حکومت نے تمام فون کمپنیوں کو ہر نئے فون میں سرکاری ’سنچار ساتھی‘ ایپ انسٹال کرنے کو کہا

سرکارنے تمام نئے اسمارٹ فون میں ان-انسٹال نہ کیے جا سکنے والے'سنچار ساتھی' ایپ کولازمی طور پر پری-انسٹال کرنے کی ہدایت دی ہے، جس نےپرائیویسی کے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ ماہرین اور اپوزیشن نے اسے شہریوں پر نظر رکھنے کا حربہ بتایا ہے اور اس کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، ٹیلی کام کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا نے کہا ہے کہ 'سنچار ساتھی ایپ لازمی نہیں ہے، اسے ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔'

سرکارنے تمام نئے اسمارٹ فون میں ان-انسٹال نہ کیے جا سکنے والے’سنچار ساتھی’ ایپ کولازمی طور پر پری-انسٹال کرنے کی ہدایت دی ہے، جس نےپرائیویسی کے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ ماہرین اور اپوزیشن نے اسے شہریوں پر نظر رکھنے کا حربہ بتایا ہے اور اس کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، ٹیلی کام کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا نے کہا ہے کہ ‘سنچار ساتھی ایپ لازمی نہیں ہے، اسے ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔’

Illustration: The Wire, with Canva.

نئی دہلی: مواصلات کی وزارت نے اسمارٹ فون کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام نئے فون میں سرکارکی ملکیت والے سائبر سکیورٹی ایپ ‘سنچار ساتھی’ کو پری-انسٹال کریں اور یہ بھی یقینی بنائیں کہ صارف اسے ہٹا نہ سکیں۔

رائٹرز کی جانب سےسب پہلے رپورٹ کیے گئے اس آرڈر نے رازداری (پرائیویسی)کے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔

بعد میں، جب سرکاری ہدایت منظر عام پر آئی، جسے صحافی نکھل پاہوا نے ایکس پر پوسٹ کرکے عام کیا، تو انکشاف ہوا کہ یہ اکتوبر 2025 میں گزشتہ سال کے ٹیلی کمیونی کیشن (ٹیلی کام سائبر سکیورٹی) رولز، 2024 میں کی گئی ترمیم کے تحت جاری کیا گیا  ہے۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق، موبائل ہینڈ سیٹ بنانے والی اور درآمد کرنے والی کمپنیوں کے پاس اس ہدایت پر عملدرآمد کے لیے 90 دن ہیں اور اپنی رپورٹ جمع کرانے کے لیے 120 دن ۔

لیکن اب ٹیلی کام کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا نے وضاحت کی ہے کہ ‘سنچار ساتھی ایپ لازمی نہیں ہے، اسے ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘اگر آپ کمیونی کیشن پارٹنر نہیں چاہتے ہیں، تو آپ اسے ڈیلیٹ کر سکتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر اختیاری ہے… یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس ایپ کو ہر کسی کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ اسے اپنے فون پر رکھنا ہے یا نہیں، یہ مکمل طور پر صارف پر منحصر ہے…’

بتادیں کہ حکومت نے محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن (ڈی او ٹی) کے ذریعے جنوری میں سنچار ساتھی ایپ لانچ کیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کا مقصد ‘ٹیلی کام وسائل کے غلط استعمال کو روکنا، سائبر فراڈ کو روکنا، اور ٹیلی کام سائبر سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔’

حکومت کے مطابق، یہ ایپ لوگوں کو ‘ موبائل فون  کاآئی ایم ای آئی نمبر درج کر کے اس کی صداقت کی تصدیق کرنے،فراڈکال/پیغامات کی رپورٹ کرنے ،  گمشدہ/چوری شدہ موبائل فون کی شکایت کرنے،اپنے نام پر موجود موبائل کنکشن کی تعداد چیک کرنے، اور بینکوں/مالیاتی اداروں کے قابل اعتماد رابطے کی تفصیلات فراہم کرنے’ کی سہولیات دیتی ہے۔

آئی ایم ای آئی یعنی بین انٹرنیشنل موبائل اکیوپمنٹ آئیڈنٹٹی کا ایک 15 ہندسوں کا منفرد کوڈ  ہوتاہے، جس کی مدد سے فون کمپنیاں اور موبائل نیٹ ورک کسی ڈیوائس کی شناخت اور تصدیق کر پاتے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ایپ کو پہلے سے انسٹال کرنے کی ہدایت اس لیے دی گئی ہے تاکہ ‘موبائل فون کی صداقت کی تصدیق کی جا سکے۔’

اسی مقصد کے لیےحکومت فون بنانے اور فروخت کرنے والی ان کمپنیوں کے لیے لازمی بناتی ہے کہ وہ؛

اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہندوستان میں استعمال کے لیے تیار کردہ یا درآمد کیے گئے تمام موبائل فون میں سنچار ساتھی ایپ پہلے سے انسٹال ہو۔

 اس بات کو یقینی بنائیں کہ انسٹال کیا گیا سنچار ساتھی ایپ فون یا ڈیوائس سیٹ اپ کے پہلے استعمال کے دوران واضح طور پر نظر آئے اور آسانی سے کھولاجا سکے، اور یہ کہ ایپ کی  کسی بھی سہولت  کوبند یا محدود نہ کیا جائے۔

جن موبائل فون کی مینوفیکچرنگ پہلے ہی  ہو چکی ہے اور جوسیلز چینلوں میں دستیاب ہیں، ان کے لیے مینوفیکچررز اور امپورٹرز کو سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کے ذریعے ایپ کو ان ڈیوائسز میں ڈال دیں۔

مخالفت

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد گزشتہ چند گھنٹوں میں کئی ٹیک ماہرین کھل کر اس طرح کی ایپ کو لازمی قرار دینے کے سنگین مضمرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

دی انڈیا کیبل نیوز لیٹر کے مطابق، پتن کا روس دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنے تمام شہریوں کے ذاتی موبائل فون میں اس درجے کی دخل اندازی کی کوشش کی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے مثال کے طور پر شمالی کوریا کا  بھی حوالہ  دیا ہے۔

پاہوا نے ایکس پر لکھا کہ سنچار ساتھی ایپ کو اس طرح ایمبیڈ کرنا کہ اسے ہٹایا نہیں جا سکے ‘آپ کے ڈیوائس پر سرکاری ٹریکر’ جیسا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا؛

‘اگر حکومت نے یہ کر لیا، تو آگے کیا ہوگا؟

کیا اگلا مرحلہ لازمی ڈیجیٹل آئی ڈی ایپ ہوگا؟

کیا ہر فون پرڈی جی یاترا کو زبردستی انسٹال کیا جائے گا؟

کیا  ایسا ایپ آئےگا جو وی پی این کو بلاک کر دے یا آپ کے ایپ اور براؤزر ہسٹری کو مانیٹر کرے؟

کیا کوئی ایسی ایپ ہوگا جو آپ کے پیغامات کی ایک کاپی حکومت کو ہر ماہ بھیجے؟’

کئی لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ حکومت جو ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے اس کے لیے کوئی مضبوط حفاظتی نظام موجود نہیں ہے۔ آنند شنکر نامی ایک شخص نے کہا، ‘…بدقسمتی سے، ہندوستانی حکومت نے میرے ڈیٹا اور رازداری کی حفاظت میں مکمل لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بنیادی طور پر حکومت کی جانب سے شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی کے مخالف نہیں ہیں، لیکن سکیورٹی ضروری ہے۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی نے اس ایپ کو مسترد کر دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر کے سی وینوگوپال نے ایکس پر لکھا،’بگ بردر ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے یہ ہدایت مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔ رازداری کا حق، آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دی گئی زندگی اور آزادی کے بنیادی حق کا حصہ ہے۔’

انہوں نے اسے ایک ‘ڈسٹوپین ٹول’ قرار دیا،


ایک سرکاری ایپ جو فون پر پہلے سے انسٹال ہے اور اسے ہٹایا نہیں جا سکتا — یہ ہر ہندوستانی کی نگرانی کے لیے ایک ڈسٹوپین ہتھیار ہے۔ یہ شہریوں کی ہر سرگرمی، گفتگو اور فیصلے پر نظر رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ہندوستانی شہریوں کے آئینی حقوق پر جاری حملوں کے طویل کا نیا حصہ ہے، اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم اس ہدایت کو مسترد کرتے ہیں اور اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔


صحافی سہاسنی حیدر نے تبصرہ کیا،’یہاں تک کہ پیگاسس بھی اس سے کم خطرناک لگتا ہے۔’

معلوم ہو کہ پیگاسس ایک ملٹری گریڈ کا اسپائی ویئر ہے، جو کسی شخص کی جاسوسی اس کے فون کی مددکر سکتا ہے۔ سال 2021 میں دی وائر نے فرانسیسی میڈیا کی غیر منافع بخش تنظیم’فاربڈن اسٹوریز’کی قیادت میں ایک بین الاقوامی میڈیا گروپ کے تعاون سے انکشاف کیا تھا کہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، سرکار کے ناقدین اور کارکنوں کے فون نمبر پیگاسس کی ممکنہ نگرانی کی فہرست میں تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب کی جانب سے کیے گئے فرانزک ٹیسٹ میں متعدد صحافیوں اور کارکنوں کے فون پر پیگاسس کے فعال ہونے کے شواہد بھی ملے تھے۔

پیگاسس بنانے والی کمپنی این ایس او گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ ٹکنالوجی صرف ‘سرکاروں’ کو فروخت کرتی ہے۔ دریں اثنا، نریندر مودی حکومت نے ‘قومی سلامتی’ کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ وہ پیگاسس کا استعمال کرتی ہے یا نہیں۔

سی پی آئی (ایم) کے ایم پی جان برٹاس نے بھی پیگاسس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، ‘اب اگلا مرحلہ واضح ہے- 1.4 ارب لوگوں کو اینکل مانیٹر، کالر اور برین امپلانٹ لگانا۔ تب ہی حکومت کو صحیح معنوں میں پتہ چلے گا کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔’