میانمار روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے: انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اپنے ایک فیصلے میں میانمار کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرے اور ناانصافی کا شکار اس مسلم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اپنے ایک فیصلے میں میانمار کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرے اور ناانصافی کا شکار اس مسلم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے)نے آج جمعرات کو اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ میانمار کی حکومت کو ملک میں روہنگیا مسلم آبادی کے حفاظت کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومت کو مسلسل زیادتیوں اور مظالم کا شکار رہنے والی اس نسلی اقلیت کے خلاف کیے گئے مبینہ جرائم کے تمام دستیاب ثبوت بھی بڑی احتیاط سے محفوظ کرنا چاہیے۔انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا، جو زیادہ تر مسلم آبادی والے افریقی ملک گیمبیا کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں گزشتہ برس نومبر میں گیمبیا نے اقوام متحدہ کے 1948 کے ایک کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے میانمار کے خلاف یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی حکومت ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ دی ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس،اقوام متحدہ کا وہ اعلیٰ ترین ادارہ ہے، جو اس تنظیم کے رکن ممالک کے مابین کسی بھی قانونی تنازعے کو طے کرنے کے لیے اہم ترین عدالتی پلیٹ فارم بھی ہے۔آج سنائے گئے فیصلے میں دی ہیگ کی اس عدالت کے ججوں نے صرف گیبمیا کی طرف سے دائر کردہ مقدمے پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ یہ حکم میانمار حکومت کے لیے ایک واضح عدالتی موقف تو ہے لیکن یہ اس عدالت کا اس مقدمے میں بالکل حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ آئی سی جے کے مطابق یہ حکم ان ابتدائی اقدامات سے متعلق ہے، جو میانمار کی حکومت کو فوری طور پر کرنا چاہیے۔ اس مقدمے میں حتمی فیصلہ سنائے جانے میں ممکنہ طور پر کئی برس لگ سکتے ہیں۔

آئی سی جے کا آج کا فیصلہ اس عدالت کے 17 ججوں پر مشتمل ایک پینل نے متفقہ طور پر سنایا۔ عدالت کے مطابق میانمار کی حکومت کو اس سلسلے میں بلاتاخیر اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس ملک میں روہنگیا مسلم اقلیت کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا سلسلہ بند ہو۔اس بارے میں میانمار حکومت کو اس امر کا پابند بھی بنایا گیا ہے کہ وہ آئندہ چار ماہ میں اس عدالت کو تب تک کیے جانے والے اقدامات سے باقاعدہ طور پر مطلع بھی کرے۔

میانمار کی ریاست راکھین میں، جہاں روہنگیا مسلم اقلیت کا بہت بڑا حصہ آباد تھا، ملکی سکیورٹی دستوں نے اگست 2017ء میں ایک ایسا کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس دوران وہاں سے تقریباﹰ سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا باشندے نقل مکانی کر کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ لاکھوں روہنگیا مہاجرین آج بھی بنگلہ دیش کے میانمار کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں بہت سے مہاجر کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات میں مقیم ہیں۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے تفتیش کار بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ میانمار کی فوج نے نے روہنگیا اقلیت کے خلاف جو آپریشن کیا تھا، وہ ‘نسل کشی کے ارادے‘ کے تحت مکمل کیا گیا تھا۔

میانمار کی حکومت نے اس کریک ڈاؤن سے متعلق اپنے طور پر بھی باقاعدہ چھان بین کرائی تھی۔ اس تفتیش کا حال ہی میں یہ نتیجہ سامنے آیا تھا کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب تو کیا گیا تھا تاہم نسل کشی کے شواہد نہیں ملے تھے۔

دوسری طرف دی ہیگ کی عدالت کے آج کے ابتدائی حکم سے کچھ ہی گھنٹے قبل برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں میانمار کی سویلین رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ شخصیت اونگ سان سوچی کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں سوچی نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو، تاہم ‘روہنگیا مسلمانوں نے مہاجرین کے طور پر اپنے خلاف ناانصافیوں کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا‘۔

میانمار کی سویلین رہنما سوچی نے گزشتہ ہفتے دی ہیگ کی عدالت سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ یہ مقدمہ خارج کر دے۔ انہوں نے یہ درخواست اس وقت کی تھی، جب گزشتہ ماہ اس عالمی عدالت نے مسلسل ہفتے بھر تک اس مقدمے کی کئی مرتبہ سماعت کی تھی۔اقوام متحدہ کی اس عدالت کے فیصلوں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ جب ایک بار سنا دیے جائیں، تو حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف اس عدالت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے سنائے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔

(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

آل پارٹی وفد میں شامل جان برٹاس اور اویسی بولے – حکومت سے شدید اختلاف، لیکن ملک کے لیے متحد

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

پہلگام دہشت گردانہ حملے اورآپریشن سیندور کے بعد جب اپوزیشن نریندر مودی حکومت سے مشترکہ پارلیامانی اجلاس اور وزیر اعظم کی موجودگی والی آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کر رہی تھی،اسی درمیان سب کو حیران کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اعلان کر  دیاکہ  وہ ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پرایک اہم سفارتی اقدام کے تحت  30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجے گی ۔

حکومت کے مطابق،اس  وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی شامل ہوں گے، جن میں کچھ  کی قیادت وہ خود کریں گے، مثلاً ششی تھرور (کانگریس)، سپریا سولے (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار)) اور کنیموزی (دراویڈ منیترا کزگم)۔

توقع ہے کہ یہ وفد 22 اور 23 مئی کو جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے لے کر برطانیہ، یورپی یونین، لاطینی امریکہ اور امریکہ تک دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں نمائندوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگا۔

تاہم، اس سے چین  کوباہررکھا جائے گا کیونکہ اس اقدام کا بنیادی مقصد آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی دہشت گردی کی نوعیت کو بے نقاب کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر الگ -تھلگ کرنا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘کُل جماعتی وفد تمام صورتوں  اور اظہاریہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے  کے لیے ہندوستان کےقومی اتفاق رائے اورنظریے  کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مضبوط پیغام پہنچائیں گے…’

اس حوالے سے پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا، ‘یہ سیاست سے بالا تر قومی اتحاد کا ایک طاقتور عکس ہے… ہندوستان ایک آواز میں بات کرے گا۔’

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام کے ذریعے حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ان تنقیدی آوازوں کو دبا دیا ہے، جس نے انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے تھے اورجس کی وجہ سے پہلگام میں قتل عام ہوا؟ متاثرین کو مدد ملنے میں تاخیر ہوئی۔ نام نہاد امریکی ثالثی سے جنگ بندی؛ اور دیگر متعلقہ سوالات کے مناسب جوابات مانگے جا رہےتھے؟

اس سلسلے میں دی وائر نے حزب اختلاف کے دو سرکردہ رہنماؤں سے بات کی، جو اس وفد کا حصہ ہیں –کیرالہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس، جو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کریں گے، اور حیدرآباد سےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدین اویسی،جو سعودی عرب، کویت ، بحرین اور الجیریاکا دورہ کریں گے۔

پیش ہیں اس بات چیت کے بعض اہم  اقتباسات؛

کیا مودی حکومت نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی سفارتی رابطہ کاری  کے لیے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ کو شامل کرکے اپنی غلطیوں اور تنقیدوں کو کم کرنے کا کام کیا ہے؟ حکومت نے اس معاملے پر سوال کا جواب دینے کے لیے پارلیامنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جان برٹاس: ہاں، ہم چاہتے تھے کہ حکومت پارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے، ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ وزیراعظم ایک آل پارٹی اجلاس کی صدارت کریں، کیونکہ وہ پاکستان سے متعلق گزشتہ دو اجلاس میں غیر حاضر تھے۔

ہمارے پاس بہت سارے سوال اور خدشات ہیں اور ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی  گھمنڈ بھرے بیانات سے کہ انہوں نے کس طرح جنگ بندی کی ثالثی کی اور کس طرح انہوں نے تجارت کو لالچ دیا۔ اس کے علاوہ انٹلی جنس کی ناکامی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے ردعمل میں تاخیر؛ میڈیا کے ذریعے نفرت، بنیاد پرستی اور جنگی جنون ؛ سکریٹری خارجہ اور ان کے اہل خانہ سمیت مارے گئے بحریہ  کےافسر کی اہلیہ پر سائبر حملے۔ ہم ان کا جواب چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے سائبر حملوں کے پس پردہ  کون  لوگ ہیں،اس کی جانچ کرنے کی اپیل کی گئی تھی،  لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ان تمام اور دیگر بہت سے پہلوؤں پر ہمیں اس حکومت سے شدیداختلاف ہے، لیکن جب بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے عوامی رابطوں کی بات آتی ہے تو ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واضح تفریق کرنا ضروری ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک جیسا سمجھتے ہیں، اور ہم اسے بالکل بھی بدل نہیں پائے ہیں۔

نیز، ہماری جمہوریت میں دو حزبی وفود کو بیرون ملک بھیجنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی میں 26/11 کے بعد وفود پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو اجاگر کرنے کے لیے گئے تھے۔

اب ہماری بھنویں تن گئی  ہیں، کیونکہ ہمیں مودی حکومت سے ایسے صحت مند سیاسی کلچر کی کبھی توقع نہیں تھی جیسا کہ ہم نے گزشتہ 11 سالوں میں کسی جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ ہماری شرکت دنیا کویہ  دکھانے کے لیے ہے کہ اس ملک کے جمہوری عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔

اسدالدین اویسی: پارلیامانی وفد سفارت کاری میں کوئی نئی روایت  نہیں ہے، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی یا منموہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔

اب پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہولناک قتل عام،جنہوں نےمذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا اور اس کے بعدپاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں  پر ہندوستان کے حملوں کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم ارکان پارلیامنٹ عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں اور انہیں اس خطے کے مسائل سے آگاہ کریں۔ ہندوستان  کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار  ہے، جس کی منصوبہ بندی اور سرپرستی ہمارے پڑوسی نے کی ہے اور ماضی میں بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ہم حکومت سے متفق نہیں ہیں اور جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری تک، ہم نے اس حکومت کے ہر بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل نام نہاد سیکولر جماعتوں نے 2019 میں خطرناک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ کی بھی حمایت کی، جس نے اتنے سارے نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

ہم حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں، ہم اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جہاں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی وجہ سے ہمارے شہری اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

کیا حکومت نے آپ کو ایجنڈے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کی  ہیں، جن سے آپ ملاقات کریں گے؟

جان برٹاس: دوسرے ممالک کو یہ بتانے کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک ذی شعور جمہوریت ہیں اور میں نے کل سکریٹری خارجہ کے ساتھ پروگرام کی بریفنگ کے دوران اس کا اشتراک کیا۔ میں نے کہا کہ ہمیں اپنے بھرپور تنوع اور ثقافتی کثرت کو اجاگر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم پاکستان کے برعکس ایک متحرک جمہوریت ہیں، جو مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔

ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مسلسل جھڑپوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان شروع سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے۔

ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی نقل نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہم ترقی، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

ہم نہ صرف ان ممالک کے ایکٹرز کے ساتھ بلکہ سول سوسائٹی، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے، جیسا کہ وزارت خارجہ نے ہمیں مطلع کیا ہے۔ جب ممبران پارلیامنٹ اور معززین کا وفد دورہ کرتا ہے تو ہم لوگوں کے بہت سے طبقوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک دورے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

اسدالدین اویسی : ایجنڈا بالکل واضح ہے – جب  میں نے صاف کر دیا ہے کہ جہاں تک ملک کے اندر مودی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے رہیں گے- لیکن اس آؤٹ ریچ پروگرام کا تعلق ہمارے ملک پر بیرونی حملے سے ہے۔

اور اگر موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیامنٹ جا کر بتائیں کہ پڑوسی ملک نے کیا کیا ہے، اور براہ کرم یاد رکھیں، آئین کا آرٹیکل 355 کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو حکومت  کوفوری ایکشن لینا چاہیے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ نے ابھی ہم سے بریفنگ کے لیے ملاقات کرنی ہے، ہم دوسرے بیچ میں جا رہے ہیں، لیکن ہم واضح ہیں کہ ملک کے دفاع کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔

کیا ہوگا اگر بین الاقوامی رہنما اور دیگر افرادجن سے آپ بات چیت کرتے ہیں وہ اقلیتوں پر مہلک حملوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر، حال ہی میں  علی خان محمود آباد کی ایک جائز سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سیڈیشن کے الزام میں گرفتاری؟

جان برٹاس: یہ مسائل یقینی طور پر ہماری تشویش کا حصہ ہیں – یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے کسی شخص کوبناوٹی الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے اور پارلیامنٹ میں بھی غیر آئینی گرفتاریوں کی بات  کی ہے۔

یقیناً، ہم سے ایسے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے، لیکن ہمارا وفد ان پر فیصلہ کرنے کے لیے کافی سمجھدار ہے۔ سفارتی رسائی میں شامل بین الاقوامی وفود کے لیے، ہمارا کام اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا بڑا ایجنڈا سامنے آئے۔ جہاں تک ملکی مسائل کا تعلق ہے، ہم اسے ملک کے اندر ہینڈل کرلیں گے۔

اسد الدین اویسی:  دنیا کو ہم سے اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف طے شدہ تعصبات پر سوال پوچھنے دیجیے۔ میں اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں۔ اگر آپ میرے 2013 کے ویڈیو دیکھیں، جب میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی، تو مجھ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھااوریہ سمجھائے  گا کہ میں ایسے سوالوں کا سامنا کیسے کرتا ہوں۔

میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور مجھ سےملک میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرا سادہ سا جواب تھا؛’آپ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں، انہوں نے 60 سال پہلے ہی طے کر لیا تھاکہ ہندوستان ان کا ملک ہے۔ ہمارا آئین بھی سیکولر ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔’

کیا پی ایم مودی اپنی عالمی رسائی میں ناکام رہے ہیں؟ انہوں نے مبینہ طور پر 11 سالوں میں 72 ممالک کے 129 دورے کیےہیں، لیکن انہیں کسی بھی عالمی رہنما  سے معمول کے وعظ و نصیحت کے سوا مشکل سے ہی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

جان برٹاس: میں حقیقت میں حیران ہوں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کے علاوہ میں نے کسی دوسرے ملک کی حمایت نہیں دیکھی۔ میں بھی اتنا ہی حیران ہوں کہ امریکہ نے کس طرح  کےرد عمل کااظہار کیا، جس طرح امریکہ نے برتاؤ کیا ہےاور ہمیں نیچا دکھایا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی طرف سے کی جا رہی بکواس پر ہندوستان کو شروع میں ہی واضح جواب دینے کی ضرورت ہے – جس طرح انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی تصویر کشی کی، جس طرح سے انہوں نے اس سودے کو انجام دیا، وہ کہتے ہیں؛ یہ باتیں ہمارے خلاف گئی  ہیں۔

میرے خیال میں مودی سرکار کی طرف سے محض انکار کے علاوہ ایگزیکٹو کی طرف سے بھی واضح جواب دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔

ٹرمپ کی لین دین کی ڈپلومیسی بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے، وہ صرف اپنے ملک کی تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی سرکار کے ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کے بائیکاٹ کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر ان ممالک کے ساتھ تجارتی سودے کیے۔

میرے خیال میں مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض تھا۔ یہ امریکہ کی چال تھی، کیونکہ قرض کی منظوری میں آئی ایم ایف بورڈ پر اس کا غالب اختیار ہے۔

ہندوستان نے مغربی ممالک کے ساتھ سفارت کاری میں جو بے تحاشہ سرمایہ کاری کی ہے، اس کے پیش نظر، ردعمل کم سے کم کہنے کے لیے مایوس کن رہاہے۔

اسد الدین اویسی: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک سے زوردار حمایت ملی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اب بھی نسلی امتیاز پر عمل پیرا ہے، جو کہ اسرائیل ہے؛ اور بعد میں افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے، جس نے پہلگام قتل عام کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ صرف دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔

تو ہاں، یقینی طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  جیسے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ضرور اصلاحات کی ضرورت ہے، جنھیں واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک جنگ بندی اور تجارتی معاہدے پر ٹرمپ کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ سیاسی قیادت ٹرمپ کی تردید کرےگی یا نہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

پہلگام اور اس کے بعد: ایک بے بس امن پسند دیوانے کی بڑ

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام حملے کی خبر نے پہلے مجھے حیران کیا اورمشتعل کر دیا، لیکن جلد ہی میں نے اپنے اندر خوف اور بے چینی بھی محسوس کی۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ردعمل زیادہ تر ملک کے شہریوں میں فوری انتقام کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت، سب سے مکروہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک زہریلا طبقہ ایسے سانحات کو سنہری موقع تصور کرتا ہے—مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی،غدار اور دہشت گردی کے حامی کے طور پرپیش کرنےکے لیے- جو سزا کے مستحق ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو تقریباً آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ذرا بھی صاف نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئے ہیں – اور مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اسے اور بھڑکایاہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما  ہوتا ہے، اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعہ کے بعد جو ماحول بناہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

بحیثیت معاشرہ ہم حیوانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ میرے بال تراشنے والا ایک  نوجوان ہیئر ڈریسر – جو میرے سر پر بچے کھچے بالوں کو سنوارتاہے – انتہائی صدمے میں ہے، کیونکہ مسعود پور ڈیری کے علاقے میں رہنے والے اس جیسے مسلمانوں پر وہاں سے نکل جانے کادباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا گروہ مسلم کمیونٹی کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بدنام وزیر نتیش رانے نے لوگوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی پہچان کرنے کے لیےانہیں ہنومان چالیسہ پڑھنے کو کہیں اور پھر ان کا اور ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ راجستھان میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس بہانے سے گرفتار کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ تلنگانہ میں ‘کراچی بیکری’ کی دو شاخوں میں توڑ پھوڑ کی گئی – صرف اس لیے کہ اس کا نام ‘کراچی’ ہے، جبکہ وہ  دکان ہندوؤں کی ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ نفرت نے اب منطق، سچائی اور انسانیت کی ہر حد کو کچل دیا ہے۔

کشمیری طلبہ اور مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے کشمیر واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایک واضح عمل میں دہلی یونیورسٹی نے کالجوں سے کشمیری طلبہ کی تفصیلات جمع کرنے کو کہا ہے — ٹھیک ویسے ہی جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کی فہرست تیار کی جاتی تھی۔ اور جو نفرت  ہمانشی نروال جھیل رہی ہیں— صرف اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی— ان سب کے آگے ہمیں شرم آنی چاہیے! یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے۔


آج ہم ایسے ہندوستان میں رہ رہے ہیں جسے پچھلی دہائی سے ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جو ‘وشوگرو’ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے – ایک ایسا ہندوستان جس نے نہ امن کا مشاہدہ کیاہے، نہ انصاف، نہ اچھائی اور نہ اتحاد۔جہاں اپوزیشن ناقابل معافی سیکورٹی لیپس کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہیں میرے لیے پہلگام کی بربریت کے بعد کےخوفناک دنوں میں مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ جب ملک میں کئی لوگ ‘خانہ جنگی’ کے خدشے کا اظہار کر تھے، تب انھوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

اس طرح کی بربریت اور جبر کے سامنے ان کی خاموشی ناقابل معافی ہے – لیکن حیرت کی بات نہیں، کیونکہ انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت اسی  وعدے کے سہارے بنائی اور بنائے  رکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کو سبق سکھائیں گے۔’


ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ ملک کی بدترین جبلتوں کا نمائندہ بن چکا ہے- طبقاتی، نرگسیت، بزدل اور خود غرضی۔ اور سب سے اہم بات، اندر تک  فرقہ وارانہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وہاٹس ایپ پر نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے غنڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں – اپنے محفوظ گھروں سے زہر فشانی کرتے ہوئے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ جس غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں۔

انہیں گودی میڈیا کے جھوٹے اور زہریلے بیانیے کے ذریعے تربیت دی گئی ہے – جس کی قیادت ارنب گوسوامی، انجنا اوم کشیپ اور نویکا کمار جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ان چہروں نے معاشرے کے مکروہ جذبات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود، ان کے ٹی وی شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں – یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نفرت سے بھرا معاشرہ بن چکے ہیں۔

وہ ہولناک سانحہ جس کا مجھے خدشہ تھا وہ 7 مئی کی صبح اس وقت حقیقت بن گیا،  جب ‘ گھر میں گھس کر ماروں گا’ کہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے جنگ کا بگل بجا دیا۔ ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر ہائی-پریسیشن ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ وزیر دفاع نے چونکا دینے والا دعویٰ کیا کہ 100 سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا، لیکن ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ حالاں کہ،اگلے ہی دن پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 15 ہندوستانی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، بین الاقوامی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔

ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انتہائی سخت کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ کسی نے تحمل سے کام لینےیا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جنگ کے علاوہ دوسرے متبادل کی بات نہیں کی۔ ہمیشہ دانشمندی کی بات کرنے والےششی تھرور نے بھی دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے ردعمل کا مطالبہ کیا۔ مودی کے دفاعی وکیل کا نادانستہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ناقابل معافی ناکامی کو اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ نظر انداز کر دیا کہ ‘سکیورٹی سسٹم عالم کل نہیں ہوتا’ اور ‘یہاں تک کہ اسرائیل بھی 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کو نہیں روک سکا۔’ ان کی اس دفاعی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی بدلنے کی تیاری میں ہیں۔

تشدد کا یہ خوفناک سلسلہ تین دن سے کچھ زیادہ ہی جاری رہا، جب تک کہ امریکہ کی ثالثی سے اچانک جنگ بندی نہیں ہوگئی۔ اب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک اس خودکش جنگ کو ختم کرنے اور جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ احمقانہ تصور کہ ہم سپریم ہیں اور یہ کہ پاکستان ایک کمزور، بے بس قوم ہے جو جوابی حملہ کرنے سے قاصر ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں۔ رافیل طیاروں پر مبینہ ‘حملے’ کی بحث پر ہماری خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ہم نے خود بھی کم نقصان  نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود، خود ساختہ ماہرین، خونخوار ہجوم اور یہاں تک کہ سابق فوجی افسران بھی ہندوستان  کے جنگ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہا ہے – ایک ایسے فیصلہ کن  موڑ پر جب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم کیا حاصل کر سکتے تھے۔

آئیے تصور کریں کہ اگر ہم قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھتے تو ہم کیا حاصل کر سکتے تھے؟ کیا ہم اپنے دور دراز اہداف کے قریب کہیں بھی پہنچ پاتے؛ (الف) دہشت گردی کو ختم کرنا یا اسے معذور بنا دینا، (ب) پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کو واپس لینا، اور (سی) پاکستان کو گھٹنےپر لا دینا؟

عملی سیاست کے عظیم مفکر میکیاویلی کا خیال تھا کہ ‘اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہے تو اسے اتناشدید ہونا چاہیے کہ وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔’ لیکن جس چیز کو ہمارے اندر موجود جنگی جنون کی خواہش نظر انداز کردیتی  ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی طاقت ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس ‘باغی’ ملک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کمزور اور بے بس لوگوں میں شامل فلسطینی، جنہیں عالمی برادری نے کئی دہائیوں سے تقریباً علیحدہ کر دیا ہے، وہ اسرائیل کی بے رحم فوجی طاقت کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بات کریں تو یہ ایٹمی طاقت ہے، جسے چین کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔

ایسے میں اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مودی کی جارحانہ پالیسی، جس میں ایٹمی خطرے سے کھیلنے کا رجحان بھی شامل ہے، دراصل کھوکھلی اور بے معنی نظر آتی ہے— صرف لفظوں کا غبارہ۔ جیسا کہ ڈگلس ہارٹن نے کہا تھا، ‘جب بدلہ لینے نکلو تو دو قبریں بنواؤ – ایک دشمن کے لیے اور ایک اپنے لیے!’


مودی کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کی حیثیت کو کم کر کے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا، تب سے یہ خطہ شدید عدم اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو پہلگام سانحہ کے بعد انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے یوگی ماڈل کی پیروی کی اوردہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا، اور سینکڑوں کشمیریوں کو ایک بڑے سیکورٹی کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا، جس میں مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی پھنس گئے۔


جبر کی پالیسی براہ راست علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم نے اس زہر کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت یہ تینوں اب تقریباً مر چکے ہیں۔

اس تاریک دور میں ہمیں اپنے ماضی کے عظیم رہنماؤں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اندیش معاشرہ اندرا گاندھی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب انہوں نے 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن آج جب صورتحال اس قدر سنگین ہے تو ہم نے ہندوستان کے عظیم ترین اور شاید اس سرزمین کے سب سے بڑے انسان مہاتما گاندھی کو کیوں یاد نہیں کیا؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ گاندھی اس مسئلے کو بالکل مختلف طریقے سے حل کرتے، اور اسی لیے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں اپنے دوستوں سے، مذاق میں نہیں، بلکہ سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر گاندھی آج زندہ ہوتے تو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں ہجوم نے مار ڈالا ہوتا!

ہمیں بھی اب اسی طرح کی اُولُو الْعَزْمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ بصورت دیگر، ہمیں یا تو ایک اور ہزار سال کی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا – یا پھر اس دن کے لیے جب ایٹمی تباہی ہمارے مشترکہ مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ بلاشبہ پہلا آپشن بہت آسان اور سب کے لیےمفید ہے۔

(میتھیو جان سابق سول سرونٹ ہیں۔)

Next Article

کرناٹک: بی جے پی ایم ایل اے سمیت چار لوگوں کے خلاف گینگ ریپ کا معاملہ درج

کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا اور دیگر چار افراد کے خلاف ایک 40 سالہ خاتون نے گینگ ریپ،جان لیوا وائرس کا انجکشن دینے اورچہرے پر پیشاب کرنے کا الزام لگایا ہے۔ منی رتنا کا نام اس سے قبل  بھی ریپ، بلیک میلنگ، ہراساں کرنے، رشوت خوری، ذات پات اور گالی گلوچ کے معاملات میں سامنے آچکا ہے۔

بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@MunirathnaMLA)

بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@MunirathnaMLA)

نئی دہلی: بدھ (21 مئی) کو کرناٹک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے منی رتنا اور چار دیگر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس میں ایک 40 سالہ خاتون نے ایم ایل اے پرگینگ ریپ  کی سازش کرنے، اسے مہلک وائرس کا انجکشن دینے اور اس کے چہرے پر پیشاب کرنے کاالزام لگایا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پولیس حکام نے بتایا کہ بی جے پی کارکن ہونے کا دعویٰ کرنے والی متاثرہ  خاتون نے شمال مغربی بنگلورو کے آر ایم سی یارڈ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی اور بتایا کہ یہ واقعہ 11 جون 2023 کو پیش آیا تھا۔

اپنی شکایت میں متاثرہ نے کہا کہ ایم ایل اے کے ساتھیوں وسنتھا اور کمل نے انہیں متھیکیرے میں منی رتنا کے دفتر جانے کے لیے گمراہ کیا اور کہا کہ ایم ایل اے ان  کی فوجداری مقدمات کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ایم ایل اے کے کہنے پر ہی ان  پر یہ معاملے جھوٹے طریقے سے تھوپے گئے ہیں۔’

خاتون نے الزام لگایا کہ دفتر کے اندر منی رتنا، وسنتھا، چنناکیشوا نے اس کے کپڑے اتارےاحتجاج کرنے پر اس کے بیٹے کوجان سے مارنے کی دھمکی دی۔

خاتون نے مزید الزام لگایا کہ ایم ایل اے نے ان کے چہرے پر پیشاب بھی کیا اور اس واقعے کے دوران ایک نامعلوم شخص مبینہ طور پر کمرے میں آیا اور ایم ایل اے کو سفید ڈبہ دیا۔ اس کے بعد ایم ایل اے نے ڈبے سے سرنج نکال کر خاتون کو انجکشن لگایا۔

ایف آئی آر کے مطابق، ایم ایل اے نے مبینہ طور پر انہیں دھمکی دی کہ اگر اس نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو وہ ان  کے خاندان کو نہیں بخشے گا اور انہیں برباد کر دے گا۔

خاتون نے بتایا کہ انہیں رواں سال جنوری میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور اس میں ایک لاعلاج وائرس کی تشخیص ہوئی، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ مبینہ واقعے کے دوران دیے گئے انجکشن کا نتیجہ ہے۔

گزشتہ 19 مئی کو خودکشی کی کوشش سے  بچنے کے بعد خاتون نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے میں پولیس کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے پولیس کو بتایا، ‘میں نے اپنی جان لینے کی نیت سے گولیاں کھا لی تھیں۔ لیکن جب میں بچ گئی تو لگا کہ اب مجھے سچ بتانا چاہیے۔’

پولیس نے بتایا کہ ایم ایل اے، ان کے ساتھیوں وسنتھا، چنناکیشوا اور کمل اور ایک نامعلوم شخص کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

معاملے کی تفتیش کرنے والے ایک سینئر پولیس افسر نے اخبار کو بتایا،’ہم نے ملزمین کے خلاف  دفعہ 376ڈی (گینگ ریپ)، 270 (انفیکشن پھیلانے کے ارادے سے کیا گیا کام)، 323 (چوٹ پہنچانا)، 354 (خاتون پر حملہ)، 504 (جان بوجھ کر توہین)، 506 (مجرمانہ دھمی ) اور 509(خاتون کے وقار کو مجروح کرنا)کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔’

خاتون نے الزام لگایا کہ منی رتنا بی جے پی میں اپنی سیاسی شمولیت کی وجہ سے کافی عرصے سے ان کے خلاف تعصب رکھتے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا،’منی رتنا نے دوسروں کو میرے خلاف پینیا اور آر ایم سی یارڈ پولیس اسٹیشنوں میں جھوٹی شکایتیں درج کرانے کے لیے متاثر کیا۔’

فی الحال ایم ایل اے نے ان الزامات کے بارے میں کوئی ردعمل جاری نہیں کیا ہے۔

غورطلب  ہے کہ منی رتنا کا نام اس سے قبل  بھی ریپ، بلیک میلنگ، ہراساں کرنے، رشوت خوری، ذات پات اور گالی گلوچ کے معاملات میں سامنے آچکا ہے۔

Next Article

ہائی کورٹ کی سرزنش کے بعد ابھیجیت مترا نے نیوز لانڈری کی صحافیوں کے خلاف پوسٹ ہٹائی

نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مترا نے ان کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جوجنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالت نے مترا کو اسے فوراً ہٹانے کو کہا۔

نیوز لانڈری کا لوگو اور ابھیجیت ایر مترا۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس / @newslaundryاور @Iyervval)

نیوز لانڈری کا لوگو اور ابھیجیت ایر مترا۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس / @newslaundryاور @Iyervval)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم نیوز لانڈری کی نو خواتین صحافیوں کی طرف سے دائر ہتک عزت کے مقدمے میں تبصرہ نگار ابھیجیت ایر مترا کو اس وقت تک سننے سے انکار کر دیا جب تک کہ وہ اپنی مبینہ توہین آمیز پوسٹ کو ہٹا نہیں لیتے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس پرشیندرکمار کورو نے ان کے وکیل جئے اننت دیہادرائی کو زبانی طور پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا، ‘کیا آپ ان ٹوئٹس کا دفاع کر سکتے ہیں؟ اس طرح  کی زبان،  خواہ اس کا پس منظر کچھ بھی ہو، کیا خواتین کے خلاف اس طرح  کی زبان معاشرے میں قابل قبول ہے؟ …آپ کو اسے ہٹانا ہوگا۔ تبھی ہم آپ کی بات سنیں گے۔’

ایر کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ جئے اننت دیہادرائی نے فوری اثر کے ساتھ پوسٹ کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔

عدالت نے کہا کہ ‘پوسٹ میں  استعمال کی گئی زبان کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کا اولین نظریہ ہے کہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے…’

معلوم ہو کہ نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مترا نے ان کے خلاف قابل اعتراض اور توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جو جنسی بدسلوکی  کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان صحافیوں کی طرف سے دائر مقدمہ میں مترا سے عوامی طور پرمعافی اور مبینہ ہتک عزت کے لیے 2 کروڑ روپے ہرجانے اور معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جن خواتین صحافیوں نے مقدمہ درج کرایا ہے ان میں منیشا پانڈے، اشیتا پردیپ، سہاسنی بسواس، سمیدھا متل، تیستا رائے چودھری، تسنیم فاطمہ، پریہ جین، جئے شری اروناچلم اور پریالی ڈھینگرا شامل ہیں۔ نیوز لانڈری بھی اس مقدمے میں مدعیوں میں سے ایک ہے۔

عبوری راحت کے طور پر مترا کے ایکس  ہینڈل سے متنازعہ پوسٹ  ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مترا کی جانب سے ایکس پر کی گئی مبینہ توہین آمیز پوسٹس ہتک آمیز، بے بنیاد اور غلط ہیں اور ان کا مقصد جان بوجھ کر خواتین صحافیوں کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔

مترا پر نیوز لانڈری کی خواتین ملازمین کو ‘غلط اور بدنیتی سے’ لیبل کرنے اور انہیں ‘طوائف’ اور ان کے کام کی جگہ کو ‘کوٹھا’ کہنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

اس میں  مترا پر ایکس  پر اپنی پوسٹس کی سیریز کے ذریعے مبینہ طور پر نازیبا کلمات اور گالی گلوچ کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

اپنی درخواست میں صحافیوں نے کہا کہ نیوز لانڈری کے سبھی صارفین کو ہندی میں’ویشیا’ کہا گیا ہے، جبکہ انہیں ( مترا) نہیں معلوم  کہ وہ ڈاکٹر، وکیل، جج، اساتذہ، سائنسدان، آرکیٹیکٹس، انجینئر وغیرہ ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے، ‘کسی بھی عورت/شخص کو غیرانسانی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ کسی بھی پیشے کو توہین کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ تبصرے خواتین کو – چاہے وہ صحافی ہوں یا سیکس ورکر –  ان کی شناخت اور وقار سے محروم کرتے ہیں۔’

شکایت میں کہا گیا ہے، ‘یہ جنسی بدسلوکی ہے، جس کا مقصد ادارے میں کام  کرنے والی خواتین پیشہ ور افراد کی تذلیل کرنا ہے، اور یہ ادارے پر براہ راست حملہ کے ساتھ ساتھ ان کے وقار اور بغیر کسی خوف یا جنسی ہراسانی کے کام کرنے کے حق پر بھی حملہ  ہے۔’

عدالت آئندہ ہفتے کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی۔

عدالت کے ریمارکس کے بعد مترا نے ایکس  پر لکھا کہ انہیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور وہ ان پوسٹ کو ہٹا دیں گے۔ اس پوسٹ میں ایر نے ادارے کی فنڈنگ ​​پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

دریں اثنا، نیوز لانڈری کی مینیجنگ ایڈیٹر منیشا پانڈے، جو مترا کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں کلیدی درخواست گزار ہیں، نے ایکس پر ایک مضمون شیئر کیا ہے ، جس میں ویب سائٹ کی فنڈنگ ​​اور ملکیت کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

Next Article

’ای ڈی ساری حدیں پار کر رہا ہے‘، سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کارپوریشن کے خلاف جانچ پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور ای ڈی کو حدیں پار کرنے پر سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (22 مئی) کو ریاست کے زیر انتظام تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) کو’سار ی حدیں پار کرنے’ پر سرزنش کی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح  کی بنچ تمل ناڈو حکومت اور ٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں 23 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کی جانب ان کی درخواست کو خارج کیے جانے  کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں سے 6 اور 8 مارچ 2025 کے درمیان ٹی اے ایس ایم سی ہیڈکوارٹر پر ای ڈی  کے چھاپوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی گوئی نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا،’آپ افراد کے خلاف تومقدمات درج کر سکتے ہیں لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمات درج نہیں کر سکتے؟ آپ کاای ڈی  ساری  حدیں پار کر رہا ہے۔’

سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کرنے والےٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر ایس ایل پی پر ای ڈی کو نوٹس جاری کیا۔

ٹی اے ایس ایم سی اور اس کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل اور مکل روہتگی نے دلیل دی کہ ایجنسی نے بغیر کسی ضابطے کے موبائل فون کی کلوننگ کرکے اور ذاتی آلات کو ضبط کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔

سبل نے کہا، ‘ہم نے پایا کہ جن لوگوں کو آؤٹ لیٹ دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ حقیقت میں نقد لے رہے ہیں۔ اس لیے ریاست نے خود کارپوریشن کے خلاف نہیں بلکہ 2014-21 سے افراد کے خلاف 41 ایف آئی آر درج کیں۔ ای ڈی  2025 میں سامنے آتا ہے اور کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم سی) اور ہیڈ آفس پر چھاپہ مارتا ہے۔ سارے فون لے لیے گئے، سب کچھ لے لیا گیا۔ سب کچھ کلون کیا گیا۔’

اس پر سی جے آئی نے پوچھا، ‘کارپوریشن کے خلاف جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘آپ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی مکمل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

سبل نے عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ ای ڈی کو فون اور آلات سے کلون شدہ ڈیٹا کے استعمال سے روکے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پرائیویسی  کا معاملہ ہے!’ تاہم، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری راحت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور وہ مزید کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔

مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے 23 اپریل کوٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے اپنے ہیڈکوارٹر میں ای ڈی  کی طرف سے کی گئی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کے خلاف دائر تین رٹ درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ بنچ نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ چھاپوں اور اچانک معائنہ کے دوران ملازمین کو حراست میں لیناضابطے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ای ڈی نے حال ہی میں تمل ناڈو میں کئی مقامات پر نئے سرے سےچھاپے مارے، جن میں ٹی اے ایس ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس وسکن اور فلمساز آکاش بھاسکرن کے گھر بھی شامل ہیں۔وسکن سے مبینہ طور پر تقریباً 10 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔