مین بکر پرائز سے سرفراز انگریزی کے معروف مصنف سلمان رشدی مغربی نیویارک کے شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب میں اپنا لیکچر شروع کرنے ہی والے تھے کہ ایک شخص نے اسٹیج پر آکر چاقو سے حملہ کردیا۔ ان کے ایجنٹ کے مطابق وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے۔ اپنی کتاب دی سیتانک ورسز ’شیطانی آیات‘ لکھنے کے بعد برسوں تک انہیں اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑاہے۔
امریکہ کے شہر نیویارک میں جمعہ کو ایک تقریب کے دوران انگریزی زبان کے نامور مصنف سلمان رشدی پرایک شخص نے حملہ کردیا۔
رشدی کو دی سیتانک ورسز ’شیطانی آیات‘ لکھنے کے بعد برسوں تک اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ طویل عرصے تک روپوش بھی رہے تھے۔
ممبئی میں پیدا ہوئے اور بکر پرائز سے سرفراز رشدی (75) مغربی نیویارک کے شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب میں اپنا لیکچر شروع کرنے ہی والے تھے کہ ایک شخص نے اسٹیج پر آکر رشدی کو گھونسے مارے اور چاقو سے حملہ کردیا۔
حملے کے بعد رشدی اسٹیج پر گر پڑے اور ان کے ہاتھ خون سے لت پت نظر آئے۔ وہاں موجود لوگوں نے حملہ آور کو پکڑ لیا اور بعد میں اسے حراست میں لے لیا گیا۔ رشدی کو اسٹیج پر ابتدائی طبی امداد دی گئی۔
اب اطلاعات ہیں کہ وہ پنسلوانیا کے ایک ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہوجا ئیں گے۔ چاقو کے حملے کے بعد ان کے لیور کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ان کے ایجنٹ نے یہ اطلاع دی اور کہا کہ ‘خبر اچھی نہیں ہے’۔
نیویارک ٹائمز (این وائی ٹی) نے اطلاع دی ہے کہ رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی کے مطابق، مصنف وینٹی لیٹر پر ہیں اور بات نہیں کر پا رہے ہیں۔
وائلی نے اخبار کو دیےایک بیان میں کہا کہ، ‘خبر اچھی نہیں ہے۔ سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا خدشہ ہے، ان کی بازو کی نسیں ٹوٹ گئی ہیں اور ان کے لیورکو نقصان پہنچا ہے۔
رشدی پر اس وقت چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ شیتوقوا انسٹی ٹیوشن میں اسٹیج پر تھے۔ اس وقت پروگرام میں ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔
شیتوقوا انسٹی ٹیوشن جنوب مغربی نیو یارک ریاست میں شیتوقوا جھیل پر ایک غیر منافع بخش کمیونٹی ہے، جہاں نو ہفتوں کے سیزن کے دوران کسی بھی دن تقریباً 7500 افراد رہتے ہیں۔ رشدی یہاں ایک خصوصی تقریب میں لیکچر دینے والے تھے۔
آن لائن پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو میں شرکاء کو واقعے کے فوراً بعد سٹیج کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہاں موجود لوگوں نے حملہ آور کو پکڑ لیا تھا۔
نیویارک پولیس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
نیویارک پولیس نے کہا، 12 اگست 2022 کی صبح تقریباً 11 بجے، ایک مشتبہ شخص نے اسٹیج پر چڑھ کر رشدی اور ان کا انٹرویو لے رہے شخص پر حملہ کر دیا۔ رشدی کی گردن پر چاقو سے وار کیا گیا۔ مشتبہ حملہ آور کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ رشدی کی گردن میں چوٹ آئی ہے۔ رشدی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مقامی اسپتال لے جایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان کا انٹرویو کرنے والے شخص کے سر پر معمولی چوٹ آئی ہے۔
نیو یارک اسٹیٹ پولیس کے میجر یوجینا سٹینجیوسکی نے جمعے کی شام ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ فیئر ویو، نیو جرسی کے 24 سالہ ہادی مٹر کی شناخت رشدی پر حملہ کرنے والے مشتبہ شخص کے طور پر ہوئی ہے۔
اسٹینیجوسکی نے کہا کہ ہنگامی طبی عملہ کے جائے وقوع پر پہنچنے تک وہاں موجود ایک ڈاکٹر نے فوراً رشدی کی ابتدائی طبی امداد شروع کی۔ مصنف کو پھر ایک مقامی ٹراما سینٹر لے جایا گیا اور مقامی وقت کے مطابق صبح 10:47 پر ہو ئے حملے کے کئی گھنٹے بعد شام 5 بجے کے قریب انہیں سرجری سے گزرنا پڑا۔
مٹر کی قومیت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، اسٹینیجوسکی نے کہا، مجھے اب تک اس کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اسٹینیجوسکی نے کہا، ہم اپ ڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکام مختلف اشیاء کے سرچ وارنٹ حاصل کرنے کے عمل میں ہیں۔ موقع سے ایک بیگ برآمد ہوا تھا۔ بجلی کا سامان بھی تھا۔ فی الحال، یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ مشتبہ شخص نےاکیلے اس حملے کو انجام دیا تھا۔
اسٹینیجوسکی نے کہا کہ ‘حملے کا مقصد’ طے کرنے کے لیے ہم ایف بی آئی، شیرف آفس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
رشدی کے ساتھ ہینری ریز بھی تھے، جو پیٹسبرگ کے غیر منافع بخش سٹی آف اسائلم کے بانی ہیں۔ سٹی آف اسائلم حملے کے خطرات کا سامنا کرنے کے بعد جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مصنفین کے لیے دنیا کا سب سے بڑا رہائشی پروگرام ہے۔
اسٹینیجوسکی نے کہا کہ رشدی اور ریز (73) مقامی وقت کے مطابق صبح 10:47 پر پروگرام کے لیے اسٹیج پر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا، اس کے فوراً بعد مشتبہ شخص اسٹیج پر گیا اور رشدی پر حملہ کیا، ان کی گردن اور پیٹ میں چاقو گھونپ دیا۔
اسٹینیجوسکی نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ کے متعدد ارکان اور سامعین نے مشتبہ شخص کو پکڑنے کی کوشش کی اور اسے زیر کیا۔ ادارے میں ہی موجود نیو یارک اسٹیٹ پولیس کے ایک اہلکار نےشیتوقوا کاؤنٹی شیرف کے ڈپٹی کی مدد سے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا۔
حکام نے بتایا کہ ریز کو ایمبولینس کے ذریعے مقامی ہسپتال لے جایا گیا اور بعد میں ہسپتال سے چھٹی دے گئی۔
سال 1981 میں سلمان رشدی کی کتاب ‘مڈ نائٹ چلڈرن’ کے لیے انہیں اس سال کے لیے باوقار مین بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد 1988 میں رشدی کی متنازعہ کتاب ‘شیطانی آیات’ آئی، جس پر 1988 سے ایران میں پابندی عائد ہے۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ رشدی نے اس کتاب کے ذریعے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔
اسی سلسلے میں ایران کے اس وقت کے سپریم مذہبی رہنما آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے رشدی کو سزائے موت دینے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ایران نے رشدی کو قتل کرنے والے کے لیے 30 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا انعام بھی رکھا تھا۔
اس کتاب پر ہندوستان سمیت کئی ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
بی بی سی کے مطابق، ایرانی حکومت کی جانب سے رشدی پر حملے کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ایرانی میڈیا اپنی کوریج میں رشدی کو مرتد شخص قرار دے رہا ہے۔ مرتد سے مراد وہ شخص ہے جس نے اپنے مذہب یا عقیدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
بی بی سی کے مطابق، 1991 میں اس کتاب کے جاپانی مترجم کو چاقو سے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی کےچند ماہ بعدکتاب کے اطالوی مترجم کو چاقو ماراگیا اور ناروے کے پبلشر ولیم نیگارڈ کو گولی ماری گئی۔ ان پر ہوئے حملوں میں دونوں زندہ بچ گئے۔
رشدی پر جمعہ کے حملے پر ردعمل دیتے ہوئے نائےگارڈ نے کہا کہ ،ایسے عظیم مصنف جو ادب کے لیے بہت اہم ہیں، نے اپنے کام کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
بنگلہ دیشی نژاد مصنف تسلیمہ نسرین، جنہیں اپنی کتاب لجا کے لیے تنازعات اور دھمکیوں کا سامنا کرنے کے بعد بنگلہ دیش چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، نے کہا کہ رشدی پر حملے کے بعدوہ اپنی سکیورٹی کے لیے خوفزدہ ہیں۔
I just learned that Salman Rushdie was attacked in New York. I am really shocked. I never thought it would happen. He has been living in the West, and he has been protected since 1989. If he is attacked, anyone who is critical of Islam can be attacked. I am worried.
— taslima nasreen (@taslimanasreen) August 12, 2022
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘مجھے نیویارک میں رشدی پر حملے کے بارے میں پتہ چلا۔ میں بہت حیران ہوں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا کچھ ہو گا۔ وہ اتنے سالوں سے مغرب میں رہ رہے تھے اور انہیں 1989 سے سیکورٹی ملی ہوئی تھی۔ اگر ان پر حملہ ہو سکتا ہے تو اسلام کے کسی بھی ناقد کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ میں فکرمند ہوں۔
بتادیں کہ امریکہ اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے رشدی 2000 سے امریکہ میں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا – حملے سے صدمے میں ہوں
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ مصنف سلمان رشدی پر حملے کے بارے میں جان کر ‘صدمے’ میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ رائے اور اظہار کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے کہے گئے یا لکھے گئے الفاظ کے جواب میں تشدد کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔
ان کے ترجمان نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا، سکریٹری جنرل معروف مصنف سلمان رشدی پر حملے کے بارے میں جان کر صدمے میں ہیں۔
انہوں نے رشدی کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اظہار رائے کی آزادی اور اظہار خیال کے دوران کہے گئے یا لکھے گئے الفاظ کے جواب میں تشدد کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔
ڈاکٹر نے کہا- ان کے جسم پر چاقو سے حملے کے کئی نشانات تھے
سلمان رشدی پر حملے کے بعد ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ رشدی کے جسم پر چاقو کے کئی زخم تھے جن میں سے ایک ان کی گردن کے دائیں جانب تھا اور وہ خون میں لت پت پڑے تھے۔
امریکہ کے مؤقر اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جس تقریب میں رشدی خطاب کرنے والے تھے وہاں موجود اینڈو کرائنولوجسٹ ریٹا لینڈ مین نے اسٹیج پر جاکر رشدی کو ابتدائی طبی امداد دی۔
ریٹا نے بتایا کہ رشدی کے جسم پر چاقو کے کئی زخم تھے جن میں سے ایک ان کی گردن کے دائیں جانب تھا اور وہ خون میں لت پت پڑے تھے۔ لیکن وہ زندہ لگ رہے تھے اور سی پی آر نہیں لے رہےتھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)