
تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا
نئی دہلی: اترپردیش کے بریلی میں ایک سرکاری اسکول کے استاد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق،انہوں نے ایک نظم سنائی جس میں مبینہ طور پر مذہبی یاترا اور ‘توہم پرستی’ پر تعلیم کو ترجیح دینے کی بات کی گئی تھی۔
پانچ منٹ کے اس ویڈیو کا 26 سیکنڈ کا حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں استاد رجنیش گنگوار کو دعائیہ اجتماع کے دوران ایک ہندی نظم پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بول یہ ہیں، ‘کانوڑ لینے مت جانا۔ تم گیان کے دیپ جلانا۔ مانوتا کی سیوا کرکے ،سچے مانو بن جانا۔’
مکمل ویڈیو-
“Don’t embark on kanwar yatra, light the lamp of knowledge instead,” UP govt teacher’s poem lands him in soup
A complaint was registered against govt teacher Rajneesh Gangwar in UP’s Bareilly over the poem he recited. In the five-minute video, the teacher is purportedly heard… pic.twitter.com/0HvoKwas4h
— Piyush Rai (@Benarasiyaa) July 14, 2025
اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس میں اس نظم کو ساون کے مہینے میں نکلنے والے کانوڑیاترا پر تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یہ ایف آئی آر ‘کانوڑ سیوا سمیتی’ نامی تنظیم کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔
اخبار نے بہیڑی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سنجے تومر کے حوالے سے بتایا کہ یہ مقدمہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 کے تحت درج کیا گیا ہے، جو ‘پبلک ڈسٹربنس کو بڑھاوا دینے والے بیانات’ سے متعلق ہے۔ تومر نے کہا کہ ٹیچر رجنیش گنگوار کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔
پولیس کے مطابق یہ ویڈیو بریلی کے ایم جی ایم انٹر کالج کا ہے۔
UP’s Bareilly police claim the teacher gathered students and recited a poem which had objectionable mention of the Kanwar Yatra.pic.twitter.com/qJrqECAFJP
— Piyush Rai (@Benarasiyaa) July 14, 2025
ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے اسکول کے پرنسپل اشوک کمار گنگوار نے کہا،’میں دو دن کی چھٹی پر تھا، استاد نے ہفتے کے روز اسکول کی ایک سرگرمی کے دوران یہ نظم سنائی، مجھے فون پر اس واقعے کا علم ہوا اور میں نے استاد سے وضاحت طلب کی ہے۔’
علامتی تصویر: پی ٹی آئی
جب دنیا کی توجہ ہندوستان-پاکستان، ایران-اسرائیل اور روس-یوکرین کی جنگوں اور غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر لگی ہوئی ہیں، ہندوستان کی وسطی ریاستوں، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جدید ترین اسلحہ سے لیس دس ہزارسپاہیوں پر مشتمل ہندوستان کے نیم فوجی دستے قبائلی اکثریتی ضلعوں میں ایک بڑے’آپریشن کارگر’ میں مصروف ہیں۔
پچھلے چھ ماہ میں ماؤ نواز بائیں بازو تنظیم جن کو عرف عام میں نکسلائٹ بھی کہا جاتا ہے، کے تین سو کے قریب عسکری ہلاک کیے گئے ہیں۔
یہ آپریشن ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب بتایا گیا تھا کہ نکسلائٹ تنظیموں کے ساتھ بات چیت کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ ان تنظیموں کے کمانڈروں نے بھی عندیہ دیا تھا کہ وہ گفت و شنید کے ساتھ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
ان آپریشنز میں کئی اعلیٰ کمانڈروں چھوکا راؤ، مادھوی حدما، رام چندرا ریڈی عرف چالاپتی، نامبالا کیشو راؤ عرف باسواراج، گجرالا راوی اور چالا پتی کی اہلیہ ارونا کو ہلاک کیا گیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی سب سے بڑی کامیابی تنطیم کے نمبر ون نامبالا کیشو راؤ کو ٹھکانے لگانا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ تازہ آپریشن چھتیس گڑھ کے معدنی وسائل سے مالامال علاقے ’بستر‘ پر مرکوز ہے، جو 38,932 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔صرف بستر میں حکومت نے تقریباً 320 سکیورٹی کیمپ قائم کیے ہیں۔ مقامی پولیس کے 20,000 اہلکار بھی ان کارروائیوں میں شریک ہیں۔
اعلیٰ درجے کی ڈرون ٹکنالوجی، بشمول ہائی ڈیفینیشن کیمروں اور تھرمل امیجنگ سینسرز سے لیس سیکیورٹی فورسزگھنے جنگلات میں ماؤ نوازوں کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہے۔
تاہم مقامی دیہاتیوں کا الزام ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں بڑے ڈرونز کے ذریعے فضائی بمباری کی ہے۔ ماؤ نواز گروہوں نے بھی فورسز پر فضائی حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے چھتیس گڑھ کے کئی دورے کیے، حتیٰ کہ انہوں نے بستر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ راتیں بھی گزاریں۔
سن 2000 کی دہائی میں، نکسلیوں نے ہندوستان کے تقریباً ایک تہائی معدنی وسائل سے مالامال قبائلی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔جس کو عرف عام میں ’ریڈ کوریڈور‘ کہا جاتا تھا۔یہ چھتیس گڑھ، تلنگانہ، اڑیسہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں پھیلا ہوا تھا۔
لیکن 2013 میں جہاں نکسلی 126 اضلاع میں اثر و رسوخ رکھتے تھے، وہاں پچھلے سال جاری سرکاری اعداد شمار کے مطابق یہ محض 38 اضلاع تک محدود رہ گیا ہے۔
ماؤ نواز تحریک کا آغاز 1967 میں مغربی بنگال کے ضلع دارجلنگ کے گاؤں نکسلباڑی سے ہوا، جب سنتھال قبیلے کے کسانوں نے چارو ماجومدار اور کانُو سانیال کی قیادت میں علم بغاوت بلند کیا۔
چینی ذرائع ابلاغ نے اس بغاوت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسی کے بطن سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی-لینن وادی) نے جنم لیا۔ اگرچہ پولیس کریک ڈاؤن سے یہ تحریک دب گئی، لیکن 1980 کی دہائی میں ‘پیپلز وار گروپ’ (پی ڈبلیو جی) کی صورت میں یہ پھر سے ابھری، جس نے اپنی توجہ جنگلاتی قبائلی علاقوں جیسے آندھرا پردیش کے ضلع عادل آباد پر مرکوز کر دی۔
سال 1991 تک یہ تحریک مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور اڑیسہ تک پھیل چکی تھی۔ 2004 میں سی پی آئی (ایم ایل)، پی ڈبلیو جی اور ماؤسٹ کوآرڈینیشن سینٹر (ایم سی سی) نے باہم الحاق کر کے سی پی آئی (ماؤسٹ) تشکیل دی، جس سے اس بغاوت کو آل انڈیا وسعت حاصل ہوئی۔
اس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ وہ سماجی و معاشی مسائل تھے جن کا قبائلی آبادی سامنا کر رہی تھی، اور جن سے سیاست دان اور مرکزی دھارا لاتعلق رہے۔
مجھے یا د ہے کہ ایک بار ریاست اڑیسہ کے نکسل متاثرہ ملکان گری ضلع جانے کا اتفاق ہوا۔ جب اس علاقے میں 70کی دہائی میں ایک ڈیم بنایا گیا، تو اس کے نتیجے میں جو مصنوعی جھیل وجود میں آئی اس سے کئی دیہات باقی دنیا سے کٹ گئے۔ کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ ان علاقوں کو جوڑنے کے لیے پل بنایا جائے، تاکہ اس کے باسی پاس کے قصبے یا دیگر دیہاتوں میں جا پائیں گے۔
تمام دنیا سے روابط ختم ہونے کے بعد ان علاقوں کا واحد سہارا نکسلی لیڈران تھے، جو ان کی خبر لیتے تھے۔ اسی طرح کالا ہانڈی اور بولنگیر اضلاع میں 2002-03میں دو سو کے قریب افراد بھکمری کے شکار ہو گئے تھے۔ 2013میں ان علاقوں کا دورہ کرنے پر پتہ چلا کہ غریبی کس کو کہتے ہیں۔ شہروں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
منشی پریم چند کی سبھی کہانیاں ان دیہاتوں میں جیسے سچ کا روپ اختیار کرتی ہیں۔ چاول گیہوں، دال، سبزیاں تو ترتعیش کھانے سمجھے جاتے ہیں، جو نصیب والوں کو کسی تقریب میں ہی ملتے ہیں۔ اکثر آبادی جنگلی جڑیں یا میووں پر زندگی گزارتے ہیں، وہ بھی اگر مل جائیں۔ورنہ تو کئی روز تک بھوکا ہی رہنا پڑتا ہے۔
نکسل تحریک نے ان حالات کا فائدہ اٹھا کرعوام کو حکومت کا تختہ الٹ کر ایک کمیونسٹ ریاست کا قیام پر اکسایا۔ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی لڑائی مقامی قبائلی آبادیوں اور دیہی غریبوں کے حقوق کے لیے ہے، جنہیں دہائیوں سے ریاستی عدم توجہی اور زمینوں سے بے دخلی کا سامنا ہے۔
ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق، 2000 کے بعد سے سکیورٹی فورسز اور باغیوں کے مابین تصادم میں اب تک تقریباً 12,000 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 4,000 سے زیادہ عام شہری تھے۔
گزشتہ پچاس برسوں میں اس بغاوت کی شدت مختلف ادوار میں بڑھتی رہی۔ خاص طور پر 2000 کی دہائی کے آغاز میں نکسلیوں نے ‘ملک کے وسیع رقبے، یعنی ’ریڈ کوریڈور‘’ پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، اور ان کے پاس 30,000 سے زائد جنگجو تھے۔ لیکن اب اندازہ ہے کہ فعال جنگجوؤں کی تعداد محض 500 رہ گئی ہے، اور وہ بھی چند مخصوص اضلاع میں سرگرم ہیں۔
جب حال ہی میں ایک بڑے فوجی حملے میں نامبالا کیشو راو مارے گئے، تو وزیر داخلہ امت شاہ نے اس کو ‘تین دہائیوں میں ماؤ نواز بغاوت کے خلاف سب سے بڑا فیصلہ کن حملہ’ قرار دیا۔
ایسے وقت میں جب نکسلی قیادت نے متعدد بار جنگ بندی اور امن مذاکرات کی اپیلیں کی تھیں، ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومتی کاروائی کا اصل محرک ‘امن نہیں بلکہ کارپوریٹ مفادات’ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
وہ جنگلات جن میں نکسلی روایتی طور پر سرگرم رہے ہیں، کوئلے اور آئرن اور جیسے قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ہندوستان کی کئی بڑی صنعتی کمپنیاں ان علاقوں میں اپنی کان کنی کی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتی ہیں۔
معروف صحافی اور نکسلی تحریک پر طویل عرصہ سے لکھنے والے این وینو گوپال کے مطابق موجودہ آپریشن ایک قتل عام ہے۔ سکیورٹی فورسز انعام کے لالچ میں شکاریوں کی مانند لوگوں کو قتل کر رہی ہیں۔مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ماؤ نواز بغاوت کو مارچ 2026 تک مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
نکسلی رہنماؤں نے بارہا اس امر کو اجاگر کیا ہے کہ ان کی جدوجہد کی بنیاد ان قدرتی وسائل کا استحصال ہے، جو خاص طور پر ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں عالمی کارپوریشنز کو کان کنی کے ٹھیکے دیے گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقامی آبادیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور ان کا قدرتی ماحول تباہ کر دیا گیا ہے۔
بستر میں موجود 51 معدنی بلاکس میں سے 36 پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس ہیں، جن میں عالمی اسٹیل کمپنی آرسلور مِتّل بھی شامل ہے۔
قبائلی رہنما اور سابق رکنِ اسمبلی منیش کنجم کہتے ہیں کہ جب 2005 میں ٹاٹا اور ایسار جیسی کمپنیوں نے آئرن اوور نکالنے کے لیے منصوبے شروع کیے، تو ریاستی حکومت نے 644 دیہات خالی کروائے۔ اس عمل میں کم از کم 3.5 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ تاہم، شدید قبائلی مزاحمت نے ان کمپنیوں کو منصوبے واپس لینے پر مجبور کر دیا۔انہوں نے کہا؛
اس ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے، حکومت نے اب کان کنی والے علاقوں میں سکیورٹی کیمپ قائم کر دیے ہیں، تاکہ ایک بار پھر وسائل کا استحصال شروع کیا جا سکے۔قانون کے مطابق گرام سبھا (دیہی کونسل) کی منظوری کے بغیر کان کنی نہیں ہوسکتی ہے، مگر اگر قبائلی احتجاج کرتے ہیں، تو انہیں ماؤ نواز یا اُن کے ہمدرد قرار دے کر دبا دیا جاتا ہے۔
کنجم کا کہنا ہے کہ بستر کے معدنی خطے میں ہر نو قبائلیوں پر ایک فوجی تعینات ہے۔ ان میں سے کئی کیمپ کان کنی کمپنیوں کے مالی تعاون سے چل رہے ہیں۔
ریاستی وزیر اعلیٰ وشنو دیو سائی کان کنی اور صنعتی سرگرمیوں کے آغاز سے قبائلیوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی۔اُن کے مطابق، چھتیس گڑھ معدنیات پیدا کرنے والی ریاستوں میں دوسرے نمبر پر ہے (اڑیسہ کے بعد)، اور گزشتہ برس ریاست نے تقریباً 14.19 ارب روپے (1.71 ارب امریکی ڈالر) کا ریونیو حاصل کیا۔
اس سال ریاستی حکومت نے 48 بڑے معدنی بلاکس نجی کمپنیوں کو الاٹ کیے ہیں۔لیکن جب زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو حکومتی دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ غربت، بنیادی صحت کی سہولیات کی کمی اور ناخواندگی واضح ثبوت ہیں کہ دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان سشیل آنند شکلا کے مطابق، ریونیو پیدا کرنے کا یہ نظریہ، اگر قبائلیوں کی زندگیوں کی قیمت پر ہو، تو یہ خطرناک ہی نہیں، غیر آئینی بھی ہے۔ ریاست میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات 1,000 زندہ بچوں پر 38 ہے، جبکہ قومی اوسط 28 ہے۔بستر میں غربت کی شرح 80 فیصد ہے۔
چھتیس گڑھ کی سالانہ معدنی پیداوار کی مالیت 25 سے 30 ہزار کروڑ روپے کے درمیان ہے۔ یہاں ملک کے ایک تہائی آئرن اور ٹن کے ذخائر ہیں، اور یہ ریاست ہندوستان کے اسٹیل اور سیمنٹ کی پیداوار میں ایک چوتھائی حصہ ڈالتی ہے۔
ملک کے کل کوئلے کے ذخائر کا پانچواں حصہ یہیں پایا جاتا ہے، اور مجموعی معدنی آمدن کا 15 فیصد چھتیس گڑھ سے حاصل ہوتا ہے۔مگر ان تمام اعداد و شمار کے باوجود، ریاست انسانی ترقی کے اشاریہ (ایچ ڈی آئی) میں 28 ریاستوں میں سے 26 ویں نمبر پر ہے۔ صرف ایک تہائی گھروں کو صاف پانی میسر ہے، اور غربت کی شرح قومی اوسط سے دوگنی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کا عسکری بازو ’پیپلز لبریشن گوریلا آرمی‘ (پی ایل جی اے)نہ تو اپنی افرادی قوت ظاہر کرتا ہے، نہ ہتھیاروں کی تعداد، اور نہ ہی یونٹ کی تفصیلات۔
ایسی صورت میں جب کوئی معتبر اعداد و شمار موجود نہ ہوں، ریاست یہ کیسے طے کرتی ہے کہ کتنے نکسلی باقی ہیں؟ معروف جرنل فرنٹ لائن میں شائع ایک آرٹیکل کے مطابق لاشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا دوہرا مقصد، ایک طرف خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے اور دوسری طرف ہلاکتوں کو ’کامیابی‘ کا پیمانہ بنانا ہے۔
یہ وہ متاثرین ہیں جن کی تکالیف کسی ٹی وی چینل پر نہیں دکھائی جاتیں، جن کے لیے کوئی پرائم ٹائم شور نہیں ہوتا ہے۔ بچے گولیوں کی زد میں آ کر مارے جاتے ہیں۔
معروف قبائلی حقوق کارکن سونی سوری نے ایک انٹرویو میں کہا؛
‘عورتوں کو زندہ اذیت دی جاتی ہے، ان پر ظلم ہوتا ہے، انہیں نوچا جاتا ہے، ریپ کیا جاتا ہے، اور پھر گولی مار کر قتل کر دیا جاتا ہے۔’
ایسے بیشتر’انکاؤنٹرز’میں مارے جانے والے عام قبائلی دیہاتی ہوتے ہیں، نہ کہ وہ ماؤ نواز جن کے طور پر انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو’اربن نکسل’ قرار دیا جا تاہے، اس لیے سبھی نے خاموشی اوڑھ لی ہے۔
قبائلیوں کی پرامن اور جمہوری عوامی تحریکیں، جو صرف اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں بھی ریاست کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔’مول واسی بچاؤ منچ‘ (ایم بی ایم) جیسی تنظیم، جو ماورائے عدالت قتل، اور پانچویں شیڈول علاقوں میں غیرقانونی سکیورٹی کیمپوں کے خلاف احتجاج کر رہی تھی، اب تازہ ہدف بن چکی ہے۔
سلگر میں ہونے والے قتل عام سے لے کر دیہاتوں میں فضائی بمباری کے خلاف آواز اٹھانے تک، حتیٰ کہ مُٹویندی میں ایک چھ ماہ کے بچے کی موت پر سوگ منانے پر اس تنظیم کو نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر ریاستی حکومت نے 30 ستمبر 2024 کو ایم بی ایم پر پابندی لگا دی، یہ کہہ کر کہ وہ ‘ترقیاتی کاموں کی مخالفت’ کرتی ہے اور’سیکیورٹی کیمپوں کے قیام کی مزاحمت’ کرتی ہے۔
ماؤ نواز خطرے کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ زیادہ تر قبائلی علاقوں، جنہیں’آدیواسی بیلٹ’ کہا جاتا ہے، میں مرکوز ہے۔ہندوستان میں 177 قبائلی غالب آبادی والے اضلاع ہیں، جہاں 104.2 ملین افراد (کل آبادی کا 8.6 فیصد) رہائش پذیر ہیں۔
وسطی ہندوستان کی بڑی قبائل میں بھیل اور گونڈ (60 لاکھ)، سنتھال (40 لاکھ)، اور اوراؤں (30 لاکھ) شامل ہیں۔ماؤ نوازوں کو دلت برادریوں کی بھی حمایت حاصل ہے، جو ہندو سماج میں سب سے نچلے درجے پر شمار ہوتے ہیں۔
دلت اور قبائلی مل کرہندوستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی بنتے ہیں اور زیادہ تر دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔ماؤ نواز دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان مظلوم اور استحصال زدہ طبقات—یعنی شیڈیولڈ ٹرائبس (ایس ٹی) اور دلتوں —کی آزادی اور مساوات کے لیے لڑ رہے ہیں اور ایک طبقاتی تفریق سے پاک معاشرے کا قیام ان کا ہدف ہے۔ ہندوستان کی حکومت ایس ٹی کو الگ سے ‘آبائی باشندہ’ تسلیم نہیں کرتی بلکہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ تمام ہندوستانی باشندے اسی سرزمین کے مقامی باشندے ہیں، جس موقف کو ہندو قوم پرست بھی تقویت دیتے ہیں۔
اگرچہ قبائلی ماؤ نوازوں کے لیے پیدل سپاہیوں کا کردار ادا کرتے ہیں، مگر کئی تعلیم یافتہ افراد جو اونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں،نے اپنے خاندان اور کیریئر کو چھوڑ کر ان مظلوم طبقات کے لیے لڑنے کا راستہ چُنا ہے۔
ہندوستانی آئین قبائلیوں اور دلتوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات فراہم کرتا ہے، جیسے کہ پارلیامان میں محفوظ نشستیں، سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی وظائف، مگر ان کی مرکزی دھارے میں شمولیت اب بھی کمزور ہے۔
آزادی کے بعد تیز رفتار معاشی ترقی اور سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی بڑے منصوبے جیسے ڈیم، کانیں اور صنعتی یونٹ قبائلیوں کی زمینوں پر بنائے گئے، جس سے انہیں بڑے پیمانے پر بے دخل ہونا پڑا۔ 1951 سے 1990 کے درمیان تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ افراد بےدخل ہوئے، جن میں سے 85.4 لاکھ (یعنی 40 فیصد) قبائلی تھے، حالانکہ ان کی کل آبادی میں حصہ صرف 8 فیصد سے بھی کم ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کی 2004 میں منظور شدہ حکمت عملی دستاویز کے مطابق،ہندوستان کو ایک نیم نوآبادیاتی ریاست اور عالمی ردِانقلابی قوتوں کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ اس میں درج ہے کہ ہندوستانی عوام اور سامراجیت کے درمیان بنیادی تضاد موجود ہے۔
سی پی آئی (ماؤسٹ) خود کو ‘عوامی جنگ’ لڑنے والا ایک انقلابی گروہ قرار دیتا ہے، جو ماوزے تنگ کے گوریلا جنگی نظریے سے متاثر ہو کر ‘عوامی حکومت’ کے قیام اور ‘نئی جمہوری انقلابی’ تحریک کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ اس کا منشور درج ذیل نکات پر مشتمل ہےجاگیردارانہ بالادستی کا خاتمہ اور عوامی سیاسی طاقت کا قیام، زمین کی از سرِ نو تقسیم—بڑے زمینداروں اور حکومت سے غریب و بے زمین کسانوں کو زمین کی فراہمی،عوامی ملیشیاؤں کی تشکیل،زمینداروں اور ساہوکاروں کو قرضوں کی واپسی سے انکار،حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی روک دینا، قبائلیوں کے جنگلات پر حقِ ملکیت کا اعلان اور جنگلاتی دولت کی لوٹ مار بند کرنا، زرعی ترقی اور خود کفالت کے لیے تعاون پر مبنی نظام کا قیام۔
گرچہ ماؤ نواز عسکریوں کو ا ے کے-47/اے کے-56 رائفلوں، لائٹ مشین گنوں (ایل ایم جی)، مارٹر اور دستی بم لانچرز جیسے جدید ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے، تاہم ان کا سب سے مہلک ہتھیار بارودی سرنگیں اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) ہیں، جن سے سکیورٹی فورسز کو شدید جانی نقصان پہنچا ہے۔
قبائلی علاقوں میں کان کنی کی سرگرمیوں کی موجودگی نے غیر ارادی طور پر ماؤ نوازوں کو صنعتی دھماکہ خیز مواد تک رسائی دی ہے۔ ان علاقوں کے نوجوان، جو کان کنی کے عمل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، اکثر ماؤ نوازوں کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ماؤ نواز خطرے کی شدت کا اندازہ لگانے والے چند اہم واقعات میں اپریل 2010 میں چھتیس گڑھ کے چنتل نار علاقے میں پیش آنے والا قتل عام شامل ہے، جہاں 76 فوجی مارے گئے تھے۔
اسی طرح مئی 2013 میں جیِرام گھاٹی کے علاقے میں کانگریس کے سینئر رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔
ماؤ نواز بغاوت کسی ایک مرکزی جماعت تک محدود نہیں بلکہ اس میں کم از کم 28 مختلف تنظیمیں شامل ہیں، جو سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح کارروائیاں کر رہی ہیں۔ اگرچہ 2004 میں کئی بڑے گروہوں نے انضمام کیا، تاہم بہت سے گروہ اب بھی آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
ان کا تنظیمی ڈھانچہ مختلف سطحوں پر مشتمل ہے، جس میں سینٹرل کمیٹی، پولٹ بیورو، سنٹرل ملٹری کمیشن جس کے تحت سنٹرل ٹیکنیکل کمیٹی،ریجنل کمانڈز، اسپیشل ایکشن ٹیمز، ٹارگٹ کلنگ یونٹ،ملٹری انٹلی جنس،سینٹرل ملٹری انسٹرکٹرز ٹیم، کمیونی کیشن ونگ، ٹیکٹیکل کاؤنٹر آفینسو کمپین، پیپلز لبریشن گوریلا آرمی، پیپلز سکیورٹی سروس، خفیہ نیٹ ورک اور پھر ریاستی اور زونل سطح کی کمیٹیاں شامل ہیں۔
جن علاقوں میں ان کا کنٹرول ہوتا ہے، ماؤ نواز ‘انقلابی عوامی کمیٹیاں ‘ (ریوولوشنری پیپلز کمیٹی – آر پی سی) تشکیل دیتے ہیں، جو بنیادی طور پر انتظامی اکائیاں ہوتی ہیں اور مسلح گروہوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔
سب سے اہم ایشو، جس نے قبائلی علاقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں، وہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ ہندو قوم پرست حکومت نے قبائلی برادریوں تک رسائی کے لیے ‘ونواسی کلیان آشرم’ (وی کے اے)کو سرگرم کیا ہے، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ادارہ ہے۔
اس کا مقصد قبائلیوں کو ‘مرکزی دھارے کے ہندو مذہب’ میں ضم کرناہے۔ قبائلی عورتوں کو شَبری (اساطیری کہانی رامائن کی علامتی بھکت)، اور مردوں کو ہنومان یعنی بندر دیوتا سے تشبیہ دے کر ان کو ہندو ازم کے دائرے میں لایا جا رہا ہے۔
جنہوں نے مسیحی مذہب اختیار کیا ہے ان کے لیے دھرم واپسی کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔آ ر ایس ایس کے ترجمان جریدے آرگنائزرمیں شائع ایک مضمون کے مطابق قبائلیوں کا ہندوستانی تہذیب اور دھرم سے رشتہ دوبارہ بحال کرانا ضروری بن گیا ہے۔
مگر قبائلی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کے الگ رسم و رواج اور عقائد ہیں اور ہندو دیوی دیوتاؤں کی جبری پوجا پر مجبور کرنا مزید بغاوت کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ہندوستان کے تہذیبی تنوع کو مسمار کرنے کی کوشش ہے، جو کہ ایک خطرناک ‘ریڈ ہیرنگ’ ہے۔
تنوع کو ختم کرنا، نہ صرف مذہبی بلکہ تہذیبی تنازعات کا بیج بن سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ مختلف پہچانوں کو تسلیم کیا جائے اور انہیں عزت دی جائے، بجائے اس کے کہ زبردستی ‘مرکزی دھارے’میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ماؤ نواز تحریک ہندوستان میں محض ایک سلامتی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی، اقتصادی اور تہذیبی بحران کی علامت ہے۔ یہ شورش معاشرتی ناانصافی، اقتصادی استحصال، اور ریاستی بے حسی کے خلاف ایک پرتشدد ردِعمل ہے۔
مرکزی و ریاستی حکومتوں نے اسے محض عسکری مسئلہ سمجھ کر نمٹنے کی کوشش کی، لیکن اصل سوالات جن میں زمین پر حق، روزگار اور تعلیم کی فراہمی، قبائلی شناخت اور وقار، ترقی میں شرکت اور انصاف کا حصول شامل ہیں، جو ں کے توں ہیں۔
بہتر یہی ہے کہ ا ن مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ چند ہزار قبائلیوں اور ان کے حامیوں کو فوجی کارروائی سے ہلاک کیا جاسکتا ہے یا ان کو اربن نکسل گر دان کر جیلوں کی زینت بنایا جاسکتا ہے، مگر اس سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کو یہ منتر کافی دیر بعد سمجھ آگیا تھاکہ لاشوں کی گنتی کو فتح نہیں گردانا جاسکتا ہے۔ اب امت شاہ بھی جتنی جلدی یہ سمجھ پائیں بہتر ہے۔ پچھلے کئی ماہ کے دوران ماؤ نوازوں نے کئی کمانڈر کھوئے ہیں، مگر ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ واقعی اختتام ہے، یا محض ایک وقفہ ہے اس خونی داستان میں؟
الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان کی موت ہو چکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر شفٹ ہو گئے ہیں اور 0.73فیصد ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے ہیں۔ تصویر بہ شکریہ : ایکس
نئی دہلی: الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت کے بعد 35.6 لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی یا تو موت ہو چکی ہے، یا بہار سے باہر چلے گئے ہیں، یا پھر ان کے نام ایک سے زیادہ جگہوں پر درج ہیں۔
بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)’ پر اپنی تازہ ترین ریلیز میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس کے اہلکاروں کے ذریعے ‘گھر گھر جاکر’ سروے کے دو مرحلوں کے بعد کل ووٹروں میں سے 88.18فیصد نے اپنے فارم جمع کیے ہیں۔
واضح ہو کہ ریاست میں ووٹر لسٹ میں ترمیم کی یہ مشق اس سال نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل شروع کی گئی ہے۔
کمیشن کے مطابق، یہ 88.18 فیصد تعداد بہار میں 7,89,69,844 (7.8 کروڑ) ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں سے 83.66فیصد یا 6,60,67,208 (6.6 کروڑ) ووٹروں نے اپنے فارم جمع کرائے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے دیگر ووٹروں کی تفصیلات میں کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان (12,55,620) کی موت ہوچکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر منتقل ہو گئے (17,37,336) اور 0.73فیصد ووٹرز (5,76,479) ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے۔
مجموعی طور پر یہ تعداد 35,69,435 یا 35.6 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کی ہے۔ اس طرح ایس آئی آر کا تیسرا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بہار میں ووٹر لسٹ سے 35.6 لاکھ سے زیادہ ناموں کو حذف کر دیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ووٹر لسٹ کا مسودہ 1 اگست کو شائع کیا جائے گا۔
دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے اس مرحلے میں ان لوگوں تک رسائی کے لیے اخبارات میں اس عمل کی تشہیر شروع کر دی ہے جو بہار سے عارضی طور پر باہر چلے گئے ہیں۔ کئی اخبارات نے صفحہ اول پر ایس آئی آر کے عمل کے بارے میں اشتہارات دیے ہیں۔
دی ٹریبیون کے صفحہ اول پر بہار ایس آئی آر پر الیکشن کمیشن کا اشتہار۔
الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے ووٹر اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے ای سی آئی نیٹ ایپ کے ذریعے یا ووٹرزڈاٹ ای سی آئی ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان پر آن لائن فارم کے ذریعے (ایس آئی آرکے رہنما خطوط کے پیرا 3(ڈی) کے مطابق) آسانی سے فارم بھر سکتے ہیں۔ وہ اپنے فارم متعلقہ بی ایل او کو اپنے خاندان کے افراد کے ذریعے یا وہاٹس ایپ یا اس سے ملتے جلتے کسی آن لائن میڈیم کے ذریعے بھی بھیج سکتے ہیں۔
معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک ایس آئی آر جاری کرنے کے عمل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں کمیشن سے 28 جولائی تک جواب طلب کیا ہے۔
دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے 11 دستاویزوں کی فہرست بھی تیار کی ہے جسے ووٹر اس عمل کے لیے جمع کرا سکتے ہیں۔
پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اس فہرست میں ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ اور راشن کارڈ کو شامل کرنے پر غور کرے ۔
دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق،کئی جگہوں پربی ایل او (بلاک سطح کے افسر) ص درست دستاویزرکھنے والوں سے بھی صرف آدھار کارڈ ہی لے رہے ہیں ۔
(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن (ای سی) سے کہا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کی تیاری کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی ای سی اپنی ٹائم لائن طے کرے اور ریاست کی انتخابی فہرستوں کی ایس آئی آرکے لیے اہلیت کے دستاویزوں کی فہرست بنائے تو اس پہلو کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آسام حکومت کے ذرائع نے کہا کہ چونکہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کا فیصلہ کرتے ہوئے شہریت کے پہلو پر بھی غور کر رہا ہے – اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آسام میں شہریت کی تصدیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، این آر سی کے شائع ہونے کے بعد ایس آئی آر کے لیے قابل قبول دستاویزوں میں ایک بن سکتا ہے۔ اس لیے ریاست نے یہ درخواست کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ بہار ایس آئی آر عملی طور پر شہریت کی تصدیق کا عمل ہے – یعنی پچھلے دروازے سے این آر سی – اور یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
اگر بہار میں ایس آئی آر کی مشق شروع ہونے کے بعد آسام کی درخواست کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کے ایس آئی آر میں تاخیر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسام این آر سی – ریاست میں دہائیوں سے جاری آبادیاتی خدشات کو دور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلنے والا عمل – غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔
معلوم ہو کہ آسام میں این آر سی ہندوستانی شہریوں کی شناخت اور انہیں غیر قانونی تارکین وطن سے الگ کرنے کے لیے ایک طویل مدتی اور حساس عمل ہے۔ 2019 میں این آر سی کا مسودہ شائع ہونے کے بعد سے، 3.3 کروڑ درخواست دہندگان میں سے تقریباً 19.6 لاکھ لوگ باہر رہ گئے ہیں۔ تاہم، اس این آر سی کو ابھی تک مطلع نہیں کیا گیا ہے۔
تب سے، بی جے پی کی قیادت والی دونوں ریاستی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ فہرست کو اس کی موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔
آسام حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں شامل اور خارج کیے گئے نام غلط ہیں، اور یہ کہ اس میں ‘اصل باشندوں’ کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ ‘غیر ملکیوں’ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، 24 مارچ 1974 – این آر سی کی آخری تاریخ – کے بعد غیر قانونی طور پر ریاست میں داخل ہونے والوں کی تعداد 19 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔
سال 2019 کے این آر سی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے دوبارہ تصدیق کا سوال اٹھایا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ ایک خصوصی اسمبلی اجلاس میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ریاستی حکومت ابھی بھی بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں فہرست کے 20فیصد اور باقی اضلاع میں 10فیصد کی دوبارہ تصدیق کرنے کے عمل میں ہے۔
اخبار نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا،’این آر سی جاری ہونے والا ہے۔ اسے ایک یا دو ماہ میں، ممکنہ طور پر اکتوبر تک جاری کیا جائے گا۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ تصدیق کے بعد تیار کردہ این آر سی ڈیٹا – اور دوبارہ تصدیق کا عمل بھی جاری ہے – شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک مثالی دستاویز ہوگا۔ یہ ان دستاویزوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن پر مکمل نظر ثانی کے لیے غور کیا جائے گا۔’
معلوم ہو کہ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کرنے کے الیکشن کمیشن کا فیصلہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے ۔
علامتی تصویر۔تصویر بہ شکریہ: فلکر
نئی دہلی: حکومت ہند کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ معلومات میں انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 17 مہینوں میں ہوائی جہاز کے کاک پٹ سے 11 ‘مے ڈے’ یعنی ہنگامی کال کیے گئے۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً ہر ماہ ہندوستان میں کام کرنے والی ایئر لائنز میں انجن کی خرابی کے مسائل سامنے آتے ہیں اور یہ کتنا عام ہو گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اخبار کو دی گئی ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ڈی جی سی اے نے کہا، ‘2020 سے 2025 (اب تک) ملک بھر میں پرواز کے دوران انجن بند ہونے کے کل 65 واقعات رپورٹ ہوئے۔’
ان تمام 65 معاملات میں پائلٹ ایک انجن کے ساتھ طیارے کو بہ حفاظت قریبی ہوائی اڈے پر اتارنے میں کامیاب رہے۔
ڈی جی سی اے کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 1 جنوری 2024 سے 31 مئی 2025 کے درمیان 11 پروازوں سے ‘مے ڈے’ کال موصول ہوئے، جس میں مختلف تکنیکی خرابیوں کی اطلاع دی گئی اور ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کی گئی۔
اعداد و شمار میں 12 جون کو احمد آباد میں گر کر تباہ ہونے والی پرواز اےآئی171 اور19 جون کو ڈائیورٹ کی گئی انڈیگو کی گھریلو پرواز شامل نہیں ہے ۔
اعداد و شمار کے مطابق، 11 میں سے 4 پروازوں نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے مے ڈے کال جاری کیے تھے اور یہ طیارے حیدرآباد میں اترے تھے۔
اس سلسلے میں ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا (اے ایل پی اے) کے سکریٹری انل راؤ نے اخبار کو بتایا، ‘ہوائی جہاز میں آگ لگنے، انجن میں خرابی جیسی سنگین ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے پر فلائٹ کا عملہ مے ڈے کال دیتا ہے، جس کے لیے فوری لینڈنگ یا گراؤنڈنک کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ایسی صورتحال میں پرواز جاری رکھنا غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔’