وہاٹس ایپ کا کہنا ہے کہ نئے سوشل میڈیا ضابطےہندوستان کے آئین میں دیےپرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کمپنی کے اس مقدمے نے مودی حکومت اور فیس بک، گوگل کی بنیادی کمپنی الفابیٹ اور ٹوئٹر جیسی بڑی تکنیکی کمپنیوں کے بیچ پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
نئی دہلی: بدھ سے نافذ ہونے والے ضابطوں پر روک لگانے کی مانگ کو لےکروہاٹس ایپ نے دہلی میں حکومت ہندکے خلاف قانونی شکایت درج کرائی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ضابطے کیلی فورنیا واقع فیس بک یونٹ کو پرائیویسی تحفظات توڑنے کے لیے مجبور کریں گے۔
خبررساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق، مقدمہ دہلی ہائی کورٹ سے یہ اعلان کرنے کے لیے کہتا ہے کہ نئے ضابطوں میں سے ایک، ہندوستان کے آئین میں پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں کو جانکاری کو سب سے پہلے دینے والے شخص کی پہچان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جب حکام اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔
قانون کے مطابق، وہاٹس ایپ کو صرف ان لوگوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے، جن پر غلط کام کرنے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ عام کام کاج میں ایسا نہیں کر سکتی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ پیغام اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن(ایک صارف سے دوسرے صارف تک براہ راست پیغام رسانی) ہے اور وہاٹس ایپ کا کہنا ہے کہ قوانین پر عمل کرنے سے اس کوپیغام بھیجنے والے اور اس کو حاصل کرنے والے کے لیے انکرپشن کو توڑنا پڑےگا۔
وہاٹس ایپ کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ‘میسیجنگ ایپس کے ذریعے چیٹ کو ٹریس کرنے کے لیے ہمیں وہاٹس ایپ پر بھیجے گئے ہر ایک پیغام کا فنگرپرنٹ رکھنے کے لیے کہنے کے برابر ہے، جو اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کو توڑ دےگا اور لوگوں کے پرائیویسی تحفظات کو بنیادی طور پرکمزور کر دےگا۔’
بیان میں مزیدکہا گیا،‘ہم لگاتار شہری سماج اور دنیا بھر کےماہرین کے ساتھ ان چیزوں کی مخالفت میں شامل ہوئے ہیں جو ہمارے صارفین کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کریں گے۔ اس بیچ ہم لوگوں کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے عملی حل پرحکومت ہندکے ساتھ جڑنا بھی جاری رکھیں گے، جس میں ہمارے پاس دستیاب جانکاری کے لیے جائزقانونی گزارشات کا جواب دینا بھی شامل ہے۔’
معاملے کی جانکاری رکھنے والے ذرائع نے کہا کہ آئی ٹی ضابطوں پر عمل نہ کرنے پر مجرمانہ طور پر سزا کا خطرہ ہے، کمپنی کو لگا کہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔
موجودہ وقت میں برازیل کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک معاملے کا ذکر کرتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ کمپنی نے ایسے قوانین یا قانونی کارروائی کی مخالفت کی ہے جو ماضی میں بھی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کو توڑ دیں گے۔
ذرائع نے آگے کہا، پیغام کی شروعات کرنے والے کو تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ لوگ ان لفظوں کو کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں جنہیں وہ کہیں اور دیکھتے ہیں وہاٹس ایپ چیٹ میں۔ اس سے ان پیغامات کو ساجھا کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جائےگا۔
معاملے کی جانکاری رکھنے والے لوگوں نے کہا، وہاٹس ایپ شکایت میں2017 کےہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے، جو پٹوسوامی کے نام سے جانے جانے والے معاملے میں پرائیویسی کی حمایت کرتا ہے۔
عدالت نے تب پایا کہ پرائیویسی کاتحفظ کیا جانا چاہیے، سوائے ان معاملوں کے جہاں قانون،ضرورت اورتناسب سب اس کے خلاف ہیں۔ وہاٹس ایپ کی دلیل ہے کہ قانون ان تینوں ٹیسٹ میں ناکام رہتی ہے۔
نئے ضابطوں کے لیے دیگرعدالتی چیلنجزدہلی اور دوسری عدالتوں میں پہلے سے ہی زیر التوا ہیں، جن میں
دی وائر کی طرف سے دائر ایک چیلنج بھی شامل ہے۔ حالانکہ، یہ چیلنجز اس حصہ سے جڑےہیں جو آئی ٹی ضابطوں کو ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق ہیں۔
اس مقدمے نےوزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور فیس بک، گوگل کی بنیادی کمپنی الفابیٹ اور ٹوئٹر جیسی بڑی تکنیکی کمپنیوں کے بیچ پہلے سے جاری تصادم کو اور بڑھا دیا ہے جبکہ ہندوستان ان کے لیے ایک اہم اور بڑا بازار ہے۔
یہ کشیدگی اس وقت تب اور بڑھ گئی جب سوموار کو سیدھےمرکزی حکومت کے تحت آنے والی دہلی پولیس ٹوئٹر کے دفتر تک پہنچ گئی تھی۔دراصل اس سے ٹھیک پہلے ٹوئٹر نے مرکز میں مقتدرہ بی جے پی کےترجمان سمبت پاترا اور دیگر پر فرضی مواد ساجھا کرنے کے الزام لگنے کے بعد ان کے پوسٹ پر ‘توڑ مروڑ کر پیش کئے گئے (مینی پولیٹیڈ)میڈیا کا’ کا ٹیگ لگا دیا تھا۔
اس کے بعد کووڈ 19 کی سب سے بری حالت کا سامنا کر رہے ملک میں حکومت نے ٹوئٹر پر (مینی پولیٹیڈ) میڈیا کے اس ٹیگ کو ہٹانے کے لیے دباؤ بنایا۔اس سے پہلے حکومت نے ان تنقیدوں کو ہٹانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا تھا جن میں ملک کی خستہ حال ہیلتھ سسٹم کی شکایت کی گئی تھی۔
نئے ضابطوں کو لےکر کمپنیوں کے ردعمل کوآسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے فروری میں آئے ان ضابطوں پرتین مہینے کی حدگزرنے کے بعد بھی عمل نہیں کیا ہے۔دراصل سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ کمپنیوں کے لیےضابطےسخت کرتے ہوئے مرکز نے پچھلے مہینے وہاٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، نیٹ فلکس اوریوٹیوب وغیرہ کے لیے انٹرمیڈیری گائیڈ لائن اور ڈیجیٹل میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ کا اعلان کیا تھا۔
ان ضابطوں پر عمل نہ کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ 25 فروری کو مرکزی ویزر پرکاش جاویڈکر اور روی شنکر پرساد نے اوٹی ٹی پلیٹ فارم اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے نئی پالیسیوں کا اعلان کیا تھا۔
انفارمیشن ٹکنالوجی(انٹرمیڈیری گائیڈلائنس)ضابطے2021 کے نام سے لائے گئے یہ گائیڈلائن ملک کے ٹکنالوجی ریگولیشن سیکٹر میں قریب ایک دہائی میں ہوئی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ یہ انفارمیشن ٹکنالوجی(انٹرمیڈیری گائیڈلائنس) ضابطے2011 کے کچھ حصوں کی جگہ بھی لیں گی۔
نئےضابطوں کے حساب سے بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو کسی مناسب سرکاری ایجنسی یا عدالت کے آدرڈر/نوٹس پر ایک طے مدت کے اندر غیر قانونی مواد کو ہٹانا ہوگا۔
ان نئی تبدیلیوں میں‘کوڈ آف ایتھکس اینڈ پروسیزر اینڈ سیف گارڈس ان ریلیشن ٹو ڈیجیٹل/آن لائن میڈیا’ بھی شامل ہیں۔ یہ ضابطے آن لائن نیوز اور ڈیجیٹل میڈیا اکائیوں سے لےکر نیٹ فلکس جیسے اوٹی ٹی پلیٹ فارم پر بھی نافذ ہوں گے۔
ضابطوں کے تحت سیلف ریگولیشن کی الگ الگ سطحوں کے ساتھ سہ سطحی شکایت کونمٹانت والا نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس میں پہلی سطح پر پبلشر کے لیےسیلف ریگولیشن ہوگا، دوسری سطح پرپبلشرکے ریگولیٹری اداروں کاریگولیشن ہوگا اور تیسری سطح نگرانی کے نظام کی ہوگی۔
ضابطوں میں جنسی موادکے لیے الگ خانہ بنایا گیا ہے، جہاں کسی شخص کے نجی حصوں کو دکھائے جانے یا ایسی لاش جہاں مکمل یا جزوی برہنگی ہو یا کسی کی فوٹو سے چھیڑ چھاڑ کر اس کی کاپی بنانے جیسے معاملوں میں اس میڈیم کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اس قابل اعتراض مواد کو ہٹانا ہوگا۔
فیس بک نے کہا ہے کہ وہ زیادہ تر اہتماموں سے متفق ہیں لیکن ابھی بھی کچھ پہلوؤں پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ سرکاری ناقدین کے پوسٹ کو ہٹانے میں ناکام رہنے کے لیے سب سے زیادہ تنقید کا شکار ہونے والے ٹوئٹر نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)