
فرانسسکا اورسینی،فائل فوٹو: پرویز عالم/ایکس
نئی دہلی: ہندی کی اسکالر اور یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز(ایس او اے ایس)کی پروفیسر ایمریٹا فرانسسکا اورسینی کو سوموار کی رات (20 اکتوبر) کو ہندوستان میں داخلے سے منع کر دیا گیا، جبکہ ان کے پاس پانچ سال کا ای -ویزتھا، انہیں بتایا گیا کہ انہیں فوراً ملک سے واپس بھیجا جا رہا ہے۔
فرانسسکا اورسینی چین میں اکیڈمک کانفرنس میں شرکت کے بعد ہانگ کانگ کے راستے 20 اکتوبر کی رات دہلی پہنچی تھیں۔ فرانسسکا نے آخری بار اکتوبر 2024 میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا، اور اس بار انہیں صرف اپنے دوستوں سے ملنا تھا، لیکن امیگریشن حکام نے ان کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔
ان کی کتابوں میں ‘دی ہندی پبلک اسفیئر 1920-1940: لنگویج اینڈ لٹریچر ان دی ایج آف نیشنل ازم (2002)’جیسے معتبر تحقیقی کارنامے شامل ہیں ۔
دہلی ہوائی اڈے سے دی وائر سے بات کرتے ہوئے اورسینی نے کہا کہ انہیں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے کہا،’مجھے واپس بھیجا جا رہا ہے۔ بس اتنا ہی مجھے پتہ ہے۔’
لندن میں رہنے والی اورسینی کو اب واپسی کے لیے اپنے سفری انتظامات خود کرنے ہوں گے۔ وہ حالیہ برسوں میں مبینہ طور پر چوتھی غیر ملکی محقق ہیں جنہیں ویزا ہونے کے باوجود ہندوستان میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
سال2021 میں جب کووِڈ وبائی امراض کی وجہ سے بین الاقوامی سفر تقریباً معطل تھا، مودی حکومت نے آن لائن منعقد ہونے والے اکیڈمک سیمیناروں اور کانفرنسوں کے لیے غیر ملکی اسکالروں کو مدعو کرنے پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کی تھی، یعنی صرف انہی اسکالروں کو مدعو کیا جا سکتا تھا جنہیں پہلے سے سیاسی طور پر منظوری حاصل ہو۔
مارچ 2022 میں برطانوی ماہر بشریات فلیپو اوسیلا کو ترواننت پورم ہوائی اڈے پر روک د یا گیا تھا اور واپس بھیج دیاگیا تھا۔ اسی سال برطانوی فن تعمیر کے پروفیسر لنڈسے بریمنر کو بھی وجہ بتائے بغیرکے ملک سے نکال دیا گیا تھا۔
سال2024 میں برطانیہ میں مقیم کشمیری ماہر تعلیم نتاشا کول کو بنگلورو ہوائی اڈے پر اس وقت ہندوستان میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، جب وہ کرناٹک حکومت کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں شرکت کے لیےآئی تھیں۔ اس کے بعد ان کا اوسی آئی(اوورسیز سٹیزن آف انڈیا) کارڈ بھی ردکر دیا گیا۔
حکومت نے سویڈن میں مقیم ایک ماہر تعلیم اورسوشل میڈیا پر بی جے پی کی سیاست پر تنقید کرنے والے اشوک سوین کا او سی آئی کارڈ بھی رد کر دیا گیا۔اس کے بعد سوین نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جہاں انہیں راحت ملی۔
ملک بدری کے غیر یقینی اور غیر متوقع طریقوں نے غیر ملکی اسکالروں میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔
فرانسسکا اورسینی کو ہندوستان میں داخل ہونے سے روکے جانے کا یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں تعلیمی آزادی زوال پذیر ہے اور یونیورسٹیوں اور سیاسی گروہوں کے ذریعہ اظہار رائے کی آزادی کو روکا جا رہا ہے۔

یہ پانچ سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (27 اکتوبر) کو 2020 کے شمال-مشرقی دہلی فسادات کے مبینہ ‘ سازش’ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ اور میران حیدر کی درخواست ضمانت پر سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، عدالت نے دہلی پولیس کی جانب سے ضمانت کی ان درخواستوں کا جواب نہ دینے پر سخت اعتراض کیا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے۔
معلوم ہو کہ یہ چاروں پانچ سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سوریہ پرکاش وی راجو نے جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے وقت مانگا، جس پر جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے کہا کہ پولیس کو جواب دینے کے لیے کافی وقت دیاجا چکا ہے اور ضمانت کے معاملات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے جہاں جوابی اپیل دائر کی جائے۔
لائیو لا کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس کمار نے اس معاملے میں کہا، ‘اگر آپ کو یاد ہو تو، ہم نے کھلی عدالت میں کہا تھا کہ ہم 27 اکتوبر کو کیس کی سماعت کریں گے اور اسے نمٹا دیں گے۔ سچ کہوں تو ضمانت کے معاملات میں جوابی دلیل دائر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’
سپریم کورٹ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اپیل کنندگان پہلے ہی پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ جسٹس کمار نے کہا،’آپ جوابی پٹیشن دائر کریں۔ لیکن ہم آپ کو دو ہفتے کا وقت نہیں دیں گے۔’
اس پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے ایک ہفتے کا وقت مانگا، تب بھی بنچ نے ناگواری کا اظہار کیا۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق ، جسٹس کمار نے کہا، ‘جمعہ کو، آپ یقینی بنائیں کہ آپ کو مناسب ہدایات ملیں… ہم سنیں گے۔ دیکھیے،کیا آپ کر سکتے ہیں۔ یہ صرف ضمانت پر غور کرنے کا معاملہ ہے۔ دیکھیے، پانچ سال تو پورے ہو ہی گئےہیں۔’
عدالت کے سامنے سینئر وکیل کپل سبل اور سی یو سنگھ نے عمر خالد،ابھیشیک منو سنگھوی نے فاطمہ اور سدھارتھ دوے نے امام کی نمائندگی کی۔ ان چاروں نے جیل میں گزارے ہوئے وقت اور ضمانت کے طویل انتظار پر زور دیا۔
معلوم ہو کہ خالد اور دیگر نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا ۔ دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شیلندر کور کی بنچ نے ان چاروں اور خالد سیفی، اطہر خان، محمد سلیم خان، شفا الرحمان اور شاداب احمد کی تمام اپیلوں کو خارج کر دیا تھا۔
قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو ‘بدنماداغ’ قرار دیا تھا۔
غور طلب ہے کہ جیل میں بند ان کارکنوں نے متعدد اپیلیں دائر کیں، جنہیں عدالتوں نے ملتوی کرنے کے بعد خارج کر دیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے ‘انصاف کے ساتھ مذاق’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 2020 دہلی فسادات کے معاملے میں انتہائی متنازعہ ایف آئی آر نمبر 59/2020 دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مختلف جرائم کے تحت درج کیا تھا۔
اس تشدد کی تحقیقات میں دہلی پولیس کے جانبدارانہ کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں ۔
دہلی پولیس کے زیادہ تر مقدمات ملک گیر شہریت ترمیمی قانون کے احتجاج کے دوران وہاٹس ایپ گروپس میں کارکنوں کی موجودگی یا شرکت پر مبنی ہیں۔

دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف مؤرخ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ ‘یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ بہار کے ان لوگوں کے بنیادی مسائل (پانی، بجلی اور رہائش وغیرہ) پر کوئی بات نہ ہو جن کو دہلی میں ہر طرح سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔’
نئی دہلی: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے چھٹھ پوجا کے موقع پر دہلی میں ایک نئی مہم شروع کی ہے، جس میں ‘جہادی-مکت دلی’ کے عہد کے ساتھ ‘سناتن پرتشٹھا’ کے اسٹیکر تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام عقیدت مندوں کو ‘خالص اور مصدقہ’ پوجا کے سامان دستیاب کرانا ہے۔ تاہم، دانشور اسے ہندوتوا تنظیم کی طرف سے منظم طریقے سے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
‘سناتن پرتشٹھا’ کا اسٹیکر: سرٹیفیکیشن یا بائیکاٹ کا حربہ؟
وی ایچ پی اندر پرستھ کے عہدیدار سریندر گپتا نے جمعرات (23 اکتوبر) کو اعلان کیا کہ تنظیم دہلی کے تمام 30 اضلاع میں مختلف مقامات پر اسٹال لگائے گی، جو ‘مصدقہ، خالص اور مفید’ پوجا کے سامان دستیاب کرائے گی۔ اس کے ساتھ ہی، ہندو دکانداروں، ٹھیلے والوں اور ریہڑی -پٹری والوں کو ‘تصدیق کے بعد’ آفیشل “سناتن پرتشٹھا’ اسٹیکرز فراہم کیے جائیں گے۔
یہ’تصدیق’کس بنیاد پر ہوگی؟ گپتا نے بتایا کہ اس کا تعین ‘دکان/اسٹال کے رجسٹریشن، شناخت اور دستاویزوں کی جانچ ،پھر مقامی نمائندہ کے معائنہ کے بعد کیا جائے گا۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ ‘معیار اور تقدس’ کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔

وی ایچ پی دکانداروں کو یہی اسٹیکر فراہم کرنے والی ہے۔
وی ایچ پی کا دفاع: ‘کسی کے خلاف نہیں‘
گپتا نے دعویٰ کیا کہ یہ پہل ‘کسی کے خلاف نہیں، بلکہ ہماری ثقافت، روایت اور سناتن عقائد کے تحفظ کے لیے ہے۔’ انہوں نے کہا کہ تنظیم ‘پرامن، قانونی اور شفاف طریقے سے’ کام کررہی ہے اور ‘تمام طبقات کا احترام’ کرتی ہے۔
تاہم، وی ایچ پی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کی مہم کا اصل مقصد مذہبی شناخت کی بنیاد پر تاجروں کو تقسیم کرنا ہے۔ جولائی 2025 میں کانوڑ یاترا کے دوران تنظیم نے اسی طرح کی ‘سناتنی سرٹیفیکیشن’ مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں صرف ہندوؤں کی ملکیت والی دکانوں پر اسٹیکر لگائے گئے تھے۔
کیا ہے‘جہادی- مکت دلی’ کا منصوبہ ؟
دی وائر سے بات چیت میں ‘جہادی-مکت دلی’ کی وضاحت کرتے ہوئے سریندر گپتا نے کہا، ‘جو لوگ جہاد کی نیت سے ہندو بہنوں اور بیٹیوں سے محبت کا ڈھونگ کرتے ہیں، ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر ڈھابے چلاتے ہیں، تھوک جہاد کرتے ہیں، ایسی تمام سرگرمیاں جو جہاد کے زمرے میں آتی ہیں، ہم ان تمام سرگرمیوں کو روکیں گے۔’
لیکن چھٹھ پوجا کی اشیاء کی فروخت جہاد کیسے ہے، اور اسے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کوشش کیوں نہیں سمجھا جانا چاہیے؟ گپتا نے کہا، ‘آپ اسے جو بھی نام دیں۔ ہماری سیدھی سی بات ہے، جو ہمارے دیوی دیوتاؤں کو نہیں مانتا، جو ہمارے مذہب کو نہیں مانتا، جو ہماری مورتیوں کو نہیں مانتا، جو ہمارے جئے شری رام کے نعرے پر یقین نہیں رکھتا، اس کوہمارے تہوار میں سامان بیچنے میں کس طرح کا آستھاہے؟ کہیں اور بیچ لیں۔ ہم سے فائدہ کمانے کے لیے تو ان کو سب قبو ل ہے۔ویسے ان کا مذہب ان باتوں کے خلاف ہے۔ یہ دوہرا معیار کیسےچلےگا؟’

وی ایچ پی کا پوسٹر ۔
وی ایچ پی اپنی مہم کو تہوار کی خریداری تک محدود نہیں کر رہی ہے۔ اس کے منصوبے وسیع ہیں۔ گپتا کہتے ہیں، ‘یہ صرف تہواروں کے لیے نہیں ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم اپنے مذہبی مقامات کے باہر بھی ایسی ہی مہم چلائیں گے۔ ہم لوگوں کو آگاہ کریں گے کہ وہ خریداری سے پہلے اسٹیکر دیکھ کر ہی سامان لیں۔’
گپتا نے کہا کہ آہستہ آہستہ ہندو روزمرہ کی چیزیں بھی اس اسٹیکر کو دیکھ کر خریدیں گے اور جو کوئی ہندوؤں کو سامان بیچنا چاہتا ہے اسے ‘سناتن پرتشٹھان’ کا سرٹیفکیٹ لینا ہی ہوگا۔
’جہادی-مکت دلی‘جیسی اصطلاحات کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں اکثر پوری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ‘جہادی’ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔
ستمبر 2025 میں اندور میں وی ایچ پی اور بی جے پی کے لیڈروں نے کھلے عام ‘جہادی-مکت بازار’ کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کیے اور مسلم تاجروں اور کارکنوں کو ٹیکسٹائل مارکیٹوں سے باہر نکال دیا۔
بی جے پی لیڈر اور اندور کی ایم ایل اے مالنی گوڑ کے بیٹے ایکلویہ سنگھ گوڑ نے ہندو تاجروں سے مسلم ملازمین کو نوکری سے نکالنے کی اپیل کی، اور مارکیٹ ایسوسی ایشن نے فوراً اس پر عمل کیا۔
منظم اقتصادی بائیکاٹ کی تاریخ
پچھلے کچھ سالوں میں، ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے مسلم تاجروں کے معاشی بائیکاٹ کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں؛
اکتوبر 2022: بی جے پی ایم پی پرویش صاحب سنگھ ورما نے دہلی کے دلشاد گارڈن میں وی ایچ پی کی میٹنگ میں مسلمانوں کے ‘مکمل بائیکاٹ’ کی اپیل کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا،’ان کی دکانوں سے سامان مت خریدو، انہیں مزدوری مت دو۔’
اگست 2023: ہریانہ میں تشدد کے بعد، وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے مسلمانوں کے کاروبار کا معاشی بائیکاٹ کرنے اور مسلمانوں کو دیہات سے نکالنے کی مہم شروع کی تھی۔ بجرنگ دل کے کرشنا گرجر نے خبردار کیا تھا، ‘جودکاندارمسلمان ملازم رکھے گا، اس کی دکان کے باہر بائیکاٹ کے پوسٹر لگائے جائیں گے۔’
اکتوبر 2024: ہماچل پردیش میں وی ایچ پی کی قیادت میں سنجولی مسجد سے متعلق تشدد کے بعدریاست بھر میں مسلمانوں کے کاروباروں کا بائیکاٹ کرنے ، انہیں نوکریوں سے انکار کرنے اور جائیداد کرائے پرنہ دینے کی اپیل جاری کی گئی۔ کئی مسلمان مہاجر مزدوروں کو ریاست چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
جولائی 2025: کانوڑ یاترا کے دوران وی ایچ پی نے دہلی میں 5000 دکانوں پر ‘سناتنی’ اسٹیکر لگانے کی مہم شروع کی۔ اطلاعات کے مطابق، مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔
جون 2025: مراد آباد کے منگو پورہ میں وی ایچ پی لیڈر سوامی وگیانانند نے ‘حلال معیشت کو کمزور کرنے’ کے لیے مسلم نائی، میوہ فروشوں اور دیگر چھوٹے تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔
جولائی 2025: مہاراشٹر کے پونے کے گاؤں پاؤڑ اور پیرنگوت میں ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کی ملکیت والی بیکری،ا سکریپ شاپس، سیلون اور چکن شاپس کو بند کروا دیا۔ روشن بیکری کے مالک نےبتایا تھا ، ‘ہمارا خاندان یہاں 40 سال سے مقیم ہے، پھر بھی ہمیں باہری کہا جاتا ہے کیونکہ میرے والد کا گاؤں اتر پردیش میں ہے۔’
قانون کی خلاف ورزی؟
اپریل 2023 میں سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ ہندوستانی ریاستوں کو باضابطہ شکایت کا انتظار کیے بغیر نفرت انگیز تقاریر کا مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ جولائی 2025 میں، سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کے احکامات پر روک لگا دی تھی جس میں کانوڑ یاترا کے راستے میں کھانے پینے کی جگہوں اور ریستوراں کو مسلمانوں کے مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کرنے کو کہا گیا تھا، یہ واضح طور پر مسلمانوں کی ملکیت والے اداروں کی شناخت کرنے کی کوشش تھی۔
لیکن ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی کھلی کال کے باوجود، ان کے خلاف قانونی کارروائی بہت کم ہوئی ہے۔
اس طرح کی مہم ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پونے میں، بیکریوں کو بندکروانے سے تقریباً 400 مزدور بے روزگار ہوگئے، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ بھارت بیکری کے مالک نے کہا تھا، ‘پانچ ہندو دکاندار جو ہماری روٹی گھر گھر فروخت کرتے تھے، اب بے روزگار ہیں… یہ صرف مذہب کی بات نہیں ہے؛ یہ ہمارے ذریعہ معاش کو تباہ کرنے کے بارے میں ہے۔’
نازی جرمنی سے مماثلت
متعدد تجزیہ کاروں نے اس اقتصادی بائیکاٹ کا موازنہ 1930 کی دہائی میں نازی جرمنی میں یہودی کاروبار کے بائیکاٹ سے کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے لکھا ہے ،’جرمنی میں، نازیوں نے یہودیوں کی دکانوں پر ‘جوڈ’ (یہودی) لفظ کے ساتھ پیلے ستارے لگوائے تھے تاکہ جرمن ان کی شناخت کر سکیں اور ان کا بائیکاٹ کر سکیں۔ ہندوستان میں نام مذہب اور اکثر ذات پات کے اشارے ہوتے ہیں، اس لیے یہ واضح طور پر مسلمانوں کی ملکیت والے اداروں کی شناخت کا ایک حربہ ہے۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف مؤرخ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں،’جرمنی میں نازیوں کی طرف سے یہودیوں کی دکانوں کے بائیکاٹ اور ہندوستان میں ہندوتوا کارکنوں کی طرف سے مسلمان دکانداروں کے بائیکاٹ میں جہاں بہت سی مماثلتیں ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہیں۔ جرمنی میں تو یہودیوں کا کاروبار پر اچھا خاصہ کنٹرول تھا۔ لیکن یہاں توصرف غریب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، وہ مسلمان جو یہاں پھل، سبزی، ٹافی، چورن اورپرانا کپڑا وغیرہ بیچتے ہیں۔ان لوگوں (ہندوتوادیوں) کاجھگڑاایران، کویت، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات میں تیل فروخت کرنے والےمسلمانوں سے نہیں ہے ۔خودیوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے’لولو گروپ’ کے ایک مال کا افتتاح کیا، جو یواے ای میں رہنے والا ارب پتی مسلم کاروباری ایم اے یوسف علی کا ہے۔’

تصویر: اے پی/پی ٹی آئی
پورے دو سالوں کے بعد غزہ کے فلسطینی مکین سمندر کی لہروں، پرندوں اور اپنے بچوں کی آوازیں سن پا رہے ہیں۔
اسرائیلی بمباری، دھماکوں، چیخوں اور زخمیوں کے کراہوں کے درمیان لوگ زندگی کی علامتی آوازیں بھول گئے تھے۔ غزہ میں موجود صحافی احمد درمَلی مجھے بتا رہے تھے کہ بارود کی گھن گرج میں وہ بحیرہ روم کی لہروں کی گرج کو بھول چکے تھے۔
اسی طرح چوبیس سالہ فلسطینی ماں وِیام المصرِی بتار رہی تھی کہ جنگ بندی کے بعد اب وہ پہلی بار اپنے دو ماہ کے بیٹے سمیح کے رونے کی آواز سن پارہی ہے۔ جب اسرائیل اور حماس نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں امن دستاویز پر دستخط کیے، جو غزہ سے صرف 300 کلومیٹر دور ہے، تو میزائلوں کی سائیں سائیں اور ڈرون کے شور نے پہلی بار خاموشی اختیار کی، جو فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔
درملی بتارہے تھے کہ اکتوبر 2023 سے قبل وہ اکثر ساحل پر چہل قدمی کرنے آتے تھے۔ مگردوسال سے ہر لمحہ بھاگ دوڑ سے اور بس اس قدر سوچنے تک محدود رہا کہ کیسے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔
وِیام کا کہنا تھا کہ یہ سکون اُن لوگوں کے لیے نعمت ہے جنہوں نے دو برس تک موت کی گرج سنی ہو۔ سب سے بھیانک ڈرونز کی آوازیں ہوتی تھیں؛
وہ بار بار ہمارے خیمے کے بالکل اوپر آ کر رک جاتے تھے۔ نیچے پہلے تو سبھی کی سانسیں رک جاتی تھیں، پھر نفسا نفسی کے عالم میں کچھ سنائی نہیں دیتا تھا اور اسی دوران ڈرون کسی کے اوپر بم گرا کر یا گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا تھا۔اب میں کھجور کے درختوں کی شاخوں پر موجود چڑیوں کی آوازیں سن سکتی ہوں۔ میں اپنے بچے کی آواز سن سکتی ہوں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی،جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کا پہلا مرحلہ کہا جا رہا ہے،نے فی الحال فضائی اور زمینی حملے روک دیے ہیں۔ اسرائیلی افواج طے شدہ حدود کے اندر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں یہ امن نہیں، بلکہ ایک وقفہ ہے۔ مگر غزہ کے لیے، وقفہ بھی زندگی ہے۔دوپہر تک ساحلی الرشید سڑک لوگوں سے بھری تھی۔ مرد، عورتیں، بچے پیدل، ٹرکوں، سائیکلوں اور موٹر بائکوں پر سوار رواں تھے۔
پچھلے دو سال سے اسرائیلی قبضہ کے بعد اس سڑک پر چلنے کی ممانعت تھی۔ ان دوسالوں میں غزہ کے محلے مٹ چکے ہیں۔ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔’زرقہ، النَّزہ، الغُباری، جبالیا البلد — سب محلّے کھنڈرات بن چکے ہیں۔
ہر گفتگو موت کے حساب سے شروع ہوتی ہے: دو برسوں میں 67,000 سے زیادہ ہلاک اور 169,000 زخمی، مقامی صحت حکام کے مطابق۔ ہزاروں لاپتہ اب بھی ملبے کے نیچے دفن ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی سول ڈیفنس اہلکاروں نے اب لاشیں نکالنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
امدادی ایجنسیاں کہتی ہیں کہ اگر تمام کراسنگز کھل گئیں تو روزانہ 600 ٹرک تک خوراک اور سامان داخل ہو سکتا ہے۔اسرائیلی محاصرے کے دوران بھوک اور غذائی قلت سے 463 افراد — جن میں 157 بچے تھے — جاں بحق ہوئے۔کھیتوں تک رسائی ممکن نہیں، اسکولوں کی عمارتیں ملیامیٹ ہیں، ہر یونیورسٹی کو نقصان تباہ کردیا گیا ہے۔ غزہ کی 95 فیصد آبادی بے گھر ہے۔بیشتر افراد کو ایک سے زائد باربمباری سے بچنے کیلئے نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔
ساحل کے پاس 73 سالہ ماہی گیر احمد الحِصّی اپنے جال کی مرمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُسے’امن کی آوازیں ‘دوبارہ سیکھنے میں وقت لگے گا۔
اُس کا بیٹا خالد نومبر 2023 میں بندرگاہ کے قریب اسرائیلی بحریہ کی گولہ باری میں مارا گیا، اور خالد کی بیوی ثریا کچھ دن بعد اسرائیلی بمباری کی وجہ سے عمارت گرنے سے جاں بحق ہو گئی۔ اُن کے تین بچے صرف اس لیے بچ گئے کہ وہ نچلی منزل پر تھے۔’راتوں کو ہم دھماکوں سے جاگ اٹھتے اور بچوں کو سینے سے لگا لیتے۔ ہر آواز موت کا اشارہ لگتی تھی۔ اسی لیے آج کا سکون غیر حقیقی لگتا ہے۔’
یہ جنگ بندی کاغذ پر سادہ مگر عمل میں پیچیدہ ہے۔ابھی تک پہلا مرحلہ بخوبی طے پا گیا ہے، کیونکہ اس میں زیادہ تر شرائط حماس کو پوری کرنی تھیں۔ مگر جب شرطوں کو پور ا کرنے کی باری اسرائیل کے پاس آجائےگی، تو اس کے ماضی کے طرزعمل کو مد نظررکھتے ہوئے شاید ہی وہ امن کو دائمی بنانے میں مدد دےگا۔
حماس نے اپنی تحویل میں تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اسرائیل نے بھی اس کے بدلے دوہزار فلسطینی قیدی رہا کر دیے ہیں۔اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت تقریباً 11 ہزار فلسطینیوں قید ہیں۔
اس منصوبے میں اب مرحلہ وار اسرائیلی انخلا، ایک بین الاقوامی’استحکام فورس’کا قیام، اور عبوری سول انتظامیہ کی تشکیل شامل ہے جو اس دوران غزہ کا نظم سنبھالے گی۔
انقرہ میں ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے واضح کردیا کہ’سیز فائر کے بعد غزہ کو 7 اکتوبر 2023 کی پہلے والی پوزیشن میں نہیں لایا جائےگا۔ کیونکہ جنگ کے اسباب ہی وہ حالات تھے۔’انہوں نے کہا کہ ترکیہ امریکہ، قطر، مصر اور سعودی عرب کے ساتھ زمینی سطح پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔
خارجہ پالیسی کے ماہر رمزی چَتین نے اخبار جمہوریت کو بتایا کہ یہ بندوبست پہلے کی مختصر جنگ بندیوں سے مختلف ہے،کیونکہ پچھلی جنگ بندیوں کے برعکس اس وقت امریکی صدر براہ راست اس میں شریک ہے۔
اس لیے اسرائیل کے لیے انسانی سانحہ مزید جاری رہنا ممکن نہیں لگتا۔اسرائیلی پارلیامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل عالمی برادری میں الگ تھلگ ہو گیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا کہ اسرائیل پوری دنیا کے ساتھ مخاصمت نہیں رکھ سکتا ہے۔ مغربی ممالک کے شہروں میں پہلی بار اسرائیل کے خلاف منظم احتجاج ہوئے۔
آخر جنگ بندی کا معاہدہ کیسے تشکیل پایا؟ دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد، قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی کو 29 ستمبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ایک غیر متوقع فون کال موصول ہوئی۔
نیتن یاہو اس وقت وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ ان کو ٹرمپ نے اپنی موجودگی میں قطری وزیر اعظم سے معذرت کرنے کے لیے کہا۔
سفارت کاروں کے مطابق اس قدم نے ثالثوں کو دوبارہ متحرک ہونے کا موقع دیا، جو پیش رفت سے تقریباً مایوس ہو چکے تھے۔
اس بات چیت کے دوران اور قطری وزیر اعظم کی منانے کے بعد ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف اور داماد جیرڈ کُشنر نے عجلت میں 20 نکاتی منصوبہ مرتب کیا، جو پرانے تجاویز سے جوڑ کر ایک ایسی ضمانت کے ساتھ پیش کیا گیا جسے صدر ٹرمپ اسرائیلی سخت گیر حلقوں کے سامنے قابلِ قبول بنا سکیں۔ 23 ستمبر کو یہ خاکہ عرب اور اسلامی رہنماؤں کے ساتھ شیئر کیا گیا، مگر اسرائیلی درخواست پر اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی۔ قطر، مصر اور ترکیہ کے ثالثوں کو شرم الشیخ پہنچنے کے لیے کہا گیا۔
حماس نے معاہدے کے کچھ حصوں کو قبول کرنے کے اشارے دیے، لیکن’جنگ کے بعد کی صورتِ حال’پر اختلاف کیا۔ جس کی وجہ سے امریکیوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو سیاسی پیش رفت سے الگ کر دیا۔ فریقین کو بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ خود سیاسی پیش رفت کے ضامن ہوں گے۔ ترکیہ اور سعودی عرب نے حماس کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اسرائیل کو دوبارہ قبضہ جمانے نہیں دیں گے۔
ادھر اسرائیل میں کُشنر اور وِٹکوف کو نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کو خطاب کرنے اور سخت گیر عناصر کو منانے کی ذمہ داری دی۔ کچھ وزرا نے تعریف، تو چند نے مخالفت کی۔لیکن نصف شب کے بعد کابینہ نے پہلے مرحلے کی توثیق کر دی۔مگر ایک بڑا سوال ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
امریکی مرکزی کمان (سی ای این ٹی سی او ایم) اب غزہ کے باہر ایک ٹاسک فورس تیار کر رہی ہے جو اُس بین الاقوامی استحکام فورس کی مدد کرے گی جس کا ذکر منصوبے میں ہے۔ابھی ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، جو اس فورس میں شامل ہوں گے۔ انڈونیشیا نے فی الحال فوج دینے کی پیشکش کی ہے اور دیگر سے بات چیت جاری ہے۔
معاہدے کی ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ حماس غزہ پر حکمرانی نہیں کرے گی۔مگر مبصرین کہتے ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر بدستور موجود رہے گی، اور کوئی منصوبہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔
ویسے مارچ میں حماس کے معتبر ذرائع نے راقم کو بتایا تھا کہ ان کے لیڈران غزہ کی حکمرانی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں، اگر انتظامیہ کسی قابل اعتماد فلسطینی شخصیت کے سپرد کی جائے۔ 23 جولائی 2024 کو بیجنگ میں چودہ فلسطینی دھڑوں — بشمول فتح اور حماس — نے ایک مصالحتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں مشترکہ قیادت کی تشکیل کی بات کی گئی۔
اس دوران اسرائیلی جیل میں 2002 سے قید الفتح سے وابستہ سیکولر لیڈر مروان برغوتی کا نام نمایا امیدوار کے طور پر ابھرا۔ طے تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی سربراہ محمود عباس اور حماس کے لیڈران ایک ساتھ مستعفی ہوکر متحدہ فلسطین کی عبوری قیادت برغوتی کے سپرد کریں گے۔
جنوری کی قلیل المدتی جنگ بندی کے دوران، جب حماس نے اسرائیل کو فلسطینی قیدیوں کی فہرست دی، برغوتی کا نام سب سے اوپر رکھا گیاتھا۔ لیکن حماس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے ذاتی طور پر اس کی رہائی روکنے کے لیے اسرائیلی حکام پر دباؤ ڈالا۔
عباس نے یہاں تک کہا کہ اگر برغوتی کو رہا کیا گیا تو اُسے ملک بدر کر دیا جائے اور مغربی کنارے واپس نہ آنے دیا جائے۔برغوتی کی اہلیہ، فدویٰ البرغوتی، نے بھی اس کی تصدیق کی۔
فلسطینیوں کے لیے، چاہے وہ اسلام پسند ہوں یا سیکولر، مروان برغوتی ایک وحدت کی علامت بن چکے ہیں اور ان کو فلسطینی منڈیلا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اُن کی رہائی فلسطینی سیاست کو ازسرِ نو زندہ کر کرکے خطے کا نقشہ بدل سکتی ہے۔
اس جنگ بندی کے اثرات غزہ سے آگے تک پھیل گئے ہیں۔لبنان میں حزب اللہ، جو اسرائیل سے سرحدی جھڑپوں میں مصروف تھی، نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں نرمی اور نئی شراکت کی بات کی ہے۔ حزب اللہ کے لیڈران کا کہنا ہے کہ اُن کے ہتھیار صرف اسرائیل کی طرف ہیں۔یمن میں حوثی تحریک نے بھی اشارہ دیا کہ وہ اسرائیلی بحری جہازوں پر حملے روک دے گی، بشرطیکہ وہ غزہ کی جنگ بندی کا احترام کرے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں حملوں نے حوثیوں کو اندرونی اور عالمی سطح پر’مزاحمت’کا ایک بیانیہ دیا۔اب یہ وقفہ اُنہیں اپنی کامیابیاں مستحکم کرنے کا موقع دے گا۔
مگر ٹرمپ کا منصوبہ غزہ سے آگے بھی بڑھتا ہے۔تل ابیب اور شرم الشیخ میں انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر جنگ بندی مستحکم رہی تو’ابراہام معاہدے’کو مزید ممالک تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ خیر غزہ میں لوگ تاریخ کو انسانی پیمانوں پر ناپنا سیکھ چکے ہیں۔
ایک شخص جو گھٹنوں پر جال رکھ کر دوبارہ مچھلی پکڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ ایک رضاکار جو چمچ کی کھنک سے دیگ سے کھانا نکال کر بانٹ رہا ہے۔ ایک رپورٹر جو سمندری لہروں کی آوازوں کو دوبارہ سن رہا ہے۔ ایک باپ جو ا پنے مسمار شدہ گھر کی ایک بچی ہوئی دیوار کے سامنے کھڑا ہو کر اُن ہاتھوں کو یاد کرتا ہے جنہوں نے اینٹیں رکھی تھیں۔
حماس کہتی ہے کہ وہ حکومت نہیں کرے گی مگر فلسطینی معاشرے کا حصہ رہے گی۔
فلسطینی انتظار کررہے ہیں کہ کیا وہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح معمول کی زندگی بسر کرپائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں؛ سیز فائر کوئی حل نہیں،صرف ایک موقع ہے۔جنگ بندی تبھی پائیدار ہوگی، جب زندگی کی آوازیں لوٹ آئیں گی۔اگر وعدے کے مطابق خوراک اور دوا آتی ہے، تو بھوک کوشکست دی جا سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے سرحدوں کا کھلا رہنا، راستوں کا محفوظ ہونا، اور ایندھن و تنخواہوں کی فراہمی ضروری ہے۔لوگ اپنے کھنڈر جیسے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ غیر پھٹے بارودی مواد کو صاف کرنے میں مہینے، شاید سال لگیں گے۔
بہت سے خاندان تو اس جنگ کے دوران اپنے پیاروں کا سوگ بھی نہیں منا پائے۔ فلسطینی ماں وِیام کے کانوں میں اب بھی اُس دھماکے کی آواز یں گونج رہی ہیں، جس نے اُس کے چھ بھائی بہنوں، چاچی اور بھانجی کو ہلاک کردیا۔ جنگ کے 36ویں دن اس کے خاندان کو قتل کیا گیا۔ وہ اوراس کی جڑواں بہن وسام زخمی ہو گئی تھی۔
اب وہ اپنے بیٹے سمیح کو سُلانے کے لیے قرآن کی تلاوت کرتی ہے۔ ‘پچھلے دو سالوں میں ہر آواز موت کی علامت بن گئی تھی۔ سوچو، جب تمہاری دنیا میں صرف تباہی کی آوازیں ہوں،تمہیں لگتا ہے موت تمہارے ساتھ سانس لے رہی ہے۔’یہ جنگ بندی ایک سانس لینے کا وقفہ ہے، وہ ابھی اسے’زندگی’کہنے کی ہمت نہیں کرپاتی ہے۔
غزہ کی ہر پناہ گاہ میں ایک کہانی ہے، اور ہر کہانی میں ایک مخصوص آواز ہے۔ کسی کے لیے وہ سیٹی جو بم گرنے سے پہلے آتی ہے،کسی کے لیے جھٹکے سے بند ہوتے دروازے،کسی کے لیے کتوں کا بھونکنا جو توپ خانے کی آگ کو پہچاننا سیکھ گئے تھے۔
احمد الحِصّی اپنے بیٹے کی آخری خوف ناک چیخ کو یاد کرتے ہیں۔ جنگیں ملبہ چھوڑتی ہیں، اور گونج بھی۔جنگ بندیاں نہ ملبہ مٹاتی ہیں نہ گونج۔
شام ڈھلتے ہی غزہ کے المَواسی کے خیموں میں موبائل اسکرینوں اور چولہوں کی روشنی پھیل گئی ہے۔دور ایک جنریٹر کھنکھنارہا ہے۔یہ ڈرونز کا شور نہیں، بلکہ ایک عام مشین کی عام آواز ہے۔
ایک جنگ بندی نہ مردوں کو واپس لا سکتی ہے، نہ مٹی میں بکھرے شہر کو جوڑ سکتی ہے۔ یہ وعدہ بھی نہیں کر سکتی کہ رہنما کیا رخ اختیار کریں گے۔ لیکن یہ ایک لمحے کے لیے موقع دیتی ہے کہ انسان زندہ رہنے کی وہ آوازیں سنے جو بمباری میں دب گئی تھی،جیسے بچے کی سانس، کیتلی کی سیٹی، اور گھر لوٹتے لوگوں کا ہجوم۔

لاسلو کراسناہورکائی وسطی یورپ کی ادبی روایت کے علمبردار ہیں۔ تصویر بہ شکریہ:Lenke Szilagyi Via politicaprosa.com
ایک
کئی سال پہلے موسم سرما میں لاسلو کراسنا ہورکائی دہلی تشریف لائے تھے۔ میں ان دنوں چھتیس گڑھ میں مقیم تھا۔ مجھے اپنے دوست راہل سونی سے پتہ چلا کہ وہ ادبی تنظیم ’ آلموسٹ آئی لینڈ‘کی دعوت پر دہلی آ رہے ہیں۔بہرحال، کوئی تو بہانہ بنا کر میں نے ٹرین پکڑی اور 20 دسمبر 2013 کی صبح دہلی آگیا۔
ساڑھے دس بجے ان کا ’ مصنف سے ملاقات‘ کا پروگرام تھا۔ سردی کی اُس صبح انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کانفرنس روم میں بہ مشکل دس-پندرہ لوگ رہے ہوں گے، جو سفید بالوں والے مصنف کی خاموشی میں شریک ہونے آئے تھے۔ اتنا بڑا مصنف ہندوستان میں تھا، لیکن نہ تو کوئی ’ پروموشنل پروگرام ‘تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو انٹرویو دیا۔ میں خاموشی سے اپنی ڈائری میں نوٹ لیتا رہا۔ میرے پاس پلیٹ فارم دستیاب تھا، دی انڈین ایکسپریس، جہاں میں ان دنوں کام کرتا تھا، لیکن میں نے کچھ بھی شائع نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ ایک ایسے مصنف کی مقدس تنہائی میں کیوں دخل اندازی کی جائے جو ‘صوفیانہ ہونے کو سب سے بڑا اعزاز’ سمجھتا ہو۔ جب انہیں 2015 میں مین بکر انٹرنیشنل ایوارڈ ملا تو مجھے ان کے بارے میں لکھنے کی ایک ‘وجہ’ ملی، اور تب کہیں جاکرمیں نے ان پر ایک مضمون قلمبند کیا ۔
جب وہ دہلی آئے تھے،تو اس وقت تک شاید انہیں کوئی بڑا اعزاز نہیں ملا تھا۔ لیکن انہیں سن رہے ہم سب جانتے تھے کہ ہم ایک بڑے تخلیق کار کے حضور ہیں۔
وہ سمٹے اورسکڑےہوئے تھے، انتہائی آہستہ روی اور دھیمی آواز میں بول رہے تھے۔ لگتا تھا ان کے لفظ ہمارے پاس آنے سے بھی گریز کر رہے تھے۔ ہم خود ایک صبر آزما سفر طے کرتے ہوئے ان کے جملوں تک رسائی حاصل کر رہے تھے۔ لاسلو اکثر کچھ بھول جاتے تھے، خاموش ہو جاتے تھے — دیوار یا خلا میں گھورنے لگتے تھے۔ ساتھ بیٹھی اپنی بیوی ڈورا کی طرف متوجہ ہوتے اورانہیں معصومیت سے دیکھنے لگتے تھے۔ ڈورا انہیں وہ کھویا ہوا لفظ سونپ دیتی اور سلسلہ پھر سے شروع ہوجاتا تھا۔
وہ دیر تک ادب اور اپنی تخلیقات کے بارے میں بولتے رہے۔ کسی نے شاید پوچھا تھا کہ سفر کے دوران جب کوئی خیال یاامیج ذہن میں پیدا ہوتاہےتو اس کے نوٹ کس طرح لیتے ہیں ۔ ان کا جواب تھا، ‘میں اپنے اندر لکھتا چلاجاتا ہوں۔ پندرہ اے فور صفحے کے قریب مواد اپنے اندر جذب کر لیتا ہوں۔’
ناول ان کے اندر پہلے ہی لکھا جا چکا تھا،ڈیسک پر وہ اسے صرف قلمبندکرتے تھے۔
انہوں نے ارتکاز کی ایک اور مثال دی تھی۔لاسلوان دنوں کالج میں تھے۔ ان کے ادب کے استاذ ایک کتاب لے کر آتے اور ہنگری زبان میں اس کے اقتباسات سنانا شروع کر دیتے۔ وہ پینتالیس منٹ تک اس کی قرأت کرتے اور کلاس ختم ہونے پرچپ چاپ چلےجاتے۔ لاسلو کو کبھی نظر آجاتا کہ کتاب کے سرورق پرلکھا تھایولیسس، اور اس کے مصنف کوئی جوائس تھے۔ کئی سال بعد لاسلو کو پتہ چلا کہ تب تک اس کتاب کا ہنگری زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے استاذ اس پیچیدہ اور ناہموار ناول کو پڑھتے اور ترجمہ کرتے تھے۔ کئی سال بعد جب میں نے فرانسیسی فلسفی نکولس میلبرانچے کا قول پڑھا کہ ‘ارتکاز وہ عبادت ہے جو روح کو آسانی سے دستیاب رہتی ہے’، تومجھے لاسلو اور ان کے استاذ یاد آئے تھے۔

لاسلو کراسناہورکائی کا تخلیقی عمل مطمئن کرتا ہے… زندگی کتنی ہی حقیر اور اذیت ناک کیوں نہ ہو، ایک باوقار انجام کا امکان اب بھی باقی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن)
دو
لاسلو کراسناہورکائی جس ملک کے مصنف ہیں، وہ ہنگری وسطی یورپ کا حصہ ہے۔ چیک ریپبلک، سلوواک ریپبلک، پولینڈ اور ہنگری نے مل کر ایک یونین بھی بنا لی ہے—ویشگراڈفور۔ یہ یونین ان چار وسطی یورپی ممالک کے مشترکہ مفادات کے لیے کام کرتی ہے اور امیرمغربی یورپی ممالک کے برعکس اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرتی ہے۔
تاہم، ان ممالک کی داخلی سیاست گزشتہ برسوں میں بدلتی چلی گئی ہے۔
خود ہنگری کے حکمران اس وقت روس اور ولادیمیر پتن کے قریب نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان ممالک کے کچھ دانشور ایک مشترکہ وسطی یورپی حساسیت کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ چیک مصنف میلان کنڈیرا بھلے ہی فرانس میں آباد ہو گئے، لیکن ان کا دل وسطی یورپ میں، پراگ میں ہی ٹھہرارہا۔ لاسلو کراسناہورکائی جس مصنف کے سب سے بڑے شیدائی ہیں ، وہ ہیں پراگ کے فرانز کافکا۔ وسطی یورپ کا یہ شہری اپنی ثقافت کو مشرقی سپر پاور روس اور فرانس اور امریکہ جیسی مغربی طاقت، دونوں سے بچانا چاہتا ہے۔جس برائی کے سائے سے لاسلو کی کہانیاں ہمیں آگاہ کرتی ہیں، اس کا ایک بیج یہاں ہے۔
تین
جب سے لاسلو کراسناہورکائی نے ادب کا نوبل انعام جیتا ہے، ان کے ناولوں کا بہت چرچا ہے۔ کسی گہری سانس کی طرح ورق در ورق لامحدود آسمان پر معلق طویل جملے، درجنوں صفحات پر مشتمل جملے؛ سیاہ منظر نامے کی تصویر کشی کرنے والے عجیب و غریب استعارے،مثلاً دی میلنکلی آف ریزسٹنس (مزاحمت کی اداسی)کی سرکس کمپنی جو بھوسے سے بھری ایک عظیم الشان وہیل کی نمائش کے لیے آئی ہے؛ آنے والی تباہی کاخدشہ پیدا کر رہا ہواؤں میں منڈراتا اخلاقی بحران ۔
یورپی ناول لامتناہی جملوں کی گہری روایت رکھتا ہے۔ آپ اس کو رموز اوقاف کےقواعدکی نفی مان سکتے ہیں، لیکن آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مصنف کوما یا فجائیہ نشان کوناکافی اور غیرمتعلق تصور کرتا ہے۔ وہ کسی مجاز وقفے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
چار
اگر لاسلو کے تخلیقی عمل کا ایک حوالہ ان کے ناول ہیں تو دوسرا سینماہے،جس پر نسبتاً کم بات ہوئی ہے۔ اس دسمبر تک میں نے ان کے صرف دو ناول پڑھے تھے—سیٹن ٹینگو اور دی میلنکلی آف ریزسٹنس ۔ میں واقعتاً ان ناولوں کی طرف ان فلموں کے ذریعے آیا تھا جو بیلاٹار نے ان ناولوں پر بنائی تھی —سیٹن ٹینگو اور ورکمیسٹرہارمونیز ۔

یہ فلمیں ناول نگار اور فلمساز کی تخلیقی ہم آہنگی کی بہترین مثالیں ہیں۔
لاسلو نے نہ صرف یہ فلمیں لکھی تھیں، بلکہ وہ ان کے پروڈکشن میں بھی پوری طرح سے شریک تھے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ فلمیں ان کے ناول کے نقطہ نظر کی ترجمانی کریں۔بیلاٹاراورلاسلونے مل کر متعدد دوسری لازوال فلمیں بنائی بھی تھیں—سب کی سب بلیک اینڈ وہائٹ۔
ان دنوں مجھ پربھی فلم بنانے کا جنون سوار تھا۔ چھتیس گڑھ میں رہتے ہوئے میں نے دو فلموں کی اسکرپٹ لکھی تھی اور اب کرداروں کی تلاش میں تھا۔ میرا ان دنوں کاایک بہت ہی پیارا دوست تشار واگھیلا کچھ شارٹ فلمیں بنا چکا تھا۔ ہم دونوں اپنے آپ کو ایک بڑے فلک کی فلم میں غرق کر دینا چاہتے تھے ۔ سارنگڑھ کے شاہی خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر پرویش مشرا ہمارے شریک سفر بن رہے تھے۔ انہوں نے اپنا سارنگڑھ کامحل ہمارے حوالے کر دیا تھا۔ میری ایک مکمل اسکرپٹ جنگل کے درمیان ٹھہری اس ریاست پر مرکوز تھی۔ اس کہانی میں اپنی ٹوٹتی بکھرتی ریاست کا گواہ بنتا ایک بزرگ راجا تھا، دارالحکومت چھوڑ کر جنگل آیا ایک نوجوان مصنف اورمحل پر منڈلاتا نکسلیوں کا سایہ ۔ ہم نے اس محل میں تھوڑی بہت شوٹنگ بھی کی تھی۔
میں ان دنوں سوچتا تھا کہ لاسلو کراسناہورکائی اوربیلاٹارکا کام کسی فلمساز اور ناول نگار کی تخلیقی ہم آہنگی کی اعلیٰ ترین مثال ہے —آج تک اس رائے پر قائم ہوں۔ ایسی اور بھی مثالیں ہیں۔ مثلاً، پیٹر ہینڈکے نے وِم وینڈرز کے ساتھ ان کی شاید سب سے عظیم فلم وِنگز آف ڈیزائرکا اسکرین پلے لکھا ہے، بعض دوسری فلموں میں بھی دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔ لیکن لاسلو کراسناہورکائی اور بیلاٹار طویل عرصے تک، متعدد فلموں میں ساتھ رہے ہیں، کچھ اس طرح کہ آپ انہیں دونوں فنکاروں کا مشترکہ تخلیقی کارنامہ سمجھ سکتے ہیں۔
دی ٹیورن ہارس کے پہلے منظر میں ایک قدآورگھوڑا چلا جا رہا ہے… ہانپتے ہوئے ،بپھرتے ہوئے۔بہت دیر تک کیمرہ گھوڑے پر ٹھہرا رہتاہے، اور پھر ایک بوڑھا سوار نمودار ہوتا ہے۔ اور اب فریم میں بوڑھا اور تانگے کو کھینچنے والا اس کا گھوڑا ۔ پوری فلم اس غریب بوڑھے، اس کی بیٹی اورلاغر ہوتے گھوڑے کے گرد گھومتی ہے۔ اس غریب خاندان کی زندگی کی ایک ایک تفصیل، اُبلے ہوئے آلوکے سہارےگزرتے دن۔فلم میں تقریباً کوئی مکالمہ نہیں ہے—صرف اسکرپٹ، کیمرہ اور اداکاری۔

دی ٹیورن ہارس وسطی یورپ کےچھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک غریب خاندان کی کہانی ہے۔
ورکمسٹر ہارمونیزکا افتتاحی منظرسنیما کے سب سےنتیجہ خیز ابتدائی مناظر میں شمار ہونے لائق ہے۔ ایک بے نام سی اداسی کے ساتھ چلتا جا رہا نوجوان وسطی یورپ کے کسی شہر میں داخل ہوتا ہے۔شراب خانہ بند ہونے کا وقت ہے۔ مالک بوڑھے اور دھت شرابیوں باہر دھکیل رہا ہے کہ ایک بوڑھا اس نوجوان سے کچھ درخواست کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ نوجوان سولر اور لونر ایکلپس کو اسٹیج کرتا ہے۔ بزرگ شرابی سورج، زمین اور چاند کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کرداروں کے ذریعے چاند اور سورج گرہن کی تصویر کشی تخلیقی نقطہ نظر کی انتہا ہے۔
ان دونوں کی عظیم تخلیق ہے—سات گھنٹے کا سیٹن ٹینگو ۔ میں نے گزشتہ سالوں میں کئی دوستوں کو اپنے گھر مدعو کرکے یہ فلم دکھائی ہے۔ دو بار تو اس کی ‘پرائیویٹ اسکریننگ’ یورپ میں کی ہے۔ اس کی کہانی انتہائی سادہ ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر کے لوگ ہر طرح کی بے حیائی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس گھٹن اور تعفن کو برداشت کرنے سے قاصر ایک لڑکی اپنے آپ کو اور اپنی بلی کو مار ڈالتی ہے۔ سنیما کے پردے پر ایک بچے کی خودکشی کے چند مناظر فوراً ذہن میں آتے ہیں — رابرٹ بریسوں کی موچیٹ ، بہمن گھوبدی کی ٹرٹلز کین فلائی اور سیٹن ٹینگو ۔ ان تمام فلموں میں آپ ایک بچی کی خشک آنکھوں میں پورے معاشرے کی اخلاقی زوال کی داستان پڑھ سکتے ہیں۔
یہ لڑکی پہلے اپنی پیاری بلی کو بے دردی سے مارتی ہے، پھر اسے زہر دے دیتی ہے۔وہ مری ہوئی بلی کو اپنی گود میں اٹھائے دیر تک گاؤں کی پگڈنڈی پر برسات میں چلتی جاتی ہے- تقریباً پانچ منٹ تک کیمرہ اس پر ٹکا رہتا ہے۔ اس کے بھیگتے-بپھرتےچہرے پر ویرانی ہے، بیزاری ہے،المناکی ہے۔ وہ چلتی جا رہی ہے۔ ناظر سہما ہوا اپنے آپ سے پوچھتا ہے— کیا وہ گاؤں چھوڑ کر جا رہی ہے؟ یا اپنے خاندان سے، اپنے پڑوسیوں سے بدلہ لینے جا رہی ہے، جنہوں نے اسے ایسی اندھیری سڑک پر چھوڑ دیا ہے، جہاں ہمدردی اور محبت جیسی انسانی قدریں ناپید ہو چکی ہیں؟ آپ کو نہیں معلوم کہ وہ وہی زہر کھانے والی ہے جو اس نے اپنی بلی کو دیا تھا۔
سیٹن ٹینگو اور دی ٹیورن ہارس میں تقریباً پندرہ سال کا فاصلہ ہے۔ سیٹن ٹینگو کی بچی کا کردار ایریکا بوک نے ادا کیا ہے، وہی آگے چل کر دی ٹیورن ہارس کی نوجوان عورت بنتی ہے ، اپنے کمزور، معذور بوڑھے باپ کو موت طرف بڑھنے میں مدد کرتی ہوئی۔
لاسلو کراسناہورکائی کاتخلیقی عمل اسی طرح کے خاتمے پر یقین رکھتا ہے۔ زندگی کتنی ہی حقیر اور اذیت ناک کیوں نہ ہو، ایک باوقار انجام کا امکان اب بھی باقی ہے۔آپ کو زندگی بھر ایک لمحے کے لیے بھی توقف کا موقع نہ ملا ہو، تو آپ آخر کار ایک مہذب فل اسٹاپ (ختمہ)کا انتخاب کر سکتے ہیں۔