سرکار کوسوال پوچھنے،حقوق کی بات کرنے اور اس کے لیےجدوجہدکرنے والے ہر انسان سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے وہ موقع دیکھتے ہی ہمیں فرضی الزامات میں پھنساکر جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔
صرف جیل سے باہر ہونا آزادی کی ضمانت نہیں ہے،لیکن جیل کسی کو قید کیے جانے کی سب سے کڑی اور خراب شکل ہے۔ آزادی کس احساس کا نام ہوتا ہے یہ مجھے کبھی پتہ نہیں چلتا اگر سرکاری مشینری-پولیس اور میڈیا کے ناپاک اتحادکی وجہ سے مجھے جیل میں نہ ڈالا گیا ہوتا۔
جیل نے میرےآزادی کی پیاس اور کھلی ہوا میں سانس لینے کے احساس کو زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔ جیل کےاندر 13 مہینے رہنے کے بعد سرکاروں کے ڈر، قوانین کے غلط استعمال اور تاناشاہوں کی مجبوریاں کیا اور کیوں ہوتی ہے اس کا خاصہ اندازہ ہلکی سی بھی سیاسی سمجھ رکھنے والے انسان کو ہو جائےگا جیسے مجھے ہوا اور شاید ہر سیاسی قیدی بھی اس بات کا اندازہ کر ہی لیتا ہے۔
جیسا کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ دسمبر 2019 میں شہریت بل (سی اےبی)لایا جاتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہندو ، سکھ، عیسائی، بدھ، جین اور پارسی کمیونٹی کے لوگوں کو غیر قانونی مہاجر نہ مانتے ہوئے انہیں شہریت دی جائےگی۔
اس بل میں شہریت کے لیےاہلیت کی بنیادمذہب کو بنایا جاتا ہے۔سوال یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ پھر شہریت کے لیےاہل مذاہب کی فہرست میں مسلمانوں کو سوچ سمجھ کرچھوڑ دیا گیا۔مذہب کی بنیاد پر شہریت کے حق کا بٹوارہ کھلے طور پرآئین کے خلاف ہے۔ ہندوستان کا آئین کہیں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کا مذہب کی بنیادپر بٹوارہ نہیں کرتا ہے اور سی اےبی ہمارے آئین کے اصولوں اور قدروں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاس کر دیا گیا۔
سن47 کی آزادی سے پہلے بھی اور اس کے بعدبھی اس ملک کو خوبصورت بنانے میں ہمیشہ مسلمانوں نے اپنی خدمات دی ہیں ۔ لیکن افسوس کہ جو آج اقتدارپر قابض ہیں، ہندوستان کو مذہب کی بنیادپر بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اپنے اسی ایجنڈہ کے تحت وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنانا چاہتے ہیں۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مسلمان کبھی بھی دوئم درجے کے شہری بن کے رہنا قبول نہیں کریں گے۔ آخر دونوں ایوانوں میں آئین اورمسلم مخالف بل پاس کروا لیا جاتا ہے اور صدر کے دستخط کے بعد یہ ایک قانون کے طورپر پاس کر دیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پہلے سے موجود شہریت قانون میں اس طرح کی ترمیم کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کے لیے آسام میں ہوئے این آرسی اور اس کے بعد بنی صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے۔
آسام میں سپریم کورٹ کے آرڈرکے مطابق، این آرسی کا عمل ہوتا ہے اور اس شہریت رجسٹر میں تقریباً19 لاکھ لوگوں کا نام نہیں آتا ہے۔ ان 19 لاکھ لوگوں میں صرف 5 لاکھ مسلمان ہوتے ہیں اور باقی 14 لاکھ میں باقی مذہب کے لوگ۔
چونکہ یہ سرکار این آرسی پورے ملک میں کرانا چاہتی ہے جیسا ملک کےوزیرداخلہ نے ایوان میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے کہا تھا، اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ آسام این آرسی کی طرح ہمارے ملک کی بڑی آبادی کے پاس اپنے دہائیوں پرانے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس رجسٹر سے باہر کر دیےجا ئیں گے اس لیے انہیں شہریت دینے کے لیےآئینی قدروں اور اصولوں کو طاق پر رکھ کر شہریت ایکٹ (سی اےاے)لایا گیا۔
سی اے اےکے تحت شہریت کے لیےاہل لوگوں کی فہرست سے مسلمانوں کو باہر رکھا جاتا ہے تاکہ ایک بڑی مسلم آبادی کو شہریت ثابت کرنے کے چکرویوہ میں پھنساکر ان سے ان کے شہری حقوق کو چھین لیا جائے۔ اس لیے ہم نے ہمیشہ جامعہ اور شاہین باغ سے شروع ہوئی اس تحریک کو سی اے اے-این آرسی مخالف کے ساتھ یکساں شہریت کی تحریک کہا۔
جب سے موجودہ سرکاراقتدار میں آئی ہے، اس کے بعد سے لگاتارمسلمانوں کے خلاف نفرتی بیانات کا ایک سلسلہ چلتا ہے جس کے نتیجےمیں ملک کے الگ الگ حصوں میں مسلمانوں پر نفرتی حملے ہوتے ہیں۔ کہیں دنگے کرائے جاتے ہیں، کہیں مسجد کو غیر قانونی یا ایک خصوصی مذہب کا مقدس مقام بتاکر اسے گرانے کی کوشش ہوتی ہے، اور کئی جگہوں پر بےگناہ مسلمانوں کو دہشت گردی کے فرضی الزامات میں پھنسایا جاتا ہے۔
اقلیتی یونیورسٹیوں کی امیج کو خراب کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ یہ سب واقعات نہ صرف منظم ہیں بلکہ ایک پوری کمیونٹی کو ملک کی بڑی آبادی کے سامنے بدنام کرنے کے ایجنڈہ کے تحت ہوتی ہے۔ تاکہ ملک کے سامنے ایک فرضی پوٹینشیل خطرے کے طور پر مسلمانوں کو کھڑا کرکےاکثریتی سماج سے ووٹ بٹورے جا سکیں اوراقتدار میں بیٹھ کر اپنے آقاؤں کی مرضی چلائی جا سکے۔
سال 2014 کے بعد سے ہی جس طرح سرکار کا رویہ رہا تھا ملک کا مسلمان ان باتوں کو کہیں نہ کہیں سمجھنے لگا تھا اسی لیے جب دسمبر میں نو سی اےاے،نو این آرسی کےنعرے کےساتھ تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک میں سی اے اےکی مخالفت کے ساتھ مسلمانوں نے اپنےسیاسی حقوق اور اقتدار،تعلیم، انتظامیہ اور باقی کے جمہوری اداروں میں اپنی حصہ داری کے سوال کو بھی مضبوطی سے اٹھایا۔
سی اےبی کےقانون بن جانے کے بعد 12دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں احتجاجی مظاہرہ شروع ہوتا ہے اور اگلے دن 13 دسمبرکو جامعہ کے طلبہ طالبات کالے قانون کے خلاف پارلیامنٹ تک مارچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مارچ کو دہلی پولیس اپنی سفاک کارروائی کرتے ہوئے طلباکو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔آنسو گیس کے سینکڑوں گولے داغے جاتے ہیں، ہزاروں طلباپر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور تقریباً 40طلبا کو حراست میں لیا جاتا ہے۔
ان40 میں ایک میں بھی تھا۔ لگ بھگ 5 گھنٹے کے بعد جب ہم سب کو چھوڑا جاتا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے چمن جامعہ کی فکر ہوتی ہے ہم سب واپس جامعہ پہنچتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جامعہ کی سڑکوں پر پولیس کے طلبا پر داغے گئے آنسو گیس کے گولوں کے خالی کھوکھے بکھرے ہیں۔ بہت کچھ افراتفری کا شکارتھا لیکن اس سے ہماری ہمت نہیں ٹوٹتی ہے اور ہم اگلے ہی دن سے پھر اپنا احتجاج جاری رکھتے ہیں۔
پندرہ دسمبرکو جامعہ کے طلبا اپنی تحریک کو جاری رکھتے ہوئے پھر سے مارچ نکالتے ہیں لیکن اس بار پولیس 13تاریخ کے مقابلے زیادہ بے رحمی سے پیش آتی ہے۔ جامعہ نگر کی سڑکوں پر موجود طلبا اور کئی عام لوگوں پر پولیس لاٹھیاں برساتی ہیں اور مظاہرہ کر رہے طلبا کو ہٹنے پر مجبور کرتی ہے۔
لیکن پولیس صرف اتنے پر ہی نہیں رکتی۔وہ یونیورسٹی کےاندر یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اندرگھس جاتی ہے اور لائبریری میں پڑھ رہے طلبا پربھی لاٹھی برسانا شروع کر دیتی ہے۔طلباپراس بربریت سے بھی پولیس مطمئن نہیں ہوتی وہ لائبریری میں موجود بنچ اور کرسیوں کو بھی توڑتی ہے پھر اپنی کرتوت کو چھپانے کے لیے کئی سارے سی سی ٹی وی کیمرا بھی توڑتی ہے۔
کئی طلبہ وطالبات،جنہیں پولیس نے ڈپارٹمنٹ میں گھس کر پیٹا تھا، وہ رات بھر باتھ روم میں اور سیڑھیوں پر بےہوش پڑی رہتی ہیں۔جامعہ کے سب سےقریبی اسپتال الشفاء اور ہولی فیملی دونوں ہی اس رات جامعہ کے زخمی طلبہ طالبات سے بھرے ہوئے تھے۔یہاں تک کہ وہاں اور لوگوں کو ایڈمٹ کرنے کے لیے جگہ بھی نہیں بچی تھی۔ جامعہ کیمپس اور جامعہ نگر میں اس رات آنسو گیس کا دھواں اور جامعہ کے طلبا کا خون پھیلا ہوا تھا۔
دہلی پولیس نے ہمارے خوبصورت چمن کو ایک جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا تھا لیکن یہ سب دیکھ کر ہماری ہمت اور جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ تحریک صرف ایک قوم یا ایک یونیورسٹی کے طلباکی نہیں ہے اس سے ہندوستان کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے، اس لیے ہمیں زخم دےکر بھی سرکار ہمارے حوصلوں کو توڑنے میں ناکامیاب رہی۔
یہ سب ہونے کے بعد 16دسمبر کو پولیس کی طرف سے دو ایف آئی آر جامعہ نگر تھانہ اور نیوفرینڈس کالونی میں درج کروائے جاتے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں میرے ساتھ جامعہ اور علاقے کے کئی فعال ایکٹوسٹس کے نام ہوتے ہیں۔ مجھے مئی2020 میں پہلے جامعہ نگر تھانے میں درج ایف آئی آر نمبر298/19 میں ہی اریسٹ کیا گیا تھا۔
یہ سب برداشت کرنے کے بعدبھی جامعہ کے طلبا نے ہمت نہیں ہاری۔ سی اے-این آرسی کے خلاف جامعہ کےطلبا ڈٹے رہے اور جو احتجاجی مظاہرہ جامعہ سے شروع ہوا اس نے ایک تحریک کی ایک صورت اختیار کرلی اور پورے ملک میں جگہ جگہ سی اے اےاین آرسی کے خلاف مظاہرہ ہونے لگے۔
ان مظاہروں کی باگ ڈور اکثر جگہوں پر مسلم خواتین کے ہاتھ میں تھی۔تحریک کے دو مرکز جامعہ اور شاہین باغ میں بھی طلبا اور مسلم عورتوں نے ہی تحریک کو بنا ڈرے کئی مہینو تک جاری رکھا۔ یہ تحریک پچھلے سالوں میں میڈیا اور سرکار کے ذریعے مسلم خواتین کو لےکرپھیلائے گئے بھرم کو توڑ رہا تھا۔اب مسلم خواتین بچاری اور ستائی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی بلکہ وہ سرکار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھیں، اپنے حقوق کے لیے سڑک پر تحریک بھی چلا رہی تھیں۔
اس تحریک کو توڑنے اور لوگوں کو ڈرانے کے لیےفسطائی طاقتوں کی طرف سے کئی بار کوششیں کی گئی۔ کبھی جامعہ، تو کبھی شاہین باغ میں غنڈے بھیج کر گولیاں چلوائی گئی۔ کبھی برقع میں جاسوس بھیجے گئے۔ کچھ نام نہاد میڈیا چینلوں نے پوری تحریک کو بدنام کرنے کے لیے شاہین باغ کی عورتوں پر کئی طرح کے فرضی الزام بھی چلائے۔ باہری ممالک سے فنڈنگ کے الزام لگائے گئے۔ مظاہرین کو نہ جانے کیا کیا جھیلنا پڑا لیکن پھر بھی سب ڈٹے رہے۔
اس تحریک کو ختم کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جا رہی تھی۔ اسی بیچ شمال-مشرقی دہلی میں مسلم مخالف تشدد ہوا۔ مسلمانوں کو مارا گیا، ان کے کاروبار کو جلایا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 53 لوگوں کی جان چلی گئی۔
شمال-مشرقی دہلی میں مظاہرے ختم ہو گئے لیکن دہلی اور ملک کے باقی حصوں میں تحریک جاری رہی اور مظاہرین نےتشدد سے متاثر ہوئے لوگوں کےلیے راحت کا کام بھی جاری رکھا۔ پھر جب کورونا کےکیس ملک میں آنے لگے تو پولیس نے جبراً شمال-مشرقی دہلی میں جاری راحت کاموں کو بند کرنے کی کوشش کی۔
وہیں دوسری جانب مظاہروں میں کورونا کی وجہ سےتحریک میں جمع ہونے والے لوگوں کو بڑی تعداد میں اکٹھا ہونے سے بچنے کا مشورہ دیا گیا۔ اور لوگ کم تعداد میں مظاہرہ کرنے لگے لیکن اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس نے کئی جگہوں پر مظاہرین کے بینر اور ٹینٹ ہٹا دیے۔ کورونا سے بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے بھی تحریک کو ایک ٹھہراؤ دینے کا ہی فیصلہ لیا۔
لیکن کورونا میں لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کا اصل کھیل شروع ہوا۔ دہلی پولیس نے تحریک میں فعال لوگوں کو ٹارگیٹ کرکے جانچ کے نام پر نوٹس بھیجنا اور پھر گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ جبکہ ہم تمام لوگ اس وقت لاک ڈاؤن سے متاثر ہوئے مزدوروں اور غریب خاندانوں کے لیے راحت کی اشیا جمع کرنے اور بانٹنے میں لگے ہوئے تھے۔
مجھے کئی بار جانچ کے نام پر بلایا جاتا ہے اورآخرکار 17 مئی 2020 کو جامعہ تشدد والے معاملے میں مجھے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس معاملے میں میری ضمانت کا امکان نظر آتاہے، دہلی پولیس مجھ پر دہلی تشدد معاملے میں سازش کا الزام لگاکر یواے پی اے کے تحت پھر گرفتار کر لیتی ہے۔
یہ اقتدار نہ تحریک کرنے دیتی ہے نہ غریبوں کے لیے راحت کا کام۔ میں اور کئی اسٹوڈنٹ لیڈریا سماجی کارکن ہمیشہ ملک،آئین، لوگوں کےمفاداور جمہوریت کے لیے سوچتے ہیں اس لیے ہم تحریک کرتے ہیں، اسی لیے راحت کے کام کرتے ہیں تاکہ ہم مل کر ملک کو بہتر بنا سکیں۔ ختم ہوتی جمہوریت کو مضبوط کر سکیں، محروموں کو ان کے حق دلا سکیں۔ سرکار سے ہمیں دشمنی کا کوئی شوق نہیں۔ لیکن جب ہم اپنے حقوق کے لیے آگے آتے ہیں فسطائی طاقتیں ہمیں جہادی، اینٹی نیشنل، اربن نکسل، دنگائی اور نہ جانے کیا کیا بتانے لگتی ہے۔ دراصل سرکار کو ہر سوال پوچھنے، حقوق کی بات کرنے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے وہ موقع دیکھتے ہیں اور ہمیں فرضی الزامات میں پھنساکر جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔
مجھے بھی سرکار سے سوال پوچھنے اور اپنے حق کے لیےجدوجہد کرنے کی وجہ سے ہی جیل میں ڈالا گیا تھا۔ ہمارے باقی ساتھی بھی اسی لیے جیل بھیجے گئے۔ فی الحال ہم تین ساتھی ضمانت پر باہر آئے ہیں لیکن ہمارے کئی ساتھی ابھی جیلوں میں بند ہیں اور ان کی رہائی کے لیے ہم جدوجہدکریں گے اور امید ہیں وہ بھی جلد باہر آ جائیں گے۔
یہ بھی میں کہنا چاہوں گا کہ سی اےاے-این آرسی کے خلاف ہماری یکساں شہریت کی تحریک جاری رہےگی۔ جیسے ہی مہاماری کا خاتمہ ہوگا ہم سب مل کر سڑکوں پر تحریک کریں گے اور ان کالے قوانین کے خلاف عدالت میں بھی جنگ لڑیں گے۔
(آصف اقبال تنہا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ ہیں۔)