میزورم کے وزیر اعلیٰ زورامتھنگا کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو میانمار سے آنے والے لوگوں کے لیے فیاضی دکھانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ایک وفد کو دہلی بھیج کر مرکزی حکومت سے میانمار کے مہاجرین کو واپس نہ بھیجنے کو لےکرخارجہ پالیسی میں تبدیلی کی درخواست کریں گے۔
نئی دہلی: میانمار میں تختہ پلٹ کے بعد ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں پہنچ رہے میانمارکے لوگوں کو لےکر چل رہی سیاسی کھینچ تان کے بیچ میزورم کے وزیر اعلیٰ زورامتھنگا نے کہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ میانمار کو لےکر اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرے اور مہاجرین کو واپس نہ بھیجے۔
خبررساں ایجنسی اےاین آئی کےمطابق،جمعرات کو وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں ایک وفددہلی بھیجیں گے۔یہ کہتے ہوئے کہ مرکز کو میانمار کے لوگوں کو لےکر فیاض ہونا چاہیے زورامتھنگا نے کہا کہ ایک بار جب فوج مقتدرہ میانمار سے مہاجرین میزورم آ جا ئیں گے تو انہیں انسانی بنیادوں پر پناہ اورکھانامہیا کیا جائےگا۔
انہوں نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ میانمار کے لوگوں کو لےکرہندوستانی حکومت کو فیاضی دکھانی چاہیے۔ میں نے وزیر اعظم مودی سے بھی یہ کہا ہے۔ میں اس پر چرچہ کرنے کے لیے اپنے ایک وفدکو دہلی بھیج رہا ہوں۔ ہم سرکار سے درخواست کریں گے کہ میانمار کےمہاجرین کو قبول کرنے اور واپس نہ بھیجنے کو لےکرخارجہ پالیسی میں تبدیلی کی جائے۔ مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ مجھے صحیح تعداد تو نہیں پتہ لیکن ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی رکھنی ہوگی۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘میں نے اپنی رائے سےوزیر داخلہ امت شاہ کوبھی آگاہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ میانمار سے آنے والے لوگ ہمارے بھائی بہن ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے ساتھ ہمارے گھریلو رشتے ہیں۔ اور اگر وہ میزورم آتے ہیں تو ہمیں انسانی بنیادوں پر انہیں کھانا اور پناہ دینا ہوگا۔ ہم میانمار میں ایک جمہوری حکومت چاہتے ہیں نہ کہ فوجی حکومت۔’
اس سے پہلے 13 مارچ کو وزارت داخلہ کی جانب سے چار شمال مشرقی ریاستوں کو بھیجے گئے ایک خط میں میانمار سے غیرقانونی طور پر آ رہے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بات کہی گئی تھی۔قابل ذکر ہے کہ میزورم کے وزیر اعلیٰ زورامتھنگانے اس سے پہلےوزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ان سے مہاجرین کو پناہ دینے کی گزارش کی تھی اور کہا تھا کہ میانمار میں‘بڑے پیمانے پر انسانی تباہی’ہو رہی ہے اور فوج بے قصور شہریوں کی جان لے رہی ہے۔
غورطلب ہے کہ میانمار میں فوج نے گزشتہ ایک فروری کو تختہ پلٹ کر رہنماؤں کو نظربند کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔میانمار کی فوج نے ایک سال کے لیے ملک کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ملک میں نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھوکہ دھڑی کی وجہ سے اقتدار کمانڈر ان چیف کو سونپ دی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ سو چی کی منتخب غیرفوجی حکومت کو ہٹانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیوں کےالزامات کی ٹھیک سے جانچ کرنے میں ناکام رہیں۔
پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں سو چی کی پارٹی نے پارلیامنٹ کے نچلے اور اوپری ایوان کی کل 476 سیٹوں میں سے 396 پر جیت درج کی تھی، جو اکثریت کے اعدادوشمار322 سے کہیں زیادہ تھی، لیکن 2008 میں فوج کی جانب سے تیار کیے گئےآئین کے تحت کل سیٹوں میں 25 فیصد سیٹیں فوج کو دی گئی تھیں۔
میانمار کے ساتھ میزورم کی 510 کیلومیٹر کی لمبی سرحد لگتی ہے۔ اس سرحد کی رکھوالی کی ذمہ داری آسام رائفلس کے پاس ہے۔
دریں اثناگزشتہ ہفتے منی پور سرکار کی طرف سے میانمار کی سرحد سےمتصل ا ضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو 26 مارچ کو جاری ایک آرڈر میں میانمار سے بھاگ کر آ رہے لوگوں کو پناہ دینے اور کھانا دینے سے انکار اور انہیں ‘پرامن ’ طریقے سےلوٹانے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ سخت تنقید کے بعد اس آرڈر کو واپس لے لیا گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان نے میانمار میں تشدد کی مذمت کی
ہندوستان نے میانمار میں تشدد کی مذمت کی اور لوگوں کی موت پر سوگواری کا اظہار کیا، ساتھ ہی میانمار سے زیادہ سے زیادہ صبرو تحمل سے کام لینے اور حراست میں لیے گئے رہنماؤں کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں حالات پر بدھ کو بند کمرے میں چرچہ کی تھی۔
اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس تری مورتی نے ٹوئٹ کیا کہ بیٹھک میں انہوں نے ‘تشدد کی مذمت کی، لوگوں کی موت پر سوگواری کا اظہار کیا، زیادہ سے زیادہ صبروتحمل سے کام لینے کی اپیل کی، جمہوری اقتدارکی منتقلی کے لیے عزم کا اظہار، حراست میں لیے گئےرہنماؤں کو رہا کرنے کی مانگ کی اور آسیان ممالک کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔’
انہوں نے بیٹھک میں کہا کہ حالات کا پرامن حل نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر بات چیت کرنے اور لوگوں کی امیدوں کو پورا کرنے اور رخائن ریاستی ترقیاتی پروگرام کو مدد دینے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے میانمار میں سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں بچوں اورنوجوانوں سمیت درجنوں شہریوں کی ہلاکت کی پچھلے ہفتے ‘سخت مذمت’ کی تھی۔
سکریٹری جنرل کی میانمار پر خصوصی سفیرکرسٹین شرانر برگنر نے بھی بیٹھک کو خطاب کیا۔ برگنر نے آگاہ کیا کہ ملک میں خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فروری میں تختہ پلٹ کے بعد سے اب تک 520 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘مجھے ڈر ہے کہ اور خون خرابہ ہوگا کیونکہ کمانڈر ان چیف طاقت کے بل پر اقتدار پر غیرقانونی پکڑ بنائے رکھنے کو لےکر پرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)