الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی طور پر انتہائی اہم مانے جانے والےاتر پردیش میں، جہاں سب سے زیادہ 403 اسمبلی سیٹیں ہیں، وہاں 621186 ووٹرز (0.7 فیصد) نے ای وی ایم میں ‘نوٹا’ کا بٹن دبایا۔ شیوسینا کو گوا، اتر پردیش اور منی پور کے اسمبلی انتخابات میں نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے۔
نئی دہلی: پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرنے والے تقریباً آٹھ لاکھ ووٹروں نے ‘ان میں سے کوئی نہیں’ یا ‘نوٹا’ کا انتخاب کیا۔
یہ جانکاری الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ڈیٹاسے سامنے آئی ہے۔
منی پور میں کل ووٹروں میں سے 10349 (0.6 فیصد) نے نوٹا کے اختیار کا استعمال کیا۔ اسی طرح گوا میں 10629 ووٹرز (1.1 فیصد) نے اس کا استعمال کیا۔
سیاسی طور پر انتہائی اہم مانے جانے والے اتر پردیش میں، جہاں سب سے زیادہ 403 اسمبلی سیٹیں ہیں، 621186 ووٹرز (0.7 فیصد) نے ای وی ایم میں ‘نوٹا’ کا بٹن دبایا۔
اتراکھنڈ میں ‘نوٹا’ کا بٹن دبانے والوں کی تعداد 46830 (0.9 فیصد) تھی۔ وہیں، پنجاب میں 110308 ووٹرز (0.9 فیصد) نے نوٹا کا انتخاب کیا۔
پانچ ریاستوں میں مجموعی طور پر 799302 ووٹروں نے اس اختیار کا انتخاب کیا۔
الکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر ‘نوٹا‘ آپشن 2013 میں متعارف کرایا گیا تھا۔
ستمبر 2013 میں سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد الیکشن کمیشن نے ووٹنگ پینل پر آخری آپشن کے طور پر ای وی ایم پر نوٹا کےبٹن کو شامل کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے اس حکم سے پہلے جو لوگ کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے کے خواہشمند نہیں تھے، ان کے پاس الیکشن کنڈکٹ رولز 1961 کے رول 49-او (ووٹ نہ دینے کا فیصلہ) کے تحت اپنا فیصلہ درج کرانے کا اختیار تھا، لیکن اس آپشن میں ووٹر کی پرائیویسی برقرار نہیں رہ پاتی تھی۔
تاہم، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو نئے سرے سےانتخابات کرانے کی ہدایت دینے سے انکار کر دیا تھااگر ووٹروں کی اکثریت ووٹنگ کے دوران نوٹا کا اختیار استعمال کرتی ہیں۔
شیوسینا کو گوا، یوپی اور منی پور میں نوٹا سےبھ کم ووٹ ملے
دوسری طرف شیوسینا کو گوا، اتر پردیش اور منی پور کے اسمبلی انتخابات میں نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے۔ یہ جانکاری الیکشن کمیشن کے ڈیٹا سے سامنے آئی ہے۔
مہاراشٹر میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہی شیوسینا کو تین ریاستوں میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔
گوا میں شیوسینا نے 10 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اور ان تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے۔
شیوسینا کو گوا میں چار سیٹوں پر 100 سے بھی کم ووٹ ملے۔ گوا میں ‘ان میں سے کوئی نہیں’ (نوٹا) کو 1.12 فیصد ووٹ ملے، جبکہ شیوسینا کو صرف 0.18 فیصد ووٹ ملے۔
اسی طرح منی پور میں شیو سینا نے چھ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جہاں نوٹا کو 0.54 فیصد اور شیوسینا کو صرف 0.34 فیصد ووٹ ملے۔
اتر پردیش میں شیوسینا کو جمعرات کو 0.03 فیصد ووٹ ملے جبکہ نوٹا کو 0.69 فیصد ووٹ ملے۔
گوا، اتر پردیش اور منی پور میں شیو سینا کی خراب کارکردگی پر پارٹی کے چیف ترجمان سنجے راوت نے کہا کہ ان کی پارٹی کو نوٹا کے آپشن سے بھی کم ووٹ ملے کیونکہ اس کے پاس بی جے پی کی طرح پیسہ نہیں تھا۔
شیوسینا کے رکن پارلیامنٹ نے کہا، پھر بھی ہم گوا اور اتر پردیش میں لڑے۔ ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ جیت یا ہار ختم نہیں ہوتی۔ یہ شروعات ہے۔ ہم کام کرتے رہیں گے۔
پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے مہاراشٹر کے وزیر سیاحت آدتیہ ٹھاکرے سمیت کئی لیڈروں کو میدان میں اتارا تھا۔ آدتیہ ٹھاکرے نے گوا اور اتر پردیش میں انتخابی مہم چلائی تھی۔ راوت نے گوا میں پارٹی کے لیے ووٹ بھی مانگے تھے۔
آدتیہ ٹھاکرے نے جمعرات کو کہا کہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج سے ریاست میں مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ پہلے کی طرح مستحکم رہے گی۔
جن ریاستوں میں شیو سینا نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، وہاں پارٹی کی خراب کارکردگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آدتیہ نے کہا کہ یہ پارٹی کے انتخابی سفر کی شروعات بھر ہے۔
پارٹی مہاراشٹر کی ہمسایہ ریاست گوا میں کوئی اثر ڈالنے میں ناکام رہی، جہاں مراٹھی بولنے والے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل شیوسینا نے تین ریاستوں میں امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔
آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ شیوسینا اپنی تنظیمی بنیاد کو وسعت دینے کے لیے گرام پنچایت سطح سے لے کر پارلیامنٹ تک الیکشن لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف شروعات ہے اور شیوسینا ایک دن ضرور جیت حاصل کرے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)