جمعہ کو دل کا دورہ پڑنے سے 62 سالہ درشن سنگھ کی موت ہوگئی۔ وہ دلی چلو احتجاجی مارچ کے دوران جان گنوانے والے چوتھے کسان ہیں۔ 29 فروری تک احتجاجی مارچ کو ملتوی کرتے ہوئے کسان لیڈروں نے کہا ہے کہ فی الحال ان کی توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر ہے کہ شبھ کرن کی موت کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
جالندھر: پنجاب کے بٹھنڈہ ضلع کے امرگڑھ گاؤں کے ایک بزرگ کسان درشن سنگھ (62 سال) کی جمعہ (23 فروری) کو پنجاب-ہریانہ کے کھنوری بارڈر پر دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ ‘دلی چلو’ احتجاجی مارچ کے دوران وہ چوتھے شخص ہیں جن کی موت ہوئی ہے۔
جگجیت سنگھ ڈلیوال اور سرون سنگھ پنڈھیر کی قیادت والی سنیکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) اور کسان مزدور سنگھرش کمیٹی (کے ایم ایس سی) نے 13 فروری کو دلی چلو مارچ کی کال دی تھی، تب سے درشن سنگھ کھنوری بارڈر پر ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔
کسان مرکزی حکومت پر فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی، قرض کی معافی اور دیگر مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے دوسرے دور کا احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تازہ احتجاج ان کے 2020 کے احتجاجی مظاہرہ کا اگلا قدم ہے، جس میں انہوں نے 13 ماہ تک سرحدی مقامات پر ڈیرہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو تین متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا تھا ۔
مرکز نے 9 دسمبر 2021 کو ان کے دیگر مطالبات پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد، سنکیت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ان کی تحریک کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
معلوم ہو کہ درشن سنگھ نے حال ہی میں اپنے بیٹے کی شادی کی تھی اور ان پر تقریباً 8 لاکھ روپے کا قرض تھا۔ جمعرات کی رات بزرگ کسان کی طبیعت بگڑگئی تھی اور اسپتال میں انہوں نے آخری سانس لی۔
کے ایم ایس سی کے کنوینر سرون سنگھ پنڈھیر نے درشن سنگھ کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی۔
انہوں نے کہا، ‘درشن سنگھ کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ کے چوتھے شہید ہیں۔ حکومت کو ان کے خاندان کو 5 لاکھ روپے کا معاوضہ دینا چاہیے، جیسا کہ انہوں نے دلی چلو مارچ کے دوران اپنی جان گنوانے والے دو دیگر بزرگ کسانوں کے معاملے میں دیا تھا۔’
اس سے قبل 21 فروری کو کھنوری بارڈر پر احتجاج کے دوران ہریانہ پولیس اور کسانوں کے درمیان تصادم میں گولی لگنے سے ایک نوجوان کسان شبھ کرن سنگھ کی موت ہو گئی تھی۔ جب کسانوں نے 21 فروری کو دہلی جانے کا اعلان کیا تھا، تبھی شبھ کرن سنگھ کی موت ہوگئی، جبکہ کئی دیگرشدید زخمی ہوگئے تھے۔
دریں اثنا، شبھ کرن کے خاندان نے مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے کا معاوضہ اور ان کی بہن کو سرکاری نوکری لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ ‘جب تک حکومت ہریانہ پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی، ہم یہ معاوضہ قبول نہیں کریں گے۔ ‘
اس سے قبل گزشتہ 10 دنوں میں منجیت سنگھ اور گیان سنگھ نامی دو بزرگ کسان احتجاجی مقامات پر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
دلی چلو احتجاجی مارچ 29 فروری تک ملتوی
دریں اثنا، کسانوں کا ‘دلی چلو’ احتجاجی مارچ، جو اس وقت شمبھو اور کھنوری میں پنجاب-ہریانہ کی سرحدوں پر رکا ہوا ہے، کو 29 فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
کسان رہنماؤں نے اپنی توجہ 22 سالہ کسان شبھ کرن سنگھ کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے پر مرکوز کر دی ہے، جن کی مبینہ طور پر 21 فروری کو کسانوں اور ہریانہ پولیس کے درمیان جھڑپ کے دوران موت ہوگئی تھی۔
جمعہ (23 فروری) کی دیر شام کسان رہنما سرون سنگھ پنڈھیر نے کہا کہ وہ اگلی کارروائی کا فیصلہ 29 فروری کو کریں گے۔ فی الحال، ان کی توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر ہے کہ شبھ کرن کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف قتل کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
کسان رہنماؤں نے پنجاب کی عآپ حکومت کی جانب سے معاوضے اور نوکریوں کی پیشکش کو بھی خارج کر دیا اور کہا کہ وہ شبھ کرن کی موت کے مجرموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے شبھ کے اہل خانہ نے بھی کسانوں کے مطالبے کی حمایت کی۔
کسانوں نے ایف آئی آر درج ہونے تک ان کا پوسٹ مارٹم اور آخری رسومات کی اجازت نہیں دی۔ تاخیر پر سوال اٹھاتے ہوئے پنڈھیر نے میڈیا کو بتایا کہ شبھ کرن کی موت کے فوراً بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے کہا تھا کہ مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پنڈھیر نے پٹیالہ کے راجندرا ہسپتال، جہاں شبھ کرن کی لاش مردہ خانے میں رکھی گئی ہے، پریس کو بتایا،’لیکن ان کے اپنے افسران نے آج ہمیں بتایا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔’
انہوں نے کہا کہ اگر شبھ کرن کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کی گئی تو جاری احتجاج کے دوران اس طرح کی مزید اموات ہوں گی، جنہیں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
سنیکت کسان مورچہ نے یوم سیاہ منایا
جمعہ کو سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے شبھ کرن کی موت اور احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف ہریانہ پولیس کی کارروائی کے خلاف ‘یوم سیاہ’ منایا اور بی جے پی رہنماؤں کے پتلے جلائے۔
ایس کے ایم نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے پروگرام کےتحت کئی مقامات پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور ریاست کے وزیر داخلہ انل وج کے پتلے جلائے گئے۔ تنظیم نے اپنے احتجاج کے طور پر مشعل جلوس بھی نکالا۔
شمبھو اور کھنوری کے واقعات کے بعد جمعہ کو ہریانہ کے حصار ضلع میں کسانوں اور پولیس کے درمیان اسی طرح کی جھڑپیں ہوئیں، کیوں کہ 21 فروری کو پرتشدد جھڑپوں کے بعد مظاہرین نے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کھنوری سرحد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا۔
کینیڈا کی گردوارہ کونسل نے کسانوں کے خلاف کارروائی کی مذمت کی
کینیڈا میں برٹش کولمبیا گرودوارہ کونسل کے وفد نے کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی کو ایک خط لکھا اور ان سے کسان کارکنوں کے خلاف ہندوستان کی پرتشدد کارروائی کی مذمت کرنے اور اس معاملے کو کینیڈا میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے ساتھ اٹھانے کی اپیل کی۔
خط میں کونسل کے اراکین نے لکھا ہے کہ ‘ہم پنجاب میں نیم فوجی دستوں کی نقل و حرکت اور حالیہ دنوں میں کسان کارکنوں کے جبر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملے کو فوری طور پر کینیڈا میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے ساتھ اٹھائیں، تاکہ شہری آزادی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔’
اس میں مزید کہا گیا، ‘پورے کینیڈا میں کمیونٹی تشدد میں ممکنہ اضافے کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری اجتماع کو دبانے کے لیے کیے جانے والے سخت اقدامات کے بارے میں فکر مند ہے۔’
کونسل کے اراکین نے ذکر کیا ہے کہ 13 فروری 2024 سے پورے ہندوستان کے کسان کارکن کسانوں کی روزی روٹی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد پالیسی مسائل پر حکومت کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ 2021 میں ایسا کرنے کے تحریری وعدوں کے باوجود حکومت اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘کسانوں کے مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے ہندوستانی حکومت نے نہتے مظاہرین کے خلاف ڈرون، آنسو گیس، گولہ بارود، آگ لگانے والے آلات اور دیگر ہتھیاروں کے استعمال میں قابل ذکر اضافہ کےساتھ ردعمل کا اظہار کیاہے۔’
اس سے قبل 22 فروری کو بھٹنڈہ ضلع کے بلوہ گاؤں کے 21 سالہ نوجوان کسان شبھ کرن سنگھ کے قتل کے خلاف برطانیہ کے پہلے سکھ ایم پی تن من جیت سنگھ ڈھیسی نے بھی آواز اٹھائی تھی۔
سنگھ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ 2021 میں کسانوں کے پچھلے احتجاج کے دوران سنگھ نے کسانوں کے خلاف مرکزی حکومت کی پالیسیوں پر بحث کے لیے برطانوی پارلیامنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا تھا۔