محقق کشمیر الیسٹر لیمب: ایک عہد، تحقیق اور تاریخ کا اختتام

لسٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائےگا۔ اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ پرشوتم مہرا نے انہیں امتیازی اور عظیم مؤرخ قرار دیا ہے، جن کا کام مکمل اور محنت سے پر تھا۔مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق لیمب نے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیمب کا کام حقائق سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں۔

لسٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائےگا۔  اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ پرشوتم مہرا نے انہیں  امتیازی اور عظیم مؤرخ  قرار دیا ہے، جن کا کام مکمل اور محنت سے پر تھا۔مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق لیمب نے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیمب کا کام حقائق سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں۔

الیسٹر لیمب، فوٹو: دی ٹیلی گراف

الیسٹر لیمب، فوٹو: دی ٹیلی گراف

ستر دہائیاں گزرنے کے باوجود تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات پر متضاد دعووں کی ایک دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس قضیہ کے ابتدائی دور میں جن دو محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور جن کی کتابیں ابھی بھی حوالہ کے بطور استعمال کی جاتی ہیں، وہ سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرٹ کے والد اور اقوم متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے سفیر جوزف کاربل اور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب ہیں۔

سال 1954  میں شائع  اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر میں جوزف کاربل نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ قضیہ امن عالم کے لیے شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی اس کتاب میں اقوام متحدہ کی کاوشوں اور اس کی کوششوں میں آئی رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح الیسٹر لیمب کی 1966میں شائع دی کرائز ان کشمیر اور بعد میں تین اور کتابیں کشمیر اے ڈسپیوٹ لیگیسی ،برتھ آف اے ٹریجڈی کشمیر1947  اوران کمپلیٹ پارٹیشن میں کشمیر کے قضیہ اور 1947میں رونما ہونے والے واقعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

اس برطانوی مصنف کا حال ہی میں15مارچ کو لندن میں 93سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ گو کہ ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل تو نہیں ہوا، مگر 2010کے آس پاس جب ہندوستان کے مشہور محقق اور کالم نویس اور ایک طرح سے ہندوستان –پاکستان تعلقات پر حرف آخر  اے جی نورانی نے دو جلدوں پر مشتمل  اپنی کتاب دی کشمیر ڈسپیوٹ پر کام کرنا شروع کیا، تو مجھے بطور ریسرچر متعین کیا، جس کی وجہ سے فون، ای میل وغیر ہ پر الیسٹر لیمب سے وقتاً فوقتاً رابطہ کرنا پڑتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان–چین سرحدی تنازعہ کے سلسلے میں ہندوستان میں خاص طور پر معروضی اور غیر جانبدارانہ ریسرچ کا فقدان ہے۔

اس حوالے سے ا ن کا کہنا تھا کہ 1962 میں جب چین ہندوستان سرحدی تنازعہ زور پکڑ رہا تھا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے، تو لند میں پبلک ریکارڈ آفس اور انڈیا آفس لائبریری میں برطانوی آرکائیوز میں ان کو متعدد ایسی دستاویزات ملی جو ہندوستانی وزارت خارجہ کے دعووں کی نفی کرتے تھے۔ ان کو لگا شاید ہندوستانی حکومت کی نگا ہ میں یہ دستاویزات نہیں آئی ہوں گی۔

انہوں نے لند ن میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات کرکے ان کو صورت حال سے آگاہی کرائی اور بعد میں ہندوستانی حکومت کو بھی یہ دستاویزات بھیجیں۔ مگر وہ بعد میں اس نتیجے پر پہنچےکہ ہندوستانی حکومت کو ان اصل دستاویزات کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور و ہ تحریف شدہ دستاویزات پر چین کے خلاف اپنا کیس بنا رہے ہیں۔

اے جی نورانی نے بھی بعد میں اپنی کتاب انڈیا چائنا باؤنڈری پرابلم میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کھڑا کرنے کے لیے تمام پرانےدستاویزاور نقشوں کو تلف کرکے نئے دستاویز اور نئے نقشے بنانے کا حکم صادرکردیا تھا۔ اس حوالے سے سترہ صفحات پر مشتمل ایک کلاسیفائڈ میمورنڈم وزارتوں میں تقسیم کیا گیاتھا۔

 الیسٹر لیمب ایک برطانوی سفارت کار کے ہاں 1930 کو چین میں ان کی پوسٹنگ کے دوران پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایلیٹ پبلک اسکول ہیرو میں تعلیم حاصل کی، جہاں تقریباً 40 سال قبل جواہر لعل نہرو بھی تعلیم حاصل کر چکے تھے، اور پھر کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔

ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کی سرحدوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ حد بندی لائن پر تھا۔ 1960 کی دہائی کے بیشتر عرصے تک، لیمب نے ملایا یونیورسٹی اور بعد میں آسٹریلیا اور گھانا میں پڑھایا۔ اس دوران انہوں نے کشمیر کی تاریخ پر اپنی پہلی کتاب مکمل کی۔ 1990 کی دہائی میں انہوں نے کشمیر کی 20 ویں صدی کی تاریخ اور خاص طور پر الحاق کے بحران کے بارے میں یکے بعد دیگرے تین مزید تفصیلی کتابیں شائع کیں۔

لیمب کو تنازعہ کشمیر کی قانونی اور سفارتی تاریخ کے ماہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ عام تاثر ہے کہ اگست 1947کو جب برٹش انڈیا دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا تو جموں کشمیر کے اُس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان  یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں تاخیر کی۔

بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں جب پونچھ اور دوسرے خطوں میں مہاراجہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پاکستان کے صوبہ سرحد سے مسلح قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے تو مہاراجہ نے ہندوستان سے فوجی امداد طلب کی۔چنانچہ 27 اکتوبر کو انڈین آرمی کشمیر پہنچی جس کے عوض مہاراجہ نے جموں کشمیر کا مشروط الحاق ہندوستان کے ساتھ کیا۔ لیکن  لیمب اس تھیوری سے متفق نہیں ہیں۔

 چند سال قبل جواہر لال نہرو اور اندارا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب نے بھی اس تھیوری کی ہوا نکال دی ہے۔ جی پارتھاسارتھی کے صاحبزادے اشوک پارتھا سارتھی، جو خود بھی ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں نے اس کتاب جس کا ٹائٹل  جی پی: 1915-1995 ہے کو ترتیب دیا ہے۔

ان کے مطابق مطابق قبائلی حملہ سے ایک ماہ قبل یعنی 23ستمبر 1947 کو ہی کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ مہاراجہ کے تذبذب کو ختم کرنے کے لیے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر، جو جی پارتھا سارتھی کے والد تھے کو ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا گیا تھا۔

پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا او راس دوران وہ مہاراجہ کو قائل کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجہ کے  ان کا مستقبل ہندوستان  میں ہی محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیر اعظم نے برجستہ کہا: ‘مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لےکر ہی آؤ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے۔’

گوپال سوامی آئینگر اس سے قبل کشمیر کے وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے۔ اس  کے تحت ہندوستانی حکومت نے پہلے ہی 12سے17اکتوبر1947کے درمیان آرمی کی 50ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے 4کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے  کشمیر بھیج دیے تھے۔جنہوں نے سرینگر ہوائی اڈے کو گھیرے میں لے کر رکھاہوا تھا۔

 لیمب نے بھی اپنی کتاب برتھ آف اے ٹریجڈی کشمیر1947کے چھٹے باب میں دستاویز الحاق پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کیونکہ نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے اس کو وزرات داخلہ کی جانب سے 1948  میں شائع وائٹ پپر ان اسٹیٹس میں شامل نہیں کیا تھا۔

Alastair-Lamb-covers-1200x600

نہ ہی یہ ان دستاویزات میں شامل تھا جو حکومت نے اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے تھے۔ محققین کو بھی  اس تک رسائی نہیں دی تھی۔ سال 2005میں جب ہندوستان میں معلومات کے حق کا قانون پاس ہوا، تو اس کا استعمال کرکے میں نے اس دستاویز الحاق اور سپریم کورٹ رجسٹری سے جے کے ایل ایف کے سربراہ مقبول بٹ کی کیس فائل کا مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، جو قومی سلامتی کا حوالہ دےکر خارج کی گئی۔

 وی پی مینن،جو ہندوستانی حکومت کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اورجن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط حاصل کیے،اپنی کتاب انٹیگریشن آف اسٹیٹ میں رقمطراز ہیں کہ وہ اس دن یعنی26اکتوبر کو دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آئے اور جموں میں دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط لیے اور واپس دہلی چلے گئے۔

مگر لیمب کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ26اکتوبر کی صبح ہی مہاراجہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوا اور جموں سرینگر شاہراہ،جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین،جنہوں نے مہاراجہ  کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجہ کے لیے شام7بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں ہوائی اڈے  پر شبانہ پرواز بھرنے اور اترنے کی سہولیت میسر نہ تھی تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص دہلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجہ کے دستخط لےکر رات کو ہی واپس دہلی چلاجائے۔

ایک طرح سے انہوں نے مینن کے دعوے کی ہوا ہی نکال دی تھی۔

اتنا ہی نہیں،برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India office recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے ہندوستان،الیگزنڈرا سائمن 26اکتوبرکو دلی میں مینن سے ملے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ27اکتوبر کو جموں جارہے ہیں، یعنی ہندوستانی فوج کی لینڈنگ کے بعد دستاویز الحاق پر دستخط کروائے جا رہے تھے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پہلے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کو ایسے فوجی امداد کی یقین دہائی کرائی تھی۔

ہندوستانی حکومت کی طرف سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر دستاویز الحاق کی اصل کاپی کو خفیہ رکھنے سے لیمب کی اس دستاویز کی عدم موجودگی کی تھیوری کو تقویت ملتی تھی۔ بی بی سی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف اینڈریو وائٹ ہیڈ نے بھی کئی بار اس دستاویز کو دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔

  مجھے یاد ہے کہ دہلی میں نیشنل آرکائیوز کے تہہ خانہ کے ایک کونے کی الماری میں بقیہ تمام ریاستوں کے دستاویز الحاق عوام اور محققین کے مطالعہ کے لیے رکھے ہوئے تھے اور ان میں بس کشمیر کی دستاویز غائب تھی۔ 2010میں جب معروف ماہر تعلیم اور سابق وائس چانسلر اور مؤرخ مشیر الحسن کو نیشنل آرکائیوز کا سربراہ بنایا گیا، تو نورانی صاحب کی ایما پر اپنے دفتر میں انہوں نے مجھے اس دستاویز الحاق کا مطالعہ کرنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کی کاپی یا فوٹو کھنچنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی۔

آخر ہندوستانی حکومت اس کو کیوں خفیہ رکھنا چاہتی تھی،و ہ خود بھی اس پر حیران و پریشان تھے۔ 2016میں تاہم  رائٹ ٹو انفارمیشن مہم چلانے والے کارکن وینکٹیش نائک نے اس دستاویز تک باقاعدہ رسائی حاصل کی۔ دستاویز کے آخر میں گورنر جنرل کے دستخط سے قبل ٹائپ کیا ہوا اگست کاٹ کر ہاتھ سے سبز روشنائی سے اکتوبر کیا گیا ہے۔ ان کے دستخط بھی سبز روشنائی میں ہیں۔ مگر دستاویز کے اندر نیلی روشنائی میں خالی جگہ کو پر کرکے اندر مہندر راجیشور شری ہری سنگھ والیہ جموں و کشمیر لکھا گیا ہے اور ٹائپ شدہ 26اگست کاٹ کر اکتوبر کیا گیا ہے۔

اس کی ایک ہی توضیح ہوسکتی ہے کہ شاید گوپال سوامی آئینگر نے ستمبر میں ہی مہاراجہ سے دستاویز پر دستخط حاصل کیے ہوں گے، باقی اکتوبر میں گورنر جنرل سے دستخط حاصل کیے گئے۔ یعنی یہ دستاویز پہلے ہی شاید دہلی میں موجود تھی۔

خیر تحقیق میں ان چند لغزشات کے باوجود السٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائےگا۔  اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ پرشوتم مہرا نے انہیں  امتیازی اور عظیم مؤرخ قرار دیا ہے، جن کا کام مکمل اور محنت سے پر تھا۔مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق لیمب نے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیمب کا کام حقائق سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں۔

لیوراس ایچ منرو کا کہنا ہے کہ لیمب نے کشمیر کی مستند تاریخ لکھی ہے۔ منرو نے لکھا ہے کہ لیمب کشمیر کو پیچیدگیوں کے گرداب میں ڈالنے کے لیے اپنے ہی ہم وطن ماؤنٹ بیٹن کو بھی مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ وکٹر کیرن کے مطابق لیمب جنوبی ایشیا  پر ایک  اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے۔

مؤرخ ہیو ٹنکر نوٹس کا کہنا ہے گو کہ  لیمب نے کشمیر  کی سیاسی تاریخ کو ‘ماہرانہ انداز’ میں بیان کیا ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی محققین ان کی تھیوری کو قبول نہیں کریں گے، جو  کشمیر کو  سیکولرازم کے امتحان کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مؤرخ سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے کہ یہ دریافت لیمب کے ہی سر جاتی ہے کہ کشمیر کے الحاق کے معاہدے پر  27 اکتوبر 1947 کو ہندوستانی فوجوں کے اترنے کے بعد ہی دستخط ہوئے تھے۔

خیر یہ پوری داستان اور تھیوریز کا بس اب ایک اکیڈمک ویلیو  ہی ہے۔  جس طرح جوزف کاربل نے 1954میں کشمیر کو عالم امن کے لیے ایک خطرہ بتایا تھا، و ہ خطرہ اور عوامل ابھی بھی برقرار ہیں اور ان میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے۔کیونکہ اس خطے کے تین ممالک ہندوستان،پاکستان اور چین جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی کشیدگی کی صورت میں پورا خطہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس مسئلہ کا فریقین کی مرضی اور رضامندی کے ساتھ پر امن طور پر کوئی حل نکالا جاتا، تاکہ امن و امان کی راہیں نکالی جاتیں اور یہ ممالک غربت اور معاشی صورت حال پر توجہ دےکر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوجاتے اور کشمیر کو وسط ایشیاء کے ساتھ روابط کا ایک ذریعہ بناتے۔

بقول لیمب اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ کشمیر پر ایک باخبر بحث ہو۔ اپنی کتاب ان کمپلیٹ پارٹیشن کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک کا ہر ایک نکتے پر باقی سب کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پربحث کرکے ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

ان کے مطابق ان کی تحقیق کا مقصد کشمیر پر کوئی پتھر کی لکیر کھنچنا نہیں ہے، بلکہ تاریخی اور آرکائیول شوا ہد کو سامنے لاکر ان پر بحث کروانا ہے۔ اس ایشو پر ایک کھلے ذہن کے ساتھ ایک معروضی بحث و مباحثہ کروانا یقینا مؤرخ کشمیر السٹر لیمب کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔