گزشتہ 3 اکتوبر کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے کے تحت درج ایک کیس کے سلسلے میں نیوز ویب سائٹ نیوز کلک اور اس کے عملے کے یہاں چھاپے ماری کی تھی۔ اس دوران 90 سے زائد صحافیوں کے تقریباً 250 الکٹرانک آلات ضبط کیے گئے تھے۔ تقریباً ایک ماہ بعد بھی انہیں واپس نہیں کرنے سے صحافیوں کے لیے کام کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
نئی دہلی: نیوز ویب سائٹ نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں پر چھاپے ماری کے بعد دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے اس کے بانی مدیر پربیر پرکایستھ اور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو گرفتار کیا تھا۔ اس مرحلے میں دہلی کے اس میڈیا ہاؤس کے 90 سے زیادہ عملے/صحافیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔
گزشتہ3 اکتوبر کو چھاپے اور پوچھ گچھ کے دوران اسپیشل سیل نے 90 سے زائد صحافیوں کے فون، ہارڈ ڈسک، لیپ ٹاپ اور پاسپورٹ سمیت 250 کے قریب الکٹرانک آلات (ڈیوائس) ضبط کیے تھے، جن کے بغیر ان کا کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر یا تو فری لانسرز تھے، جو نیوز کلک کے لیےکبھی کبھار کام یا ویڈیو شو کرتے تھے۔ ان میں سے متعدد سابق ملازمین تھے، جو اس وقت دیگر اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک چھوٹی تعداد ہی ابھی بھی ویب سائٹ کے پے رول پر ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے نیوز کلک کے ایک سینئراسٹاف نے کہا، ‘ ایسے 90 لوگ ہیں، جن کے تقریباً 250 الکٹرانک آلات پولیس کے پاس ہیں۔ پولیس نے کئی ملازمین کے تین—تین آلات ضبط کر لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الکٹرانک آلات کی تعداد اتنی زیادہ ہے۔ چھاپے ماری میں نیوز کلک کی تمام آرکائیو فوٹیج پر مشتمل ایک اسٹوریج ڈیوائس بھی چلی گئی ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کے آلات پولیس نے ضبط کیے ہیں، ان میں سے کسی کو بھی ان کے الکٹرانک ڈیوائس کی لازمی ہیش ویلیو نہیں دی گئی ہے، جیسا کہ عدالتوں کی جانب سےطے شدہ ہے۔ ان میں سے کچھ کو ضبطی میمو دیا گیا تھا، لیکن زیادہ تر کو یہ نہیں ملا ہے۔
ہیش ویلیو سے پتہ چلتا ہے کہ ضبطی کے وقت ڈیوائس پر کتنا ڈیٹا تھا، اس سے اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ بعد میں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہےیا نہیں۔
ڈیوائس کی عدم موجودگی میں، جوکسی بھی کام کرنے والے صحافی کے لیے فون نمبر اور رابطے کی تفصیلات کا ذخیرہ ہوتی ہے، صحافیوں کو اپنے معمول کے مطابق کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نیوز کلک کے ایک اور سینئر اسٹاف نے کہا، ‘کچھ لوگ سیکنڈ ہینڈ لیپ ٹاپ یا فون کااستعمال کر رہے ہیں، جبکہ کچھ نے اپنا کام چلانے کے لیے اپنے دوستوں سے لیپ ٹاپ وغیرہ ادھار لیے ہیں۔’
نیوز کلک کے صحافیوں نے اس صورتحال کو اپنے جیسے ڈیجیٹل میڈیا ہاؤس کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔
چھاپے ماری کی زدمیں آنے والے ایک فری لانسر نے کہا، ‘ہمارے فیلڈ نوٹ ان الکٹرانک آلات کے ساتھ چلے گئے ہیں۔ کئی سالوں کے کام کے دوران جمع کی گئی معلومات کو مرتب کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ہم پولیس سے اس بات کو سمجھنے کی توقع نہیں رکھتے ہیں،لیکن کم از کم عدالتوں کو صحافیوں کی زندگی میں ایسے فیلڈ نوٹ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔’
ان میں سے کئی کو پولیس نے بتایا کہ ان کے آلات مناسب تفتیش کے بعد دو دن سے ایک ماہ کے درمیان واپس کر دیے جائیں گے۔
سینئر اسٹاف نے کہا، ‘پولیس نے صحافیوں کو ان کے آلات چھیننے سے پہلے جو یقین دہانی کرائی تھی، اس کو پورا نہیں کیا ہے۔ 3 اکتوبر کے بعد سے ڈیوائس کی واپسی کی ممکنہ تاریخ کے حوالے سے پولیس کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ جس کے بعد ہم نے اپنی ڈیوائس کی حفاظت اور واپسی کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔’
حالیہ تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی یقین دہانیوں کے باوجود پولیس ضبط شدہ الکٹرانک آلات واپس کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔ حال ہی میں ایک عدالت نے دہلی پولیس کو ہتک عزت کے ایک معاملے میں دی وائر کے دفتر پرکرائم برانچ کے چھاپے کےتقریباً ایک سال بعدصحافیوں سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔
پولیس تقریباً ایک سال تک یہ دلیل دیتی رہی کہ اسے الکٹرانک ڈیوائس کی جانچ کے لیے مزید وقت درکار ہے، لیکن بالآخر عدالت کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔
معلوم ہوکہ نیوز کلک پر مالی فراڈ اور مشتبہ طور پر چین سے فنڈ لینے کے الزام لگے ہیں۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ابتدائی طور پر نیوز کلک کے احاطے پر چھاپہ مارا تھا، لیکن عدالت میں الزامات کو ٹھوس طریقےسے ثابت کرنےمیں اسے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔
اسپیشل سیل نے بھی نیوز کلک کے خلاف یو اے پی اے کا معاملہ درج کیا ہے، جس کی وجہ سے 3 اکتوبر کو چھاپے ماری ہوئی تھی۔
اسٹاف نے کہا،’اندھا دھند آلات کو ضبط کرنا صحافتی پیشے کو کند کرنے ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘چھاپے ماری میں مہنگا این ایس اے (نیٹ ورک اٹیچڈ اسٹوریج/اسٹوریج ڈیوائس) بھی ضبط کر لیا گیا۔ اس میں ہماری تمام ٹیکسٹ اور ویڈیو رپورٹ یا رپورٹنگ کے دوران جمع کی گئی فوٹیج شامل تھے۔ کسی بھی میڈیا آرگنائزیشن میں اس طرح کے ریکارڈز مستقبل میں کسی بھی مناسب وقت پر استعمال کرنے کے لیے ایک خزانہ ہوتے ہیں۔ ہم اسے اپنی دوسری رپورٹس کے لیے بھی استعمال کر سکتے تھے، لیکن اب یہ ہماری دسترس میں نہیں ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔