کئی سالوں سے مودی شاہ کی جوڑی نے انتخاب جیتنے کی مشین ہونے کی جو امیج بنائی تھی، وہ کئی شکست کی وجہ سے کمزور پڑ رہی تھی، مگر اس بار کی چوٹ بھرنے لائق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے صوبے میں لڑکھڑا کر گرے ہیں، جو کسی ہندی بولنے والےکی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ وہ ان کے صوبے کو کیسے بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
بنگالیوں کو اپنی ثقافت پر غیرمعمولی طور پرفخر ہے، یہاں تک کہ اسے احساس برتری میں مبتلا ذہنیت بھی کہا جا سکتا ہے۔ دوسروں کو بھی اپنی علاقائی ثقافت پر فخرہوتا ہے، لیکن بنگالی، غیر بنگالی ماحول میں اس کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے ہیں۔
مثلاً،دیگر زبان اور بولیوں کے بیچ وہ بنگالی میں بات کرتے ہیں یا ہر چرچہ میں وہ مقامی آئی کان کا ذکر لے آتے ہیں۔ دوسروں کو اس میں ایک تنگ نظری محسوس ہو سکتی ہے، لیکن بنگالیوں کے لیے ایسا کرنا بےحدعام ہے۔
وہ اپنی سرزمین سے باہر رہنےوالوں کو ‘پروباشی’ کہہ کر پکارتے ہیں اور انہیں اتنا کھرا نہیں مانا جاتا ہے اور انہیں دوسری ثقافتوں کو اپنانے اور اپنی ثقافت کے گاڑھے رنگ کو ہلکا کر دینے کی وجہ سےکسی قدرکمتر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس طرح کے انفرادی کلچر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے ہندوتوا کے ایجنڈہ کو آگے بڑھاکر اور ایک بنگالی ہونے کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر، بنگال فتح کرنے کی کوشش کرنا اگر احمقانہ نہیں تو ایک طرح کی بلند نظری ضرورتھی۔
سب کے لیے ایک ہی سائز کےکرتے کی بی جے پی کی پالیسی ‘بنگالی پن’ کے جوہر کو پوری طرح سے سمجھ نہیں پائی، جو ہندوؤں کی بالادستی والے ایک ملک کے ہندوتوا سے کافی الگ ہے۔
بالکل بنیادی سطح پر بات کریں تو بنگالی رام کی اس طرح سے پوجا نہیں کرتے، جس طرح سے بی جے پی کہتی ہے وہ جئےشری رام نہیں بولتے ہیں۔ وہ سبزی خور نہیں ہیں اور منوسمرتی کے اصولوں میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اور وہ یقینی طور پر ہندی نہیں بولتے اور نہ ہی ایک بنگالی کے ذریعے اس زبان کو بولنے کی کوشش کرنے کو لےکر بنائے گئے بے شمار لطیفوں کی ہی انہیں کوئی پرواہ ہے۔ دراصل ہندی پٹی سے آنے والے لوگوں کے لیے وہاں ایک طرح کی توہین کا احساس ہے۔
بنگالی، خاص طور پر کلکتہ والے اپنے کاسموپولیٹن اور اپنے نوآبادیاتی تعلقات کو لےکرفخر محسوس کرتے ہیں۔ممبئی کے برعکس جہاں سڑکوں کو نیا نام دیا گیا ہے، کولکاتہ میں انگریزوں کے ذریعے دیے گئے سڑکوں کے نام ابھی بھی وہاں دیکھے جا سکتے ہیں اور جب کوئی نیا نام دیا جاتا ہے،یہ کسی بین الاقوامی ثقافتی یا سیاسی شخصیت پر ہوتا ہے۔ (مثلاً، کولکاتہ میں شیکسپیئر سرنی یا ہو چی منہ اسٹریٹ)
ایک بی جے پی سرکار ان کی طرف شک کی نظر سے دیکھتی۔ یہاں بیف آسانی سے دستیاب ہے اور پارک اسٹریٹ پر بار کی کوئی کمی نہیں ہے اور انگریزوں کے زمانے کے کلبوں نے فخرکے ساتھ پرانی نوآبادی روایات کو بنائے رکھا ہے۔
خوداعتمادی سے بھری ہوئی نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی پوری تیاری کے ساتھ صوبےمیں آئی تھی پیسے،طاقت اور سینٹرل ایجنسیوں اور قومی میڈیا کی طاقت ۔ جلدی ہی ترنمول کانگریس سے ایم ایل اے کے باہر نکلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور میڈیا نے اسے یک طرفہ لڑائی اعلان کرنے اور ممتا بنرجی کی ہار کی پیش گوئی کرنے میں تاخیر نہیں کی۔
نریندر مودی اور امت شاہ نے بے شمار ریلیاں کیں اور امت شاہ نے اعلان کر دیا کہ بی جے پی200 سے زیادہ سیٹیں جیتنے جا رہی ہے۔
مودی نے داڑھی بڑھاکر اپنا حلیہ رابندر ناتھ ٹیگور جیسا بنا لیا، لیکن اپنی انسانیت اورقوم پرستی کی مخالفت کے لیے پہچان رکھنے والے عظیم شاعرکے برعکس مودی اپنے پیغام کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور غیرمہذب طریقے سے نام لےکر پکارنے کی نچلے سطح تک گر گئے، جب انہوں نے بنرجی کو دیدی…او دیدی… کہہ کر مخاطب کیا۔
بلاشبہ اس نے خاتون رائے دہندگان کو ناراض اور متحد کرنے کا کام کیا،بنرجی کی حکومت بدعنوانی سے پرہو سکتی ہے، لیکن ذاتی طور پر لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی سادہ طرز زندگی کی کافی تعریف کرتے ہیں۔ اس بات کو بھول جائیے کہ اپنی اکڑ میں رہنے والا بھدرلوک ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔
لیکن سب سے بڑھ کر مودی اور شاہ کو ‘بوہرگرتو’(باہری)کے طور پر دیکھا گیا، جو بنگال کی اپنی خاص تہذیب کو نہ سمجھتے ہیں، نہ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی مسلم مخالف پولرائزیشن کی پالیسی ایک ایسےصوبے میں کامیاب نہیں ہوئی جہاں لمبےوقت سے کوئی بڑا فرقہ وارانہ فسادنہیں ہوا ہے۔
نہ ہی مودی کے پاس کسی بھی مورچے پر دکھانے کے لیے کوئی کامیابی تھی معیشت سے لےکر مہاماری مینجمنٹ تک۔ ان کے پاس مقامی لوگوں کی ضرورت کے حساب سے دینے لائق کیا تھا کھوکھلے نعروں سے پرے ‘اشول پرورتن’آخر کیا تھا؟
مودی شاہ جوڑی کو دوسری جگہوں پر بھی منھ کی کھانی پڑی ہے۔ کیرل میں تو یہ کبھی بھی مقابلے میں نہیں تھی، مہاراشٹر میں، 2014 میں بھی یہ شیوسینا کی مدد سے ہی سرکار بنانے میں کامیاب ہو سکی، جو خود بھی اقتدارمیں آنے کے لیے بےقرار تھی۔ یہ گٹھ بندھن 2019 میں ٹوٹ گیا۔
لیکن سیاسی حکمت عملیوں اور سمجھوتوں سے پرے، مہاراشٹر کے بڑے حصہ میں ثقافتی طور پر بی جے پی سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور اسے ہمیشہ سے‘بھٹ جی اور سیٹھ جی’(برہمن اور بنیا)کی پارٹی کہا جاتا رہا ہے۔صوبے میں برہمنوں کومخصوص اور گہرےپیغام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، جہاں تاریخ اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ انہوں نے دغابازی کے سہارے حکومت کی۔
گاندھی کے قتل کے بعد بمبئی اور دوسرے شہروں کے برہمن علاقوں کو مشتعل بھیڑ نے اپنا نشانہ بنایا۔سیاسی منظرنامےپر برہمن مخالف مراٹھوں کا دبدبہ رہا ہے، حالانکہ وہ ان سے کم ذات پات نہیں کرتے۔
ممبئی میں مراٹھی بولنے والےمؤثرگجراتیوں اور جینیوں کے ذریعےان کی ملکیت اور دبدبے والی عمارتوں میں سبزی خوری کے نظریےکو تھوپنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ، 2014 میں مودی نے مراٹھی مانوس کے بھی ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا، لیکن حقیقت میں ان کے بارے میں لوگوں کو جانکاری نہیں تھی اور معیشت اور نوکریوں پر ان کی باتوں کو لوگوں نے آسانی سے قبول کر لیا تھا۔ لیکن 5 سال بعد وہ دلکشی ختم ہو گئی۔
لیکن، پھر بھی بی جے پی اپنے ہندوتوا کے ذریعے پورے ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنے کے اپنے ایک نکاتی ایجنڈے کو پورا کرنے میں یک سوئی سے لگی ہوئی ہے۔ اور اس میں صرف مسلمانوں کو ہی پوری طرح سے حاشیے پر دھکیلنا شامل نہیں ہے، بلکہ اس میں اپنے نظریات کے مطابق نئے قانون اور سماجی ڈھانچے کو تھوپنا بھی شامل ہے۔
بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو اصل میں اس بات کا یقین ہے کہ 80 فیصدی سے زیادہ ہندو آبادی والے ہندوستان کو ہندو راشٹر میں بدلا جا سکتا ہے، بھلے ہی ہندوستان کے اندرثقافتوں اور روایات میں کافی تنوع ہے، جس پر مقامی لوگ فخرکرتے ہیں۔
کئی ہندو سیاسی ہندوتوا میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو بی جے پی کو 2019 میں ملے 37 فیصدی ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ ملے ہوتے۔ زیادہ تر ہندو سیکولر ہیں اور لازمی طور پرمذہب کی بنیاد پر ووٹنگ نہیں کرتے ہیں۔
مودی کی کامیابی اس بات میں رہی ہے کہ انہوں نے ان سب لوگوں کو جوڑا جنہیں لگا تھا کہ وہ ترقی اور اہل انتظامیہ کو لےکر پرعزم ہیں۔ اب جبکہ معیشت کی حالت پست ہے اورخطرناک صورت اختیار کر چکی مہاماری کا بدترین مینجمنٹ کیا گیا ہے، ان میں سے کئی لوگوں کا چھٹکنا طے ہے۔
مودی شاہ کی جوڑی یا یوگی آدتیہ ناتھ جیسے دوسروں لوگوں کے ساتھ دقت یہ ہے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ نہیں جانتے ۔ مودی نے اسپتالوں میں مچی چیخ و پکار کو نظر انداز کیا اور اپنا سارا دھیان صرف بنگال انتخاب پر لگائے رکھا اور اب وہ 20000 کروڑ کے خرچ سے سینٹرل وسٹا کو ضائع کرنے کی بے مطلب اوردکھاوٹی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ خالص اکھڑ پن اور کووڈ 19 کے شکاروں کے آہ وفغاں پر سرد بے حسی ہے۔
کسی نہ کسی مقام پر یہ سب بند ہوگا۔ انتخاب کئی وجہ سے جیتے یا ہارے جاتے ہیں۔ لیکن ایک بہرہ ایڈمنسٹریشن جو کسی صوبے کی ثقافت کو سمجھنے یا قدر کرنے کے لیےوقت نکالے بغیر اس میں زبردستی گھس جاتا ہے، اور حکومت کرنے کی اپنے مذہب کی توہین کرتا ہے، اس کا آج نہ کل کمزور پڑ جانا طے ہے۔
کئی سالوں کے دوران مودی شاہ کی جوڑی نے جو انتخاب جیتنے کی مشین ہونے کی امیج بنائی تھی، وہ ماضی میں ملی کئی ہاروں کی وجہ سے پہلے ہی کمزور پڑ رہی تھی، مگر اب اس میں جو چوٹ لگی ہے، وہ درست کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔
ممتا بنرجی کے سامنے وہ نوآموز بن کر رہ گئے۔ وہ ایک ایسے صوبے اور ان کے لوگوں کے بیچ لڑکھڑا کر گر گئے جو کسی ہندی بولنے والے کی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کرتے ہیں کہ ان کے صوبے کو وہ کیسے بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
بنگالیوں نے جواب دیا ہے کہ ان کی پریشانیاں ہیں مگر وہ اس کو خود سلجھائیں گے۔ مودی، شاہ کو اس سے ایک سہی سبق ملنا چاہیے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)