الیکشن کےقصے:1957 کے لوک سبھا انتخاب میں متھرا سے کانگریس اور جن سنگھ کے امیدواروں کو شکست دیتے ہوئے آزادانہ طورپر لڑے راجا مہیندر پرتاپ سنگھ نے جیت حاصل کی تھی ۔ اٹل بہاری واجپائی اتر پردیش میں لکھنؤ، بلرام پور اور متھرا سیٹ سے انتخاب لڑے تھے اور بلرام پور سے جیتکر لوک سبھا پہنچے تھے۔
عام انتخاب کی تاریخ میں متھرا شہر کی ایک خاص جگہ ہے۔ آنجہانی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی 1957 میں دوسرے عام انتخاب میں نہ صرف متھرا سے انتخاب ہار گئے تھے، بلکہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی تھی۔حالانکہ بھارتیہ جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانیوں میں شامل رہے واجپائی اس انتخاب میں پہلی بار اتر پردیش کی بلرام پور لوک سبھا سیٹ سے جیت گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے لکھنؤ، بلرام پور اور متھرا دو سیٹوں سے لوک سبھا کا انتخاب لڑا تھا۔متھرا کے بارے میں ایک اور بات بڑی دلچسپ ہے۔1977 میں باہری امیدوار منی رام باگڑی نے تو بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر ایسا ریکارڈ بنایا جس کو ابھی تک کوئی جماعت یا کوئی امیدوار توڑنا تو دور، آس پاس تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
انہوں نے اس وقت پڑے 3 لاکھ 92 ہزار 137 ووٹ میں سے ریکارڈ 76.79 فیصد (2 لاکھ 96 ہزار 518) ووٹ حاصل کرکے ایک ایسا ریکارڈ قائم کر دیا جو 42 سال بعد بھی قائم ہے۔1957 کے انتخاب میں متھرا میں کانگریس اور جن سنگھ کے امیدواروں کو ہراتے ہوئے آزادانہ طورپر لڑے راجا مہیندر پرتاپ سنگھ نے جیت درج کی تھی۔ اس سے پہلے کے انتخاب میں کانگریس کے پروفیسر کرشن چندر کو جتانے والی عوام نے راجا مہیندر پرتاپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی کو چوتھے نمبر پر ڈھکیل دیا تھا۔ تب ان کو محض 10 فیصد ووٹ مل پائے تھے۔لیکن، اس وقت وہ بلرام پور کے ساتھ ساتھ متھرا اور لکھنؤ سے بھی جن سنگھ امیدوار کے طور پر انتخاب لڑے تھے۔ لکھنؤ سے تو انہوں نے 33 فیصد ووٹ حاصل کر کے جیسےتیسے عزت بچا لی تھی۔
متھرا میں کانگریس کے چودھری دگمبر سنگھ دوسرے، پورن (آزاد) تیسرے اور واجپائی چوتھے مقام پر رہے۔ اس وقت ان کو کل پڑے 2 لاکھ 34 ہزار 19 ووٹ میں سے محض 23 ہزار 620 ووٹ ملے تھے۔حالانکہ، متھرا کے سینئرجن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور متھرا میں اٹل بہاری واجپائی کے مددگار رہے بانکے بہاری ماہیشوری کا کہنا ہے کہ جب ووٹنگ میں ایک-دو دن ہی باقی رہ گئے تھے، تو واجپائی نے خود متھرا کی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کو ووٹ نہ دےکر راجا مہیندر پرتاپ کو جتائیں۔اس کے پیچھے وہ دلیل دیتے ہیں کہ واجپائی کانگریس کو ہر قیمت پر ہرانا چاہتے تھے۔
لیکن، متھرا لوک سبھا سیٹ کی تاریخ بھی بڑی ہی عجیب رہی ہے۔ اگلے ہی انتخاب میں متھرا نے پلٹا کھایا اور پورا نتیجہ الٹا ہو گیا۔ 1962 میں، راجا مہیندر پرتاپ دوسرے نمبر پر رہے اور کانگریس کے چودھری دگمبر سنگھ انتخاب جیت گئے۔متھرا کے سعد آباد علاقے کے کرسنڈا باشندہ چودھری دگمبر سنگھ اس ضلع کے ان نمائندوں میں سے ایک ہیں جو اس سیٹ سے تین بار لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔1962 کے بعد وہ چوتھے لوک سبھا کے دوران متھرا کے اس وقت کے رکن پارلیامان گریراج شرن سنگھ عرف راجا بچو سنگھ کی موت کی وجہ سے 1970 میں ہوئے ضمنی انتخاب میں فاتح ہوئے۔
اس کے بعد، 1980 میں جنتا پارٹی (سیکولر) کے ٹکٹ پر تیسری بار متھرا کے رکن پارلیامان بنے۔ ویسے، پہلی لوک سبھا کے لئے وہ ایٹہ مین پوری متھرا سیٹ سے بھی رکن پارلیامان چنے جا چکے تھے۔ ان کے بعد بی جے پی کے چودھری تیجویر سنگھ نے 1996، 1998 اور 1999 میں لگاتار جیتکر تکڑی بنائی۔ان سے پہلے کانگریس کے کنور راجا سنگھ 1984 میں کانگریس اور 1989 میں جنتا دل سے، دو بار جیت چکے تھے۔کنور راجا سنگھ کو 2004 میں ایک بار پھر کانگریس امیدوار کے طور پر دوبارہ رکن پارلیامان چنے جانے میں کامیابی ملی اور وہ بھی تین بار متھرا کے رکن پارلیامان بننے میں کامیاب ہوئے۔متھرا سیٹ سے جیتنے والوں کے کئی قصے بہت مشہور ہیں۔ بنیادی طور پر مانٹ کے باشندہ سنڈیکیٹ بینک کے پگمی کھاتا ایجنٹ 80 سالہ رام بابو تیواری بتاتے ہیں کہ 1967 میں متھرا سے رکن پارلیامان بنے بھرت پور شاہی خاندان کے ممبر راجا بچو سنگھ نے تو علاقے میں پیر رکھے بنا ہی جیت حاصل کر لی تھی۔
اس وقت گریراج شرن سنگھ عرف راجا بچو سنگھ نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ متھرا میں پیر تک نہیں رکھیںگے اور انتخاب جیتکر دکھائیںگے۔ اس کے لئے انہوں نے تشہیر کے نام پر بس اپنی طرف سے ایک اپیل چھپواکر ہیلی کاپٹر کے ذریعے پورے متھرا ضلع میں برسوا دیے تھے اور وہ بھاری ووٹ سے جیتے۔ان کے بعد، 1971 میں کانگریس کے ٹھاکر چکلیشور سنگھ فاتح رہے۔ 1977 میں باہری امیدوار منی رام باگڑی کی ایک اور خاص بات رہی تھی۔ انہوں نے نہ صرف بھارتیہ لوکدل کے ٹکٹ پر ریکارڈ بنایا بلکہ ایمرجنسی نافذ کرنے والی کانگریس کی حکومت سے آزادی پانے کے لئے انتخابی جلسہ میں ووٹ کے ساتھ ساتھ کھلےعام نوٹ کی بھی مانگ کی۔
باگڑی باقاعدہ اس وقت کی کرنسی کے سب سے چھوٹے سکے (ایک پیسہ، دو پیسہ) تک جھولی پھیلاکر لوگوں سے لینے سے نہیں چوکے۔ دوسری، وہ ایک بار جیتکر گئے تو پھر کبھی متھرا کی طرف مڑکر بھی نہیں دیکھا۔شاید، یہی وجہ ہے کہ متھرا کے رائےدہندگان باہری امیدواروں سے جلدی تال میل نہیں بنا پاتے۔ لیکن، جب وہ اپنے یہاں قیادت میں خالی پن محسوس کرتے ہیں تو پھر انہی پر داؤ کھیلنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔1991 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے سادھو سماج کے سچیدانند ہری ساکشی کو رکن پارلیامان بننے کا موقع دیا۔ لیکن، پانچ سال مدت میں وہ کچھ ایسا اثر نہ چھوڑ سکے جس سے پارٹی ان کو دوبارہ یہاں سے لڑا پاتی۔
2009 میں کانگریس حمایت یافتہ راشٹریہ لوکدل کے امیدوار جینت چودھری نے جاٹ رائےدہندگان کی اکثریتی سیٹ پر قبضہ کر لیا۔ لیکن، 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں وہ نریندر مودی کی آندھی میں اس کو بچا نہ سکے۔ بی جے پی امیدوار ہیمامالنی 3 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ووٹ سے فاتح رہیں۔اس بار بی جے پی نے ایک بار پھر انہی پر داؤ لگایا ہے۔ جبکہ،ایس پی-بی ایس پی-راشٹریہ لوک دل اتحاد نے سابق رکن پارلیامان کنور راجا سنگھ کے چھوٹے بھائی نریندر سنگھ کو اترنے کا موقع دیا ہے۔ لیکن کانگریس کے مہیش پاٹھک یقینی طور پر حزب مخالف کے ووٹ کا بٹوارا کرکے ان کو کمزور کرنے کی کوشش کریںگے۔اس سیٹ پر تو لڑائی انہی تین امیدواروں کے درمیان ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ۔)