ہندوستان-پاکستان اطلاعاتی جنگ اور صحافت کی موت

غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔

غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلا رہے تھے۔

اسکرین شاٹ

اسکرین شاٹ

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کا پہلا شہید’سچ’ ہوتا ہے، کیونکہ گولہ بارود، ہتھیاروں اور انٹلی جنس کے علاوہ اطلاعاتی نظام بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی میڈیا نے اس ہتھیار کو جس قدر اوچھے طریقے سے استعمال کیا کہ اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔

 اطلاعاتی جنگ کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جن سے دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پروفیشنلز ان سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ میں پچھے تیس سالوں سے ہندوستان کے قومی میڈیا کا حصہ رہاہوں۔ چند سال قبل تک اہم نیوز رومز کے انتظام و انصرام کے علاوہ بطور چیف آف بیورو سینکڑوں رپورٹروں کی نگرانی و رہنمائی کا کام کیا ہے۔

 مگر ٹی وی اسکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہاکر جنگی جنون برپا کرایا، سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔

کیا ان اینکروں اور مدیران کو معلوم نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں، جب اطلاعاتی ماحول جغرافیائی سرحدوں اور روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزاد ہوچکا ہے، کیسے ایک سفید جھوٹ کو پروسا جاسکتا ہے۔

ایک صحافی کی سب سے زیادہ اہم متاع اس کی ساکھ ہوتی ہے۔ اگر یہ متاع کھو جائے، تو صحافی کی موت واقع ہوجاتی ہے، گو کہ جسمانی طور پر وہ زندہ ہو۔رپورٹنگ میں غلطیاں تو ہو جاتی ہیں، مگر ان کو تسلیم کرکے ان پر شرمندہ ہونا اور اپنے قارئین یا سامعین سے معافی کا خواستگار ہونا، ایک عظیم صحافی کی نشانیاں ہیں۔

جب ٹی وی اینکر چیخ چیخ کربتا رہے تھے، کہ کراچی کو تباہ کردیا گیاہے، بلکہ نقشہ سے ہی غائب ہو گیا ہے، تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس تو نہیں لیا، مگر جب ایک صحافی برکھا دت، جس کو چند احباب معتبر صحافی سمجھتے ہیں، نے ٹوئٹ کرکے یہی خبر دی، میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں کو فون کیا۔ جب وہ فون اٹھا نہیں رہے تھے، تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے۔

 مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کہ کہ وہ اس وقت نہاری لینے کے لیے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ ہندوستانی بحریہ نے کراچی پورٹ تباہ کر دیا! آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیاہے۔ ہندوستانی فوج نے اسلام آباد پر حملہ کر دیا اور شہباز شریف کو کسی’سیف ہاؤس’میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

زی نیوز نے سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا؛’اسلام آباد پر قبضہ کر لیا گیا!’ جس وقت یہ خبر چلائی گئی، تو پینل پر موجود ماہرین خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ آج تک ٹی وی نے تو حد ہی کر دی۔کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی ویڈیو اسٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔اس کے انگریزی چینل انڈیا ٹوڈے نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔

اے بی پی نیوز  نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر گرفتار ہو چکے ہیں۔ ٹی وی نو  نے بتایا کہ پاکستان کے 25شہر تباہ کر دئے گئے ہیں۔ا یک اور چینل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں فوج گھس گئی ہے اور پینل میں موجود ایک ریٹائرڈ میجر تو خوشی سے چلانے لگا۔

 ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے اس کو معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں اسٹرائیک کور کو سرحد کی طرف کوچ کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ 2001میں آپریشن پراکرم کے  وقت تو دو ہفتے کا وقت لگا تھا۔سبھی اسٹرائیک کورز اور دفاعی کورز کو تو دوماہ کا وقت لگا تھا۔

انڈیا نیوز نے تو نیا آرمی چیف بھی خود ہی تعینات کر دیا۔زی نیوز نے گرافکس چلائے کہ’پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور ہندوستانی افواج نے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔اسی پروگرام میں اسکرین پر وزیراعظم شہباز شریف کو بنکر میں چھپتے اور ہندوستانی افواج کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا۔

 اس غلط انفارمیشن کے علاوہ ٹی وی اینکروں کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک اینکر نے تو دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا االفا ظ ادا کیے اور ان کو سور کی اولاد تک کہا۔ جس پر ایرانی سفارت خانہ نے احتجاج بھی درج کر دیا۔

 اس طرح ریپبلک ٹی وی پراینکر ایک پاکستانی مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے،’جنجوعہ، تمہاری فوج پٹ گئی۔ تم بھگوڑے ہو۔’یہی حال دیگر چینلوں پر پاکستانی پینلسٹوں کا ہو رہا تھا۔

یہ پروپیگنڈہ کوئی انٹرنیٹ ٹرول نہیں بلکہ قومی سطح کے بڑے میڈیا ادارے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے کہنے پر پھیلارہے تھے۔ اس قدر پاگل پن، جب بریکنگ خبر دی گئی کہ پاکستان کا جہاز راجستھان میں مار گرایا گیا ہے اور پائلٹ زیر حراست ہے۔ کسی نے بطور مذاق ایک وہاٹس اپ گروپ میں لکھا کہ پائلٹ کا نام جہاز الدین ہے۔

 اگلے چند منٹ میں نیوز ٹکر ز پر جہازالدین کا نام آنے لگا۔  جو ٹوئٹر اکاونٹ یا میڈیا کے ادارے صحیح خبریں نشر کر رہے تھے، ان کو بلاک کردیا گیا۔

دی وائر کی ویب سائٹ بلاک کر دی گئی۔اس سلسلے میں آٹھ ہزارسے زائد اکاونٹس تک رسائی بند کر دی گئی۔ سچ بولنے والوں کو صرف اس لیے چپ کرایا جا رہا تھا،تاکہ جھوٹ پھیلانے والی فیکٹریوں کو کہیں سے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میڈیا کو قوت ضرب یا فورس ملٹیپلیرکے بطور استعمال کرنے کا پہلا تجربہ ہندوستان میں اکتوبر 1993میں اس وقت کیا گیا، جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ عسکریوں کو حضر ت بل کی درگاہ سے باہر نکالنے کے لیے فوج نے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 32دن جاری رہا۔ اس دوران سرینگر میں 15ویں کور میں اس و قت کے بریگیڈیر جنرل اسٹاف ارجن رے نے میڈیا کو آپریشن ایریا تک رسائی دی۔یہ آپریشن تو دو تین دن میں ختم ہو سکتا تھا۔ مگر اس کو طول دےکر میڈیا کو قوت ضرب کا حصہ بنانے کی ریہر سہل کی گئی۔

 دہلی سے قومی اوربین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو لالاکر درگاہ کے اندر موجود عسکریوں کے انٹرویوز تک کرنے دیے گئے۔ اندر عسکری کمانڈروں کو کھانے بہم کروانے کو بھی میڈیا وار کا حصہ بنایا گیا۔ انہی دنوں فوج نے روزانہ بریفنگ کی روایت بھی شروع کی۔

 یہ تجربہ بعد میں 1999کی کرگل جنگ میں خاصا کام آیا۔ اس وقت ارجن رے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے اور ڈائرکٹر جنرل پبلک انفارمیشن کا محکمہ قائم کرکے ان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ وہ انتہائی زیرک، چہرے پر مسکراہٹ سجائے، میڈیا فرینڈلی جنرل تھے۔

گو کہ کرگل جنگ کے دوران روزانہ بریفنگ کرنل بکرم سنگھ (جو بعد میں آرمی چیف بن گئے) کرتے تھے، مگر ان کی بریفنگ کا انتظام، کرگل محاذ پر صحافیوں کو دورے کروانا،  بیک گراؤنڈ بریفنگ کروانا ا رجن رے اور ان کے دست راست کرنل منوندر سنگھ کے سپرد تھا۔

منوندر انڈین ایکسپریس میں دفاع کے بیٹ کے رپورٹر تھے اور انہی دنوں انہوں نے استعفیٰ دیکر ٹیریٹوریل آرمی جوائن کی تھی۔ ایک روز وہ بطور صحافی ہمارے ساتھ جنگ کور کر رہے تھے، اگلے روز وردی میں بریفنگ کا انتظام کر رہے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور لیفٹنٹ جنرل عزیز کی ریکارڈ کردہ بات چیت کو عام کروانے کا مشورہ جنرل رے نے ہی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو دیا تھا۔ جسونت سنگھ منوندر کے والد تھے۔

مگر اس پوری سعی کے باوجود کرگل جنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا مطمئن نہیں تھے۔ ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

 پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ایر ہو چکے تھے۔ اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنی الگ چینل شروع کرانے کا مشورہ دیا۔

 ان دنوں ہندوستان سے اپ لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لےکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔

حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہیے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات، خاص طور پر جب کشمیر میں مظاہرے ہورہے ہوں یا ملک حالت جنگ میں ہو، اس وقت حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔

اس لیے جب بھی کشمیر میں عوام سڑکوں پر ہوتے تھے یا پتھر بازی ہوتی تھی، برکھا دت فوراً پہنچ کر اس کا بیانہ وضع کروانے کا کام کرتی تھی۔ لہذا جو افراد برکھا دت کو قابل اعتماد اور لبرل صحافی کی حیثیت سے جانتے  ہیں ان کو اپنی معلومات درست کرنی چاہیے۔

این ڈی ٹی وی اور اس کے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنوائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیشتر اوقات کیا گیا۔ یعنی یہ چینل برجیش مشرا کی توقعات پر بالکل پورا اترا۔

بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح معتبریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔  2015کے بعد موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے کہنے پر این ڈی ٹی وی کے فنڈز بند کر دیے گئے، کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ فنڈز جو انگریزی چینل کے لیےمخصوص تھے ان کو دیگر شعبوں اور نان نیوز اداروں میں استعمال کیا جارہا تھا۔

 چونکہ موجودہ حکومت کو ادراک ہوا کہ ہندوستان اب ایک ہارڈ اور معاشی پاور بن چکا ہے اس لیے بین الاقوامی بیانیہ کے لیے اس کو کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی اب ضرورت نہیں رہی۔طے ہوا کہ صرف اسی میڈیا کی سرپرستی کی جائےگی، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔

اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب  غلط معلومات اور گمراہ کن دعوے کے ساتھ کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔جس طرح کی کارکرگی اس وقت ہندوستانی چینلوں نے دکھائی اب کون ان کے بیانہ پر اعتبار کرےگا۔حکومت کی طرف سے بھی کرگل جنگ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔

یہ حال 1999میں پاکستان کا تھا۔لگ رہا تھا کہ اس بار رول تبدیل ہو چکے ہیں۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے تیسرے سینئر ترین افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سیندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الکٹرانک طریقے سے ہندوستانی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمتِ عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اب وہ ایک ‘کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ (ملٹی ڈومین آپیزیشنز) پر مبنی ہے۔

جن صحافیوں نے کرگل جنگ اور اس کے بعد آپریشن پراکرم کور کیا ہو، ان کو معلوم ہوگا کہ جب اتنی تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔دونوں مواقع پر مجھے یاد ہے کہ نئی دہلی میں نہ صرف روزانہ آن ریکارڈ بلکہ اعلیٰ افسران متواتر ایک موقع پر تو خود آرمی چیف کی طرف سے بیک گراؤنڈ بریفنگ دی گئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے جنگ اور نیوز کے دہلی کے بیورو چیف عبدالوحید حسینی بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور تیکھے سوالات بھی پوچھتے تھے۔  ایڈیٹروں اور دہلی میں مقیم بین الاقوامی میڈیا کے سربراہوں کو خود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور جسونت سنگھ بھی بسا اوقات بیک گراؤنڈ بریفنگ کے لیے بلاتے تھے۔

پاکستان نے چونکہ سینئر افسران کو میدان میں اتارا، اس لیے  اگلے روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر پاکستانی موقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی طرف سے کسی سینئر فضائی افسر نے  میڈیا سے بات نہیں کی۔جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ تو نتیجہ کیا نکلا؟

پاکستانی موقف کو اعتبار حاصل ہوا۔ اب یہ درست ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر جب ہندوستان کی جانب سے کوئی متبادل بیانیہ ہی موجود نہ تھا، تو پھر یکطرفہ کہانی ہی سچ مان لی جاتی ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار اور فورس میگزین کے ایڈیٹر پروین ساہنی کے مطابق پاکستان کی’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’ مودی حکومت کے کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کیے گئے اقدمات کا شاخسانہ ہے۔ ان کے مطابق اس سیاسی قدم نے چین اور پاکستان کی افواج کو ایک تزویراتی اتحاد میں باندھ دیا۔ پہلے بھی تعاون موجود تھا، مگر اس کے بعد یہ رشتہ کہیں زیادہ گہرا اور ادارہ جاتی ہو گیا۔

 صدر شی جن پنگ سمیت تمام اعلیٰ چینی قیادت نے کھلے عام پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حق میں بیانات دیے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی، تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) براہ راست نہ سہی، پس منظر میں ضرور پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اور اس کا اشارہ ہمیں آپریشن سیندور میں ملا۔ا

س وقت بھی پاکستان کے بجائے دراصل چھوٹا چین ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اب اگر آئندہ کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑجاتی ہے، تو وہ صرف یک محاذی جنگ نہیں ہوگی۔

ساہنی کا کہنا ہے کہ 2019 سے وہ خبر دار کرتے آئے ہیں کہ ہندوستان کو اب خطرہ اب صرف پاکستان سے نہیں، بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ فوجی اتحاد سے ہے۔جس میں چینی فوج میدانِ جنگ میں تو نظر نہیں آئے گی، مگر اس کی موجودگی ہر مرحلے پر محسوس کی جائے گی۔

ان کے مطابق،’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی’کے چھ بنیادی پہلو ہیں؛


لڑاکا طیارے – پاکستان کے موجودہ فرنٹ لائن طیارے، جے-10 اور جے ایف -17، دونوں چینی ساختہ ہیں،

بی وی آر میزائل – پی ایل -15، جو بہت دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے،

 چین سے حاصل کیا گیا ہے، سیٹلائٹ نظام – چین کے بیئی ڈوؤ نیٹ ورک سے استفادہ، جس میں 44 سیٹلائٹس موجود ہیں، پاکستان کو 24 گھنٹے میدانِ جنگ کی نگرانی اور میزائل ہدف بندی کی سہولت دیتا ہے،

  ایئربورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (اے ای ڈبلیو اینڈ سی)،پاکستان کے پاس نو نظام موجود ہیں جو دشمن کے اہداف کی شناخت اور نگرانی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں,

الکٹرانک وار فیئر – 2019 کے بالا کوٹ حملے میں پاکستان نے نہ صرف ہندوستانی کمیونی کیشن جام کیا  تھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔اس بار بھی اورنگزیب نے ہندوستانی پائلٹوں کی پرواز کے دوران گفتگو کی ایک ویڈیو میڈیا کو سنائی، جس نے اُن کے دعوے کو مزید مستند بنایا اور

  ڈیٹا لنکنگ – تمام یونٹس، چاہے وہ سیٹلائٹ ہوں، زمینی افواج یا فضائی یونٹس، سب ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی وقت میں جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے پاس لنک -17 نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا، جسے اب مزید اپ گریڈ کیا گیا ہے۔

ان میں سب سے اہم دو صلاحیتیں ڈیٹا لنکنگ اور الکٹرانک وار فیئر ہیں، جو پائلٹ کو میدانِ جنگ کا مکمل 360 ڈگری منظر فراہم کراتی ہیں۔ اس نظام کو ’کل چین‘ کہا جاتا ہے—یعنی خبردار ہونا، ہدف تلاش کرنا، اس پر نظر رکھنا، اور پھر اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا۔


اگر یہ تمام عناصر مربوط انداز میں کام کریں تو دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔2020 کے بعد سے پاکستانی فضائیہ اور چینی فضائیہ نے اس حکمت عملی پر مشترکہ مشقیں شروع کی ہیں، جنہیں’شاہین ایکسرسائز’ کہا جاتا ہے۔ یہ مشقیں 2012 سے جاری تھیں، لیکن پہلے ان کا محور صرف ڈاگ فائٹ اور الکٹرانک وار فیئر ہوتا تھا۔ اب توجہ اس بات پر ہے کہ میدانِ جنگ میں کون پہلے کل- چین مکمل کرتا ہے۔

اور یہ ہم آہنگی 2019 کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔اسی طرح یہ آنے والے خصوصاً کروز میزائل کے سسٹم میں داخل ہوکر اس میں غلط معلومات درج کرواکر اس کو بھٹکاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کا ایک برہموس کروز میزائل اپنے ہدف کے بجائے پاکستان کی سرحد کو کراس کرکے افغانستان کے کسی علاقے میں گرا۔

ساہنی کے مطابق، آپریشن سیندور مکمل جنگ کے بجائے ایک بحران تھا۔ لیکن بحران اور جنگ کے درمیان قبل از جنگ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہاں پاکستان کو برتری حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ  اپنے جغرافیائی خدوخال  ہولڈنگ کی وجہ سے اسٹرائیک فورسز کو 48 سے 72 گھنٹوں میں متحرک کر سکتا ہے۔

جبکہ ہندوستانی فوج چونکہ بہت بڑی ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے اس میں وقت لگتا ہے۔ جیسے 2001–2002 میں آپریشن پراکرم کے دوران اسٹرائیک کور کو متھرا، بھوپال اور آگرہ سے سرحد تک پہنچانے میں دو ہفتے لگے تھے۔ اگرچہ اب بہتری آئی ہے، مگر پاکستان کے مقابلے میں اب بھی سست ہے۔

 مودی حکومت کے 11 سالوں میں تین تھرش ہولڈ قائم ہوئے ہیں۔ پہلا قدم تھا 2019 کا بالا کوٹ حملہ—جب پہلی بار ہندوستانی فضائیہ نے کسی بحران میں کارروائی کی، یہ ایک نئی نظیر تھی، دوسرا قدم تھا آپریشن سیندور—اس بار پاکستان مکمل طور پر تیار تھا، فضائی حملے کا انتظار کر رہا تھا،  تیسرا قدم  اسی آپریشن کے دوران ڈرون اور میزائلوں کا استعمال، جو اب نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ بین الاقوامی سرحد پر بھی داغے جاسکتے ہیں۔

 اس کے علاوہ، ہندوستانی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہونے والی سکیورٹی میٹنگ کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آئندہ کسی بھی دہشت گرد حملے کو ‘جنگ کا اعلان’ تصور کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کشمیر یا کسی اور علاقے میں کوئی حملہ ہوتا ہے، تو براہِ راست جنگ ہوسکتی ہے یعنی جنگ کرنے کا تھرش ہولڈ مزید گر گیا ہے۔ یعنی ایک ایسی صورتحال  پیدا ہو گئی ہے جہاں جنگ بندی اور جنگ کرنے میں میں فرق مٹ چکا ہے۔

ہندوستانی فوج کو ہر وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا۔یعنی مودی حکومت کے دور میں ہندوستان کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اب دشمن صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور پاکستان کی متحدہ فوجی قوت ہے۔جنگ کا دہانہ یعنی تھرش ہولڈ نیچے آ چکا ہے۔یعنی دو بلکہ چین سمیت تین جوہری طاقتوں کی حامل قوتوں کے درمیان جنگ آسانی سے چھڑ سکتی ہے۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا واقعی مودی کے اس قدم سے ہندوستان زیادہ محفوظ ہوگیا ہے اور مسلسل تیاری کی حالت میں رہنے سے فوج کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ سیاسی مسائل کو باہمی طور پر حل کیاجاتا، تاکہ پوری توجہ معاشی ترقی اور عوام کی بہبودی کی طرف دی جاتی۔

Next Article

ہریانہ: فیس بک پوسٹ کے لیے خواتین کمیشن کے نوٹس کو اشوکا پروفیسر نے سینسرشپ قرار دیا

ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد پر سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کا الزام لگایا ہے۔ علی نے الزامات کی تردید کی ہے اور کمیشن کے نوٹس کو سینسر شپ کا نیا طریقہ قرار دیا ہے ۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے 12 مئی کواشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو طلب کیا تھا۔ کمیشن نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا ہےاور ‘مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کی ہے۔

کمیشن نے ‘آپریشن سیندور’ پر محمود آباد کی جانب سے کی گئی دو فیس بک پوسٹس اور اس پر لوگوں کے ردعمل کے اسکرین شاٹس منسلک کیے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ ان پوسٹوں کے ابتدائی جائزے میں  کئی تشویشناک پہلو سامنے آئے ہیں —جن میں کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ جیسی خواتین افسران کی توہین،’نسل کشی’، ‘ڈی ہیومنائزیشن اور ‘ہیپوکریسی’ جیسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینااوریکجہتی پر حملہ کرنا، خواتین کی توہین کرنا اوریونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے اخلاقی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرناشامل ہے۔

فیس بک پوسٹس میں کیا لکھا ہے؟

آٹھ مئی کو، جب ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا، محمود آباد نے ہندوستانی مسلح افواج کی پہلی قومی پریس بریفنگ پر ایک فیس بک پوسٹ شیئر کی۔

انہوں نے لکھا کہ وہ خوش ہیں کہ دائیں بازو کے مبصرین کرنل قریشی کی تعریف کر رہے ہیں،’ لیکن انہیں اتنی  ہی بلند آواز میں یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہجوم کے ہاتھوں زدوکوب کیے جانے والے، بغیر کسی قانونی کارروائی کے مسمار کیے گئےگھر، اور بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی سیاست کے شکار لوگوں کو  ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کیا جائے۔’

انہوں نے لکھا، ‘دو خواتین افسران کو اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے دیکھنا ایک اہم منظر ہے… لیکن آپٹکس کو زمینی حقیقت میں بدلنے کی ضرورت ہے؛  ورنہ یہ صرف منافقت ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پریس کانفرنس صرف ایک لمحاتی جھلک – شاید ایک وہم اور اشارہ  ہے- اس ہندوستان کا جس نے اس نظریے کو مسترد کردیا جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عام مسلمانوں کوجو زمینی حقیقت جھیلنی پڑتی ہے، وہ حکومت کی طرف سے دکھائی گئی تصویر سے مختلف ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تنوع میں اتحاد سے جڑا ہندوستان پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔’

ایک اور پوسٹ میں،جس کا عنوان تھا’دی  بلائنڈ بلڈ لسٹ فار وار’، انھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے کچھ میڈیا اداروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں پر جنگی جنون پھیلانے کا الزام لگایا۔

انہوں نے لکھا؛’یہ ریڈکلف سرحد کے دونوں طرف ہو رہا ہے – ہر طرف پاگل لوگ ہیں، لیکن سرحد کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ جنگ کا کیا مطلب ہوتاہے؛ یہ من مانی، غیر یقینی اور بے مطلب موت ہوتی ہے۔’

‘ سوچیے، جب آپ کہتے ہیں’انہیں مٹا دو…’ —آپ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام بچوں، بزرگوں، اقلیتوں، اس طرف کے امن کے حامیوں اور تمام بے گناہ لوگوں کو مار دو — جو وہی کرنا چاہتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں؛ ایک باپ ، ایک ماں، ایک بیٹی، بیٹا، دادا-دادی ، یا دوست بننا۔’

‘شرمناک’

اس کےبعدایک پریس کانفرنس میں ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے علی خان محمود آباد کے تبصروں کو’انتہائی شرمناک’ قرار دیا۔

انہوں نے کہا،’اگر وہ ہماری بیٹیوں کی عزت نہیں کر سکتے تو پروفیسر کیسے اور کیوں بنے؟ وہ ہماری بیٹیوں کو کیا سکھائیں گے؟’ انہوں نے کہا، ‘ان کی پوسٹس سے واضح ہے کہ وہ ملک کے خلاف بغاوت کی ذہنیت رکھتے ہیں۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ محمود آباد صرف ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن انہیں ملک سے کوئی محبت نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سال 2023 میں بھاٹیہ کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ‘وہ لڑکیاں جو  بوائے فرینڈ کے ساتھ اویو (ایک ہوٹل چین) جاتی ہیں اور بعد میں ریپ اور بلیک میل کی شکایت کرتی ہیں’۔ انہوں نے کہا تھا، ‘آپ جانتے ہیں کہ آپ وہاں ہنومان آرتی کے لیے نہیں جا رہے ہیں۔’

بھاٹیہ نے اشوکا یونیورسٹی سے اپیل کی کہ وہ محمود آباد کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر وہ کرنل قریشی اور (ونگ کمانڈر) ویومیکا کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں تو وہ ہماری بیٹیوں کو کیا پڑھاتے ہوں گے؟ وہ ان کو کیسے دیکھتے ہوں گے یا ان کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہوں گے؟’

اشوکا یونیورسٹی نے محمود آباد کے خیالات سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ یونیورسٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ‘اشوکا یونیورسٹی اور اس کے تمام ممبران ہندوستان کی مسلح افواج پر فخر کرتے ہیں اور ان کی  مکمل حمایت کرتے ہیں۔’

‘یہ سینسر شپ اور ہراساں کرنے کی ایک نئی صورت ہے’

چودہ مئی کو جاری ہونے والے ایک پریس بیان میں علی خان محمود آباد نے تمام الزامات کو مسترد کریا۔ انہوں نے کہا، ‘نوٹس کے ساتھ منسلک اسکرین شاٹس [میری پوسٹس کے] یہ واضح کرتے ہیں کہ میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔’

محمود آباد نے کہا کہ کمیشن نے ان کی پوسٹس کو اس حد تک غلط پڑھا اور اس کی غلط تشریح کی کہ ان کے اصل معنی ہی الٹ دیےگئے اور ایسے مسائل گھڑے گئے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں تھے۔

انہوں نے نوٹس کو سینسرشپ کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے بیانات سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوئی۔

انہوں نے کہا، ‘الزامات کے برعکس، میری پوسٹ میں اس بات کوسراہا گیا  تھاکہ مسلح افواج نے پریس کانفرنس کے لیے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کا انتخاب کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہماری جمہوریہ کے معماروں کا ہندوستان – جوتنوع میں اتحاد کا ایک خواب تھا- ابھی بھی زندہ ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے تجزیہ کیا اور تبصرہ کیا کہ کس طرح ہندوستانی فوج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی فوجی یا شہری ٹھکانے یا ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، تاکہ کسی غیر ضروری تصادم کو روکا جا سکے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں نے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کیا ہے اور ہندوستانی مسلح افواج کی فیصلہ کن کارروائی کی تعریف کی ہے، ساتھ ہی ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور ہندوستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘میری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے محمود آباد نے کہا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا نے ان کا غلط حوالہ دیا ہے اور انہوں نے کسی بھی پوسٹ کو حذف کرنے سے بھی انکار کیا، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا، ‘ایک نیوز آرگنائزیشن نے میری پوسٹس کا انتخاب کیا اور انھیں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کا مطلب ہی بدل گیا۔ یہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا نہیں بلکہ میری شبیہ کو داغدار کرنے اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون کے متن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میری پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں، جبکہ وہ ابھی تک میرے فیس بک پر موجود ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

یوپی: آپریشن سیندور پر ’اینٹی نیشنل اور ’گمراہ کن‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں دو درجن سے زیادہ افراد گرفتار

آپریشن سیندور کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے مابین فوجی کشیدگی کے درمیان یوپی پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں  کارروائی کی ہے۔ اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کاایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو، پاکستانی فوج کی حمایت کرنے والی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچر وغیرہ شامل ہیں۔

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

نئی دہلی: آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان اور پاکستان کےمابین فوجی کشیدگی کے درمیان اتر پردیش پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کےسلسلے میں  کارروائی کی ہے۔

اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کا ایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو؛ شاہجہاں پور میں ایک ‘دہشت گردانہ حملہ’ جو حقیقت میں کبھی ہوا ہی نہیں؛پاکستانی فوج کی حمایت کی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچرز وغیرہ شامل ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے اب تک ریاست بھر سے کم از کم 25 افراد کو سوشل میڈیا پر ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ پوسٹس کے ذریعے افواہیں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 40 سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کر کے انہیں بلاک کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

اس کارروائی میں مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت کرنے والا مواد شیئر کرنے یا پوسٹ کرنے پر لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس میں مورفڈ اور اے آئی جنریٹیڈ پوسٹ بھی شامل ہیں۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی پوسٹ کی شناخت کے لیے 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں بریلی میں پولیس نے فخرالدین نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے،جنہوں نے انسٹاگرام پر پاکستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو میں پاکستانی جھنڈا دیکھا گیا تھا۔

بریلی کی پولیس سپرنٹنڈنٹ (جنوبی) انشیکا ورما نے کہا کہ فخرالدین کو اپنے فیس بک پروفائل پر ‘اینٹی نیشنل’ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جو مختلف مذہبی، نسلی یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں کے درمیان عداوت، نفرت یا تعصب پیدا کرنے کے امکان والےجھوٹے بیان، افواہ یا خطرناک خبریں بنانے، شائع کرنے یا پھیلانے سے متعلق ہے۔

بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کیا گیا، جس میں فخرالدین کو پولیس کی حراست میں دکھایا گیا، جس میں وہ  واضح طور پر غیر آرام دہ حالت میں’پاکستان مردہ باد’ چلا رہے تھے۔

پاکستانی چینل کی کلپ اور ویڈیو پوسٹ شیئر کرنے پر کارروائی

اس کے علاوہ سنبھل میں جماعت علی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا، جن پر مبینہ طور پر ایک فیس بک ویڈیو شیئر کرنے کا الزام ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل لڑاکا طیارہ مار گرایا ہے اور ہندوستانی پائلٹ کو بندی بنالیا ہے۔

ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق، علی پر ایک پاکستانی چینل کی کلپ شیئر کرنے کا الزام ہے ،جس میں 2019 میں بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد ہندوستانی لڑاکا پائلٹ ابھینندن ورھمان کے گرفتار کیے جانے کے ساتھ رافیل جیٹ کو مبینہ طور پر گرائے جانے کا موازنہ کیا گیا تھا۔

الکٹرک ٹاور پر کام کر کے اپنی روزی کمانے والے علی کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں سے متعلق ہے۔

پولیس نے اپنی شکایت میں کہا ہےکہ ان کا فعل ہندوستان کے خلاف علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت پر کاری ضرب ہے۔

بریلی میں 22 سالہ درزی محمد ساجد کو بھی پاکستان کی حمایت میں ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

شاہجہاں پور میں تین سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں ایک ‘انکت کمار 71010’ اور ‘پروندا.2023’ شامل ہے۔ ان پر ضلع میں مبینہ دہشت گردانہ حملے کا فرضی ویڈیو پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔

پولس نے تاج محل پر حملے کا اے آئی جنریٹیڈ ویڈیو پوسٹ کرنے پر کئی سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

باغپت میں پاکستان کے حق میں پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ پاکستان کی حمایت کو فروغ دیتی ہے اور حکومت کے خلاف ہے۔

اسی طرح کوشامبی میں افسر علی گھوسی نامی ایک شخص کو ایک کارٹون پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ایک شخص کو ہندو دیوتا کوقتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کا کیپشن ‘پاکستان زندہ باد’ دیا گیا ہے۔ تاہم، اس کا فریم بنگلہ دیش کا لگتا ہے، جیسا کہ قومی پرچم سے ظاہر ہوتا ہے۔

پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ کہنے اور پاکستانی پرچم کااستعمال کرنے کا الزام

اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوشاد کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ بتایا گیا تھا۔

بریلی میں ساجد نامی شخص کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر’پاکستان زندہ باد’ پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بعد ازاں، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں اسے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ‘پاکستان مردہ باد’ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا۔

مظفر نگر میں ذیشان نامی شخص کو ہندوتوا گروپوں کے احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا،جس میں اس پر ایک ویڈیو پر پاکستان کے حق میں تبصرہ پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا۔

ایک اور شخص محمد ریاض کو سنبھل میں مبینہ طور پر پاکستانی پرچم کو اپنی اسٹوری  میں استعمال کرنے اور ریل شیئر کر کے ہندوستان کے خلاف فوجی کارروائی میں کھلے عام پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر سنبھل کے ایس پی کرشن بشنوئی نے کہا، ‘اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘چاہے جو ہو جائے، ہم صرف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔’

پولیس افسر نے کہا کہ ریاض کی پوسٹ جان بوجھ کر کی گئی ،جس میں’ہندوستان میں علیحدگی پسند رجحانات’ کو فروغ دیا گیا۔

میرٹھ میں کچھ دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سےدلشاد نامی شخص کے وہاٹس ایپ ڈسپلے پکچرکے طور پر پاکستانی پرچم والی ایک لڑکی کی تصویر پراعتراض کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔

مظفر نگر میں انور جمیل نامی شخص کو سوشل میڈیا پر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے کا ایک بغیر تاریخ والا ویڈیو شیئر کیے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

اپنے چھوٹے سے ویڈیو کے ‘وائرل’ ہونے کے بعد، جمیل نے ایک کلپ اپلوڈ کرکے واضح کیا کہ متنازعہ ویڈیو پرانا تھا اور اس نے یہ تبصرہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران اپنے دوست کے ساتھ شرط لگانے کے حصے کے طور پر کیا تھا۔

مظفر نگر سٹی سرکل آفیسر راجو کمار ساب نے کہا کہ اس ویڈیو کی تصدیق کی جا رہی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

صحافیوں کے لیے عدالتی عمل ہی سزا، چھوٹے شہروں سے کام کرنے والے زیادہ نشانے پر: رپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں عدالتی عمل ہی سزا بن گیا ہے۔ اکثر معاملات میں تفتیش یا مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے شہروں میں، مالی مشکلات، ذہنی دباؤ اور کیریئر پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان بھر میں صحافیوں کے لیے ‘عدالتی عمل بذات خود ایک سزا بنتا جا رہا ہے’ – یہ بات منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے ٹرائل واچ انیشیٹو، نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی اور کولمبیا لاء اسکول میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں پھنسانے کے عمل میں  ہر مرحلے کو طول دیا جاتا ہے، جس سے انہیں مالی مشکلات، ذہنی پریشانی، خوف اور تشویش سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں شدید خلل پڑتا ہے۔

‘ پریسنگ چارجز: اے اسٹڈی آف کریمینل کیسیزاگینسٹ جرنلسٹس اکراس اسٹیٹ ان نڈیا’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘244 مقدمات میں سے 65 فیصد سے زیادہ 30 اکتوبر 2023 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔’

اس کے علاوہ، 40 فیصد مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل نہیں کی۔ اور صرف 16 مقدمات (6فیصد) میں ہی  کیس کا حتمی تصفیہ ہوا – جس میں سزا یا بری ہونا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کام کرنے والے یا مقامی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بڑے شہروں میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں گرفتار کیے جانے کا امکان زیادہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق، انصاف کے نظام کے بارے میں صحافیوں کا تجربہ بھی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔

‘جہاں بڑے شہروں  میں صحافیوں کی گرفتاریاں کل مقدمات کا 24 فیصد تھیں، وہیں چھوٹے شہروں/قصبوں میں یہ تعداد بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ صحافیوں کو انصاف تک کتنی رسائی حاصل ہے۔’

اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے صحافیوں کو 65 فیصد مقدمات میں گرفتاری سے عبوری راحت ملی، جبکہ چھوٹے شہروں میں صرف 3 فیصد صحافیوں کو یہ راحت مل سکی۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ راحت اکثر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی، جس کی واحد بنچ دہلی میں ہے۔ ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو انگریزی میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘ہمارا ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ اگر ‘عمل ہی سزا ہے’، تو یہ سزا دہلی سے دوری کے تناسب میں بڑھ جاتی ہے۔’

یہ مطالعہ ایک نئے ڈیٹا سیٹ کے تجزیے پر مبنی ہے، جس میں ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 427 صحافیوں کے خلاف 423 مجرمانہ معاملوں کی جانکاری شامل ہے۔ اس میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے 624 مجرمانہ واقعات شامل ہیں۔

رپورٹ کے لیے 48 صحافیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے خلاف مقدمات ان کی صحافت کو شدید طور پرمتاثر کرتے ہیں؛

قابل ذکر ہے کہ 58فیصد صحافیوں نے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بات کہی،56فیصد نے خوف یا تشویش کا اظہار کیا،73فیصد نے کہا کہ اس نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا،اور 56فیصد نے کہا کہ اس سے ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔

اس کے علاوہ صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘میری گرفتاری کے بعد میرا خاندان بہت پریشان ہوا، خاص طور پر میرے چھوٹے بچے، جو بہت فکرمند تھے۔ ایسے معاملات صرف ایک فرد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بالآخر وہ آپ کو گھٹنوں کے بل لے آتے ہیں۔’ ایک صحافی نے محققین کو بتایا۔

ٹرائل واچ کے قانونی ڈائریکٹر اسٹیفن ٹاؤنلی نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک اور حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہی ہیں۔یہ رپورٹ عالمی بحث میں ایک نئے تناظر کا اضافہ کرتی ہے اور ہندوستانی تناظر میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔’

نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر انوپ سریندر ناتھ، جنہوں نے اس مطالعہ کی قیادت کی، انہوں نے کہا،’اس رپورٹ کی آئینی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئین کے ذریعے تحفظ یافتہ پریس کی آزادی کو عام فوجداری قانون اور طریقہ کار کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات عام طور پر مبہم ہوتے ہیں اور آزادی اظہار کے ہندوستان کے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نیا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) جو 2024 میں نافذ ہوا تھا نے بھی ان مبہم قوانین میں کوئی خاص اصلاحات نہیں کی ہیں۔

‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کا امکان اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ،بی این ایس میں ایک نئی غیر واضح شق شامل کی گئی ہے – دفعہ 195(1)(ڈی) – جو ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد، سالمیت یا سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی جھوٹی یا گمراہ کن معلومات’ کو جرم بناتی ہے۔

رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت ایک خطرناک کام ہے۔

‘صرف پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ وہسل بلورز، ‘سٹیزن جرنلسٹ’ اور دیگر بھی ان دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے  کے دائرے میں آتے ہیں۔’

Next Article

گجرات سماچار کے مالک ای ڈی کی حراست میں، کانگریس نے کہا – وجہ مودی حکومت کی تنقید

گجرات میں ای ڈی نے ریاست کے ایک مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گجرات کانگریس کے صدر شکتی سنگھ گوہل نے کہا ہے کہ گرفتاری کی اصل وجہ وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف اخبار کا تنقیدی موقف ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گجرات میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ریاست کے مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا ہے ۔

دکن ہیرالڈ نے اخبار چلانے والے خاندان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جمعرات (15 مئی) کی رات دیر گئے ای ڈی نے اخبار کے مالکان میں سے ایک باہوبلی شاہ کو حراست میں لے لیا۔

اپوزیشن پارٹی کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ ای ڈی نے شاہ کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف اخبار میں تنقیدی موقف  کی وجہ سے حراست میں لیا ہے۔

گجرات کانگریس کے صدر اور راجیہ سبھا ایم پی شکتی سنگھ گوہل نے کہا، ‘ای ڈی نے محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کے چند گھنٹے بعد ہی باہوبلی شاہ کو گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کی اصل وجہ اخبار کا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف تنقیدی مضامین لکھنا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد شاہ کو سینے میں درد اٹھا تھا، جس کے بعد انہیں طبی معائنے کے لیے وی ایس اسپتال لے جایا گیا، جہاں سے انہیں رات کو زائیڈس اسپتال منتقل کیا گیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں گوہل نے الزام لگایا کہ انہیں گجرات نیوز کی حالیہ ہندوستان -پاکستان کشیدگی پر رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

گوہل نے پوسٹ میں کہا، ‘سچائی کے لیے کھڑے ہونے کی سزا بی جے پی حکومت کا نصب العین ہے۔ گجرات کا مؤقر اخبار گجرات سماچار ہمیشہ اقتدار کے خلاف کھڑا رہا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ تاہم، حال ہی میں ہندوستان-پاکستان  تنازعہ میں بی جے پی حکومت اور پی ایم مودی کو آئینہ دکھانے کے لیےمودی نے اپنی پسندیدہ ٹول کٹ کو باہر نکال دیا ہے۔ انکم ٹیکس (آئی ٹی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گجرات سماچار اور اس کے ٹیلی ویژن چینل جی ایس ٹی وی کے علاوہ دیگر کاروباری اداروں پر حملہ کیا ہے۔ گجرات سماچار کے مالک باہوبلی بھائی شاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔’

گوہل نے مزید کہا، ‘تقریباً تین ہفتے قبل جب چھاپہ مارا گیا تھا، خاندان اپنی کل ماتااسمرتی بین کی موت کے بعد سے سوگ میں تھا۔ باہوبلی بھائی ایک بزرگ شہری ہیں اور انہیں صحت کے مسائل ہیں۔ میں مودی سرکار کی اس زیادتی  کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اپنا کام کر رہے میڈیا کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کو جان لینا چاہیے کہ ہر میڈیا گودی میڈیا نہیں ہے اور وہ اپنی روح بیچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میں گجرات سماچار اور اقتدار کے سامنے سچ بولنے والے تمام میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جئے ہند۔’

Next Article

ٹرمپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں بنے آئی فون، ٹم کک سے کہا کہ وہ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان  میں ایپل کا مینوفیکچرنگ یونٹ کھولنے سے منع کیا ہے۔ ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون ہندوستان میں تیار کرے گا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

نئی دہلی: مشرق وسطیٰ کے تین ممالک کے دورے پر گئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ کھولنے سے منع کیا ہے، جب تک کہ وہ ‘ہندوستان کا خیال نہیں رکھنا چاہتے’۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے امریکہ کو ‘بغیر کسی ٹیرف’ کے ایک ‘ڈیل’ کی پیشکش کی ہے۔

قطر کے دوحہ میں ایک کاروباری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ، ‘مجھے کل ٹم کک کے ساتھ تھوڑی پریشانی ہوئی۔ میں نے اس سے کہا، ‘ٹم، تم میرے دوست ہو۔ میں نے تمہارےساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ تم  500 بلین امریکی ڈالر لے کر آ رہے ہو، لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تم پورے ہندوستان میں مینوفیکچرنگ  کر رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرو۔ اگر تم  ہندوستان کا خیال رکھنا چاہتے ہو توتم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرسکتے ہیں، کیونکہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں فروخت کرنا بہت مشکل ہے۔’

ٹرمپ کا یہ تبصرہ ہندوستان اور امریکہ کے تجارتی تعلقات میں سرد لہر کے درمیان آیا ہے، جو باہمی محصولات کے اعلان کے بعد سے واضح ہو گیا ہے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ واشنگٹن کے وسیع تجارتی تعلقات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘انہوں نے ہمیں ایک معاہدے کی پیشکش کی ہے جہاں وہ بنیادی طور پر تیار ہیں- سچ مچ  – وہ ہم سے کوئی ٹیرف نہیں لیں گے۔ ہم سب سےاونچے ٹیرف سے آگے بڑحتے ہیں – تم ہندوستان  میں کاروبار نہیں کر سکتے، ہم ہندوستان میں ٹاپ 30 میں بھی نہیں ہیں کیونکہ ٹیرف بہت زیادہ ہیں – ایک ایسے پوائنٹ پر جہاں انہوں نے حقیقت میں ہم سے کہاہے (میرے خیال میں آپ بھی، اسکاٹ، آپ بھی اس پر کام کر رہے تھے) کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔ کیا آپ کہیں گے کہ یہی فرق ہے؟ وہ سب سے اونچے تھے، اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘لیکن میں نے ٹم سے کہا، ‘ٹم، دیکھو، ہم نے تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ہم نے چین میں تمہارے بنائے ہوئے تمام پلانٹ کو برسوں تک برداشت کیا ہے۔تمہیں یہاں مینوفیکچرنگ کرنا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تم ہندوستان میں مینوفیکچر کرو۔ہندوستان اپنا خیال رکھ سکتا ہے، وہ بہت اچھا کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم یہاں مینوفیکچرنگ کرو۔’

دریں اثنا، ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ہندوستان نے امریکہ کو صفر ٹیرف کے ساتھ تجارتی معاہدے کی پیشکش کی ہے، کامرس سکریٹری سنیل بارتھوال نے کہا، “کسی دوسرے ملک کی حکومت کے سربراہ کی طرف سے کوئی بھی بیان آیا ہے، میرے خیال میں وزیر خارجہ کی سطح پر اس کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے میں اس پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا۔’

خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے مبینہ طور پر کہا ، ‘ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی بات چیت چل رہی ہے۔ یہ پیچیدہ مکالمے ہیں۔ جب تک سب کچھ حتمی نہیں ہو جاتا کچھ نہیں کہا جا سکتا… جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس پر کوئی بھی فیصلہ جلد بازی ہو گا۔’

ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں ہندوستان میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون تیار کرے گا، جبکہ چین کے ساتھ غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، جو اب تک اس کا مینوفیکچرنگ مرکز رہا ہے۔

منی کنٹرول کے مطابق ، کک نے کہا، “ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون کا اصل ملک ہندوستان ہی ہوگا۔’ دریں اثنا، امریکہ جانے والےآئی پیڈ، میک، ایپل واچ اور ایئر پوڈز کی زیادہ تر پیداوار ویتنام ہینڈل کرے گا۔

کک نے کہا کہ جون کے آگےکے بارے میں  کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایپل اگلے چند سالوں میں اپنے تمام آئی فون پروڈکشن کا ایک چوتھائی ہندوستان  منتقل کرنا چاہتا ہے۔