بطور اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کئی بار رپورٹنگ کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا اور متعدد بار کسی نیوز اسٹوری کا سرا تھما دیا۔ خیر جیٹلی بی جے پی جیسی ایک مشکل پارٹی میں صحافیوں کا واحد سہارا اور پوائنٹ مین تھے۔
اگست کا مہینہ جہاں کشمیری قوم کے لیے آزمائشیں لے کر آیا، وہیں ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے بھی خاصا بھاری رہا۔ اس کے تین مقتدر لیڈران سابق وزیر خارجہ سشما سوراج، سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ بابو لال گور انتقال کر گئے۔ دیگر بی جے پی لیڈران کے برعکس بابو لال گور اکثر عیدین و دیگر موقعوں پر بھوپال کی تاج المساجد یا عید گاہ میں ٹوپی پہنے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔ سوراج اور جیٹلی بی جے پی کی نئی پود، صاف و شستہ انگریزی بولنے والے معتدل چہرے تھے۔
وہ ان گنے چنے لیڈروں میں تھے، جو غیر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) ہوتے ہوئے بھی بی جے پی میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچ گئے تھے۔ متعدد تجزیہ کار جب بی جے پی کو یورپ کی دائیں بازو کی قدامت پسندجماعتوں یعنی جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبیہ دیتے ہیں، تو چوک جاتے ہیں، کہ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل آر ایس ایس کے پاس ہے۔
جب بی جے پی میں 2014کے انتخابات کی تیاری اور اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کے امیداوار کی نامزدگی کا معاملہ پیش آیا، تو محسوس ہوا کہ معمر رہنما ایل کے اڈوانی اب عوامی اپیل کھو چکے ہیں، اس لئے ان کی جگہ پر کسی کم عمر لیڈر کو کمان سونپی جائے۔ سب سے پہلے سشما سوراج کا ہی نام سامنے آیا، جس کو بتایا جاتا ہے کہ آرایس ایس نے رد کردیا۔ نریندر مودی کے مقابل سوراج نے بی جے پی کی اعلیٰ فیصلہ سازمجلس پارلیامانی بورڈکو اپنے حق میں قائل بھی کردیا تھا اور ان کو اڈوانی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
آرایس ایس کے رویہ کو بھانپ کر آخری پتےکے طور پر اڈوانی نے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کا نام تجویز کردیا تھا، جو مودی کی طرح آر ایس ایس بیک گراؤنڈ کے ساتھ ساتھ لگاتا ر تین بار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بھی براجمان تھے۔مگر آر ایس ایس اور کارپوریٹ سیکٹر کی مدد سے مودی نے ان سبھی کو پچھاڑ کر میدان مار لیا۔ ان تین لیڈروں کی یکایک موت پر بھوپال سے بی جے پی رکن پارلیامنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ اپوزیشن بی جے پی رہنماؤں پر‘
مارک شکتی’ یعنی جادو ٹونا کا استعمال کر رہی ہے۔
دہلی میں جب میں نے سیاسی رپورٹنگ شروع کی، تو بی جے پی ان دنوں اپوزیشن میں تھی۔ صحافیوں اور اپوزیشن کا ایک طرح سے ہم زیستی کا تعلق ہوتا ہے۔ کانگریس کے زیر قیادت من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے دوسرے دور میں سشما سوراج جہاں لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں، وہیں ارون جیٹلی راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ اس سے قبل دونوں پارٹی کے جنرل سکریٹریوں کی ٹیم میں شامل تھے اور وقتاً فوقتاً ترجمان کے طور پر کام کرتے تھے۔ جیٹلی کے ساتھ میری پہلی ملاقات ان کے چیمبر میں 90کے اوائل میں ہی ہوئی تھی، جب میں دہلی کے ایک مقامی اخبار میں تربیتی رپورٹر کا کام کر رہا تھا۔ کشمیری رہنما عبدالغنی لون کی صاحبزادی ایڈووکیٹ شبنم غنی لون کو نئی دہلی کے لاجپت نگر علاقہ سے بد نام زمانہ قانون ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
سشما سوراج۔ (فوٹو : رائٹرس)
معلوم ہوا کہ جیٹلی، جو سپریم کورٹ کے نامی گرامی وکیل تھے، ان کا دفاع کر رہے ہیں۔کیس کے کاغذات وغیرہ لینے کے لیے میں جب ان کے دفتر پہنچا، انہوں نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا اور خبر سنائی کہ وہ شبنم کی ضمانت کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ شاید عدالت کی طرف سے ٹاڈا کے تحت کسی اسیر کی ضمانت پر رہائی کایہ پہلا کیس تھا۔ جیٹلی مشہور ڈوگرہ رہنما اور 26برس تک جموں و کشمیر میں وزیر رہے گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد تھے۔ اس لئے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا کچھ تعلق بنتا تھا۔ ان کی اہلیہ کشمیر ٹائمس کے مدیر وید بھسین کی خاصی معتقد تھی۔ جب میں نے بعد میں دہلی میں کشمیر ٹائمس کے بیورو کو جوائن کیا، چونکہ جیٹلی بطور پارٹی جنرل سکریٹری جموں و کشمیر کے کئی برس تک انچارج بھی تھے، اس لئے بھی ان کے ہاں حاضری لگ جاتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ 1998کے عام انتخابات میں بی جے پی نے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی تھی۔ سبھی لیڈروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ نئی دہلی کے بجائے وہ انتخابی حلقوں میں قیام کریں۔ بی جے پی کے صدر دفتر اشوکا روڑ پر ویسے تو ہر روز تین بجے پریس بریفنگ ہوتی تھی۔ ان دنوں پور ا دفتر ہی خالی ہو گیا تھا۔ جلدہی پارٹی لیڈران کو احساس ہوا کہ دہلی میں بھی میڈیا کے ساتھ بات چیت کا سلسہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔اعلان ہوا کہ موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو صدر دفتر میں قیام کیا کریں گے اور ارون جیٹلی کو پریس بریفنگ اور ساؤنڈبائٹس دینے کے لیے متعین کیا گیا ہے۔ ان کی صاف شستہ و بامحاورہ انگریزی، ہم انگریزی کے صحافیوں کے لیے ایک نعمت تھی۔
ورنہ بی جے پی کے لیڈروں کی ہندی کا ترجمہ کرنا اور اس کا صحیح مفہوم پیش کرنا ہر روز پریشانی کا باعث ہوتا تھا۔ گو کہ جیٹلی اسٹوڈنٹ سیاست کے بعد 1977میں جنتا پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ مگر اس کے بعد انہوں نے سیاست کو خیر باد کرکے لیگل پریکٹس پر دھیان مرکوز کر دیا تھا۔ 1998میں ان کی بی جے پی کے صدر دفتر آمد اور ترجمان کے حیثیت سے ان کی تقرری ایک طرح سے ن کی سیاست میں واپسی تھی۔ جلد ہی وہ پارٹی جنرل سکریٹری کے عہدہ پر براجمان ہوئے اور بعد میں انہوں نے اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزارتی عہدوں پر بھی کام کیا۔
بی جے پی میں ان ہی کے قبیل کے ایک اور لیڈر جن کا میڈیا کے ساتھ ایک طرح سے ہم جولی کا رشتہ تھا پرمود مہاجن تھے، جن کا 2006 میں ان کے اپنے ہی بھائی نے کسی گھریلو تنازعہ کی وجہ سے قتل کردیا۔ میں چونکہ ان ہی دنوں جرمن ریڈیو ڈائچے ویلے کی اردو سروس کے لیے بھی پارٹ ٹائم کام کرنے لگا تھا، تو اسٹوری کے لیے لیڈروں کے ساؤنڈ بائٹس کی ضرورت پڑتی تھی۔ جب بھی جیٹلی کو فون کیا، وہ کبھی منع نہیں کرتے تھے۔ کسی وقت ان کے گھر پر فون کرکے معلوم ہوتا تھا کہ مصروف ہیں یا باہر گئے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے دفتر میں یہ ہدایت ہوتی تھی کہ فون کرنے والے صحافی کا نام و فون نمبر نوٹ کر لیا کریں۔ ان کے گھر پر فون کرنے کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ واپس ضرور یاد کریں گے۔ سشما سوراج اور وینکیا نائیڈو ان کی طرح میڈیا فرینڈلی تو نہیں تھے، مگر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
نریندر مودی بھی ان دنوں پارٹی جنرل سکریٹری اور ترجمان تھے۔ مگر وہ مشکل سوالات پر ناراض جاتے تھے اور اکثران کی بریفنگ صحافیوں کے ساتھ جھگڑے پرہی ختم ہوجاتی تھی۔بریفنگ کے بعد ڈی بریفنگ کا سلسلہ بی جے پی دفتر میں ارون جیٹلی نے ہی متعارف کروایا۔ ریگولر بریفنگ کے بعد وہ صحافیوں کے بیچ میں آکر یا اپنے کمرے میں بلاکر آف ریکارڈ گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگلے دن ذرائع کے حوالے سے صفحہ اول کی خبر یہی ڈی بریفنگ ہوتی تھی۔کبھی کبھی اس میں وہ اپنی ہی پارٹی کے افراد کا بھی کچا چٹھا کھولتے تھے۔سادھوی اوما بھارتی اس سے خاصی مضطرب تھی، اور اس ڈی بریفنگ کو رکوانے کے لیے اس نے اپنا پورا زور صرف کیا۔مگر کامیاب نہیں ہوسکی۔
پچھلے کئی سالوں سے دہلی میں مشہور تھا، کہ کئی مقتدر اخبارو ں اور چینلوں کے ایڈیٹر جیٹلی خود ہی ہیں، کیونکہ ان کے پروگراموں کے موضوعات اور اگلے دن اخباروں کی کوریج وہی طے کرتے ہیں۔ جس میں کچھ حقیقت بھی تھی اور اس کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔ایک بار میں ان کے ساتھ ٹور پر تھا۔ شام کو ڈنر کرتے وقت، ٹی وی پر ہم مختلف چینلوں پر نیوز شو زدیکھ رہے تھے۔ فون ہاتھ میں لئے وہیں سے ہی نیوز اینکر کو فون پر ہدایت دے رہے تھے، کہ فلانی گیسٹ سے یہ سوال پوچھا جائے۔’پاکستانی گیسٹ کو تھوڑا اکساؤ۔ بس اب ٹینشن زیادہ ہائی ہو گیا ہے، اب کم کردو وغیرہ۔’
کھانے پینے کے شوقین جیٹلی دہلی میںGossipکنگ کے نام سے بھی مشہور تھے۔ کسی وقت ان کے دفتر یا گھر سے فون آتا تھا کہ امرتسر سے سموسے، بھوپال سے چھولے یا حیدر آباد سے حلیم آئی ہے، صاحب کا کہنا ہے کہ لنچ ساتھ کرتے ہیں۔ پارلیامنٹ میں ان کے دفتر یا سینٹرل ہال میں ان کا باضابطہ ایک دربار لگتا تھا۔ جہان اراکین پارلیامان اور صحافی ان کو گھیرے، ان سے دنیا بھر کی باتیں سنتے تھے۔ کسی وقت حیرانی ہوتی تھی، کہ اتنا مصروف شخص آخر کیسے اپنے آپ کو اتنا باخبر رکھتا ہے؟ ایک بار ان کی گفتگو کا موضوع تقسیم ہند کے وقت پاکستان سے ہجرت کرکے دہلی میں آئے پنجابی ریسٹورنٹ اور ان کے کھانوں کے خاص نسخہ تھے۔واقعی ان کی معلومات بیش بہا تھی۔
ہندوستانی پارلیامنٹ میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور پارلیامنٹ کور کرنے والے صحافیوں پر مشتمل تین کرکٹ ٹیمیں ہو تی تھیں۔ جن کا ہر سال ایک مقابلہ ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ نہ معلوم کیوں اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ خود راجیہ سبھا کی ٹیم کے کیپٹن تھے۔ صحافیوں کی ٹیم کے سربراہ راج دیپ سر ڈیسائی یا جاوید انصاری ہوتے تھے۔ لوک سبھا میں البتہ کیپٹن بدلتے رہتے تھے۔ایک بار برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈس کی کرکٹ ٹیم ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی ٹیم کے ساتھ ایک دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے ہندوستان کے دورہ پر آئی تھی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان معرکہ آرائی ہماچل پردیش کے سیاحتی مقام دھرم سالہ میں طے تھی۔ خیر برطانوی اراکین پارلیامان پر مشتمل ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا آغاز کرکے دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے چھکوں اور چوکوں کی بارش کرکے رنوں کا ایک انبار کھڑا کردیا۔
تین ہندوستانی اراکین پارلیامان تو فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہوکر ریٹائرڈ ہوگئے۔ وہ اب بیٹنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ چند صحافی اور لوک سبھا کے کچھ ممبران، ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے تماشائیوں میں موجود تھے۔ جیٹلی نے برطانوی ٹیم کے کپتان سے کہا، چونکہ ان کے دو کھلاڑی زخمی ہوگئے ہیں، اس لئے وہ تماشائیوں میں موجود لوک سبھا کے دو اراکین کو متبادل کے طور پرمیدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ برطانوی کپتان نے اجازت دی۔ ممبر چاہے لوک سبھا کا ہو یا راجیہ سبھا کا، آخر پارلیامنٹ کا رکن اور سیاستدان ہی تو ہے۔ خیر ہندوستانی ٹیم کی بیٹنگ شروع ہوئی۔ ایک وکٹ گرنے کے بعد متبادل لوک سبھا کے کھلاڑیوں نے اس طرح مورچہ سنبھالا، کہ انگریز حیران و پریشان۔ وہ آؤٹ ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ چھکوں ور چوکوں کی بارش کرکے ان دو کھلاڑیوں نے انگریزوں کو خوب دوڑا دوڑا کر میچ راجیہ سبھا کی ٹیم کے نام کردیا۔ اور ابھی بھی کئی اوور باقی بچے تھے۔ انگریز ٹیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ متبادل کھلاڑی اور لوک سبھا کے اراکین پیشہ ور کرکرکٹرا ظہر الدین اور بھارتی ٹیم کے مشہور اوپنر چیتن چوہان تھے۔ یہ ایک طرح سے چیٹنگ تو تھی، مگر اس واقعہ نے اس میچ کو یاد گار بنادیا۔ پورا اسٹیڈیم قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
جولائی 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے، میڈیا کے چنندہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی کا احساس کروانے کے لیے حکومتی سطح پر بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ ملک بھر کے 17ایڈیٹر اور سینئر صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں سینئر وزاراء کی ایک ٹیم کے روبرو تھے۔ مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزراء اور قومی سلامتی مشیر کسی مسئلہ پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اس کے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔موجودہ نائب صدر جن کے پاس اس وقت وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان تھا، نے نظامت سنبھالتے ہی تاکید کی کہ یہ ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ ہے، اس لئے سوالات کے علاوہ وہ کھلی بحث اور مشوروں کے بھی طالب ہیں۔راج ناتھ سنگھ نے آغاز کرتے ہوئے گزارش کی کہ شورش کو کور کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہوئے، ملک میں کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا جس طرح کشمیر کور کر رہا ہے اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس سے کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اور ہندوستانی عوام کے درمیان خلیج مزید وسیع اور گہری ہو تی جا رہی ہے۔ ان کی اس گفتگو پر جو میڈیا کو مفاہمت اور آؤٹ ریچ کی تلقین پر مبنی تھی پر جلد ہی اورن جیٹلی نے پوری طرح پانی انڈیل دیا۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے پچھلی عوامی شورشوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا موجودہ عوامی ابال کے ساتھ موازنہ کیا۔ بقول ان کے 1989کا عوامی احتجاج اور عسکریت کا آغاز 1987کے انتخابات میں بے حساب دھاند لیوں اور جمہوری عمل کی ناکامی سے منسلک تھا۔ 2008کی عوامی شورش جموں کے ہندو اکثریتی علاقہ اور وادی کشمیر کے درمیان چلی آرہی مخاصمت کا شاخسانہ تھی۔ 2010میں مقامی حکومت کی نااہلی اور سلسلہ وار ہلاکتوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر تھے۔
وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ موجودہ شورش کسی بھی طور سے جمہوری عمل کی ناکامی یا آزادی کی تحریک نہیں ہے، بلکہ اس کے تار عالمی دہشت گردی سے جڑے ہیں۔ ‘ہمارے پچھواڑے (کشمیر) عالمی دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ،آئی ایس ایس اور طالبان جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اس لئے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کشمیر میں اس نظریہ کو روکنے اور سختی کے ساتھ کچلنے کے لیے وہی کچھ کر رہا ہے، جو امریکہ یا دیگر ممالک شام، عراق، افغانستان میں یا خود پاکستانی فوج اپنے علاقہ میں کر ر ہی ہے۔ غرض کہ انہوں نے مبالغہ آمیزی سے کام لیکر کشمیر تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطہ پر اس کے مضمرات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کانفرنس روم میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اور اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ کشمیر میں قومیت کے بجائے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتی جا رہی ہے، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
چونکہ ابتدا ہی میں کھلی بحث کی دعوت دی گئی تھی، میں نے جیٹلی کو یاد دلایا، کہ درگاہ و منبر کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ رہے ہیں، کیونکہ اس خطہ میں جمہوری اور پر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور آؤٹ ریچ کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر لیڈر کو بھی عوام تک پہنچنے کے لیے درگاہ حضرت بل کا سہارا لینا پڑا۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں۔اس پر میٹنگ میں خاصی بحث ہوئی۔ جیٹلی اور دیگر وزراء کشمیر میں وہابیت کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اگر وہابیت اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر 2003ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصہ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کے لیے ہندوستانی ایجنسیاں دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں کیسے مہمان نوازی کرتی آئی ہیں؟
میں نے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ حال ہی میں شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکے لیے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے جذبہ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبہ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کہ ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جبکہ 300کلومیٹر دور کشمیر یونیورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمہ پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونیورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلومہ کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اس کی بساط لپیٹ لی گئی، کیونکہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کریئر یا روزگار کی کمی ہے۔ میں نے کہا، کہ متبادل جمہوری مخرجوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے 500سالوں کی تاریخ ہے۔
وزیر وں نے یہ بھی بتایا کہ حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ پھر آپ کو ان پر غصہ کیوں ہے کہ انہوں نے کل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری ہندوستانی پارلیامنٹ کو بے وقار کردیا؟ میں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جیٹلی کے بقول کشمیرکا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں وہابیت اور سلفیت وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ موجودہ تحریک کو یہی نظریہ لیڈ کر رہا ہے۔میں نے ان کو یہ بھی یاد دلایا کہ 2010میں انہوں نے اپنے گھر پر مجھے بتایا تھا کہ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرے گی۔ وہ کسی حد تک من موہن سنگھ،پرویز مشرف کے حل کو قابل عمل سمجھتے تھے، مگر لداخ اور جموں کے لیے وہ کوئی نیا نظم چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا تھا، کہ کشمیر وادی کے تعلق سے آرایس ایس اب اتنی سخت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس اب کشمیر مسئلہ کو جموں کی دوربین سے نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔
اس کا کریڈیٹ وہ خود لے رہے تھے۔مگر ان کا کہنا تھا کہ بطور اپوزیشن وہ من موہن سنگھ حکومت کو کوئی رعایت نہیں دیں گے۔کئی گھنٹوں تک چلنے والی یہ بریفنگ خاصی تلخ کلامی پر ختم ہوئی ۔ باہر نکلنے سے قبل ہمیں دوبارہ بتایا گیا کہ یہ ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اگلے دن ہندوستان کے دو کثیر الاشاعت اخباروں ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ بینرہیڈ لائن تھی اور پھر کئی ماہ تک چینلوں کے لیے کشمیر میں القاعدہ اور آئی ایس ایس کی آمد روز کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو دیر رات ہدایت دی گئی تھی کہ جیٹلی کی بریفنگ کی رپورٹنگ کا حصہ چھپنا چاہئے۔ شاید پاکستان نے دنیا بھر میں جو سفارتی مشن بھیجے تھے، اس کو ایک طرح سے سبو تاژ کرنا تھا۔ کیونکہ دنیا کے جس ملک میں بھی یہ مشن گئے وہاں ان کو کشمیر او راس کے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
میری بے جا مداخلت اور سوال کرنے کی جرأت سے جیٹلی اور وزراء خاصے ناراض تھے۔ اس دن ان کا نیا چہرہ مجھ پر نمودار ہوگیا۔ اگلے چند دنوں کے بعد ہی مجھے آفس میں بتایا گیا کہ میرے خلاف چیئرمین اور سی ای او آفس میں شکایت درج کی گئی ہے اورمیں اپنا بوریا بسترہ لپیٹ کر استعفیٰ تیار رکھوں۔ خیر جس آرگنائزیشن میں اس وقت کام کر رہا تھا، انہوں نے نکالنے کے بجائے مجھے کالم لکھنے اور خاص طور پر کشمیر پر رپورٹنگ کرنے سے سختی سے منع کیا۔اسٹوریز پر میری بائی لائن پر پابندی لگ گئی۔ زندگی کی گاڑی چلانے اور کسی دوسری نوکری کو ڈھونڈنے تک میں نے حالات سے سمجھوتہ توکر لیا، مگر جیٹلی کا بدلا ہوا چہرہ مجھے ہضم نہیں ہوپا رہا تھا۔ چند برس قبل ہی بطور انفارمیشن منسٹر انہوں نے مجھے سینٹرل پریس اکریڈیٹیشن کونسل کا ممبر نامزد کیا تھا۔بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کئی بار رپورٹنگ کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا اور متعدد بار کسی نیوز اسٹوری کا سرا تھما دیا۔ خیر جیٹلی بی جے پی جیسی ایک مشکل پارٹی میں صحافیوں کا واحد سہارا اور پوائنٹ مین تھے۔ میں نے دیکھا کہ دہلی میں مقیم میرے متعدد ساتھیوں نے ٹوئٹ کرکے لکھا کہ وہ یتیم ہوگئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔
رگوں میں خون کی روانی سا تھا وہ شخص
صحرا کی پیاس میں پانی سا تھا وہ شخص