جہاں مغربی اور عرب ممالک ان دنوں ہندوستان کی ناراضگی کے پیش نظر حکومتی سطح پر کشمیر سے دامن بچا کر ہی چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں، وسط ایشائی ممالک کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خاصے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔
پچھلے دنوں دنیا بھر میں جموں و کشمیر کی مناسبت سے کئی پروگرام منعقد ہوئے، جن میں دوسال قبل 5اگست2019کو ہندوستان کی طرف سے خطے کو دولخت کرنے اس کی اٹانومی اور مقامی شہریت قانون کو کاالعدم کرنے کے خلاف اور حق میں دلائل دیے گئے، مگر ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں تھنک ٹینک انقرہ سینٹر فار پالیسی اسٹڈیز یعنی انکاسام کی طرف سے منعقدہ ایک روزہ آن لائن کانفرنس کئی لحاظ سے منفرد تھی۔ سب سے اہم چیز یہ تھی کہ اس کانفرنس کو وسط ایشیائی ملک کرغیزستان نے اسپانسر کیا تھا۔
جہاں مغربی اور عرب ممالک ان دنوں ہندوستان کی ناراضگی کے پیش نظر حکومتی سطح پر کشمیر سے دامن بچا کر ہی چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں، وسط ایشائی ممالک کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خاصے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔
ان کا استدلال ہے کہ افغانستان میں اینڈ گیم کے بعد مسئلہ کشمیر علاقائی روابط کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جنوبی ایشیا ا ور وسط ایشیا کے درمیان زمینی و دیگر روابط کے سلسلے میں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں یہ بات گھر کر سامنے آگئی ہے کہ جیو اکانومکس اور روابط کو بڑھانے کی سعی مسئلہ کشمیر کی موجودگی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔
امریکی ادارہ اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو ایرئیل کوہان، جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی کا کہنا تھا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے مطابق کئی اہم پروجیکٹس ہندوستان اور پاکستان کی کشیدگی کے سبب کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ازبکستان، پاکستان اور افغانستان، تاشقند سے پشاور ریلوے لائن بنانے کے منصوبہ پر دستخط کر رہے تھے، تو وہ سوچ رہے تھے کہ کیا یہ ریلوے نیٹ ورک اس سے آگے ہندوستان تک جاکر خطے کے روابط بحال کرسکتا ہے۔
کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کرغیزستان کے صدر سدیر جاپروف کے ایلچی نورلام اتمورزوف نے کہا کہ اس خطے کے نقشہ پر کشمیر ایک خطرناک دھبہ ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس مسئلہ کےحوالے سے ہندوستان اور پاکستان کی پوزیشنز کو ایک صفحہ پر لانا مشکل ہے، مگر چونکہ یہ دونوں ممالک اب ایس سی او کے رکن ہیں، اس لیے اس تنظیم کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ و ہ خطے کی سلامتی اور امن کی خاطر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے دونوں ممالک کو اس کے حل کی طرف گامزن کروائے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بعد ایس سی او اب خطے میں دہشت گردی کی کسی اور وجہ یا منبع کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح یورپی یونین اپنے ممبران کے درمیان استحکام پیدا کرنے کے لیے مصالحت کاری کا م کرتی ہے، بالکل اسی طرح ایس سی او کو بھی اس کے ممبران کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے رول ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا تنظیم کے مقاصد کےحصول کے لیے ممبران کے درمیان خیر سگالی کا ہونا لازمی ہے۔ مزید انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کی جوہری قوت کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے اور ان میں کشیدگی پورے خطے کو گردآب میں ڈال سکتی ہے۔
ایس سی وہ کے دیگر جوہری ممبران میں روس اور چین شامل ہیں، جن کے درمیان کسی جنگ کے چھڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف امسٹرڈم کے شعبہ جیو پالیٹکس کے سربراہ پروفیسر بابک ریزوانی کے مطابق چین میں ایگور ترک نسل کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم بھی کم تشویش ناک نہیں ہے، جن کو مغربی دنیا خوب اچھال رہی ہے۔ مگر چینی صوبہ سنکیانگ میں رونما ہونے والے واقعات دو ملکوں کے درمیان جنگ کا موجب نہیں بن سکتے ہیں۔ اس لیے سنکیانگ اور کشمیر کا موازنہ کرنا ہی غلط ہے۔
ترکی کے ایک سابق سفیر آئدن نورہان نے سوال اٹھایا کہ آخر اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل اس مسئلہ کو حل کرنے میں کیوں ناکام ثابت ہوئی ہے؟ انہوں نے ہندوستان کی طرف سے آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ان سوالات کے جوابات دیتے ہوئے جنیوا میں انکا سام کے نمائندے پروفیسر ایچ سی مہمت نے بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دفعہ 370کی منسوخی سے قبل ہندوستان اقوام متحدہ کو مطلع کرنے کا پابند تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بعد دستاویز الحاق کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے، مگر ہندوستان یا پاکستان کے فوجیوں پر حملہ کرکے ان کو ہلاک یا زخمی کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ چین کی چونگ کنگ یونیورسٹی کے پروفیسر اعجاز اکرم کے مطابق بیلٹ اینڈ روڑ اور سی پیک کے دفاع اور اس میں شامل ہونے کی پاداش میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتوں کو ہندوستانی وزیر اعظم نریند ر مودی کی شکل میں ایک ایسا ترپ کا پتہ ہاتھ لگ گیا ہے، جو چین کے خلاف ان کے مفادات کی خطے میں آبیاری کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی قیادت کو ہندوستان کے عزائم کا بھر پوراندازہ ہے اور افغانستان میں چین کے حالیہ اقدامات اس کا عندیہ دیتے ہیں۔
کشمیر چیمبر آف کامرس کے سابق چیئرمین مبین احمد شاہ، جن کو دو سال قبل 5اگست 2019سے ایک دن قبل گرفتار کرکے آگرہ جیل میں نظر بند کر دیا گیا تھا، اور اب جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، نے مسئلہ کشمیر کی طوالت کے لیے امریکہ کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا 1962کی ہند-چین جنگ کے وقت امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ہی پاکستانی صدر ایوب خان کو غیر جانبدار رہنے پر مجبور کیا اور اس کے عوض کشمیر پر پیش رفت کی یقین دہائی کروائی۔
جنگ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوئے، مگر وہ وقت کا زیا ں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو وہ کسی ٹائم فریم کا پابند ہو اور نتیجہ خیز ہو اور اس کے لیے چین اور امریکہ کو بطور گارینٹیر مقرر کیا جانا چاہیے۔ لندن کے رائل یونائٹد سروسز انسٹی ٹیوٹ کے فیلو عمر کریم کے مطابق 1990کے بعد ہی پاکستانی جنریشن ہندوستان کو ایک جمہوری، لبرل اور سیکولر ملک کے بطور دیکھتی تھی اور اس سے خاصے متاثر بھی تھے۔ مگر 2014کے بعد ان کے سامنے ہندوستان کی بالکل ہی ایک نئی تصویر سامنے آئی ہے۔
انٹرنیشنل یوریشیا مومنٹ کے سربراہ اور جیو پالیٹیکا جریدہ کے مدیر اعلیٰ لیونڈ ساوین کا کہنا تھا کہ یوریشیا کیلئے فلسطین، کرد، مولدویا، یوکرین جیسے ایشو بھی عدم استحکام کا موجب بنے ہوئے ہیں، مگر کشمیر ان سب میں خطرناک اس لیے ہے کہ دیگر ملکوں کی نسبت ہندوستان کا رویہ خاصا جارحانہ ہے۔ انہوں نے ازبکستان میں ری پبلک آف کراکل پکستان کا حوالہ دےکر بتایا کہ ازبکستان کے اندر کیسے اس کا اپنا علیٰحدہ جھنڈہ اور آئین ہے اور اس علاقہ کے کلچر اور زبان کو تحفظ حاصل ہے۔
بشکک سے کرغیر تجزیہ کار ساریوف مارس کے مطابق افغانستان کی طرز پر چین اور روس کو کشمیر کے سلسلے میں بھی فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح قزاخستان کے تجزیہ کار ڈاورن ابین کا کہنا تھاکہ کشمیر کا جوہری خطرہ کے ساتھ براہراست لنک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ مغربی دنیا کو سول نیوکلیر توانائی کی ٹکنالوجی کے حوالے سے اپنی دوہری پالیسی ترک کردینی چاہئے اور دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کو یکساں طور پر یہ ٹکنالوجی فراہم کرنی چاہیے اور اس کے عوض دونوں ممالک کو مجبور کیا جائے کہ وہ جوہری ہتھیارو ں کو محدود رکھیں۔
امریکی مندوب ولسن سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا گو کہ امریکہ نے کشمیر کے حوالہ سے اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، مگر وہ اس کو حل کروانے کے لیےکوئی فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکہ ہندوستان کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر وہ صرف اسی صورت میں میدان میں آسکتا ہے اگر ہندوستان ، پاکستان یا اس کے زیر انتظام کشمیر پر فوج کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی صورت میں وہ موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
اختتامی کلمات میں ترکی میں کرغیزستان کی سفیر ڈاکٹر بخت گل کالامبکوف نے بتایا کہ کشمیر مسئلہ کے حل نہ ہونے سے خطے میں خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے اثرات صرف جنوبی ایشیاء خطے تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ وسطہ ایشائی خطہ پر بھی اس کے بھاری اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا خدشہ تھا کہ افغانستان کے بعد کشمیر دہشت گردوں کے لیےلاجسٹک بیس بن سکتا ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ مسئلہ کے حل کی صورت میں پورے خطے کو فائدہ ہوگا اور جیو اکنامکس روابط اور انسانی وسائل کو خطے کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ اس مسئلہ کو حل نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
کرغیز سفیر بخت گل کے مطابق کشمیرکے صدیوں سے وسطہ ایشیا کے ساتھ روابط رہے ہیں اور یہ جنوبی اور وسط ایشیا کی تہذیبوں کی ایک مجلس گاہ یا ملنے کی جگہ ہوتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جرمنی اور فرانس ایک ارتقائی عمل سے گزر نے کے بعد دوست بن سکتے ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان کو بھی اس عمل سے گزر کر مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔
کئی برس قبل لند ن میں برٹش لائبریری سے وابستہ فرانسس ووڈ نے آثار قدیمہ کے ماہر اور مؤرخ سر آریل سٹائن کے حوالہ سے کہا تھا کہ کشمیر وسطی ایشیا کا دروازہ ہوتا تھا اور اکثر مورخ یا سیاح کشمیر سے ہی وسطہ ایشیا کا رخ کرتے تھے۔میں نے خود بھی محسوس کیا ہے کہ وسطہ ایشیا میں داخل ہوتے ہی آپ کو تہذیبوں کا جو سنگم ملتا ہے اس میں کشمیر ہر طرف سے جھلکتا ہے۔
اس موضوع پر گزشتہ سو سالوں میں کوئی اچھی اور معتبر تحقیق نہیں ہوئی ہے مگر اب اس پر کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ایس سی او اور وسطہ ایشائی ممالک کو ساتھ لےکر کشمیر کو باقی دنیا سے دوبارہ منسلک کرنے کی ضرورت ہے، تبھی خطے کی جیو اکانومکس کا خواب پورا ہوسکے گا۔