اتر پردیش میں میرٹھ ضلع کے ایک گاؤں میں کھیت سے گائے کی ہڈیاں/باقیات برآمد ہونے کے بعد پولیس نے صحافت کے طالب علم ذاکر علی تیاگی کو گرفتار کیا تھا۔ ذاکر کا کہنا ہے کہ انہیں فرضی طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔ اس سلسلےمیں ہیومن رائٹس کمیشن نے میرٹھ پولیس کو نوٹس جاری کر کےجواب طلب کیا ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ سات سالوں سے دہلی میں رہ رہے صحافت کے طالب علم ذاکر علی تیاگی میرٹھ اپنے گاؤں گئے تھے۔ گزشتہ25 اگست کی دوپہر انہیں گئوکشى کے خلاف قانون کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔گئوکشی کے الزام میں 16 دنوں تک حراست میں رکھنے کے بعد چھ ستمبر کو رہا کیا گیا۔
ذاکر کا الزام ہے کہ بی جے پی کارکنوں کے تھانے میں مظاہرے کے بعد دباؤ کی وجہ سے پولیس نے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا۔ذاکرپولیس کے ان الزامات پر سوال اٹھاتے ہوئے دی وائر سے بات چیت میں کہتے ہیں،‘اگر پولیس کسی شخص کو کسی بھی جرم میں گرفتار کرتی ہے تو اسے الزامات کے بارے میں بتایا جاتا، لیکن میرے معاملے میں ایسا بالکل نہیں ہوا۔ 25 اگست کی دوپہر میرٹھ پولیس سیدھے میرے گھر پہنچی اور مجھے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئی۔’
وہ کہتے ہیں،‘پولیس نے صرف میرا نام پوچھا اور مجھے گرفتار کر لیا۔ میں اور میرے گھر والے پوچھتے رہے کہ آخر کن الزامات میں مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن پولیس نے کچھ بھی نہیں بتایا۔’ذاکر کو میرٹھ کے پارکشت گڑھ میں بنے ایک عارضی جیل میں بند کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیل میں انہیں پتہ چلا کہ انہیں گئوکشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں درج ایف آئی آر کے مطابق، میرٹھ کے پارکشت گڑھ تھانے کے بڑا گاؤں میں شکایت گزارمنیشور کے کھیت سے گائے کی ہڈیاں /باقیات برآمد کیے گئے تھے، جس کے بعد نامعلوم ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس کے بعد شک کی بنیاد پر گرفتاریاں کی گئیں۔
ذاکر کا کہنا ہے کہ جب نامعلوم ایف آئی آر درج کی گئی تھی تو کس بنیاد پر پولیس نے گرفتاریاں کیں۔ پولیس کی گرفتاری کی بنیاد کیا رہی؟
اس معاملے میں میرٹھ کے پارکشت گڑھ تھانے کے ایس ایچ او متھن دکشت نے دی وائر کو بتایا،‘ذاکر علی کو دراصل مخبر کی اطلاع کی بنیاد پر گئوکشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ہمارے مخبر نے خبر دی تھی کہ اس معاملے سے ذاکر علی بھی جڑے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کے گھر سے ایک تھیلے میں مویشی کاٹنے کے اوزار بھی برآمد کیے تھے۔’
گھر سے ملے اوزاروں کے الزام پر ذاکر کہتے ہیں،‘میرے گھر سے کوئی اوزار برآمد نہیں ہوا ہے۔ دراصل پولیس نے جیل بھیجنے سے پہلے مجھ سے تھانے میں پہلے سے رکھے ایک تھیلے پر سائن کرائے تھے۔ اس تھیلے میں چاقو، چھریاں اور کلہاڑی وغیرہ رکھے ہوئے تھے یعنی مجھے پھنسانے کے لیے پولیس نے پہلے سے ہی اوزاروں کاخاکہ تیار کیا تھا۔
ذاکر کے الزامات پر ایس ایچ او متھن دکشت بتاتے ہیں،‘جس دن ذاکر کو گرفتار کیا گیا، اسی دن تلاشی میں اس کے گھر سے تھیلے سے اوزار برآمد کیے گئے تھے، جسے ہم نے عدالت میں پیش بھی کیا تھا۔ اب ذاکر اور اس کے گھر والے کیا کہہ ر ہے ہیں، اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پولیس نے بس اپنا کام کیا ہے۔’
وہیں، ذاکر کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے گاؤں کی مکمل حمایت ہے اور یہاں تک کہ اس معاملے میں شکایت گزار نے بھی پولیس تھانے جاکر پولیس سے انہیں رہا کرنے کی فریاد کی تھی۔
وہ کہتے ہیں،‘معاملے میں شکایت گزار منیشور کو جب پتہ چلا کہ مجھے گئوکشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے تو وہ اگلے دن ہی گاؤں کے سربراہ ، سابق سربراہ سمیت دیگر سینئرلوگوں کے ساتھ پولیس تھانے پہنچے تھے۔ انہوں نے مجھے بےقصور بتاتے ہوئے پولیس سے مجھے رہا کرنے کی مانگ کی تھی لیکن پولیس نے ان کی بات نہیں سنی اور چالان کاٹ کر مجھے جیل بھیج دیا گیا۔’
شکایت گزارمنیشوردی وائر کو بتاتے ہیں،‘ہمیں 23 اگست کو کھیت میں گائے کے باقیات ملے تھے، جس کی جانکاری ہم نے پولیس کو دی تھی۔ ہم نے کسی بھی شخص کو وہاں نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کا نام پولیس کو دیا۔’
وہ کہتے ہیں،‘پولیس نے مخبر کی اطلاع پر ذاکر کو گرفتار کیا تھا، جب ہمیں پتہ چلا تو ہم گاؤں کے سربراہ اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر پارکشت گڑھ تھانے بھی گئے تھے اور ذاکر کو چھوڑنے کی فریاد بھی کی تھی لیکن پولیس نے ہمیں وہاں سے بھگا دیا۔ ذاکر کو معاملے میں پھنسایا گیا ہے اور اس معاملے میں سیاست ہوئی ہے۔’
گاؤں کے سربراہ طالب خان بھی کہتے ہیں،‘26 اگست کو ہی ہم سب تھانے پہنچ گئے تھے اور پولیس سے کہا تھا کہ انہوں نے بے قصور لوگوں کو پکڑ لیا ہے۔ لیکن پولیس تھوڑے ہی کسی کی سنتی ہے، اسے جو کرنا ہوتا ہے، کرتی ہے۔’
ذاکر کے خلاف لگائے گئے اس مبینہ فرضی معاملے کو لےکر ان کی پوری فیملی پریشان اور ڈری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے والدین کچھ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں۔
حالانکہ ان کے چچا زادبھائی فرمان علی بتاتے ہیں،‘اچانک سے ہی سب کچھ ہو گیا۔ 25 اگست کو 10-15 پولیس اہلکار ہمارے گھر آئے اور ذاکر کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب ذاکر نے اپنا تعارف دیا تو انہیں اٹھاکر لے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر پولیس اہلکار سادے کپڑوں میں تھے۔’
وہ کہتے ہیں،‘ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا کہ ذاکر کو کیوں لےکر جا رہے ہیں۔ ہمیں اگلے دن پتہ چلا کہ گئوکشی کا معاملہ ہے اور پولیس نے ساتھ میں یہ بھی الزام لگا دیا تھا کہ گھر سے جانور کاٹنے کے اوزار برآمد کیے ہیں، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ذاکر کو فرضی معاملے میں پھنسا رکھا ہے۔ ذاکر کے بڑے بھائی پر بھی اسی طرح کے جھوٹے معاملے درج کئے تھے۔’
بہرحال نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ذاکر علی تیاگی کی مبینہ فرضی گرفتاری کو لےکر میرٹھ ایس ایس پی کو نوٹس جاری کرکے معاملے میں چھ ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔
بتا دیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہے، جب ذاکر کو اتر پردیش پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ انہیں اس سے پہلے 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ کرنے کو لے کرسیڈیشن کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تب وہ 42 دنوں تک جیل میں رہے تھے