
گزشتہ 23 اپریل کو مسوری کے مال روڈ پر کشمیری شال اور کپڑے بیچنے والے دو افراد پر کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا اور انہیں شہر چھوڑنے کو کہا۔ متاثرین میں سے ایک نے بتایا کہ پولیس نے کہا کہ وہ ان کی مدد نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد 16لوگوں نے شہر چھوڑ دیا۔

کشمیری شال بیچنے والے پر حملہ کرنے کے بعد اس کی آئی ڈی چیک کرتا حملہ آور۔ (تصویر: ایکس/اسکرین گریب)
نئی دہلی: مسوری میں دو کشمیری شال بیچنے والوں پر مبینہ طور پر مقامی لوگوں کے حملےکے بعد کم از کم 16 کشمیری شال بیچنے والے شہر چھوڑ کر چلےگئے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے اس معاملے میں تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔ مسوری کے ایک پولیس افسر کے مطابق، 23 اپریل کو مال روڈ پر کشمیری شال اور کپڑے بیچنے والے دو افراد پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا اور شہر چھوڑنے کو کہا۔
اس واقعے کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے، جس میں حملہ آور دونوں کو گالیاں دیتے اور مارتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ویڈیو میں حملہ آور ان سے اپنا شناختی کارڈ دکھانے کو کہتے ہیں اور انہیں علاقہ چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ اخبار کے مطابق، متاثرین میں سے ایک شبیر احمد ڈار، جو کپواڑہ کے رہنے والے ہیں، نے بتایا کہ وہ گزشتہ 18 سالوں سے مسوری آ رہے ہیں۔
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر نے ایکس پر جانکاری دی کہ اس معاملے کے تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
انھوں نے لکھا، ‘ملزمان نے اپنے کیے پر معافی مانگی ہے اور حکام کو یقین دلایا ہے کہ وہ آئندہ ایسا رویہ نہیں دہرائیں گے۔ ان کے خلاف پولیس ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی جاری ہے۔ ان کی شناخت سورج سنگھ (ساکن – پوسٹ کیمپٹی، ٹہری گڑھوال)، پردیپ سنگھ (ساکن – ہاتھی پاؤں، مسوری، دہرادون) اور ابھیشیک اونیال (ساکن – کمپنی گارڈن، مسوری، دہرادون) کے طور پر ہوئی ہے۔’
چھتیس سالہ ڈار نے کہا، ‘ہم سردیوں میں دہرادون اور گرمیوں میں مسوری آتے ہیں۔ ہم مسجد کے قریب رہتے ہیں اور مقامی لوگوں کو کافی عرصے سے جانتے ہیں۔ حملہ آور بھی اسی علاقے سے تھے اور ہمیں پہلے سے جانتے تھے۔ لیکن وہاں کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔’
ڈار کا دعویٰ ہے کہ اسی رات پولیس ان کے کمرے پر آئی۔ ڈار نے بتایا، ‘رات 11 بجے کے قریب پولیس نے کہا کہ وہ ہماری مدد نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد کشمیریوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ہماری حفاظت کے لیے یہ بہتر ہو گا کہ ہم شہر چھوڑ دیں۔ میں نے اپنے بھائی کو فون کیا، جنہوں نے ہمارے ضلع (کشمیر میں) کے ایک سینئر افسر سے بات کی۔ افسر نے یہاں پولیس سے رابطہ کیا، لیکن جواب ملا کہ اگر کچھ غلط ہوا تو وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ اس سے ہمیں اور بھی خوف آیا اور ہم فوراً وہاں سے نکل گئے۔’
تاہم، پولیس نے کہا کہ انہوں نے سب کو شہر چھوڑنے کے لیے نہیں کہا، بلکہ ان لوگوں کو مشورہ دیا جنہوں نے ابھی تک رجسٹر یا تصدیق نہیں کرائی تھی۔
ڈار اور دیگر 15 لوگ اسی رات دہرادون کے لیے روانہ ہوئے، وہاں سے بس لے کر اگلے دن جموں کے راستے اپنے گھر پہنچ گئے۔
ڈار کے ساتھ رہنے والے 30 سالہ جاوید احمد نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً 12 لاکھ روپے کا سامان مسوری میں ہی چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے کیا،’ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کب واپس جا سکیں گے۔ سارا اسٹاک وہیں ہے۔ ہمارے والد بھی وہاں پھیری لگاتے تھے، لیکن انہیں کبھی ایسی دھمکیوں یا حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔’
ایک اہلکار نے بتایا کہ چند روز قبل کرنی سینا نے شہر میں کشمیریوں کے خلاف ایک ریلی نکالی تھی، جس پر پولیس نے سخت کارروائی کی۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2017 میں ایک کرکٹ میچ کے بعد (جس میں پاکستان نے ہندوستان کو شکست دی تھی) کچھ بچوں کے مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کے بعد مسوری کی بزنس ایسوسی ایشن نے کشمیری دکانداروں اور پھیری لگانے والوں سے شہر چھوڑنے کی اپیل کی تھی۔ تاہم، نعرے لگانے والے بچوں کا تعلق وادی سے نہیں تھا۔