آدیواسیوں کی اپنی روزمرہ کی زبان اور عام بات چیت میں جمہوریت یا آزادی لفظ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی آدیواسی سے ان الفاظ کے بارے میں پوچھیں تو وہ شاید خاموش رہے، لیکن اس کے اصل معنی کا احساس ان کو فطری طور پر ہے۔
انگریز بھی آدیواسیوں کی آزادی اور جمہوریت کے معنی اور ان کے فلسفہ زندگی کو لےکر ہمیشہ نہ صرف ڈرے رہتے تھے، بلکہ اس کے تئیں ان کا ایک تجسس بھی تھا، اس لئے وہ لگاتار آدیواسی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔آج جب ملک میں جمہوریت، آزادی اور راشٹرواد پر اتنی بحث چل رہی ہے، تب ہمیں ان باتوں کے معنی آدیواسی کے تناظر میں سمجھکر ان کے فلسفہ زندگی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ویسے تو آدیواسی کی اپنی روزمرہ کی زبان اور عام بات چیت میں جمہوریت یا آزادی لفظ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ کسی بھی آدیواسی سے ان الفاظ کے بارے میں پوچھیںگے تو وہ شاید خاموش رہے، لیکن اس کے اصل معنی کا احساس ان کو فطری طور پر ہے۔
وہ محض ایک کمیونٹی ہے، جو اپنے حصے کی جمہوریت اور آزادی کے لئے لگاتار اقتدار کے ساتھ جد وجہدکررہے ہیں۔ لیکن آدیواسی چاہے کسی بھی نظریہ سے جڑا ہو، بیلیٹ یا بلیٹ، کسی بھی صورت میں اس کی یہ جدو جہد اقتدارکے لئے نہیں ہے۔کیونکہ اقتدار پر قابض ہوکر پھر اس کے ذریعے اپنی سوچ اور نظریہ سے اس زمینی حصے میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی کو اپنی ہی ایک سوچکے مطابق منضبط کیا جائے، یہ آدیواسی کے فلسفہ زندگی کا حصہ نہیں ہے۔
وہ کسی کی بھی فطری سرگرمی پر روک لگانے کی سوچ میں یقین نہیں رکھتے۔ اس کی اپنی پنچایت میں اکثریت سے نہیں بلکہ رائے عامہ سے فیصلے ہوتے ہیں، پھر چاہے جتنا وقت لگے۔ کئی بار تو ان کی کمیونٹی پنچایت کئی دن تک چلتی ہے، جب تک سب لوگ کسی ایک رائے سے متفق نہیں ہو جاتے، فیصلہ نہیں ہوتا۔
ہم مین اسٹریم کے تعلیمی نظام سے نکلے لوگ زیادہ تر الفاظ کو تجربہ اور عمل سے کم اور ان کے تکنیکی معانی سے زیادہ سمجھتے ہے، جو ہمیں اپنے اسکولی تعلیم کے دوران رٹا دئے جاتے ہیں۔ جیسے ہم اسکول سے لےکر کالج تک ماحولیات کے بارے میں پڑھتے ہیں، مگر اپنی پوری زندگی اس کے الٹ کام کرتے ہیں۔اسی طرح سے آزادی اور جمہوریت کے معاملے میں ہماری سوچ ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں ان دونوں الفاظ اس کی عملی شکل میں ایک حد کے آگے نہیں سمجھتے۔
اس لئے ہمارا نظام بھلےہی جمہوریت کے نام پرچلتا ہے، مگر عملی طور پر میں ہمارا مین اسٹریم کا اقتدار اور سسٹم پر جس آدمی اور نظریہ کا قبضہ ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو سارے ملک کے لوگوں کی زندگی کاکاتب تقدیر مان لیتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہرکوئی ایک پتلے کی طرح اس کی سوچکے مطابق چلے۔آدیواسی کی اپنی سمجھ، فلسفہ زندگی، لغت اس کے اپنے آس پاس کے ماحول سے آتے ہیں اس لئے دنیا بھر میں بسے ہزاروں طرح کے آدیواسی کمیونٹی کی موٹی-موٹی سمجھ ایک جیسی ہوتی ہے۔ جیسے دنیا کے کسی بھی آدیواسی سماج میں زمین کی ملکیت کے تصور کا احساس نہیں تھا۔
ہندوستان آئے انگریزوں سے لےکر دنیا بھر میں نوآبادیات اور بساہٹ ڈھونڈتے مغربی ممالک کے گورے جب امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سے لےکر افریقہ تک جن قبائلی خطوں میں گئے اور وہاں زمین قبضہکرنے کی کوشش کی، وہاں ان کو آدیواسیوں کی اس سوچ سے ٹکرانا پڑا۔آزادی لفظ بھی آدیواسی کے لغت میں نہیں ہے کیونکہ ‘ آزادی ‘ ایک لفظ کے طور پر اسی نظام اور زبان کا حصہ ہوتا ہے، جس نے غلامی کے نظام کو ساختیاتی طور سے اپنایا ہے۔
اگر آپ میں کسی کو غلام بناکے رکھنے کی سوچ نہیں ہے، پھر وہ چاہے ذات پات کے نظام کے طور پر ہو، حکومت کے طور پر یا کسی دوسری شکل میں، تو پھر اس سماج میں سب فطری طورپرآزاد ہیں۔ لیکن جس سماج اور نظام میں غلامی ہے اس میں آزادی کی بات ہوگی۔الگ-الگ کمیونٹی کے لئے آزادی لفظ کے الگ الگ معنی ہوتے ہیں۔ دلتوں کے لئے یہ ذات پات کے نظام سے آزادی کا معاملہ ہے، تو خواتین کے لئے یہ پدری سماج سے آزادی کا۔ آدیواسی تو صدیوں سے آزادی کے احساس کو فطرت میں جانور، ندی اور جھرنے میں دیکھتا آ رہا ہے، جہاں سب اپنی خواہش کے مالک ہوتے ہیں، ان کے اوپر کسی بھی طرح کا باہری لگام نہیں ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آدیواسی کمیونٹی میں آزادی کا احساس تو ہے، لیکن اس کے اپنے خود کے لغت یا بول چال کی زبان میں آزادی لفظ نہیں ہے کیونکہ ان کے اپنے نظام میں غلامی کو کوئی ساختیاتی مقام نہیں ہے۔ یہ لفظ اور نظام دونوں ہی اس کی زندگی میں مین اسٹریم کے سماج نے تھوپے ہیں۔جب انگریزوں نے وسائل کی لوٹ کے لئے آدیواسی علاقے میں گھسنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی ساہوکاری نظام کو وہاں قائم کیا، تب آدیواسیوں نے اس کو فطری طورپر اپنی زندگی میں دخل مانا اور بنا اس بات کا اندازہ کئے کہ وہ انگریزوں کی بندوق اور اسلحے کے سامنے تیر-کمان اور کچھ بھرمار بندوق سے کیسے مقابلہ کریںگے، اس کی مخالفت کی۔
اس کے اندر جمہوریت اور آزادی کا احساس اتنا فطری ہے کہ اس کے اقتدار کی مخالفت آج بھی جاری ہے کیونکہ 15 اگست 1947 کو جو آزادی ملی اس کے بعد ترقی کے نام پر آدیواسی کے ساتھ لوٹ اور بڑھی۔ ان کو اپنا نظام چننے کے لئے کوئی آزادی نہیں دی گئی۔جس لاء اینڈ آرڈر، کورٹ کا ان کے ذہن میں تصور تک نہیں ہے، وہاں ان کو انصاف دلائے جانے کی بات کہی جانے لگی۔ مین اسٹریم کے تعلیمی نظام میں ان کی زبان، تہذیب کو کوئی مقام نہیں دیا گیا۔ ان کو پسماندہ بتاکر ان کو مین اسٹریم میں شامل کرنے کے لئے اسکیمیں بننے لگیں۔
اتنے بڑے وسائل کے اصلی مالک ہونے کے باوجود آج وہ سرکاری اسکیم کے رحم و کرم پر زندہ ہیں؛ یہ اسکیم بدعنوان سسٹم کے ہاتھ میں ہے اس لئے یا تو وہ بھوک سے مرتا ہے یا تاعمرغذائی قلت کا شکار رہتا ہے۔1774 میں ہلبا بغاوت کے ساتھ یہ شروعات ہوئی تھی، جو پچھلے 250 سالوں سے آج تک جاری ہے۔ وہ واحد کمیونٹی ہے، جو لگاتار اقتدار کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔آدیواسی سماج، جس نے تمام بڑے حملوں کے باوجود ہزاروں سال سی اپنی آزادانہ تہذیب اور سوچ کو بچاکر مین اسٹریم کے سماج سے الگ اپنا وجود بنائے رکھا ہو، اس کے لئے آزادی لفظ کے کیا معنی ہے، اس کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔کیا آدیواسی کی آزادی اور جمہوریت کے اس احساس کو مین اسٹریم کا یہ سماج اور اقتداری نظام کبھی بھی اپنا پائےگا؟
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)