عوامی نمائندگی ایکٹ کےمطابق ووٹنگ ختم ہونے سے پہلے کے 48 گھنٹے میں کسی بھی شکل میں انتخابی مواد کی نمائش پر پابندی عائد ہے، اس کے تحت ووٹر پر اثر ڈالنے والے ٹیلی ویژن یا کسی اور میڈیم کا استعمال نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ وزیر اعظم مودی نے قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنے من کا کام کیا۔
پہلی نظر میں اتر پردیش (یو پی) اسمبلی انتخاب کے پہلے مرحلے کی پولنگ سے ٹھیک پہلے نریندر مودی کا اے این آئی کو دیا گیا انٹرویو ہندوستان کے انتخابی قانوں کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ‘کسی بھی شکل میں ووٹنگ ختم ہونے سے پہلے کے 48 گھنٹے میں ‘انتخابی مواد’ کی نمائش پر پابندی عائد ہے۔
عوامی نمائندگی ایکٹ کے آرٹیکل 126(3) کے تحت، ‘انتخابی مواد’ کا مطلب ہے ‘ایسا کوئی بھی مواد جس کا مقصد انتخابی نتائج کو متاثر کرنا ہے۔’ پولنگ سے پہلےکے 48 گھنٹوں میں امیدواروں کوانتخابی مواد کی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے-خواہ ٹی وی کے ذریعےڈرامہ وغیرہ کی پیشکش ہی کیوں نہ ہو۔’
واضح طور پر کہوں تو میں نہیں جانتا کہ مودی کا انٹرویو اِن میں سے کس زمرے میں آتا ہے، لیکن ان کے جواب (اور پوچھے گئے سوال) کے پس پردہ منشا واضح طور پر یوپی کے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی تھی۔ اگر آپ کسی دوسری دنیا کے باشندے نہیں ہیں تو اس کا یہی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے۔
126.پولنگ مکمل ہونے کے مقررہ وقت سے پہلے کے 48گھنٹے میں عوامی اجلاس پر پابندی۔
(1) کوئی بھی شخص–
(الف) پولنگ کے مکمل ہونےکے مقررہ وقت سے پہلےکے 48 گھنٹے کے دوران الیکشن کے سلسلے میں کسی بھی عوامی جلسے جلوس کا اہتمام نہیں کرے گا،نہ ہی اس کا انعقاد کرے گا، نہ اس میں شریک ہوگا، نہ شرکت کرے گا، نہ ہی اس کوخطاب کرے گا۔
(ب) سنیما، ٹیلی ویژن یا اسی طرح کے ذرائع ابلاغ سے کسی بھی قسم کے انتخابی موادکو ڈسپلے کرے گا۔ یا،
(ج) پولنگ ایریا میں پولنگ کےمکمل ہونے کے لیے طے شدہ وقت کے ساتھ ختم ہونے والے 48 گھنٹے کے دوران عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ارادے سے میوزیکل کنسرٹ یا تھیٹر پرفارمنس یا تفریحی قسم کے کسی پروگرام کا اہتمام یااس کا انتظام کرکے وہاں کسی بھی طرح کے انتخابی مواد کی تشہیر نہیں کرے گا۔
(2) ذیلی دفعہ (1) کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی شخص دو سال تک کی قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا کا مستحق ہوگا۔
(3) اس سیکشن میں’انتخابی مواد’کی نمائش سے مراد ایسا کوئی بھی مواد ہے جس کا مقصد انتخاب پر اثر ڈالنا یااس کو متاثر کرنا ہے۔
اے این آئی پر نشر ہونے والا انٹرویو ہندوستان کے وزیر اعظم کے ساتھ ملک کی صورتحال کے بارے میں کیا گیا کوئی انٹرویو نہیں تھا۔ یہ واضح طور پر اتر پردیش (نیز چار دیگر ریاستوں) کے انتخابات کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کے بارے میں کیا گیاانٹرویو تھا، اور مودی کے جوابات نے یہ واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ وہ نتائج کو بی جے پی کے حق میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔
سال 2017 میں الیکشن کمیشن نے اسی دفعہ 126 کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کا انٹرویو نشر کرنے والےمختلف ٹی وی چینلوں کےخلاف کارروائی کرے۔ راہل گاندھی نے یہ انٹرویو اُس سال گجرات اسمبلی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے دیا تھا۔
تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیشن نے چار دن بعد نوٹس واپس لے لیاتھا— شاید اس مشورے پر کہ سیکشن 126 کا اطلاق امیدواروں اور ان کے حامیوں پر ہوتا ہے، میڈیا پر نہیں— اور کہا کہ کمیشن عوامی نمائندگی ایکٹ میں مناسب ترمیم تجویز کرنے پر غور وخوض کرے گا۔
اس بار بھی الیکشن کمیشن نے الیکشن ختم ہونے کے 48 گھنٹے پہلے انتخابی مواد کی نمائش پر پابندی کا اعادہ کیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اس بات کو لے کر مطمئن ہیں کہ الیکشن کمیشن ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔
صرف الیکشن کمیشن نے ہی اپنی تن آسانی کےلیے اپنے اصولوں کوفراموش نہیں کیا ہے – اس سچائی کے باوجود کہ آدھے سے زیادہ انٹرویو،جس میں سوالات کا پہلا سیٹ بھی شامل ہے، اتر پردیش انتخابات کے بارے میں تھا- اے این آئی نے بھی مودی کو کھل کر کھیلنے کی پوری آزادی دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایک گھنٹے کا انٹرویو حسب توقع آسان سوالوں سے بھرا ہوا تھا۔ دو یاتین تھوڑے قاعدے کے سوال بھی بے دلی سےاور معذرت خواہانہ انداز میں پوچھے گئے ، کہ شایداس کا نہ پوچھنا ہی بہتر ہوتا۔
اے این آئی کی ایڈیٹراسمتا پرکاش کا انداز سب سےزیادہ سخت اس وقت نظر آیا، جب انہوں نے مرکزی وزیر ٹینی کے بیٹے پر اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے قتل میں ان کے مبینہ رول کے الزامات کے باوجودانہیں کابینہ میں برقرار رکھنے کاذکر دیا۔
حالانکہ انہوں نے اسے سوال کے طور پر نہیں پوچھا ، اس لیے مودی کو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور جیسا کہ توقع تھی،اسمتا پرکاش نے اس پر جواب طلب بھی نہیں کیا۔
مودی نے اپنی حکومت کے زرعی قوانین پر کسانوں کے احتجاج اور بات چیت کی اہمیت کے بارے میں بات کی، لیکن ان سے مظاہرین سے ملاقات نہ کرنے اور قانون پر بات نہ کرنے کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔
اور نہ ہی ان سے 700 سے زائد کسانوں کی موت کے بارے میں کوئی سوال پوچھا گیا، جسے قبول کرنے سےانہوں نے – اپنی پارٹی کے ایک گورنر کے مطابق – انتہائی غیر حساسیت کے ساتھ انکار کر دیاتھا۔
اپنا دامن بے داغ دکھانےکے لیےا سمتا پرکاش نے بے حد سہمے ہوئے انداز میں مودی کے ذریعےانتخاب کے وقت میں بی جے پی کے سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کے لیے مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے الزامات کا تذکرہ کیا، لیکن یہاں بھی انھوں نے مودی کو مضحکہ خیز اور آسانی سےمسترد کیے جانے والےجواب کی اوٹ میں بچ نکلنے دیا کہ ای ڈی اور سی بی آئی آزادانہ طور پر کام کرتی ہے اور اپوزیشن لیڈروں اور ان کے اہل خانہ پرانتخابات کے دوران کوئی بھی چھاپہ محض ایک اتفاق ہے، کیونکہ’انتخابات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔’
جیسا کہ توقع تھی بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ملک بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف چلائی جارہی جارحانہ مہم- مسلمانوں کے قتل عام کی حالیہ اپیل، اجتماعی نمازیااسکول میں حجاب پر پابندی کی حالیہ کوششوں – کا کوئی براہ راست ذکر انٹرویو میں نہیں کیا گیا۔
اور نہ ہی خود مودی، امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر– جن میں مسلم مخالف سیاسی پیغامات بھرے ہوئے تھے، کاکوئی ذکرتھا۔
اس کے بجائے، اسمتا پرکاش نے ایک گول مول سوال کیا کہ کیسے میڈیا پولرائزیشن اور مسلمانوں کے عدم تحفظ کے احساس کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ اس طرح سوال پوچھنے سے مودی کو میڈیا پرتہمت لگانے کا موقع دیا گیا- ‘میڈیا جو کرتا ہے، ویسا کیوں کرتا ہے اور انہیں ہدایات اور احکامات کون دیتا ہے -یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں۔’
کہیں بھی ان سے کسی معاملے پر جواب طلب نہیں کیا گیا، یا بطور وزیر اعظم ن کی بھول اور غلطی جیسے گناہوں کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔
اسمتا پرکاش نے مودی کی توجہ اس تنقید کی طرف مبذول کرائی کہ ان کی حکومت ہندوستان کے علاقائی تنوع کا خاطر خواہ احترام نہیں کرتی۔ اس سوال سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے خود کے وفاقیت کا سب سے بڑا وکیل ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔
مزید برآں، کووڈ-19 لاک ڈاؤن پر پارلیامنٹ میں کیے گئے ان کےجھوٹے دعوے – جہاں انھوں نے حزب اختلاف پر مزدوروں کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا الزام لگایا- کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ ایک سادہ سا سوال- ‘آپ نے ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملک گیر لاک ڈاؤن پر تبادلہ خیال کیوں نہیں کیا اورنقل مکانی کو روکنے کے لیے فوری ریلیف کا منصوبہ بناکر اس کا اعلان کیوں نہیں کیا- نہیں پوچھا گیا۔
دفاعی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر ان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی- چین نے لداخ کی سرحد سےمتصل علاقے میں اب تک اس کے قبضے میں نہیں رہے ہندوستان کی زمین پر قبضہ کر لیاہے- کو لے کربھی سوال نہیں پوچھا گیا۔
یہ سچائی کہ وزیراعظم کے آخری دو انٹرویو— اکتوبر 2021 میں اوپن میگزین اور اکتوبر 2020 میں اکنامک ٹائمز — میں بھی چین کا ذکر نہیں آیا— جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کے ایک اہم حصے کے پاس یا تو بنیادی نیوز سینس کی کمی ہے یا اس کے پاس ریڑھ (یادونوں) نہیں ہےاور جو کچھ بھی ہوا، اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے لیے مودی خودتیار نہیں ہیں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)