انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اپنے ایک فیصلے میں میانمار کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرے اور ناانصافی کا شکار اس مسلم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
نئی دہلی : ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے)نے آج جمعرات کو اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ میانمار کی حکومت کو ملک میں روہنگیا مسلم آبادی کے حفاظت کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومت کو مسلسل زیادتیوں اور مظالم کا شکار رہنے والی اس نسلی اقلیت کے خلاف کیے گئے مبینہ جرائم کے تمام دستیاب ثبوت بھی بڑی احتیاط سے محفوظ کرنا چاہیے۔انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا، جو زیادہ تر مسلم آبادی والے افریقی ملک گیمبیا کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں گزشتہ برس نومبر میں گیمبیا نے اقوام متحدہ کے 1948 کے ایک کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے میانمار کے خلاف یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی حکومت ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس،اقوام متحدہ کا وہ اعلیٰ ترین ادارہ ہے، جو اس تنظیم کے رکن ممالک کے مابین کسی بھی قانونی تنازعے کو طے کرنے کے لیے اہم ترین عدالتی پلیٹ فارم بھی ہے۔آج سنائے گئے فیصلے میں دی ہیگ کی اس عدالت کے ججوں نے صرف گیبمیا کی طرف سے دائر کردہ مقدمے پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ یہ حکم میانمار حکومت کے لیے ایک واضح عدالتی موقف تو ہے لیکن یہ اس عدالت کا اس مقدمے میں بالکل حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ آئی سی جے کے مطابق یہ حکم ان ابتدائی اقدامات سے متعلق ہے، جو میانمار کی حکومت کو فوری طور پر کرنا چاہیے۔ اس مقدمے میں حتمی فیصلہ سنائے جانے میں ممکنہ طور پر کئی برس لگ سکتے ہیں۔
آئی سی جے کا آج کا فیصلہ اس عدالت کے 17 ججوں پر مشتمل ایک پینل نے متفقہ طور پر سنایا۔ عدالت کے مطابق میانمار کی حکومت کو اس سلسلے میں بلاتاخیر اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس ملک میں روہنگیا مسلم اقلیت کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا سلسلہ بند ہو۔اس بارے میں میانمار حکومت کو اس امر کا پابند بھی بنایا گیا ہے کہ وہ آئندہ چار ماہ میں اس عدالت کو تب تک کیے جانے والے اقدامات سے باقاعدہ طور پر مطلع بھی کرے۔
میانمار کی ریاست راکھین میں، جہاں روہنگیا مسلم اقلیت کا بہت بڑا حصہ آباد تھا، ملکی سکیورٹی دستوں نے اگست 2017ء میں ایک ایسا کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس دوران وہاں سے تقریباﹰ سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا باشندے نقل مکانی کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین آج بھی بنگلہ دیش کے میانمار کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں بہت سے مہاجر کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات میں مقیم ہیں۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے تفتیش کار بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ میانمار کی فوج نے نے روہنگیا اقلیت کے خلاف جو آپریشن کیا تھا، وہ ‘نسل کشی کے ارادے‘ کے تحت مکمل کیا گیا تھا۔
میانمار کی حکومت نے اس کریک ڈاؤن سے متعلق اپنے طور پر بھی باقاعدہ چھان بین کرائی تھی۔ اس تفتیش کا حال ہی میں یہ نتیجہ سامنے آیا تھا کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران
جنگی جرائم کا ارتکاب تو کیا گیا تھا تاہم نسل کشی کے شواہد نہیں ملے تھے۔
دوسری طرف دی ہیگ کی عدالت کے آج کے ابتدائی حکم سے کچھ ہی گھنٹے قبل برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں میانمار کی سویلین رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ شخصیت اونگ سان سوچی کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں سوچی نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو، تاہم ‘روہنگیا مسلمانوں نے مہاجرین کے طور پر اپنے خلاف ناانصافیوں کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا‘۔
میانمار کی سویلین رہنما سوچی نے گزشتہ ہفتے دی ہیگ کی عدالت سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ یہ مقدمہ خارج کر دے۔ انہوں نے یہ درخواست اس وقت کی تھی، جب گزشتہ ماہ اس عالمی عدالت نے مسلسل ہفتے بھر تک اس مقدمے کی کئی مرتبہ سماعت کی تھی۔اقوام متحدہ کی اس عدالت کے فیصلوں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ جب ایک بار سنا دیے جائیں، تو حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف اس عدالت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے سنائے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔
(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)