رافیل سودے کو لےکر فرانس کے ایک جج کوسونپی گئی جانچ کو لےکراپوزیشن نے مرکز کی مودی حکومت کو نشانے پر لیا ہے۔ فرانسیسی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے گزشتہ دو مہینوں میں اس سودے سے متعلق ممکنہ جرائم کو لےکر کئی خبریں شائع کی تھیں، جس کے بعد جانچ کےحکم دیے گئے ہیں۔
نئی دہلی: فرانس کی طرف سے متنازعہ رافیل معاہدےمیں بدعنوانی اور جانبداری کے الزامات کی تحقیقات کو لےکرجانچ کے حکم کے بعد ہندوستان میں سیاسی اتھل پتھل شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن پارٹی اور وہ لوگ، جنہوں نے ساٹھ ہزار کروڑ کے اس دفاعی معاہدے میں بے ضابطگیوں کو لےکر سوال اٹھائے تھے، نے اب مرکزکی مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔
پیرس کی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے گزشتہ دو مہینوں میں رافیل سودے سے ممکنہ جرائم کو لےکرمتعدد رپورٹس شائع کی تھیں، جس کے بعد سرکاری جانچ کے حکم دیے گئے ہیں۔
اس خبر کے سامنے آنے پر ہندوستان میں ردعمل دینے والوں میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن شامل تھے، جنہوں نے اس دفاعی معاہدے میں جانچ کی مانگ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ حالانکہ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی بنیاد ہے اور عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔
میڈیاپارٹ کی رپورٹ پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے بھوشن نے کہا، ‘یہ رپورٹ ان تمام شواہد کی تصدیق کرتی ہے، جنہیں ہم نے سودے کی آزادانہ جانچ کی مانگ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے رکھا تھا۔ بدقسمتی سے، سی جےآئی گگوئی کی سربراہی والی بنچ نے سرکار کے ذریعے انہیں سیل بند کور نوٹ میں جو کہا گیا تھا، اس پر آنکھ موندکر حامی بھرنا پسند کیا، جس میں بعد میں ایک عدم وجود والی سی اےجی رپورٹ سمیت بہت سی جھوٹی جانکاریاں پائی گئیں۔ اس کے بعد جسٹس گگوئی کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد راجیہ سبھا کی سیٹ دی گئی تھی۔’
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہندوستانی میڈیا نے رافیل گھوٹالے کو اس طرح کور نہیں کیا جیسا کہ بوفورس معاملے میں ہوا تھا۔
انہوں نے یہ بھی جوڑا، ‘فرانسیسی میڈیا نےاس پر خبریں کیں، جن کی بدولت آج سودے میں بدعنوانی ، رشوت خوری، منی لانڈرنگ اور اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرنے جیسے پہلوؤں کے ساتھ انل امبانی کو بھی واپس روشنی میں لا دیا ہے۔
میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داسو ایوی ایشن نے انل امبانی گروپ کے ساتھ پہلا سمجھوتہ26 مارچ 2015 کو ہوا تھا۔ اس کے دو ہفتے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 126رافیل طیاروں کے سودے کو منسوخ کرتے ہوئے 36طیاروں کی خریداری کے فیصلے کاعوامی طور پراعلان کیا تھا، جس میں سے ہندستان ایروناٹکس لمٹیڈ(ایچ اےایل)کو ہٹاتے ہوئے انل امبانی گروپ کو شامل کیا گیا۔مختلف اندازوں کے مطابق نیا سودا پچھلے سودے کے مقابلے تین گنا مہنگا تھا۔
آرجے ڈی کے راجیہ سبھا ایم پی نے اس رپورٹ کو لےکر دی وائر سے کہا، ‘ہم نے فرنچ میڈیا کے حوالے سے جو بھی سنا ہے وہ پریشان کن ہے۔ قیمتیں طے کرنے، آلات کی الگ الگ خریداری وغیرہ کے معاملے میں اتنا ہنگامہ ہوا، لیکن اس طرح کے سوال اٹھانے والوں کا مذاق اڑایا گیا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ، ‘اگر ابھی فرانس میں رافیل سودے کی جانچ ہو رہی ہے، اور ہم اس میں شامل ہیں، تو یہ یقینی طورپر ہمیں بتاتا ہے کہ ملک کو جس شفافیت کی ضرورت تھی، وہ ہمیں کبھی دی ہی نہیں گئی۔ ہم انتظار کریں گے کہ فرانسیسی عدالت اپنی جانچ میں کیا پاتی ہے۔’
دریں اثنا کانگریس نے رافیل سودے میں مبینہ بدعنوانی کی جانچ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو سامنے آنا چاہیے اور جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی(جے پی سی)سے جانچ کرانی چاہیے۔
پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ نئے انکشافات سے کانگریس اور اس کے سابق صدر راہل گاندھی کی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ اس جنگی طیارے کے سودے میں‘گھوٹالہ’ہوا ہے۔
سرجےوالا نے سے کہا، ‘فرانس میں جو تازہ ترین انکشافات ہوئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ رافیل سودے میں بدعنوانی ہوئی ۔ کانگریس اور راہل گاندھی کی بات درست ثابت ہوئی۔ اب یہ گھوٹالہ سب کے سامنے آ چکا ہے۔’
انہوں نے دعویٰ کیا،‘‘فرانس میں اس معاملے کی جو جانچ شروع ہوئی ہے اس کے تحت فرانس کے سابق صدر اولاند اور موجودہ صدر میکروں کی بھی جانچ ہوگی۔ رافیل بناے والی کمپنی داسو کی شراکت داردار ہندوستانی کمپنی ریلائنس کی کمپنی بھی جانچ کے گھیرے میں ہے۔’
سرجےوالا نے کہا، ‘اب بدعنوانی سامنے ہے، گھوٹالہ سامنے ہے۔ کیا وزیر اعظم سامنے آکر رافیل گھوٹالے کی جانچ کرائیں گے؟’ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بی جے پی بنام کانگریس کا نہیں، بلکہ قومی سلامتی سے جڑا مدعا ہے اور ایسے میں وزیر اعظم کو جےپی سی جانچ کرانی چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ پارلیامانی سیشن میں ان کی پارٹی یہ معاملہ اٹھائےگی۔
بی جے پی کا الزامات پر جواب
فرانسیسی میڈیا کی رپورٹ پر بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے ہندوستانیوں کو ‘گمراہ’ کرنے کے لیے کانگریس اور راہل گاندھی کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو لےکر کانگریس پر جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ایک جانچ کا حکم دیا گیا ہے، ایک این جی او کی شکایت پر رافیل سے متعلق معاملے کی جانچ کے لیے ایک مجسٹریٹ مقررکیا گیا ہے۔ فرانس ایک خودمختار ملک ہے اور ایسا کرنا اس کا اختیار ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بدعنوانی ثابت ہو گئی؟ ہمیں نہیں لگتا۔’
پاترا نےحالیہ الزامات کے لیے فرانس میں‘کارپوریٹ مقابلہ’اور داسو کے حریفوں کے ذاتی مفادات کو قصور وار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی داسو کےحریفوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
پاترا نے کہا، ‘راہل گاندھی جس طرح کا سلوک کر رہے ہیں،یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ حریف کمپنیاں انہیں مہرے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ وہ اس مسئلے پر شروع سے ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ممکنہ طورپر وہ ایک ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں یا گاندھی پریوار کا کوئی ممبر حریف کمپنی کے لیے کام کر رہا ہے۔’
سرجےوالا نے پاترا کی اس بات پر ان سے پوچھا ہے کہ کیا بی جے پی داسو کے حریفوں کے نام بتا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سچائی یہی ہے کہ صرف داسو ہی رافیل بناتی ہے، اور اس سے پہلے والا سودا بھی رافیل کے لیے ہی ہوا تھا نہ کی کسی دیگر جنگی طیارےکے لیےنہیں۔’
پاترا نے میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں اٹھائے گئے مبینہ بدعنوانی کے الزامات اور داسو کے ذریعے ایک ہندوستانی مڈل مین کو مبینہ طور پرکروڑوں دیے جانے پر کچھ نہیں کہا۔ اس کے بجائے انہوں نے سی اےجی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے معاملے میں جانچ کی عرضی خارج کرنے کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں نے پایا ہے کہ اس دفاعی معاہدےمیں کچھ بھی غلط نہیں ہوا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)