جب حکومتیں یہ دکھاوا کرتی ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر ہو رہی غیر قانونی ہیکنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہیں، تب وہ حقیقت میں جمہوریت کی ہیکنگ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے ایک اینٹی وائرس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں مسلسل بولتے رہنا ہوگا اور اپنی آواز سرکاروں کو سنانی ہوگی۔
اس کہانی کی ابتدااس وقت ہوئی جب فاربڈین اسٹوریز اورایمنسٹی ٹکنالوجی لیب کو ایک ڈیٹابیس میں50000 فون نمبر حاصل ہوئے۔انہوں نے ناموں کی تصدیق اوراگرممکن ہو تو فون میں پیگاسس کی موجودگی کی تفتیش کے لیےمشتبہ فون کےسسٹم امیجز بھیجنے کے لیے 16ممالک میں میڈیا سے رابطہ کیا۔ (ایمنسٹی لیب نے یہاں اس کے تکنیکی پہلو کو سمجھایا ہے۔)
عام طور پر جوسمجھ میں آنے والی بات بھی ہےکہ زیادہ تر شہری ایسے کسی ٹیسٹ کے لیے خود سپردگی کرتے ہوئے ہچکچائیں گے، جیسا کہ میں تھا۔ لیکن ایک بڑے مفادکے لیے میرے شریک کار سدھارتھ وردراجن اور میں نے اپنے فون کے ڈیجیٹل امیجزٹیسٹ کے لیے بھیج دیے۔
اس کےبعدجیسا کہ کہا جاتا ہے جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ میڈیااہلکاروں کو، جبکہ تاناشاہی سرکاروں کو انہیں چپ کرا سکنے کا گمان ہو گیا ہے، ایک غیرمعمولی بوجھ اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ترقی یافتہ ٹکنالوجی نے اعلیٰ سطح کی نگرانی کو ممکن بنا دیا ہے۔
لیکن ابھی جبکہ ہیومن رائٹس گروپ خود کو سرولانس/جاسوسی کا پتہ لگانے، اسے سمجھنے اور اسے روکنے کےہتھیاروں سے خود کو لیس کر رہے ہیں، ہمارے پاس ایک موقع ہے۔سرکاریں بغیرمزاحمت کے لوگوں کی جاسوسی کرنا جاری نہیں رکھ سکتی ہیں۔ ہمیں اس فہرست میں آئے مختلف ممالک کےشہریوں کو اس عمل میں مدد کرنے اور اپنے فون کی جانچ کروانے کے لیے آگے آنے کے لیے کہنا چاہیے۔
اصل میں پیگاسس کی شناخت کرنے کےلیے کی جانے والی جانچ، غیر قانونی جاسوسی کا پتہ لگانے کے لیے کی جانے والی اسکیننگ کے عمل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔اس عمل کو لیک ہوئی فہرست میں آئے اور زیادہ لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔ یہ عمل تبھی مکمل ہو سکتا ہے، جب لوگ اپنے ڈیٹا کے تجزیے کی اجازت دیں گے۔ اور ایک مقام پر اس کوہمہ گیرمشق بننا ہوگا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کو امید ہے کہ موبائل توثیق ٹول کٹ کے جاری ہونے کے کے بعد ایسا ہو سکےگا۔
پیرس واقع غیرمنافع بخش نیوز پلیٹ فارم فاربڈین اسٹوریز نے سرحدوں کے آر پار تفتیشی صحافیوں کے جوکھم کو کم کرنے کے لیے مختلف ممالک کے شریک کارمیڈیا سے محفوظ کمیونی کیشن پلیٹ فارمز کی معرفت رابطہ کیا۔شہریوں کے لیے ایمنسٹی ٹکنالوجی لیب اور ٹورنٹو کے سٹیزن لیب، جس کی کاوشوں نے پرائیویسی کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے میں مدد کی ہے، کے ذریعے اپنائے گئے عمل اور طریقوں سے خود کو متعارف کرانا اہم ہے۔
شاید اسے ایک مسلسل چلنے والے مشق میں تبدیل کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ دنیا بھر کی سرکاریں پیگاسس جیسے اسپائی ویئر کے غیر قانونی استعمالوں کو لےکر انکار کرنے کی حالت میں رہتی ہیں۔
اسرائیلی این ایس اوگروپ نے عوامی طور پر اور باربار یہ کہا ہے کہ یہ صرف معزز سرکاروں کو ہی پیگاسس اسپائی ویئر فروخت کرتا ہے اور ان سے اس کا استعمال بالخصوص قومی سلامتی اورمجرمانہ جانچ کے لیے ہی کیے جانے کی امید کرتا ہے۔ ایسے میں کچھ سرکاروں کی جانب سے کیے جا رہے اس کےتجاوزات اور نشانے کو بدل کر اس کا استعمال اپنے شہریوں کی جاسوسی کرنے کے لیے کرنے کو اجاگر کرنا اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔
سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر کیوں آئینی اتھارٹی، ججوں اورصحافیوں کو جاسوسی کے ممکنہ امیدوار کے طور پر منتخب کیا جا رہا ہے؟ این ایس او کا کہنا ہے کہ یہ صرف سرکاروں کو ہی اپنے سافٹ ویئر کی فراہمی کرتا ہے اور اس کے استعمال میں اس کا کوئی رول نہیں ہے۔
فون نمبروں کی لیک ہوئی لسٹ کے بعد یہ پوچھنا جائز ہے کہ آخر این ایس او اور اس کے اسپائی ویئر کی خریدار سرکاروں کے بیچ ‘ان کےرول کا بٹوارہ’اصل میں کس طرح سے کیا گیا ہے؟ (ہندوستان میں دی وائر کے ذریعےکیے گئے اس کے سائنسی جانچ کے بارے میں اور جاننے کے لیےیہاں دیکھیں۔)
ہمیں معلوم تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت اور وہاٹس ایپ کے بیچ 2019 میں ایک خط وکتابت ہوئی تھی، جب وہاٹس ایپ نے پہلی بار پیگاسس کے ذریعےپرائیویسی میں دراندازی کی تصدیق کی تھی۔ وہاٹس ایپ نے کہا کہ اس نے سرکار کو نشانہ بنائے گئے 121 فون کے بارے میں مطلع کیا۔
سرکار نے پہلے تو اسے یہ کہتے ہوئے ٹالنے کی کوشش کی کہ وہاٹس ایپ نے اسےہندوستانی سماجی کارکنوں، وکیلوں اور صحافیوں کی کسی طرح کی پرائیویسی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جانکاری نہیں دی ہے۔ وہاٹس ایپ نے بہت صاف لفظوں میں کہا کہ اس نے مئی اور ستمبر، 2019 میں سرکار کو دو بار خبردار کیا تھا۔
آئی ٹی کی وزارت کے ایک نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وہاٹس ایپ نے مئی اور ستمبر 2019 میں دائر کیے گئے دونوں حساس نوٹوں کو منسلک کیا۔سرکار نے آخرکار پیگاسس کے ذریعے121 ہندوستانیوں کو نشانہ بنائے جانے کو لےکر وہاٹس ایپ کی طرف سے ستمبر میں دی گئی جانکاری موصول ہونے کی تصدیق کی۔ لیکن اکھڑ پن کے ساتھ جیسا کہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا، وزارت نے یہ دعویٰ کیا یہ چٹھی ابھی بھی کافی مبہم ہونےکی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بجانے والی نہیں ہے۔
ہندوستان میں خطرے کی پہلی گھنٹی31 اکتوبر2019 کو بجی، لیکن اس کا نتیجہ صفر رہا۔ کوئی جانچ نہیں ہوئی اور سرکار بے حس بیٹھی رہی۔ اسے شایدیہ امید تھی کہ کچھ دنوں بعد یہ معاملہ خود بخود رفع دفع ہو جائےگا۔اصل میں اس نے آگے بڑھتے ہوئے دسمبر، 2019 میں ڈیجیٹل کمیونی کیشن پر پوری طرح سے کنٹرول کرنے کی منشا سےسوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دائرے میں لانے والے بے حد جارحانہ اور پابندی عائد کرنے والا آئی ٹی گائیڈ لائن کاایک مسودہ تیار کیا۔
دو سال بعد ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں اور ابھی کئی باتوں کا اجاگر ہونا باقی ہے۔
جب سرکاریں یہ دکھاوا کرتی ہیں کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہی غیر قانونی ہیکنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہیں، تو وہ اصل میں جمہوریت کی ہیکنگ کر رہی ہوتی ہیں۔ اسے روکنے کے لیے ایک اینٹی وائرس کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں لگاتار بولتے رہنا ہوگا اور اپنی آواز سرکاروں کو سنانی ہوگی۔
چپ ہونے کا مطلب ان سب میں شامل ہونا ہے، جمہوریت کی اس پامالی میں اپنی رضامندی دیناہے۔ یہ ملک کے خلاف حکمرانوں کے ذریعے کیا گیا جرم ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)