انٹرویو: فوج میں کھانے کو لےکر شکایت کرنے کے بعد سرخیوں میں آئے بی ایس ایف کے برخاست جوان تیج بہادر یادو نے گزشتہ دنوں وارانسی سیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف لوک سبھا انتخاب لڑنے کا اعلان کیاہے۔ انتخابی تشہیر کے لئے وارانسی پہنچے تیج بہادر یادو سے بات چیت۔
وارانسی سے وزیر اعظم مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کا خیال کیسے آیا اور کیوں؟
نہیں، ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں، نہ مودی جیکے، نہ بی جے پی کے۔ ہماری لڑائی اس ملک کے اس سڑےگلے سسٹم سے ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے ہی مودی نے فوج پر سیاست شروع کر دی تھی۔ہمارے ملک میں ایک جذبہ ہے کہ فوج کو بڑی عزت دی جاتی ہے۔ مودی نے فوج کے نام پر ڈائیورٹ کیا۔ ہیم راج مقدمہ کو لےکر انہوں نے خوب سیاست کی۔ پورے ملک کو لگا کہ یہ حکومت (مودی حکومت)فوج کو بہت طاقتور بنائےگی، لیکن ہوا اس کا الٹا۔جب یہ اقتدار میں آ گئے اس کے بعد سب سے زیادہ جوان شہید ہوئے ہیں۔ جتنے جوان پچھلے دس سال میں شہید نہیں ہوئے اتنے پچھلے ایک سال میں شہید ہوئے ہیں۔مودی حکومت میں سب سے بڑی چیز جو میڈیا بھی نہیں دکھاتی ہے وہ یہ کہ صرف پیراملٹری میں پچھلے ایک سال میں 997 جوانوں نے خودکشی کی ہے۔ اس کے ذمہ دار مودی ہیں۔
مودی جی نے کچھ ایسا قانون بنا دیا ہے کہ جوان خودکشی کر رہے ہیں، جس سے جوانوں کو بہت زیادہ پریشان کیا جاتا ہے۔جوانوں کو وقت پر چھٹی نہیں ملتی ہے۔ ان کو موبائل سے بات نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔جب میں نے بی ایس ایف کے کھانے کا معاملہ اٹھایا تھا، اس کے بعد سے موبائل کے استعمال پر روک لگا دی گئی کیونکہ ان کو (حکومت کو)خطرہ ہو گیا کہ بہت سارے جوانوں نے بد عنوانی کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ جس سے ان کو لگا کہ ان کی ساری پول کھل رہی ہیں اس لئے انہوں نے موبائل پر روک لگا دی۔پی ایم مودی نے بہت سے وعدے کئے تھے، لیکن کچھ کیا نہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ بی ایس ایف میں پنشن پھر سے شروع کر دی جائےگی لیکن انہوں نے اس کی کوئی بات ہی نہیں کی۔ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ بی ایس ایف جوان کو شہید کا درجہ دیا جائےگا اس پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔
لوگ شہیدشہید چلاتے ہیں لیکن وہ جوان تو مرے ہیں، ان کو تو شہید کا درجہ ہی نہیں دیا۔ ہمارے آئین نے بی ایس ایف کو شہید کا درجہ نہیں دیا ہے تو پھر کیسے شہیدشہید چلاتے ہیں۔ ملک میں جو جوان ہیں، بی ایس ایف، ایس آر پی ایف، پیراملٹری، فوج ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، کوئی سوچتا بھی نہیں۔کسان، بنکر کے بارے میں بات ہوتی ہے، بھلےہی کچھ ہو نہ، لیکن بات ہوتی ہے۔جوانوں کا مدعا تو کسی نے اٹھایا ہی نہیں اس لئے ہم اس مہم کو شروع کر رہے ہیں کہ سب سے پہلے ملک کا جوان صحتمند رہے، ٹھیک رہے، خوش رہے۔ اگر ملک کا جوان خوش ہے تو پورا ملک خوش ہے۔
اگر آپ کو سسٹم کے خلاف ہی لڑنا ہے تو وارانسی سے مودی کے خلاف لڑنے کے بجائے کہیں اور سے بھی لڑ سکتے تھے؟
مودی جی نے جوانوں پر سیاست شروع کی اس لئے اب ہم جوان مودی جی کے سامنے کھڑے ہوکر ان کو سیاست سکھائیںگے۔ اس لئے ہم یہاں آئے ہیں کیونکہ ہم جوانوں کو مودی جی کو سیاست سکھانی ہے۔آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپ کے ساتھ دس ہزار سابق فوجی جڑے ہیں اور وہ وزیر اعظم کے خلاف تشہیر کریںگے۔ہمارے ساتھ دس ہزار نہیں، پچاس ہزار فوجی جڑ رہے ہیں۔ وہ لگاتار ہم سے بات کر رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ہم ان کے لئے رہنےکھانے کا انتظام نہیں کر سکتے۔ ہم رہنما تو ہیں نہیں کہ ہمارے پاس بہت پیسہ ہے۔
یہ لوگ بی ایس ایف کے ہیں یا فوج سے؟
یہ تمام جوان الگ الگ جگہوں سے ہیں۔ الگ الگ فوجوں سے ہیں۔ کچھ آرمی سے ہیں، کچھ نیوی سے ہیں۔ تمام طرح کے جوان ہیں، لیکن یہ تمام جوان جے سی او رینک(فوج کا ایک رینک) تک ہی ہے۔ آفیسر لیول کے کوئی نہیں ہیں۔ کوئی بھی جوان اس وقت جاب میں نہیں ہیں، تمام ریٹائر ہیں، اگر جاب والے ہم سے جڑے بھی تو ہم ان کو ساتھ نہیں لیںگے۔ ہمارا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے آئین کی عزت کرنی ہے۔
پرانی حکومت اور موجودہ حکومت میں نوکری کرتے ہوئے کوئی فرق محسوس کیا ہے؟ کیا بی جے پی حکومت میں فوجیوں کی حالت میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
ہم نے پہلے ہی کہا کہ فوج میں تو کبھی کسی نے دھیان دیا ہی نہیں۔ میں نے 21 سال تک فوج میں کام کیا ہے، بہت-سی حکومتیں دیکھی ہیں۔ پہلے جب ان کی (بی جے پی) حکومت تھی تب انہوں نے (اٹل بہاری واجپائی نے) پنشن بند کی تھی۔ حکومت بدلی لیکن فوج کا مسئلہ نہیں بدلا۔ان سے ایک امید تھی، لیکن ان کے وقت میں فوج کی اتنی زیادہ سیاست ہو رہی ہے کہ جوان اب نوکری کرنا نہیں چاہ رہا ہے۔ ان کی حکومت میں جوانوں کو حد سے زیادہ پریشان کیا جا رہا ہے۔ پہلے فوج اپنی مرضی سے کام کرتی تھی لیکن اب سب کچھ ان کی(وزیر اعظم مودی کی)مرضی سے ہوتا ہے۔ ان کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ہے۔تینوں فوجیں صدر کے ماتحت ہیں لیکن وزیر اعظم نے حال ہی میں(پلواما حملے کے بعد)کہا تھا کہ فوجوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی نے فوجوں کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے۔مودی فوج کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ اگر کوئی فوجی اس کی مخالفت کرے گا تو اس کو گھر بٹھا دیا جائےگا، دوسرا سپہ سالار آئےگا۔ جمہوریت کا تو قتل ہو گیا ہے۔
حال ہی میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی رہنما مختار عباس نقوی نے کہا کہ’مودی جی کی سینا’نے ایئر اسٹرائک کیا، اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندوستانی فوج کو مودی کی سینا کہہ دیا۔ مودی نے بھی کہا کہ ہم نے فوج کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ فوج ان کی مٹھی میں ہے، یہ جو کہیںگے وہی ہوگا۔ یہ جب کہیںگے تبھی پاکستان پر فائر ہوگا، یہ کہیںگے جوان مرتے رہو، لیکن فائر نہیں کرنا ہے تو نہیں ہوگا۔مودی اور یوگی کے فوج والے بیان سے لگ رہا ہے کہ یہ لوگ اورنگ زیب کی طرح تاناشاہی کر رہے ہیں۔آزادی ہے ہی نہیں۔ صدر کو اس بات کو اپنے علم میں لینا چاہیے، وہ کچھ بول ہی نہیں رہے ہیں۔ ان کے آگے بولے کون! یہ سنتے تو ہیں نہیں۔ اگر کوئی بولا تو وہی ہوگا جو جسٹس لویا کا ہوا۔
انتخاب کے لئے آپ کی اقتصادی ضروریات کیسے پوری ہو رہی ہیں؟
اس کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا اکاؤنٹ نمبر اور پے ٹی ایم نمبر دیا ہوا ہے، جس سے جو مدد ہو پائے وہ کرے۔ انتخاب تو لڑنا ہی ہے، کسی بھی حال میں لڑنا ہی ہے۔
بی ایس ایف کی نوکری کا تجربہ کیسا رہا؟
جب ہم نوکری میں گئے تھے، تو بڑے شوق سے گئے تھے۔ ہمیں لگا کہ ہمیں ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب ہم سسٹم میں چلے گئے تو ہمیں لگا کہ ہم کسی جیل میں آ گئے۔
بالاکوٹ ایئر اسٹرائک اور پلواما حملے سے جڑے تنازعہ پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ان سب میں حکومت کی غلطیاں ہیں۔ رہنماؤں کی غلطیاں ہیں لیکن رہنماؤں کو کوئی فرق تھوڑی پڑتا ہے۔ نہ تو ان کے گھر سے کوئی فوج میں ہے نہ ان کے بچے فوج میں ہیں۔ فوج کا سیاسی استعمال ہو رہا ہے۔ فوج کا سیاسی استعمال نہ ہو تو ایک بھی حملہ نہ ہو۔
سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے مودی جی کی سیناکہنے والے لوگوں کو دیش دروہی بتایا ہے، کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
ہاں، وی کے سنگھ جی نے اچھا بولا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اوپرسیڈیشن کا مقدمہ لگا دینا چاہیے۔ وی کے سنگھ کو ہی یوگی کے اوپر ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔
کیا دیگر سیاسی پارٹیوں کا تعاون مل رہا ہے؟ کون-سی پارٹی تعاون کر رہی ہیں؟
ابھی تک تو عام آدمی پارٹی نے سپورٹ دینے کی بات کہی ہے لیکن سرکاری طور پر انہوں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ بس یہ بولا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایس پی سے بات ہوئی ہے انہوں نے، ابھی ہاں بھی نہیں کہا، نہ بھی نہیں کہا ہے۔ایس پی میں اکھلیش یادو جی سے بات ہوئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں وقت دیجئے۔ اوم پرکاش راجب ھر نے کہا ہے کہ ان کی پوری کی پوری حمایت ہے، انہوں نے صاف کہا کہ میں آپ کو حمایت دوںگا۔
کیا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں وارانسی کے عوام آپ کا ساتھ دیں گے؟
یہاں آکر اور کاشی کے عوام سے ملکر ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ کہیں مودی جی بھاری ووٹ سے نہ ہار جائیں۔
آپ میں اور پی ایم نریندر مودی میں جیتنے-ہارنے کی سب سے بڑی وجہ؟
سب سے بڑی وجہ اصلی چوکیدار اور نقلی چوکیدار کاہے۔ یہی ہمارا سلوگن بھی ہے ‘اصلی چوکیدار بنام نقلی چوکیدار۔ ‘
(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں۔)