اداریہ: کووڈ بحران سے متعلق حکومت کی تباہ کن ہینڈلنگ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی ضرورت ہے

کووڈ19کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی  کوجنم دیا ہے، ویسی تباہی  ہندوستان  نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ اس بات کے تمام ثبوت ہیں کہ اس کو ٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے […]

کووڈ19کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی  کوجنم دیا ہے، ویسی تباہی  ہندوستان  نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ اس بات کے تمام ثبوت ہیں کہ اس کو ٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے کے لیےمناسب قدم اٹھائے جا سکتے تھے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

ایسے میں جبکہ سارس-سی اووی-2 وائرس کی تباہ کن دوسری لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی، سپریم کورٹ اور متعددہائی کورٹ  ملک  بھر میں صحت عامہ کے بحران اور شدیدبدانتظامیوں  کےمختلف پہلوؤں پر شنوائی کر رہے ہیں۔

جہاں ہائی کورٹ بنیادی طور پر آکسیجن، دوائیوں اور اسپتال میں بستروں کی کمی سے دوچار لوگوں کو فوری راحت دینے سے متعلق  پہلوؤں پرگفت وشنید کر رہے ہیں، وہیں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت حاصل زندگی  کے حق کی توسیعات کے طور پر صحت  عامہ کے حقوق  کے بڑے سوال کو اٹھایا ہے۔

یہ گفت وشنید لائق ستائش ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک باضابطہ عدالتی کمیشن کےقیام  کی بھی ضرورت  ہے، جس میں سپریم کورٹ کےکم از کم تین سبکدوش جج ہوں، اور جو اس بات کی بڑے پیمانے پر جانچ کریں کہ آخرہندوستان  کی کووڈ 19مینجمنٹ اس قدرقابل رحم حالت  میں کیسےآ گئی۔

سرکار اور اس کی قیادت بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لیے گئے یا نہیں لیے گئے غیرحساس  فیصلوں کی وجہ سےاپنی جان گنوانے والے لوگوں کے لیےکم از کم اتنا کرنا تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

کووڈ19 کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی  کو جنم دیا ہے، ویسی تباہی ہندوستان  نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی ہے اور اس بات کے تمام ثبوت سامنے آ رہے ہیں کہ اس کوٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات  کو کم کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے جا سکتے تھے۔

کووڈ کی پہلی لہر کے سامنے ہر جگہ، یہاں تک کہ صاحب ثروت ممالک  کےعوامی  صحت کے نظام بھی ناکافی ثابت ہوئے۔ لیکن دوسری جانب  تیسری لہر کا سامنا کرنے والے کسی بھی ملک نے اس طرح کا انتشار اورموت کے ایسے تانڈو کا سامنا نہیں کیا جیسا ہم آج ہندوستان میں کر رہے ہیں۔

Urdu-Editorial1

نہ ہی سرکاری  سطح  پر سیاسی مفادکے لیے کورونا دھماکہ کی ممکنہ وجہ بننے والے تقریبات  کو ہری جھنڈی دکھانے والی قاتل ذہنیت  کا ہی کہیں ایسا مظاہرہ  کیا گیا۔

آج دنیا میں ہو رہا ہردوسراانفیکشن  ہندوستان  سے رپورٹ کیا جا رہا ہے اور ملک  کے کئی حصوں میں ٹیسٹ پازیٹوٹی کی شرح 30 فیصدی سے زیادہ ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ ٹیسٹنگ کا بنیادی ڈھانچہ خود ہی شدید دباؤ میں ہے اور موت  کے سرکاری اعداوشمار حقیقت  سے کافی دور ہیں۔

دوسری لہر کی شدت کا اندازہ اس معمولی سے اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کروڑ سرکاری  معاملے کا اعدادوشمار چھونے میں ہندوستان  کو 12 مہینے کا وقت لگا، وہیں ایک کروڑ سے دو کروڑ کا اعدادوشمار صرف چار مہینے میں پار ہو گیا۔

سرکار نے اس لہر کا اندازہ کیوں نہیں لگایا اور ضروری قدم کیوں نہیں اٹھائے گئے، اس سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔

ہندوستانی  سارس –کو- وی-2 جین سیکوینسنگ گروپ ، جس پر کہ ملک  میں وائرس کے اقسام  کی پہچان اور اس کی فطرت کا مطالعہ  کرنے کی ذمہ داری  ہے، کے ممبر راکیش مشرا نے حال ہی میں کہا کہ مارچ کی شروعات میں ہی ماہرین  نے ‘حقیقی  خطرے اور ایک خوفناک صورتحال کے خدشات’کو لےکرآگاہ کر دیا تھا۔’

یہ وزیر صحت ہرش وردھن کی جانب سے‘عالمی وباکا کھیل ختم’ہونے کا فاتحانہ انداز میں اعلان کیے جانے سے ٹھیک پہلے کی بات ہے۔

مشرا نے دی  وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ا ن کے مشیروں نے اس بارے میں نہ بتایا ہو۔

اگر یہ سچ ہے تووزیر اعظم کی ذاتی  ذمہ داری اورصحیح معنوں  میں مجرمانہ طور پر لاپرواہی اور بڑھ جاتی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف عقل سلیم  بلکہ ماہرین  کے مشورےکو بھی نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بڑی انتخابی ریلیاں  اور ہری دوار میں کمبھ میلے کا انعقاد ہونے دیا اورعوامی صحت کےنظام  کی تیاری کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اعدادوشماربتاتے ہیں کہ مارچ اور اپریل مہینے میں90 لاکھ لوگوں نے کمبھ میلے میں شرکت کی۔ کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں اس کے رول  پر خصوصی تکنیکی جانچ بٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔

ہری دوار سے لوٹے لوگوں کا مہلک اور جان لیوا اثرشمالی ہندوستان  کے دیہی علاقوں  میں ہر دن محسوس کیا جا رہا ہے۔

مودی نے بیچ لڑائی میں ہی کووڈ 19 پر فتح  کاوقت سے پہلےاعلان  کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرکز کے کووڈ 19 ٹاسک فورس، جس نے پہلے ہی باقاعدگی سے بیٹھکیں کرنا بند کر دی تھیں،اس نے دوسری لہر کا آنا طے ہونے کے باوجودمینجمنٹ کے اہم پہلوؤں سے چشم پوشی اختیارکرلی۔

اکتوبر، 2020 سے لگ بھگ 5 مہینے تک راحت کے طور پر ہندوستان  میں نئے انفیکشن  کے معاملے نسبتاًکم رہے۔ دنیا کے باقی ممالک  نے پہلی اور دوسری لہر کے بیچ کے وقت کا استعمال صحت عامہ کے ڈھانچے کو بہتر بنانے اور اپنی عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے میں کیا۔

مودی سرکار نے ان دونوں ہی مورچے پر نرمی برتی۔ یہ نہ صرف آکسیجن اور دوائیوں جیسی  اہم ضروریات کی خاطرخواہ دستیابی  کو یقینی بنانے میں ناکام رہی، بلکہ اس نے ضروری تعداد میں کووڈ کے ٹیکوں کا پری آرڈر بھی نہیں کیا۔

ہندوستان  کے ‘فارمیسی آف دی  ورلڈ’ہونے کے دعوے کو دیکھتے ہوئے دوسری بھول خاص طور پر افسوسناک ہے۔

انفیکشن  کی موجودہ  لہر کچھ ہی ہفتوں میں اپنے آپ ہی سست پڑ سکتی ہے، مگر سوال ہے کہ کیا ہم پھر سے اپنے پرانے ڈھرے پر لوٹ جا ئیں گے؟

اس بحران  سے مضبوط ہوکر ابھرنے کا ایک طریقہ ماضی  میں کی گئی غلطیوں کو قبول کرنا شروع کرنا ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل  میں ان  غلطیوں کا اعادہ  نہ کیاجائے، آزادانہ سائنسی امداد کے ساتھ ایک باضابطہ  جانچ کمیشن  کا قیام  ضروری ہے۔

یہ خودبینی  کے جذبے کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اس کمیشن کو پچھلے ایک سال کے اہم فیصلے– سرکار کے شروعاتی ردعمل(بنا نوٹس اچانک لاکڈاؤن سمیت)سے لےکر گہری نگہداشت کی توسیع تک کے لیےکیے گئے انتظامات، اس کی ٹیکہ کاری پالیسی، ڈیٹا مرتب کرنا، پی ایم کیئرکے ذریعے فنڈ اکٹھا کرنا،صوبوں  کو طبی وسائل  کا مختص، میڈیا اور یہاں تک کہ مریضوں  کی آوازوں کو دبانے کی کوششیں، سرکاری اور وزارتی اعلانات کی نوعیت  اور ان کا جواز تک – جس طرح سے لیے گئے، اس کی پڑتال کرنی چاہیے۔

ایسے کمیشن کے پاس سبھی متعلقہ حکام  کو بلانے یا دستاویزوں کو منگانے کا حق ہونا چاہیے ساتھ ہی ان مشوروں اور اطلاعات کو بھی دیکھنے کا اختیار ہونا چاہیے جو فیصلہ لینے کے ہر مرحلے پرحکام  کے ذریعے مانگے گئے یا انہیں سرکاری یا غیرسرکاری  ماہرین  کے ذریعے حاصل ہوئے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جانچ کمیشن کو اپنی کارر وائی وقت ضائع کیےبغیراور کھلے میں کرنی چاہیے۔ بند لفافے یا کیمرے کے سامنے شنوائی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ماضی  میں اٹھائے گئے اقدامات کی جواب دہی طےکرنے کی جگہ لوگوں کی زندگیوں کو بچانا ہماری ترجیح  ہونی چاہیے۔

حالانکہ صرف ماضی میں اٹھائے گئے قدم ہی نہیں، بلکہ موجودہ  فیصلے بھی مسائل  کو بڑھا رہے ہیں، مگر پھر بھی یہ مجوزہ  کمیشن تھوڑے وقت کے بعد بھی اپنا کام شروع کر سکتی ہے۔ لیکن فیصلہ لینے والے اور انہیں لاگو کرنے والے ہر فرد کو ابھی سے اس سچائی سے واقف کرا دینا چاہیے کہ ان کے تمام کاموں  کا جائزہ لیاجائے گا۔

وزیر اعظم  ایک شفاف جانچ میں دخل اندازی کرسکتے ہیں، لیکن جس طرح سے انہوں نے اس ملک  کو گھٹنے پر لا دیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کوئی اور متبادل  نہیں ہے۔

آخری سچائی یہی ہے کہ ایک آدمی کے عہدے اور وقارکو ہونے والے نقصان کے مقابلے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں زیادہ قیمتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)

Next Article

ہندوستان: قومی سلامتی کے پاسبان

حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: سنسد ڈاٹ ان

فوٹو بہ شکریہ: سنسد ڈاٹ ان

پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور پھر اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی فوجی معرکہ آرائی، جو تقریباً باضابطہ جنگ کے قریب آن پہنچی تھی کے بعد پانچ گروپوں میں ہندوستانی پارلیامنٹ کے 59 اراکین دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی بیانیہ کا توڑ کرنے کی مہم پر نکل پڑے ہیں۔

ملک میں گو کہ آج کل مسلمانو ں کا قافیہ تنگ ہے، مگر بھلا ہو پاکستان کے ساتھ تصادم کا، اس قافلہ میں 11 مسلمانوں کو شامل کردیا گیا ہے، یعنی 18.64فیصد۔ کاش دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان کا یہی تناسب ہوتا۔

 خیر ہندوستان میں نرسمہا راؤ سے لےکر منموہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے ادوار، جو میں نے بطور صحافی کور کیے ہیں، بتایا جاتا تھا کہ علیٰ الصبح خفیہ ایجنسیوں داخلی ایجنسی انٹلی جنس بیورو اور بیرون ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسیز ونگ یعنی راء کے سربراہان یا ان کے نمائندے وزیر اعظم کو باالترتیب آدھے گھنٹے کی بریفنگ دیتے ہیں۔

وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ناشتہ کرنے سے قبل وزیر اعظم ہاؤس کے سر سبز لان میں چہل قدمی کرتے تھے اور اسی دوران ہی بریفنگ لیتے تھے۔ وزیر اعظم کو اس دن  ہونے والے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں جانکاری دی جاتی تھی۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اس روز جن افراد سے ملنا ہوتا تھا، وہ کو ن سے ایشو اٹھانے والے ہیں وہ بھی ان کو قبل از وقت بتایا جاتا تھا۔ تاکہ وہ پوری طرح تیار رہیں۔ اس پوری انفارمیشن کے بعد ہی وزیر اعظم اپنا دن شروع کرکے پھر اپنے عملہ کی میٹنگ لےکر احکامات دیتے تھے۔ اگر وہ بیرون ملک دورہ پر ہوں، تب بھی ان ایجنسیوں کے نمائند ے جو ان کے ہمراہ ہوتے ہیں، ان کو اسی طرح صبح بریف کرتے ہیں۔

 مگر2014کے بعد سے جب وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار آئے، تو یہ سارا  انتظام ہی گڑ بڑ ہوگیا ہے۔ سیکورٹی کے معاملوں پر اب وہ صرف قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خارجہ جئے شنکر سے ہی براہ راست بریفنگ لیتے ہیں۔ یہ تکڑی ہی اس وقت ہندوستان کی قومی سلامتی کی ضامن ہے۔

اب یہ افراد قومی سلامتی کو کس نظریہ سے دیکھتی ہے، اس کا تجزیہ اور خلاصہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک وقت ہم نیوز رومز میں تفریح کے طور پر امت شاہ(،جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردیے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کرےگا۔

اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے جہاں کیریئر ڈپلومیٹ سبرامنیم جئے شنکر کو وزیر خارجہ مقرر کیا، وہیں وزارت داخلہ کا اہم قلمدان اپنے دست راست امت شاہ کے سپرد کرکے پیغام دیا کہ وہی حکومت میں نمبر دو ہیں۔

گو کہ سرکاری طور پر ابھی بھی راج ناتھ سنگھ ہی کابینہ کے اجلاسوں میں وزیر اعظم کے دائیں طرف بیٹھتے ہیں، جو نمبر دو پوزیشن کے لیے وقف ہوتی ہے، مگر اہم معاملوں ہی ان سے خال خال ہی مشورہ کیا جاتا ہے۔

جب وہ مودی کی پہلی حکومت میں وزیر داخلہ تھے، تو جموں و کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت سے بی جے پی کے ہاتھ کھینچنے کی جانکاری ان کو  ٹی وی سے ہی معلوم ہوئی، جب بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں رام مادھو نے  پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس سے بس چند گھنٹہ قبل ہی اپنی رہائش گاہ پر دہلی میں کشمیر بیٹ کور کرنے والے صحافیوں پر زور دے رہے تھے کہ کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مودی اور امت شاہ کی جوڑی کا رشتہ 35سال پرانا ہے۔ 2001میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا۔

ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاونٹروں کے لیے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر بی کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا ۔اس کے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔

سال 2013میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔

سال 2014کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔

اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔شیو سینا کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے راوت نے حال ہی میں مراٹھی زبان میں شائع اپنی کتاب ‘نرکتلہ سوارگ’ میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق مرکزی وزیر اورنیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار اور شیوسینا کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے نے مودی اور امیت شاہ کو قانونی چنگل سے بچایا تھا۔

  راوت لکھتے ہیں، جب 2004 میں نئی دہلی میں کانگریس کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہو گئی تھی، تو طے کیا گیا تھا کہ گجرات کے 2002کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں مودی پر قانونی شکنجہ کسا جائے۔ مگر شرد پوار جو اہم مرکزی وزیر تھے، نے وزیراعظم منموہن سنگھ کو بتایا کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو جیل میں ڈالنا درست نہیں ہوگا۔

ویسے میری اطلاع کے مطابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کے مشیر احمد پٹیل، جو خود بھی گجرات سے تعلق رکھتے تھے، نے بھی مودی کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان سے سیاسی طور پر ہی نپٹنا چاہیے۔

راوت کے مطابق مرکزی تفتیشی ایجنسیاں شاہ کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں۔ ان کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اوروہ ضمانت پر تھے۔ عدالت نے گجرات میں ان کے رہنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ یعنی ان کا تڑی پار کر دیا گیا تھا۔

تفتیشی ایجنسیاں ان کی ضمانت کی مخالفت کر رہی تھی اور ان میں ایک افسر مہاراشٹر کا تھا۔ امت شاہ اپنے بیٹے جئے شاہ، جو اس وقت کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں کی انگلی پکڑ کر ٹھاکرے کی رہائش گاہ ماتو شری پہنچے، مگر ان کو ملاقات نہیں دی گئی۔

انہوں نے ماتو شری کے باہر شیو سینا کے کارکنان کو بتایا کہ وہ گجرات اسمبلی کے رکن ہیں  اور ان کا ٹھاکرے سے ملنا ضروری ہے۔ خیر کئی روز کی تگ و دو کے بعدجب وہ ٹھاکرے کے روبرو اپنا دکھڑا سنا کر اپنےہندو ہونے اور ہندوؤں کا ساتھ دینے کی دہائی دے رہے تھے، تو شیو سینا کے سربراہ نے سابق وزیرا علیٰ منوہر جوشی کے فون سے کسی سے بات کرکے ان کی مشکل آسان کردی۔

بقول راوت ٹھاکرے نے اس شخص کو بتایا؛”کہ آپ کسی بھی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن یہ مت بھولنا کہ آپ ہندو ہیں۔“اس ایک کال سے ان کے کیسز کی رفتار سست ہوتی گئی۔ مگر راوت کا کہنا ہے کہ شاہ نے اس کا بدلہ اس طرح چکایا کہ بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے ان کی وفات کے بعد دو ٹکڑے کروادیے۔

اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے اپنا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا بنایا ہے۔

ان کے ایک فرزند اسلام آباد میں ہی پیدا ہوگئے اور کئی برس تک ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔

ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے  اپنی کتاب اے فیسٹ آف ولچرمیں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔

یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کو کراچی میں انجام دینا تھا۔

اس تکون کے تیسرے اہم فرد  وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر ہیں۔ وہ ہندوستان  کے اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977میں خارجہ آفس جوائن کیا۔

معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق ان کی کابینہ میں شمولیت سے ہندوستان کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جئے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میں شناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں بلاواسطہ طور پر خاصی مدد کی۔

منموہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہری معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ اس کے عوض سنگھ نے ان کو 2013 میں سکریٹری خارجہ بنانے کا من بنا لیا تھا۔ آف ریکارڈ بتایا گیا تھا کہ اگلے سکریٹری خارجہ جئے شنکر ہوں گے، شاید ان کی تقرری آخری مراحل میں تھی، کہ کانگریسی حکومت کے کئی وزراء جن میں کپل سبل اورآنند شرما شامل تھے، نے شور مچایا کہ ایک امریکہ نواز افسر کو اس اہم ذمہ داری دینے کا ہندوستان کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔

سونیا گاندھی کی مداخلت کی وجہ سے ان کی تقرری رک گئی اور ان کی جگہ سجاتا سنگھ کو خارجہ سکریٹری بنایا گیاا ور ان کو امریکہ میں بطور سفیر تعینات کیا گیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابھی تک گاندھی خاندان کو معاف نہیں کیا ہے۔

امریکہ میں سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی ہندوستانی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دور میں ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی  افواج کو خطے میں لاجسٹکس فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کورڈز کا تبادلہ شامل ہیں۔

کرناڈ کے مطابق ان معاہدوں کے ڈرافٹ ہندوستانی خارجہ آفس کے بجائے واشنگٹن سے ہی تیار ہو کر آئے تھے۔ شاید جئے شنکر کے امریکی دوست ان کا بوجھ کم کرنا چاہتے تھے۔2015 میں امریکی صدر اوبامہ کے دورے کے فوراً بعد ہی مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جئے شنکر کو خارجہ سکریٹری بنایا، جب ا ن کی ریٹائرمنٹ کا شاید ایک ہی دن بچا تھا۔

وکی پیڈیا کے مطابق دوران ملازمت وہ انتہائی حساس معلومات امریکہ کے ساتھ شئیر کرتے تھے۔ ایک بار امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہندوستانی موقف کی جانکاری خارجہ سکریٹری شیام سرن کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔

وکی پیڈیا کے مطابق یہ جانکاری جئے شنکر کے فراہم کی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں ہندوستان کے سفیر جئے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کے لیے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ بیجنگ میں ہندوستانی حکومت کے بجائے امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔

ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر ہندوستان، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دےگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جئے شنکر نے ایک  نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو ہندوستانی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔

دراصل ہندوستان میں اس وقت زمام کار ایڈونچر پسند افراد کے پاس ہے جو مقصد اور نتائج کی پروا کئے بغیر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔

سیاسی قیادت ایسے افراد سے صلاح و مشورہ کرسکتی ہے، ان سے اطلاعات لے سکتی ہے، مگر حتمی فیصلہ اپنی معاملہ فہمی، سوجھ بوجھ اور اس کے وسیع تر مضمرات کو نظر میں رکھ کر ہی کرنے کی ضرورت ہے۔

Next Article

کووڈ-19معاملوں میں معمولی اضافہ، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں: ماہرین

ہانگ کانگ اور سنگاپور میں کووڈ-19 کے معاملات میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے،لیکن جے این.1ویرینٹ کی وجہ سے شدید بیماری کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت نے بھی کہا ہے کہ ملک میں حالات معمول پر ہیں، زیادہ تر معاملے ہلکے ہیں اور ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑ رہی  ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہانگ کانگ اور سنگاپور میں حالیہ دنوں میں کووڈ 19 کے معاملوں میں معمولی اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، لیکن ہندوستانی حکومت نے واضح کیا ہے کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہانگ کانگ حکومت کی آفیشیل اپڈیٹ کے مطابق، سال کے 19ویں ہفتے (4-10 مئی) میں کووڈ-19 کے 1042 جبکہ چھلے ہفتے یہ معاملے972 تھے۔

معاملوں کی تعداد کے علاوہ، کووڈ-19 کی صورتحال کو سمجھنے کا ایک اور طریقہ ہے ‘سیویج سرولانس’۔ یہ فی کس وائرل لوڈ کی عکاسی کرتا ہے، اور اس لیے اسے درج کیے گئے معاملوں کے مقابلےزیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ کئی ایسے معاملے ہیں جو سامنے نہیں آ پاتے۔

ہانگ کانگ کی حکومت کے مطابق، 19ویں ہفتے میں’سیویج سرولانس’ کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، سارس سی او وی-2 (جو وائرس کووڈ-19 کا سبب بنتا ہے) کی سات دن کی اوسط مقدارتقریباً 710000 فی لیٹر تھی۔ پچھلے ہفتے یہ 690000 روپے فی لیٹر تھی۔

سنگاپور میں کووڈ 19 کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن اس اضافے کو تشویشناک نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ سنگاپور حکومت کے بیان کے مطابق، 27 اپریل سے 3 مئی 2025 کے درمیان کووڈ 19 کے معاملے کی تعداد بڑھ کر 14200 ہوگئی جبکہ پچھلے ہفتے یہ تعداد 11100 تھی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اسپتال میں داخل مریضوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے – 102 سے 133 تک – لیکن آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد کم ہوئی۔ پہلے روزانہ اوسطاً تین مریض آئی سی یو میں داخل ہوتے تھے، اب دو ہو ر ہے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسز کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا ہے، لیکن بیماری کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔

نہ ہی سنگاپور اور نہ ہی ہانگ کانگ نے یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے اسپتال بھرے ہوئے ہیں، جیسا کہ 2021 میں ڈیلٹا لہر کے دوران ہوا تھا۔

اہم ویرینٹ اور معاملوں  میں اضافے کی وجوہات

اس وقت دونوں ممالک (سنگاپور اور ہانگ کانگ) میں پایا جانے والااہم کووڈ-19 ویرینٹ جے این.1 ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، فی الحال تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے، ‘دستیاب معلومات کی بنیاد پر جے این.1سے صحت کا خطرہ اس وقت عالمی سطح پر کم سمجھا جاتا ہے۔’

یہ ویرینٹ عالمی ادارہ صحت کے تمام خطوں میں پایا گیا ہے—جیسے مغربی پیسفک علاقہ، جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ، یورپی علاقہ اور امریکہ۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس ویرینٹ کو پہلے کے ویرینٹ کے مقابلے برتری حاصل ہے، یعنی یہ اپنی دوسری شکلوں کے مقابلے میں قدرے تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم، اس کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

تاہم، وائرس کو ختم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت (نیوٹرلائزیشن کی صلاحیت) کے لحاظ سے جے این.1 اور اس سے پہلے کے ویرینٹ میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ یعنی، مدافعتی نظام جے این.1کے ساتھ اسی طرح نمٹ سکتا ہے جیسا کہ اس نے پہلے کے ویرینٹ کے ساتھ کیا تھا۔

کسی بھی ویرینٹ سے ہونے والی بیماری کی شدت سب سے اہم اشارہ  ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، جے این.1 کی وجہ سے ہونے والی سنگین بیماری کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ اگر بیماری کی شدت بڑھ جاتی ہے، تو یہ ہسپتال میں داخل ہونے، آئی سی یو میں داخلے اور بعض صورتوں میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ بوجھ کا باعث بن سکتی ہے۔

معاملوں میں شدت  اب کوئی حیران کن بات نہیں ہے

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کووڈ-19 کے معاملات میں چھوٹے اضافے اب حیران کن نہیں ہیں۔ کووڈ-19 وائرس اب اینڈمک ہو چکا ہے، یعنی اب یہ صحت عامہ کی ایمرجنسی نہیں ہے۔

ایک خاص مدت کے بعد، تمام وائرس اینڈمک بن جاتے ہیں اور آبادی میں کسی نہ کسی شکل میں بیماری پھیلاتے رہتے ہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وائرس کی وجہ سے بیماری کی شدت بڑھ جائے یا کیسز کی تعداد اچانک اور بغیر کسی واضح وجہ کے بڑھ جائے یعنی عام توقعات کے برعکس۔

کووڈ-19 بھی وائرس کے حوالے سے اس سائنسی سمجھ سے مختلف نہیں ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کووڈ-19 وائرس کی نوعیت مسلسل بدلتی رہتی ہے، جو شروع سے دیکھی جا رہی ہے۔ لہٰذا، کسی بھی وقت اس طرح کی ایک قسم ابھر سکتی ہے جو معاملات میں معمولی اضافے (پیک) کا سبب بن سکتی ہے۔

ہندوستانی حکومت کیا کہتی ہے؟

مرکزی وزارت صحت نے 19 مئی کو کہا، ’19 مئی 2025 تک، ہندوستان میں فعال کووڈ-19 کیسوں کی تعداد 257 ہے، جو کہ ملک کی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے بہت کم ہے۔’

‘تقریباً یہ تمام معاملات بغیر جوکھم والے ہیں، اس لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔’ وزارت نے کہا۔

ہندوستان میں کووڈ 19 کے مقامی اینڈمک ہونے کے بعد، جانچ میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی ٹیسٹنگ میں کمی آئی ہے – یہ بات  عالمی ادارہ صحت ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہے۔ لہذا، سرکاری اعداد و شمار معاملوں کی تعداد کے لحاظ سے حقیقی تصویر نہیں دکھا سکتے ہیں۔

سرولانس، جووائرس کے پھیلاؤ کی موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتی  ہے، ہندوستان میں صرف چند اداروں کے ذریعے ہی کچھ جگہوں پر کی جا رہی ہے۔ سرکاری  بیان میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہندوستان میں فی الحال کون سا ویرینٹ سب سے زیادہ پایا جا رہا ہے۔

تاہم، حکومت کا موقف واضح کرتا ہے کہ چونکہ زیادہ تر رپورٹ شدہ کیسز میں ہلکی علامات ہوتی ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ٹرین ٹکٹ پر آپریشن سیندور کا اشتہار، اپوزیشن نے کہا – جنگ کو موقع کے طور پر استعمال کر رہی ہے حکومت

انڈین  ریلوے کے ٹکٹوں پر ‘آپریشن سیندور’ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کو لے کر سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی فائدے کے لیے فوجی کارروائیوں کو موقع کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سوشل میڈیا پر آئی آر سی ٹی سی ای ٹکٹ پر 'آپریشن سیندور' کا اشتہار/پیغام شیئر کیا گیا۔ (تصویر: Reddit/peakky_devil)

سوشل میڈیا پر آئی آر سی ٹی سی ای ٹکٹ پر ‘آپریشن سیندور’ کا اشتہار/پیغام شیئر کیا گیا۔ (تصویر: Reddit/peakky_devil)

نئی دہلی: انڈین  ریلوے کے ٹکٹوں پر ‘آپریشن سیندور’ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر پر سیاسی تنازعہ چھڑ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کم از کم سرکاری اشتہارات کے لیےایک ‘نیو نارمل’ بن گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت نے آپریشن سیندور کو مشتہر کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔

اس نئے پروپیگنڈے سے غیر مطمئن حزب اختلاف کی جماعتوں نے اسے انتخابی فائدے کے لیے فوجی آپریشن کی کھلم کھلا سیاست کرنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ کئی سوشل میڈیا صارفین نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہے ایک مبینہ اشتہارمیں نریندر مودی کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے – ‘آپریشن سیندور نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نئی لکیر کھینچ دی ہے، ایک نیاپیمانہ، نیو نارمل طےکر دیا ہے’۔

اپوزیشن اس مخصوص قسم کی حب الوطنی کو قبول نہیں کر رہی۔ اے آئی سی سی کے رکن اور کانگریس کے لوک سبھا وہپ مانیکم ٹیگور نے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر طنز کیا،’ہیش ٹیگ آپریشن سیندور اب شیمپو کی طرح فروخت کیا جا رہا ہے – ریلوے ٹکٹ پر پرنٹ کیا جارہا ہے، ایک پروڈکٹ کی طرح اشتہار دیا جارہاہے۔’

انہوں نے مزید پوچھا، ‘جبکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 4 بار ثالثی کی اور ہیش ٹیگ جنگ بندی کی، مودی نے ایک بار بھی اس کی تردید نہیں کی ہے۔ کوئی انکار نہیں، صرف مارکیٹنگ۔’

بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیامنٹ کنور دانش علی نے وزیر اعظم پر’جنگ اور شہادت کو ایک موقع’ کے طور پر دیکھنے کا الزام لگایا اور فوجیوں کی نسبت مودی کی امیج کی تشہیر کو’تکبر کی انتہا’قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ‘وزیراعظم نریندر مودی بھی جنگ اور شہادت کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بے گناہوں کا خون بہایا گیا، فوجیوں نے جان کی پرواہ کیے بغیر پاکستان کو منہ توڑ جواب دیا اور انہوں نے ایک نیا پوسٹر لانچ کر دیا۔ شہید ہونے والوں کا نہ کوئی نام ہے نہ چہرہ، صرف اپنے لیےتصویر اور تشہیر نرگسیت کی حد ہوتی  ہے؟’

‘فوج کی بہادری کو مصنوعات کی طرح بیچنے کا الزام’

سینئر کانگریس لیڈر کمل ناتھ کے مشیر پیوش ببلے،جنہوں نےاس  ٹکٹ کو پوسٹ کیا تھا، نے حکومت پر ‘اشتہارات کی نرگسیت میں ڈوبے’ ہونے اورخاص طور پر بہار میں رائے دہندگان کو راغب کرنے کے لیے ‘فوج کی بہادری کو ایک پروڈکٹ کی طرح فروخت کرنے’ الزام لگایا۔

ببلے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ، ‘یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ مودی حکومت کس طرح اشتہارات کے جنون میں مبتلا (وگیاپن جیوی)ہے۔ ریلوے ٹکٹ پر  ‘آپریشن سیندور’ کو مودی کے اشتہار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ فوج کی بہادری کو بھی پراڈکٹ کی طرح بیچ رہے ہیں۔ ان سے صرف سودے بازی ہو سکتی ہے، حب الوطنی نہیں۔’

انڈین ریلوے نے بھی اس پر ردعمل ظاہر کیا۔ افسر دلیپ کمار نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ آپریشن سیندور کی کامیابی پر ریلوے کو مسلح افواج پر فخر ہے۔ انہوں نے اشتہارات کو خراج تحسین اور پیغام پھیلانے کی ملک گیر مہم کا حصہ قرار دیا۔

دریں اثنا، آئی آر سی ٹی سی کے پی آر او وی کے بھٹی نے روزنامہ بھاسکر کو بتایا کہ ٹکٹوں پر چھپا ہوا پیغام کوئی اشتہار نہیں ہے بلکہ ایک پیغام ہے جسے عوام میں شیئر کیا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ تازہ ترین مہم بی جے پی کی حال ہی میں شروع کی گئی ‘ترنگا یاترا’ کے بعد سامنے آئی ہے، جو قومی سلامتی کی کامیابیوں کو ظاہر کرنے والی ایک اور عظیم یاترا ہے، خاص طور پر بہار جیسی ریاستوں میں جہاں آنے والے دنوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

Next Article

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ ’ہارٹ لیمپ‘ کو انٹرنیشنل بکر پرائز

کنڑادیبہ بانو مشتاق کی کہانیوں کے مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیاہے۔ 12 کہانیوں کے اس مجموعہ کا کنڑ سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔

لندن میں منعقدتقریب میں میکس پورٹر، جیوری چیئر، بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کی فاتحین بانو مشتاق اور دیپا بھاستی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ڈیوڈ پیری، بکر پرائز فاؤنڈیشن)

لندن میں منعقدتقریب میں میکس پورٹر، جیوری چیئر، بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کی فاتحین بانو مشتاق اور دیپا بھاستی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ڈیوڈ پیری، بکر پرائز فاؤنڈیشن)

نئی دہلی: کنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا ہے ۔ 12 کہانیوں کے اس مجموعہ کا کنڑ سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔

بانو مشتاق ادیبہ ہونے کے علاوہ خواتین کے حقوق کی علمبردار اور وکیل ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے عام خواتین،  بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل کو سامنے لاتی ہیں۔

بکر پرائز کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا،’ان خواتین کی تکلیف،اذیت  اور بے بس زندگی مجھ پر گہرا جذباتی اثر ڈالتی ہے۔ میں کسی بڑی تحقیق میں نہیں پڑتی- میرا دل  ہی میرےمطالعہ کا شعبہ ہے۔’

یہ کتاب بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی کنڑ زبان سے ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ، یہ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔

کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دان چنتامنی اتیمبے ایوارڈزکی فاتح بانو مشتاق کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا، یہ پہلا موقع تھا جب دیپا بھاستی نے ہارٹ لیمپ کے ذریعے اس کا آغاز کیا۔

دیپا بھاستی کرناٹک کے کوڈاگو ضلع کی رہنے والی ادیبہ اور مترجم ہیں۔ ان کے مطبوعہ  تراجم میں کوٹا شیورام کارنتھ کا ایک ناول اور کوڈگینا گوری اماں کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ شامل ہے۔

بھاستی نے بکر ویب سائٹ کو بتایا،’بانو کی کہانیوں کے ساتھ میں نے پہلے ان کے تمام مطبوعہ افسانے پڑھے اور پھر ہارٹ لیمپ میں شامل کیےجانے والے افسانوں کا انتخاب کیا ۔مجھے یہ آزادی ملی کہ میں جن کہانیوں پر کام کرنا چاہوں کر سکتی ہوں۔’

بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کے ججوں میں اینٹون ہر، بیتھ آرٹن، کیلیب فیمی، میکس پورٹر اور ثنا گوئل شامل تھے۔

ان کے مطابق، ‘یہ کہانیاں اقتدار کے سامنے سچ بولتی ہیں اور ہمعصر معاشرے میں ذات، طبقے اور مذہب کی گہری تقسیم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بدعنوانی، ظلم، ناانصافی اور تشدد کی شکل میں اندر چھپی غلاظت کو باہر لاتی ہیں۔ پھر بھی، ہارٹ لیمپ کی روح ہمیں کہانی سنانے کی ٹھوس روایات، ناقابل فراموش کرداروں، جاندار مکالمے، سطح کے نیچے پیدا ہونے والے تناؤ اور ہر موڑ پر حیران کن پہلوؤں کے توسط سےپڑھنے کی حقیقی لذت سے ہمکنار کرتی ہے۔’

واضح ہو کہ بکر پرائز ان ناولوں کو دیا جاتا ہے جو اصل میں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، جبکہ بین الاقوامی بکر پرائز فکشن کی ان کتابوں کو دیا جاتا ہے جن کا انگریزی میں دوسری زبان سے ترجمہ کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی یہ کتاب ہندوستانی زبان میں دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے گیتانجلی شری کی کتاب ’ریت سمادھی‘ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا، جس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیزی راک ویل نے  ’ ٹومب آف سینڈ‘ کے نام سے کیا تھا۔

Next Article

اشوکا کے پروفیسر کو عبوری ضمانت، پہلگام اور آپریشن سیندور پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ان کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دے دی ۔ عدالت نے ان کےسوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، ‘عدالت نے محمود آباد کو آپریشن سیندور اور ہندوپاک فوجی تنازعہ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے محمود آباد سے  اپنا پاسپورٹ جمع کرانے کو بھی کہا ہے۔

اس معاملے پر ایک غیرمعمولی نوٹ میں عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر طلبہ اور پروفیسر،جو ظاہری طور پراشوکا یونیورسٹی کے ہیں’کچھ بھی کرنے کی ہمت کرتے ہیں، تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، اگر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش وغیرہ کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ان  سے کیسے نمٹا جائے، یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں۔’

ایس آئی ٹی جنگ مخالف پوسٹ کی تحقیقات کرے گی

محمود آباد کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بارے میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ کی بنچ نے کہا کہ اسے پڑھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے خلاف جاری تحقیقات پر روک کا کوئی معاملہ نہیں بنتاہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کی پیچیدگی کو سمجھنے اور پوسٹ میں استعمال کی جانے والی زبان کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے، وہ ہریانہ کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو انڈین پولیس سروس کے تین افسران پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دے رہی ہے جن کا تعلق ہریانہ یا دہلی سے نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس ایس آئی ٹی کی سربراہی انسپکٹر جنرل آف پولیس کریں گے اور اس کی ایک رکن خاتون افسر ہوں گی۔

سماعت کے دوران جسٹس کانت نے محمود آباد کے ‘فرض’ پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے وغیرہ… فرض کہاں ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک پچھلے 75 سالوں سے صرف حقوق کی تقسیم کر رہا ہے اور کوئی فرض نہیں ہے۔’

اس دوران جسٹس سوریہ  کانت خان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل کو یہ سمجھانا چاہتے تھےکہ ‘اسے ڈاگ وہسل’ یعنی کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے چھپے ہوئے پیغامات والی زبان کہا جاتا ہے۔

جسٹس کانت کا یہ بھی ماننا تھا کہ ‘اظہار رائے کی آزادی کے حامل معاشرے کے لیے یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ دوسرے فریق کی توہین کرنے اور اسے تکلیف دینے کے لیے جان بوجھ کر الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔’

اس سے قطع نظر کہ خان کے الفاظ اس طرح کے جرم کا سبب کیسے بن سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس’ لغت میں استعمال کرنے کے لیے الفاظ کی کمی نہیں ہونی چاہیے’ اور ‘وہ ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے’۔

تاہم،یہ واضح نہیں ہے کہ جسٹس کانت کو کون سی زبان ناگوار لگی۔

سبل نے کہا کہ خان کے الفاظ میں کوئی مجرمانہ ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ان کی بیوی 9 ماہ کی حاملہ ہے، لیکن وہ جیل میں ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی طرف سے دوسری ایف آئی آر بھی چونکا دینے والی ہے۔

اس معاملے کے بارے میں وکیل اندرا جئے سنگھ نے ایکس پر بتایا کہ خان اور ان کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن وہ جیل میں بیٹھے ہیں۔ وہیں، کرنل صوفیہ قریشی کو ‘دہشت گرد کی بہن’ کہہ کر گالی دینے والے بی جے پی کے وزیر کو سپریم کورٹ نےگرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔’

اشوکا یونیورسٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا

اس سلسلے میں اشوکا یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا ہے۔

یونیورسٹی نے کہا، ‘معزز سپریم کورٹ کی طرف سے پروفیسر علی خان محمود آباد کو عبوری ضمانت دینا ان کے خاندان اور اشوکا یونیورسٹی میں ہم سب کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ ہم عدالت کے مشکور ہیں۔’

پولیس محمود آباد سے اس کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک دشمن سرگرمیوں’ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے ریمانڈ میں توسیع کرنا چاہتی تھی۔

اس سے قبل، اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے ہریانہ پولیس نے 18 مئی اور 20 مئی کو ان کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک مخالف’ سرگرمیوں کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں ‘فنڈنگ’ آنے کا معاملہ اٹھایا تھا ۔

دی وائر نے محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر سے متعلق عدالتی دستاویزات دیکھے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ان کے بین الاقوامی دوروں اور سوشل میڈیا پربات چیت کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان کی حراست میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ پولیس نے کہا تھا کہ اگرچہ ان کے پاس محمود آباد کے بینک اکاؤنٹ نمبر موجود ہیں، لیکن انہیں اکاؤنٹ کی  تفصیلات اور اس کا پاسپورٹ نہیں ملا ہے جس سے ان کے غیر ملکی سفر کا پتہ چل سکے۔

اس سلسلے میں 20 مئی کو سونی پت کے فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے محمود آباد کے لیے سات دن کے پولیس ریمانڈ کی مانگ کرنے والی پولیس کی درخواست کو مسترد کر دیا اور سیاسیات کے پروفیسر محمود آباد کو 27 مئی تک عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔

اس سے قبل 18 مئی کو عدالت نے پولیس کو اسے اپنی تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کے لیے دو دن کا وقت دیا تھا۔ 20 مئی کو پولیس نے عدالت کو بتایا تھاکہ دو روزہ ریمانڈ کے دوران انہوں نے محمود آباد کا لیپ ٹاپ، آدھار کارڈ اور پاس بک کی کاپیاں ضبط کر لی ہیں۔ ان کاکا موبائل فون اور لیپ ٹاپ فرانزک سائنس لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ محمود آباد نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 14 ممالک کا سفر کیا ہے، اس لیے انہیں ان  کے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ حاصل کرنا ہوگا۔

پولیس نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر محمود آباد کی بات چیت  کا ریکارڈ بھی ابھی تک برآمد یا حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت میں دلیل دی کہ ان کے بینک کھاتوں سے متعلق تمام تفصیلات پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ سے متعلق معلومات بھی پولیس کو فراہم کر دی گئی ہیں تاکہ ان کے سفر کے بارے میں حقائق معلوم کیے جا سکیں۔

محمود آباد نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنا پاسپورٹ 21 مئی کی شام 5 بجے تک اپنے وکیل کے ذریعے کیس کے تفتیشی افسر کو جمع کرائیں گے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے محمود آباد نے شام کی دمشق یونیورسٹی میں عربی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے لبنان، مصر، ایران، عراق اور یمن کا بھی سفر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایمہرسٹ کالج، امریکہ سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

ان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ محمود آباد کیمبرج یونیورسٹی کے اسکالر تھے اور دوسرے ممالک میں ان کے کئی  دوست ہیں۔ اس لیے یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ان  کا ‘کسی ملک دشمن عناصر سے کوئی تعلق ہے۔’

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ان کی اہلیہ کی بینک تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے کہا کہ چونکہ تفتیشی ایجنسی کو ابھی تک مطلوبہ تفصیلات موصول نہیں ہوئیں اور یہ حقیقت بھی کہ پولیس بی این ایس کی دفعہ 187 (2) کے مطابق تفتیش کے پہلے 60 دنوں میں حراست طلب کر سکتی ہے، اس لیے تفتیشی افسر کو تمام تفصیلات موصول ہونے کے بعد ہی تحویل کے لیے نئی درخواست دینے کا موقع ملے گا۔

گزشتہ 18 مئی کو ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹرز نے پولیس کی تحویل کی درخواست کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ محمود آباد کے’ملک مخالف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور اس مقصد کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں جمع کی گئی رقم’ کے حوالے سے کیس کی مزید تفتیش ضروری ہے۔

پولیس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہیں محمود آباد کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع میں واقع ان کے آبائی گاؤں لے جانے کے لیے وقت درکار ہے تاکہ مبینہ جرم کے پیچھے مبینہ ‘گہری سازش’ کے بارے میں بتایا جا سکے اور سامان برآمد کیا جا سکے۔

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔