دہلی فسادات معاملہ: عدالت نے کہا – قتل کے معاملوں میں وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں

دہلی کی عدالت نے 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے پانچ قتل کے مقدمات کے سلسلے میں یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہاٹس ایپ چیٹ کو 'معاون ثبوت' کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں۔

دہلی کی عدالت نے 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے پانچ قتل کے مقدمات کے سلسلے میں یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہاٹس ایپ چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایلن ایلن/فلکر سی سی BY 2.0)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں ہوسکتا اور کہا کہ اس طرح کے چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے قتل کے پانچ مقدمات کے سلسلے میں دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پانچوں معاملات میں 12 ملزمان ایک جیسے تھے اور استغاثہ نے ثبوت کے طور پر وہاٹس ایپ چیٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔

یہ پانچ معاملے ان نو معاملوں میں ہیں جو 9 لوگوں کے قتل کے لیے درج کیے گئے تھے، جن کی لاشیں فسادات کے ایک ہفتے بعد برآمد ہوئی تھیں۔ اب تک باقی چار میں سے ایک کیس میں بری  کر دیا گیا جبکہ باقی تین میں ٹرائل جاری ہے۔

تمام پانچوں معاملات میں دہلی پولیس نے بنیادی طور پر ’کٹر ہندو ایکتا‘ نامی وہاٹس ایپ گروپ کی چیٹ پر انحصار کیا تھا۔ کئی چارج شیٹ میں اس گروپ کا نام  شامل ہے۔

چارج شیٹ کے مطابق، ملزمین میں سےایک  لوکیش سولنکی نے مبینہ طور پر وہاٹس ایپ گروپ پر لکھا تھا: ’تمہارے بھائی نے رات 9 بجے 2 مسلمانوں  کو قتل کر دیا ہے۔ ‘

سولنکی سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں دیگر افراد کی گرفتاری عمل میں آئی، جن پر بالآخر نو قتل کا الزام عائد کیا گیا۔

کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل نے ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا، ‘اس طرح کی پوسٹ صرف گروپ کے دیگر ممبران کی نظر میں ہیرو بننے کی نیت سے پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔ یہ بغیرسچائی کے شیخی بگھاڑنے جیسا ہوسکتا ہے۔ اس لیے چیٹ پر بھروسہ کر کے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم نے… اصل میں دو مسلمان لوگوں کو قتل کیا تھا۔ ان چیٹس کو زیادہ سے زیادہ معاون ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔’

اس سے قبل 30 اپریل کو ایک اور فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ہاشم علی نامی شخص کے قتل سے متعلق مقدمے میں کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے اور اس کے بعد 12 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا، ‘وہ( وہاٹس ایپ چیٹ) اپنی خامیوں کی وجہ سے سزا کی واحد بنیاد نہیں بن سکتے اور انہیں آزاداورمعتبر شواہدسےحمایت یافتہ ہونا چاہیے۔’

اس میں یہ بھی کہا کہ ایک گواہ کے علاوہ کسی اور نے واقعہ کو دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔