای) کا حوالہ دیتے ہوئےروک دیا۔

یہ دفعات عام طور پر ‘تجارتی رازداری’ اور ‘وفادارانہ تعلقات’ کی بنیاد پر معلومات مہیا کرنے  سے روکنےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جب ان سے ہندوستان میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں اور مذکورہ کمپنیوں کو جاری کردہ اجازت ناموں کی کاپیاں مانگی گئیں، تو حکومت نے کہا کہ یہ معلومات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کے تحت خفیہ ہے اور فراہم نہیں کی جا سکتی۔

آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کیا کہتی ہیں؟

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی اور 8(1)(ای) کے تحت، کچھ معلومات عوامی معلومات کے دائرےمیں نہیں آتی ہیں اور ان کو شیئر کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔

دفعہ 8(1)(ڈی)؛

اگر معلومات تجارتی رازداری سے متعلق ہے (جیسے کمپنی کی ٹکنالوجی یا کاروباری حکمت عملی)، ٹریڈ سیکریٹس یا دانشورانہ املاک اور اس کے افشاء سے کمپنی کی مسابقتی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے —  توایسی معلومات آر ٹی آئی ے تحت شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ سیکشن 8(1)(ای)؛

اگر معلومات کسی شخص یا تنظیم کو کسی مخلصانہ تعلقات کے تحت موصول ہوئی ہیں — جیسے کہ کسی وکیل کو اس کے مؤکل سے موصول ہونے والی معلومات، بینک کلائنٹ کا رشتہ، وغیرہ— تو اس معلومات کا اشتراک نہیں کیا جا سکتا۔

اس کیس میں ان دفعات کا استعمال کیوں ہوا؟

ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ کمپنیوں کی درخواست اور انہیں دی گئی منظوریوں کے دستاویز تجارتی رازداری (8(1)(ڈی) کے تحت آتے ہیں۔ اور یہ معلومات ایک مخلصانہ تعلق – 8(1)(ای) کے تحت دی گئی  ہیں۔

لیکن وینکٹیش نائک کا کہنا ہے کہ محکمہ کو یہ معلومات سرکاری کام کے تحت ملی ہیں، نہ کہ نجی  بھروسے کے تحت— اس لیے دفعہ 8(1)(ای) لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ خدمات عوام کو فراہم کی جانی ہیں اور اسپیکٹرم ایک عوامی وسیلہ ہے- اس لیے کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس اور شرائط شفاف ہونے چاہیے۔

وینکٹیش نائک نے محکمہ کے جواب کو ‘قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4(1)(بی) (xiii) کے تحت لائسنس اور اجازت کے دستاویزات کو پبلک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ بھی آر بی آئی بہ نام جینتی لال مستری کیس میں یہ واضح کر چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے قانونی کاموں کے حصے کے طور پر جمع کی جانے والی کوئی بھی معلومات فیڈوشری نہیں ہے۔’

اس کیس میں آر بی آئی کا استدلال یہ تھا کہ وہ جو معلومات بینکوں سے اکٹھا کرتا ہے وہ ایک مخلصانہ تعلق کے تحت ہے، اس لیے اسے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘اگر کوئی محکمہ قانون کے تحت کمپنیوں سے درخواست یا معلومات لیتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹرسٹ (وفادارانہ تعلقات) کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ عوام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔’

اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے آر ٹی آئی کی دفعات کا غلط استعمال کرکے شفافیت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے دی گئی اجازت عوامی وسائل (اسپیکٹرم) سے متعلق ہے، جن کی خدمات عام لوگوں کو دی جانی ہیں۔

 ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ سے نہیں ملا کوئی جواب نہیں

 آر ٹی آئی کے ذریعے جن سوالوں کا جواب نہیں مل سکا تھا، انہیں اور کچھ اضافی سوالات کے ساتھ دی وائر نےمحکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری نیرج متل اور میڈیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ہیمیندر کمار شرما کو ای میل پر سوالات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Next Article

بہار ووٹر لسٹ ریویژن معاملہ: الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ کے بعد ’انڈیا‘ الائنس کے رہنما ’مایوس‘

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو  ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا۔

کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی پریس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: اسکرین گریب)

نئی دہلی: بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن'(ایس آئی آر)کے خلاف اپنے احتجاج میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ (2 جولائی) کی شام کو الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔

زیادہ تر رہنماؤں نے اس ملاقات کو ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا ۔

رپورٹ کے مطابق، ‘انڈیا’ الائنس نے بہار میں اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ایس آئی آر شروع کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے اس کی ٹائمنگ اور اس نوع کےمشق کی فزیبلٹی پر سوال اٹھایا ہے، جس کے تحت کمیشن کو بہار میں 7.75 کروڑ اہل ووٹروں کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی  اس کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

کچھ رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ عمل، جو لوگوں پر خود کو اہل ووٹر ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے، ‘بڑے پیمانے پر حق رائے دہی سے محرومی’ کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقوں کے لیے، جنہیں بہار جیسی پسماندہ ریاست میں اپنے اور والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایس آئی آر میں آدھار یا راشن کارڈ جیسے عام شناختی کارڈ کافی نہیں ہوں گے، اور لوگوں کو اپنی ‘جائے پیدائش’ ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی دکھانا ہوگا۔

اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست سے باہر رہنے والے لوگوں  کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس مشق سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار

بدھ کی شام میٹنگ کے فوراً بعد پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کو تین نکات پیش کیے۔ اس میں 2003 کے بعد، جس کے بعد بہار میں ‘چار یا پانچ’ انتخابات ہوئے ہیں، پہلی ایس آئی آر رکھنے کے پیچھے کی منطق پر سوال اٹھایا گیا۔

انہوں نے پوچھا، ‘کیا وہ اصولوں کے خلاف تھے؟’ دوسرا، انہوں نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

سنگھوی نے کہا، ‘یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟ اگر ایس آئی ارکی ضرورت ہے، تو یہ جنوری فروری میں کیا جا سکتا تھا۔ آپ نے اس کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ 7.75 کروڑ ووٹروں کی تصدیق کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب آپ نے 2003 میں ایسا کیا تھا تو اس کے ایک سال بعد عام انتخابات تھے۔ جب آپ نے یہ کام 2003 میں کیا تھا تو دو سال بعد اسمبلی انتخابات تھے۔ اب آپ کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔’

سنگھوی نے کہا کہ وفد نے دیہی علاقوں میں بہت سے لوگوں کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آدھار یا راشن کارڈ کیوں قبول نہیں کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘پہلی بار آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو اس کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا۔ ایک زمرے میں، اگر آپ 1987 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم نے کہا کہ بہار میں بہت سارے (غریب لوگ اور اقلیتی اور پسماندہ طبقے کے لوگ) ہیں۔ کیا وہ کاغذات کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ یہ جمہوریت میں مساوی مواقع کے خلاف ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ اس میٹنگ میں 11 پارٹیوں کے 20 لیڈروں نے شرکت کی، جبکہ ترنمول کانگریس کا کوئی لیڈر اس میٹنگ کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

سنگھوی نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے کمیشن کے دفتر آنے والے تمام لیڈروں کو میٹنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے پہلے صرف پارٹی سربراہوں سے ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن دباؤ کے بعد اس نے ہر پارٹی کے دو لیڈروں کو اپنے دفتر کے اندر جانے کی اجازت دی۔

سنگھوی نے کہا، ‘کچھ لوگوں کو باہر انتظار کرنا پڑا۔ ہم نے اس معاملے پر شکایت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔’

ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق: الیکشن کمیشن

قابل ذکر ہے کہ یہ میٹنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی، جس میں مبینہ طور پر لیڈروں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور الیکشن کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی سے ملاقات کی۔

وفد میں کانگریس کے رہنما جئے رام رمیش، ابھیشیک منو سنگھوی، پون کھیڑا اور پارٹی کے بہار کے سربراہ راجیش رام، بہار کے رہنما اکھلیش پرساد سنگھ، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا ، سماج وادی پارٹی کے ہریندر ملک ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی فوزیہ خان، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جان برٹاس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن کے دیپانکر بھٹاچاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ شامل تھے۔

اس سے پہلے دن میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ بہار میں ایس آئی آرمنصوبہ کے مطابق اور 24 جون 2025 کو جاری کردہ احکامات کے مطابق’ بہتر ڈھنگ سے جاری ہے، اور لوگوں سے ‘کسی بھی غلط معلومات پھیلانے’ پر توجہ نہ دینے کی اپیل کی۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ 243 الیکٹورل رجسٹریشن افسران، 38 ڈسٹرکٹ الیکشن افسران، نو ڈویژنل کمشنروں اور بہار کے چیف الیکٹورل افسر کی جانب سے تقریباً ایک لاکھ بوتھ سطح کے افسران اور ایک لاکھ رضاکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

‘انڈیا’ الائنس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ وفد میں شامل کئی رہنماؤں کو ‘بغیر وقت لیے’ میٹنگ میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ کمیشن نے آخر کار ہر پارٹی کے دو نمائندوں سے ملنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق ہے۔

تاہم، جئے رام رمیش نے بعد میں ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘(الیکشن کمیشن) نے خود کو اس طرح سے کنڈکٹ کیا ہے جو ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ اپوزیشن کی طرف سے سماعت کی درخواستوں کو باقاعدگی سے مسترد نہیں کر سکتا۔ اسے آئین کے اصولوں اور دفعات پر عمل کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے صوابدیدی اصول نہیں بنا سکتا، جیسے کہ شرکت کرنے والے افرادکے عہدے طے کرنایا کتنے لوگ شرکت کر سکتے ہیں یاکون  مجاز ہے کون نہیں۔’

نئے اصول الجھن پیدا کرنے والے: جئے رام رمیش

کانگریس لیڈر رمیش نے مزید کہا، ‘جب وفد نے ان نئے قواعد کو من مانی اور الجھن پیدا کرنے والا قرار دے کر مسترد کر دیا، تو الیکشن کمیشن نے ہمیں بتایا کہ یہ ‘نیا’ کمیشن ہے۔ ہم یہ سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں کہ اس ‘نئے’ کمیشن کی حکمت عملی کیا ہے؟ ہم کتنے اور ماسٹر اسٹروک کی توقع کر سکتے ہیں؟ نومبر 2016 میں وزیر اعظم کی نوٹ بندی نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا۔ اب، جیسا کہ ایس آئی آر میں دکھایا گیا ہے، بہار اور دیگر ریاستوں میں الیکشن کمیشن کی ‘ووٹ بندی’ ہماری جمہوریت کو تباہ کر دے گی۔’

میٹنگ کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے منوج کمارجھا نے کہا، ‘ہم سب نے بہار کے بارے میں اپنی تشویش ان کے سامنے رکھی ہے… میں نے انہیں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کا ایک خط سونپا ہے۔ یہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش ہے…’

انہوں نے کہا، ‘اگر کسی مشق کا مقصد شمولیت کے بجائے اخراج ہے، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں… جب ہم نے پوچھا کہ جو مشق (ایس آئی آر) 22 سالوں میں نہیں ہوئی… وہ اب کیوں ہو رہی ہے؟… زیادہ تر لوگوں کے پاس اہلیت ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویز نہیں ہیں…’

ڈی راجہ، بھٹاچاریہ اور خان  جیسے دیگر لیڈروں نے بھی کہا کہ یہ عمل بہت سے غریب لوگوں کو بغیر کسی غلطی کے بھی حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا میٹرک سرٹیفکیٹ نہیں ہوسکتے ہیں، جو ان کی تاریخ پیدائش ثابت کرنے کے لیے قابل قبول ہیں۔

زیادہ تر لیڈروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ الیکشن کمشنروں نے ان کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کے بارے میں معاندانہ رویہ اپنایا اور ایس آئی آرمشق کے بارے میں پوری طرح سے  مثبت  بنے رہے۔

Next Article

بہار: تیجسوی یادو نے ووٹر لسٹ کے رویژن کو لے کر الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے

بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے کمیشن کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی نظرثانی ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر بدل دیےجاتے ہیں؟ کیا کمیشن  خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو۔تصویر بہ شکریہ: ایکس /تیجسوی یادو

نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے ، جس میں 2003 کے بعد شامل ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت تمام رائے دہندگان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کی تصدیق کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کی اس مہم نے بہار میں ایک بڑی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے ہیں۔

ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ ووٹر لسٹ اسپیشل انٹینسیو ریویژن 2025 کے نام پر بہار میں ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے، جو پوری طرح سےکنفیوژن، غیر یقینی اور جابرانہ رویے سے بھری ہوئی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ 27 جون کو ان کی پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی اس خصوصی مہم کے دوران کئی بار رہنما خطوط تبدیل کیے ہیں، کبھی اہلیت کی تاریخ میں تبدیلی، کبھی دستاویز کی نوعیت میں تبدیلی، کبھی عمل کی مدت میں تبدیلی۔

انہوں نے سوال کیا کہ ‘یہ کیسا ریویو ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر تبدیل کیے جاتے ہیں؟ کیا کمیشن خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس ساری مہم کا پلان کسی سیاسی جماعت کے ساتھ شیئر کیا گیا؟ کیا کوئی آل پارٹی میٹنگ ہوئی؟ کیا یہ یکطرفہ اور خفیہ انتخابی ‘صفاف صفائی’ نہیں ہے؟

کمیشن اور اس کے عزائم سوالوں کی زد میں

یادو نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن بہار میں ووٹروں کی گہرائی سے نظرثانی کیوں کر رہا ہے اس کے پیچھے دیے گئے دلائل، انہیں پڑھنے کے بعد کمیشن اور اس کے ارادے سوالوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘کمیشن کا کہنا ہے کہ رائے دہندگان کی آخری بار نظرثانی سال 2003 میں کی گئی تھی، اس کے بعد ریاست میں شہرکاری، معلومات کا وقت پر اپڈیٹ نہ ہونا اور فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے ناموں کا فہرست میں اندراج جیسے مسائل سامنے آئے۔ ایسے میں کمیشن نے ایک بار پھر پوری ریاست میں اسپیشل انٹینسو ریویژن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیے گئے پروگرام کے مطابق، نظر ثانی کا کام 1 جولائی 2025 کی اہلیت کی تاریخ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شہرکاری، معلومات کا وقت پراپڈیٹ نہ ہونا اور فہرست میں فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے نام درج ہونے جیسے مسائل کی وجہ سے ووٹر لسٹ کی مکمل نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے تو پھر یہ عمل ایک دو سال پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا تاکہ افراتفری نہ ہو۔  بہار اسمبلی کا الیکشن نومبر 2025 میں ہو جانا ہے تو الیکشن سے دو ماہ قبل صرف 25 دنوں کے اندر اس طرح کی مکمل نظر ثانی کیسے ممکن ہوگی؟

یادو نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے کہ بی ایل او ووٹر کی رہائش گاہ پر تین بار جائیں گے۔ اگر ووٹر دیے گئے پتے پر نہیں ملا تو اس کا نام ووٹر لسٹ سے حذف کر دیا جائے گا۔ مکمل نظرثانی کے لیے ووٹرز کا خود موجود ہونا ضروری ہے۔

بہار کے لوگوں کے پاس مانگے گئے 11 دستاویز نہیں ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ ‘کمیشن کے اس اصول کا شکار وہ لوگ ہوں گے جو اپنی روزی کمانے کے لیے طویل یا مختصر مدت کے لیے گھر سے دور چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر انتخابات کے وقت اپنے گاؤں-گھر لوٹتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے ہیں۔  کچھ دن  چھٹیاں مناتے ہیں۔ پھر وہ اپنے کام پر لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فزیکل ویری فکیشن کے دوران ہی ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔ انہیں کاغذات دکھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی غریب آدمی اپنا کام چھوڑ کر دوسری ریاست سے گھر آکر ووٹنگ کے لیے اپنی تصدیق کروائے۔ ایسے لوگوں میں قبائلی، دلت، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔’

آر جے ڈی لیڈر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جو 11 دستاویز مانگے گئے ہیں وہ بہار کے لوگوں کے پاس نہیں ہیں اور دیے گئے دلائل ’بے حسی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘2 دسمبر 2004 کے بعد کے ووٹروں کو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ اپنے والدین  کا شناختی کارڈ بھی جمع کرانا ہوگا۔ آدھار کارڈ اور راشن کارڈ شناختی کارڈ کے طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔’

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 دستاویز کو تسلیم کیا گیا ہے جنہیں دستیاب کرایا جا سکتا ہے۔ اب میں الیکشن کمیشن، بہار حکومت اور حکومت ہند سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بہار میں ان 11 دستاویز کا فیصد کتنا ہے؟’

انہوں نے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ وقت کی حد پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 26 جولائی تک بی ایل او کو ہر ووٹر کے گھر گھر جاکر گنتی کے فارم کی تقسیم، جمع اور گھر گھر تصدیق کرنا ہوگی۔ لیکن 6 دن گزر جانے کے بعد بھی 99.99 فیصد مقامات پر یہ عمل شروع نہیں ہوا۔ اب 19 دن رہ گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہار میں مانسون نے زور پکڑ لیا ہے۔ ندیوں میں پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ لوگوں نے ندی کے ساحلی علاقوں سے محفوظ مقامات کی تلاش شروع کر دی ہے۔ بہار کا 73 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہے۔ ان علاقوں میں دلت/پسماندہ/انتہائی پسماندہ اور اقلیتی طبقے کے زیادہ تر لوگ رہتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ خصوصی نظرثانی کا عمل ووٹر لسٹ سے ان کے نام نکالنے کی سازش ہے؟

Next Article

جے این یو اسٹوڈنٹ نجیب کی گمشدگی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ کو عدالت کی منظوری، کہا – سی بی آئی کی جانچ میں کوئی کمی نہیں

جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کی گمشدگی کےتقریباً آٹھ سال بعد دہلی کی ایک عدالت نے اس معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو اس کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

نجیب احمد کے اہل خانہ معاملے کی تحقیقات میں تیزی کا مطالبہ کرتے ہوئے ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سوموار (30 جون) کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم نجیب احمد کے معاملے میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی کلوزر رپورٹ کو منظور کر لیا ہے ۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

ستائیس سالہ نجیب احمد جے این یو ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے تھے۔ لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) کے کچھ ارکان کے ساتھ ان کی مبینہ جھڑپ ہوئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے کہا، ‘ہاسٹل انتخابات جیسے حساس ماحول اور جے این یو جیسے کیمپس میں اس طرح کی جھڑپ اور بحث ومباحثہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن صرف اس بنیاد پر یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے کہ نوجوان طالبعلم کسی ساتھی طالبعلم کو غائب کرنے جیسا قدم اٹھا سکتے ہیں ، خاص طور پر جب ریکارڈ پر ایساکوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔’

سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔

عدالت نے کہا، ‘یہ عدالت اس ماں کے درد کو سمجھتی ہے جو 2016 سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہے، لیکن اس معاملے میں جانچ ایجنسی یعنی سی بی آئی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی ہے۔ ہر مجرمانہ تفتیش کی بنیاد سچائی کی تلاش ہوتی ہے، لیکن بعض معاملات میں تمام تر کوششوں کے باوجود تحقیقات کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں سال 2018 میں کلوزر رپورٹ داخل کی تھی ، جس کے خلاف نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے عدالت میں عرضی داخل کی تھی ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی نے نو مشتبہ افراد کے کردار کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔

سی بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ مشتبہ افراد کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کی جانچ کی گئی لیکن نجیب کی گمشدگی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا،’اگرچہ 14 اکتوبر 2016 کی رات نجیب احمد کے ساتھ مارپیٹ اور دھمکیوں کے الزامات گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتے ہیں، لیکن ریکارڈ پر ان واقعات اور 15 اکتوبر 2016 کو ان کے لاپتہ ہونے کے واقعے سے متعلق کوئی براہ راست یا قرائنی شہادت ریکارڈ میں نہیں ہیں۔’

معلوم ہو کہ نجیب 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے غائب ہوئے تھے ۔ واقعہ سے ایک رات قبل ان کا اے بی وی پی سے وابستہ کچھ طلبہ کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔ جب واقعہ کے سات ماہ گزرنے کے بعد بھی دہلی پولیس کو اس معاملے میں کوئی جانکاری نہیں ملی تو ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ۔

تاہم، بعد میں سی بی آئی نےشواہد کے فقدان کے باعث معاملے کی جانچ بند کر دی تھی۔