اکبر الہ آبادی کے ذہنی فکری تضادات اور لسانی اجتہادات

کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔

کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔

فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس

فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سید اکبرحسین ولد سید تفضل حسین المعروف بہ اکبرالہ آبادی(16/نومبر1846–9/ستمبر 1921) شاعر تھے۔ عظیم تھے یا نہیں، اس کا فیصلہ صرف وہی قارئین، ناقدین کر سکتے ہیں جنہوں نے کلام اکبر کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہو اور ان کی شاعری کو صحیح سیاق و سباق میں سمجھا بھی ہو۔

عظیم ہونا یا نہ ہونا اب زیادہ معنی نہیں رکھتا کہ ہماری تنقید نے معیار عظمت کے تعین کے بغیر اس قدر  عظمتیں تقسیم کی ہیں کہ عظمت اپنی معنویت کھو بیٹھی ہے۔ عظمت کا زمانی عرصہ بھی مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ زمان ومکاں کے اعتبار سے بھی عظمتوں کی درجہ بندی ہوتی رہی ہے۔

پہلے تمسخر، تخفیف  قدرو تنقیص ہنر اور اس کے بعد تعظیم و تکریم کی بھی روش عام رہی ہے۔نظیر اکبر آبادی کی مثال سامنے ہے۔ تنقیدی تعصبات اور تحفظات کے زیر اثر بھی ادب میں عظیم وکریم، عقیم وسقیم کا طرطبائی تماشہ ہوتا رہا ہے۔اور تخلیق کاروں کی تقدیریں اور تصویریں  بدلتی رہی ہیں۔

ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اکبر کو اردو کے پانچ یا چھ سب سے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے مگر انہیں آل احمد سرور جیسی جید شخصیت سے یہ شکایت رہی کہ:

اکبر کے لئے تاحیات جذبہ تحسین رکھنے کے باوجود سرور صاحب بھی خود کو اس بات پر تیار نہ کر سکے کہ اردو کے عظیم ترین شعرا میں ان کے لئے جگہ استوار کی جائے۔

اکبر کی شاعرانہ عظمت کے تعلق سے ناقدین خواہ کتنے ہی خیموں اور خانوں میں بٹ جائیں اس سے  اکبر کے فضل و کمال پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے کیوں کہ اکبر الہ آبادی ہمارے اجتماعی حافظے میں محفوظ ہیں اور ان کے بہت سے اشعار بطور حوالہ ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ اکبر کی اپنی شاعرانہ قوت ناقدوں کی عطاکردہ عظمت سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

شاعری کو یوں ہی زندگی نہیں ملتی جب تک کہ اس میں زندہ لہو کی گردشیں اور فردا کی آہٹیں نہ ہوں۔ کسی کسی کو صرف ایک شعر نے زندہ رکھا ہوا ہے جیسے رام نرائن موزوں  کا یہ شعر:

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

 مگر اکبر الہ آبادی کو زندہ رکھنے کے لئے درجنوں اشعار ہیں جو نقطہ حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہم آہ بھی کر تے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

ہم کیا کہیں احباب کیا کارنمایاں کرگئے

بی اے کیا ڈپٹی بنے پنشن ملی پھر مر گئے

بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ

کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا

بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضموں لکھا

ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جو موقع محل کی مناسبت سے  تقریری و تحریری حوالوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

اسی کے متوازی لسان العصر اکبر کے  ایسے اشعاراور افکار بھی ہیں جن پر وقت نے خط تنسیخ کھینچ دیاہے۔ آج کے ڈیجیٹل ایج اور سائنسی عہد میں اکبر کے ان شعروں پر بھلا کون صاد کرے گا۔

برق کے لمپ سے آنکھوں کو بچائے اللہ

روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

دل میں اب نور خدا کے دن گئے

ہڈیوں میں فاسفورس دیکھئے

دو حرف میں ہے دفتر تجھ کو اگر نظر ہے

مذہب مرید کن ہے سائنس میں اگر ہے

مبارک اُن کو جو حالات طبقاتِ زمیں سمجھے

پہنچ وہ بھی گئے زیرِ زمیں جو کچھ نہیں سمجھے

ہسٹری کی کیا ضرورت دین کی تعلیم کو

انجم و شمس و قمر کافی تھے ابراہیم کو

جہاں چلتا نہ تھا کچھ زور، واں اب ریل چلتی ہے

میسر خاکساروں کو بھی اب تختِ سلیماں ہے

امید چشم مروت کہاں رہی باقی

ذریعہ باتوں کا جو صرف ٹیلی فون ہوا

کیا عجب ہوگئے مجھے سے مرے دم ساز جدا

دورِ فونو میں گلے سے ہوئی آواز جدا

 اکبر اپنے جن تخیلات و تصورات میں مضمحل اور مرحوم سے لگتے ہیں وہاں بھی وہ اپنے اشعار کی لفظیات،   ڈکشن اور لسانی تشکیلات میں زندہ رہیں گے۔ ان کی شعری صنعت، رعایت لفظی اور کلام کی کنائیت انہیں زندہ وتابندہ رکھے گی، یہی اکبر کا کمال ہنر ہے۔ یہی وہ اکبری آرٹ ہے جس کی کوئی کاٹ نہیں۔ اکبر کی کوڈ مکسنگ کا تو جواب ہی نہیں — حضرت شاہد احمد دہلوی نے بجا فرمایا ہے کہ:

 ”اکبر نے الفاظ کو خاصی جدت اور خوش اسلوبی سے استعمال کیا۔ انگریزی الفاظ کے استعمال میں انہیں خاص کمال حاصل تھا۔“کوڈ مکسنگ یعنی اردو میں انگریزی الفاظ کے تداخل کی یہ مثالیں دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے ایک دوسری لسانی اکائی کے الفاظ کا خوبصورت اور موزوں استعمال کیا ہے۔ اکبر کے اشعار میں دخیل الفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے اس سے ان کی لسانی ترسیلی مہارت اور Linguistic Competence کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے Socio Psycholinguistics کے زاویے سے یہ اشعار بہت اہم ہیں:

شکر ادا کرنا ہے واجب ان کی طبع نیک کا

ہر ڈنر پر بھیجتے ہیں مجھ کو فوٹو کیک کا

ضعف سے رعشہ ہے یا غربی ہوا کا ہے اثر

ہینڈ کو میرے مرض لاحق ہوا ہے شیخ کا

رہ گیا دل ہی میں شوق سایہ الطاف

مجھ کو آنے کی اجازت دی نہیں بیڈ روم میں

کھانے کے کمرے سے رخصت کر دی بعد از ڈنر

تھیں فقط چھریاں اور کانٹے مرے مقصوم میں

جو پوچھا میں نے ہوں طرح ہپی

کہا اس مس نے میرے ساتھ میں پی

لینا تھا لغت سے اور ہی لفظ کوئی

مس کو جو  لیا تو مجھ سے مسٹیک ہوئی

دوپہر کو مرے گھر آئی مس رشک قمر

کہہ دیا میں نے کہ یہ نون کا مون اچھا ہے

ر ات نن کو آپریشن کی جو اس بت نے ٹھان لی

ہوگیا لاچار میں، آخر رضائی تان لی

یا امی ٹیشن کے صدقے چائے دودھ اور کھانڈ لے

یا ایجی ٹیشن کے ذریعے تو چلا جا مانڈ لے

فنی اعتبار سے اکبر الہ آبادی نے جمالیاتی معیار کا پورا پاس رکھا اور متحرک، سیال اور رواں لفظیات سے ان کی شاعری کا رشتہ تادم آخر برقرار رہا مگر افکار و اقدار کے باب میں وہ جمود و جلمود، اضمحلال و انحطاط کا شکار ہوتے گئے۔ ان کی شعری آواز ایک خاص عہد کی جذباتی اور جوشیلی فضا کی نذر ہوگئی۔ مذہبی ادعائیت اور تہذیبی نرگسیت کی وجہ سے ان کی شاعری حقیقت پسندی سے دور ہوتی گئی اور وقت نے ان پر رجعت پسند اور ماضی پرست کی مہر ثبت کردی۔ کیوں کہ اکبر نے جن تغیرات، ترقیات اور تکنیکی ایجادات کی شدت سے مخالفت کی تھی،اب  انسانی ارتقاء کا انحصار انہی پر ہے اور وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ اکبر کے بعض تصورات غیر حقیقت پسندانہ اور قدرے متعصبانہ اور معاندانہ تھے۔ممتاز ناقد محمد علی صدیقی نے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اکبر الہ آبادی اپنی جوانی کے زمانہ ہی سے کلبیت زدہ تھے اور حقائق کو اپنے تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے تھے کہ وہ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود حقیقت پسند نہیں ہوپائے۔‘(سرسید احمد خاں اور جدت پسندی)۔

اکبر الہ آبادی نے نو آبادیاتی نظام  اور برطانوی سیاست کی شدت سے  مخالفت کی جنھیں بہت سے لوگ   غیر منطقی اور غیر معروضی سمجھتے ہیں اکبر نے برطانیہ کے فیوض و برکات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا یہ بات بہت سے لوگوں کو آج کھٹکتی ہے۔ جانے کون سا فوبیا تھا کہ اکبر کو موٹر، ریل گاڑی، تار، انجن، ہوائی جہاز، بائیسکل، برقی لیمپ، گراموفون، ٹائپ اور پائپ سے وحشت ہوتی تھی اور ان اشیاء کو مشرقیت پر مغربی یلغار اور نوآبادیاتی سیاست کا ہتھکنڈہ سمجھتے تھے۔ اکبر جن سائنسی اور تکنیکی ایجادات کو لے کر اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار تھے، وقت نے وہ سارے اندیشے غلط ثابت کردیے۔ جس سائنس کو اکبر نے بمنزلہ کفر جانا آج پوری دنیا بشمول ملت اسلامیہ اسی کفر کی نعمت سے فیض یاب ہو رہی ہے اور مسلمانوں کے اندر ’کفران نعمت‘ کا احساسِ زیاں شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے کہ آخر اب وہ قوم جابر بن حیان اصمعی، الکندی، فرغانی، فارابی، زہراوی، ابن سینا، ابن الہیثم وغیرہ وغیرہ کا حوالہ دے کر سائنس سے رشتہ جوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے مگر حضرت اکبر الہ آبادی فرماتے ہیں کہ:

طبیعت تیری انجینئر کے آگے کیوں بدلتی ہے

یہ تیری سانس چلتی ہے تو کیا انجن سے چلتی ہے

نغمہ مرغِ  سحر سے نہیں انجن کو غرض

پیٹ انگاروں سے بھر دیجئے بھک بھک میں رہیں

اک دن وہ تھا کہ دب گئے تھے لوگ دین سے

اک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے

اکبر کے ناقدین انہیں نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت و مقاومت کی ایک علامت کے طو رپر پیش کرتے ہیں اور اسی کے ذیل میں سرسید کی جدید تعلیمی تحریک کی مخالفت بھی شامل ہے۔پردہ کی حمایت، انگریزی تعلیم اور تعلیم نسواں کی مخالفت کے حوالے سے مطالعات اکبر میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ کلام اکبر میں قومی کردار کی جستجو بھی کی جاتی رہی ہے۔ اکبر کی تمام جہتوں اور زاویوں پر مقالات بھی لکھے گئے ہیں۔ مگر کیا کلام اکبر سے ان تمام جہات اور زاویوں کی مکمل تائید و توثیق ہوتی ہے۔ یہ بڑا سوال ہے۔ اور اسی سوال سے یہ خیال جنم لیتا ہے کہ شاید یہ جز میں کل دیکھنے کی ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کلام اکبر کی کلیت بہت سے ناقدوں کے  مزعومات و مظنونات کو مسترد کرتی ہے۔ کیوں کہ اکبر کہیں اثبات تو کہیں نفی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اقرار و انکار کی ایک متضاد کیفیت ابھرتی ہے اور اکبر ایک عجب سی ذہنی کشمکش /تشکیک و تذبذب کے شکار نظر آتے ہیں اور ان کا کلام ان کے ذہنی و فکری تضادات و تناقضات سے معمور نظر آتا ہے۔

اسیم کاویانی جیسے محقق نے اپنی کتاب ”اکبر الہ آبادی اپنی شکست کی آواز“ میں مقتدر ناقدین کے مزعومات ومفروضات کو دلائل وشواہد کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے ’اکبر کی داخلی زندگی کی کشمکش، فکری انحطاط اور ان کی عملی زندگی کے تضادات کوقارئین کی عبرت اور بصیرت کے لیے پیش کیاہے‘۔یہی کتاب میرے اس عنوان کا محرک بنی اور انہی کے نکات واشارات سے میں نے بھرپور استفادہ کیا ہے۔انہوں نے شمس الرحمن فاروقی، فضیل جعفری اور اصغر عباس کی تحریروں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ان کی باتوں میں واقعی وزن ہے کیوں کہ کلام اکبر میں وہی ساری صورتیں نظر آتی ہیں جو اسیم کاویانی نے بیان کی ہیں۔

اکبر اپنی شاعری میں انگریز اور انگریزی کی مخالفت کرتے ہیں، پھر بھی انگریزوں کی ملازمت میں رہتے ہیں اور انگریزوں کا عطا کردہ خاں بہادر کا خطاب بھی واپس نہیں کرتے۔ انگریزی تعلیم کے سخت خلاف ہیں مگر اپنے نور نظر لخت جگر سید عشرت حسین کو تعلیم کے لئے لندن بھیجتے ہیں۔انگریزوں کی مذمت میں شعر کہتے ہیں اور ملکہ وکٹوریہ لارڈ کرزن اور مسٹر تھامس برن کی شان میں قصیدے تحریر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں:

رہے تخت برطانیہ برقرار

رہے ہند یوں ہی اطاعت شعار

بعد کچھ تو ہوگی لائڈ جارج میں

آج کل دنیا ہے اُن کے چارج میں

اور دوسری طرف مغربی تہذیب اور تعلیم کو یوں تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں:

چھوٹ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا

شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا

علم مغربی پڑھ کے ہوں گی ایسی خود سر بی بیاں

بی بیاں شوہر بنیں گی اور شوہر بی بیاں

حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی

اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے

نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے

ہماری اصطلاحوں سے زباں نہ آشنا ہوگی

لغات مغربی  بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے

تعلیم  جو ہمیں دی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط بازاری ہے

جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے

طفل سے کیا بو آئے ماں باپ کے اطوار کی

د ودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

انگریزوں کی مخالفت میں وہ سرسید احمد خان کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں پیرِ نیچر، تہذیب نو کا چندہ ماموں، نیچری خلیفہ کہتے ہیں۔

اسلام کی رونق کا کیاحال کہوں تم سے

کونسل میں بہت سید مسجد میں فقط جمن

نہیں ہے تمہیں کچھ بھی سید سے نسبت

تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں ہے

سمجھا ہے تم نے نیچر و تدبیر کو خدا

دل میں ذرا اثر نہ رہا لا الہ کا

شیطان نے دکھائے جمال عروس دہر

بندہ بنا دیا ہے تجھے حب وجاہ کا

 اور پھر سرسید احمد خاں کی حکیمانہ نظر اور سوزجگر کی ستائش بھی کرتے ہیں۔

صدمے اٹھائے رنج سہے گالیاں سنیں

لیکن نہ چھوڑا  قوم کے خادم نے اپنا کام

نیت جو تھی بخیر تو برکت خدا نے دی

کالج ہوا درست بصد شان و احترام

اور سرسید کی وفات پر یہ قطعہ بھی کہا:

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا

نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے کرنے والے میں

کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اکبر

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

سرسید نے جدید اور عصری تعلیم کی وکالت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ ہمارے دائیں ہاتھ میں قرآن ہوگا، بائیں ہاتھ میں سائنس اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج سر پر ہوگا۔ تو اکبر نے مغربی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے سرسید کی عصری تعلیم کو یوں مذاق اڑایا تھا:

علوم دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے

زباں تو صاف ہو جاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا

نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے

جنابِ ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب

یوں قتل سے بچوں کے  وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

سرسیدنشاۃ ثانیہ، تشکیل نو اور  مشرق و مغرب کے مابین آمیزش کے حامی تھے تو اکبر آویزش کے قائل۔ انہیں مغرب کی معاشرت، ثقافت اور سیاست سے نفور تھا۔اکبر نے تحقیر مغرب اور تقدیس مشرق میں اپنی توانائی صرف کردی اور یہ شعر بھی کہے:

مریدِ دہر نے وضع مغربی کرلی

نئے جنم کی تمنا میں خودکشی کرلی

واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں یہ مرشد نے

کردیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا

نظر ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر

گرا کے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر

مگر وقت نے ثابت کردیا کہ سرسید نے جو راہ چنی تھی وہی  سیدھی اور سچی راہ تھی۔ ورنہ مسلمان آزادی کے بعد بھی سائس اور خانسامانی کا ہی کام کرتے رہ جاتے اور ترقی کی تمام راہیں اُن کے لئے مسدود ہو جاتیں۔ اکبر نے جسے تخریب سمجھا تھا اُسی میں تعمیر کی صورت مضمر تھی۔ اسی فساد فکر میں قوم کی فلاح وبہبود تھی۔

ناقدوں نے اکبر کو حریت پسند اور ٹھیٹ قوم پرست، ہندو مسلم اتحاد کا حامی بھی قرار دیا اور ثبوت میں یہ شعر پیش کئے:

ہندو مسلم ایک ہیں دونوں

یعنی یہ دونوں ایشیائی ہیں

ہم وطن ہم زباں و ہم قسمت

کیوں نہ کہہ دوں کہ بھائی بھائی ہیں

قومی حالت میں ہندو اور تم ہو یکساں

کیا روک ہے کہ پھر ان کو بھائی نہ کہو

بے شک اس بات پر تعجب ہے بجا

گنگا سے پلو اور اس کو مائی نہ کہو

مگر کلام اکبر میں ہی ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے ان کی وطنیت اور قومیت کا تصور شک کے دائرے میں آجاتا ہے:

حکم انگلش کا ملک ہندو کا

اب خدا ہی ہے بھائی صلو کا

تاریخ تو خالد کی پڑھو رات کو گھر پر

اور دن میں کچہری میں دبو نیل کمل سے

کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے نوجوانوں کو تلقین کرتے ہوئے کہا تھا:

وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو

اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو

بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو

خواص خشک وتر سیکھو علوم بحر وبر سیکھو

اکبر الہ آبادی تعلیم نسواں کے خلاف تھے اور اُن کی آزادی کے بھی مخالف اس لئے اپنے اکثر اشعار میں انہوں نے تعلیم نسواں کی سخت مخالفت کی تھی۔ان کی  یہ عجب دقیانوسی اور رجعت پسندانہ سوچ تھی کہ وہ عورتوں کی تعلیم کو قحبہ خانہ کی سیڑھی سمجھتے تھے۔ اکبر نے تعلیم نسواں پر شدید طنز کرتے ہوئے یہ شعر کہے ہیں۔

کالج بنا عمارت فخرالنساء بنی

شکرِ خدا کہ مل گئے آخر بنا بنی

اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو ابھارا

اک پیر نے تعلیم سے لڑکی کو سنوارا

پتلون میں وہ تن گیا، یہ سائے میں پھیلی

پاجامہ غرض یہ ہے کہ دونوں نے اتارا

تعلیم کی خرابی سے ہو گئی بالآخر

شوہر پرست بیوی پبلک پسند لیڈی

ہمارے ملک میں ہونا ہے کیا تعلیم نسواں سے

بجز اس کے کہ باوا اور بھی گھبرائیں اماں سے

دیکھو بچشم غور ذرا رنڈیوں کو تم

تعلیم پا کے ہوگئی پردے کے وہ خلاف

پھر اپنے قول سے انحراف کرتے ہوئے اکبر یہ بھی کہتے ہیں:

تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے

لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے

حسن معاشرت میں سراسر فتور ہے

اور اس میں والدین کا بے شک قصور ہے

ان پر یہ فرض ہے کہ کریں کوئی بندوبست

چھوڑیں نہ لڑکیوں کو جہالت میں شاد ومست

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر

خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

اکبر نے صرف تعلیم نسواں ہی نہیں بلکہ پردے کے خلاف بھی اپنا پورا زور صرف کیاہے۔

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیویاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

نئے عنوان سے زینت دکھائیں کے حسین اپنی

نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں خم ہوں  گے

نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب رو صنم ہوں گے

جب کہ پردے کی یہ مخالفت بھی بے جا تھی کیوں کہ جس رواجی اور غیر شرعی پردے کی اکبر وکالت کر رہے تھے۔ اسے مولوی محب حسین نے ’معلم نسواں‘ میں حبس دوام سے تعبیر کیا ہے اور انہوں نے اپنے مجلہ میں یہ اشتہار بھی شائع کروایا تھا کہ: جو حضرات قرآن شریف اور احادیث مقدسہ سے یہ ثابت فرمائیں کہ نساء المسلمین کا موجودہ پردہ جائز ہے تو ان کو سو روپے بطور انعام دیئے جائیں گے۔ دراصل پردے کی آڑ میں عورتوں کونعمت خانہ اور خواب گاہ میں قید کرنے اور اُن کی تعلیم و ترقی کو پامال کرنے کی ایک جاگیردارانہ سازش تھی جس کا خطرناک انجام یہ ہوا کہ بہت سی عورتیں تپ دق جیسی خطرناک بیماری کا شکار ہوگئیں اور موت کے گھاٹ اترگئیں۔ پردہ اور تعلیم نسواں کی مخالفت کرنے والوں نے عورتوں کو چلمن میں قید رکھا اور چاند تک سفر کرنے سے باز رکھا مگر وقت نے ان کے حوصلوں کو اتنی اڑان دی کہ عورتوں نے چلمن سے چاند تک کا سفر طے کیا۔

اکبر الہ آبادی کی شاعری کا معاشرے پر کتنا منفی اور کتنا مثبت اثر پڑا یہ بھی بحث کا موضوع ہے۔ اکبر نے اپنی شاعری سے قوم کو گمراہ کیا یا صحیح راہ دکھائی یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ ویسے پیام اکبری کو نئی نسل نے مسترد کر دیا ہے۔خود اکبر کو بھی یہ احساس تھا اس لیے انھوں نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:

نہ حالی کی مناجاتوں کی پرواہ کی زمانے نے

نہ اکبر کی ظرافت سے رکے یاراں ِ خود آرا

 کلام اکبر کا کلی تناظر میں مطالعہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اُن کی شخصیت دولخت تھی اور اُن کے خیالات، جذبات اور احساسات میں فلکچویشن ہوتا رہتا تھا۔ اُن کی شاعری میں ایموشنل شفٹس کی صورتیں ہیں۔ اُن کی پوری شاعری اُن کی بدلتی جذباتی کیفیتوں کی عکاس ہے۔یہ ایک طرح سے سچویشنل یا ٹیمپرامینٹل شاعری ہے۔

میرے خیال میں کلام اکبر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ اکبر کن نفسیاتی، ذہنی عوارض کے شکار تھے اور کس جذباتی کیفیت میں انہوں نے شعر کہے ہیں۔ دراصل ان کے کلام کا تعلق شعر کہنے کے وقت کی جذباتی کیفیت اور حالات اور ماحول سے بہت گہرا ہے۔ اسی لئے ان کی شاعری میں تناقضات اور تضادات نظر آتے ہیں۔لگتا ہے کہ ان پر فی کل واد یہیمون کی کیفیت طاری رہتی تھی۔اُن کے کسی بھی خیال یا قول کو  قرار و استقرار نہیں اور اکبر نے خود بھی اشارہ کیا ہے کہ :

مذہب شاعروں کے نہ پوچھیں جنابِ شیخ

جس وقت جو خیال ہے مذہب بھی وہی ہے

اکبر کا کیش و مسلک کیا پوچھتی ہو مُنّی

شیعوں کے ساتھ شیعہ سنی کے ساتھ سنی

اکبر کے خیالات حالات اور ماحول کے اعتبار سے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے اُن کے یہاں استقرارِ فکر کا فقدان نظر آتا ہے۔ مگر ان کے فن اور تخیل میں اتنی روانی اور طغیانی ہے کہ فکر پیچھے رہ جاتی ہے اور اندازِ بیاں دل میں اترتا چلا جاتا ہے بقول اکبر:

بیاں ایسا کہ دل مانے زباں ایسی کہ سب سمجھیں

 تشبیہات واستعارات، اصطلاحات وتلمیحات کا اتنا خوبصورت استعمال بہت کم شاعروں کے یہاں ملتاہے۔ اسی لیے ماہر القادری جیسے ماہر لسان نے یہ اعتراف کیاکہ ’اکبر الہ آبادی نے اردو شاعری میں طرز نو ایجاد کی اکبر اپنے طرز خاص کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔‘

اکبر کا حقیقی جوہرتو طنزیہ اور مزاحیہ شاعری میں کھلتا ہے اُن کے طنزیہ مزاحیہ اشعار میں بے پناہ قوت و ندرت ہے اور یقینی طور پر اکبر نے طنز و مزاح کی شاعری کو اوجِ ثریا عطا کیا ہے۔اسی لئے انہیں شہنشاہِ ظرافت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ شاہدِ معنی کو انہوں نے ظرافت کا لحاف اڑھا کر بہت کچھ کہہ دیا ہے نو آبادیاتی بیانیہ یا ڈسکورس کے خلاف اکبر کے احتجاجی بیانیے اور Counter Narratives کو صحیح تناظر میں سمجھنے اور نئی صورت میں تفہیم وتعبیر کی ضرورت ہے۔ان کے مزاحیہ اشعار بہت  معنیٰ خیز، فکر انگیزاور کثیر الابعاد ہوتے ہیں انہی کا ایک شعر ہے جو انہوں  نے کلکتہ کی طوائف گوہر جان کو لکھ کر دیا تھا:

خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

اکبر الہ آبادی کے بارے میں اکثر ناقدین کی شکایت ہے کہ اُن کے کلام کا سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا گیا اور اُن پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا اُن کا حق تھا۔ مگر ڈاکٹر ذاکر حسین خدا بخش لائبریری، پٹنہ کی ”کتابیات اکبر“ سے پتہ چلتا ہے کہ تنقیدی مطالعات کے باب میں اکبر خوش نصیب تھے کہ انہیں اپنے حصے کی محبت، مقبولیت اور شہرت بھی ملی جبکہ بہت سے ایسے بدنصیب بھی ہیں جودوتین مضامین سے بھی محروم ہیں۔

اکبر سے متعلق تقریباً اکسٹھ کتابیں، مضامین کے چار پانچ مجموعے اور ان کی سوانح شخصیت، سنجیدہ، ظریفانہ شاعری، غزل گوئی، نظم نگاری، رباعی گوئی اور افکار پر سیکڑوں مضامین ہیں اور کئی رسائل کے خصوصی شمارے بھی شائع ہوچکے ہیں۔

اب آخر میں اختتامیہ کے طور پر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ  میر ونظیر،غالب واقبال بشمول اکبر پر نئے زاویوں کی جستجو کے امکانات تقریباً معدوم ہوگئے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ ان لعل وگہر کو تلاش کیا جائے جن کے نام اور کلام صرف قدیم، نایاب اور بوسیدہ مخطوطوں میں ہی محفوظ ہیں۔یاد رکھئے کہ اردو زبان وادب کی دو ڈھائی سو سالہ عمارت صرف چند اینٹوں پر کھڑی نہیں کی گئی ہے بلکہ بہت سی اور اینٹیں بھی ہیں جن سے ایوان اردو کو استحکام نصیب ہوا ہے۔ اب ہمارے ادب آسمان کو کچھ اور شبد ستاروں کی ضرورت ہے تاکہ ادب کی تابناگی اور تابندگی قائم و دائم  رہے۔