یوپی: دوسرے ضلع میں آکسیجن بھیجنے کی خبر لکھنے والے تین صحافیوں کو نوٹس

معاملہ رائےبریلی کا ہے،جہاں کچھ میڈیا رپورٹس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ضلع میں ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران 20 میٹرک ٹن میڈیکل آکسیجن پڑوسی ضلع کانپور بھیجا گیا۔ ضلع انتظامیہ نے تین مقامی صحافیوں کو نوٹس جاری کر ان جانکاریوں کا سورس پوچھا ہے، جس کی بنیادپر خبریں لکھی گئی تھیں۔

معاملہ رائےبریلی کا ہے،جہاں کچھ میڈیا رپورٹس میں الزام  لگایا گیا تھا کہ ضلع میں ہیلتھ ایمرجنسی  کے دوران 20 میٹرک ٹن میڈیکل آکسیجن پڑوسی ضلع کانپور بھیجا گیا۔ ضلع انتظامیہ نے تین مقامی صحافیوں کو نوٹس جاری کر ان جانکاریوں کا سورس پوچھا ہے، جس کی بنیادپر خبریں لکھی گئی تھیں۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے رائےبریلی ضلع انتظامیہ نے تین مقامی صحافیوں کو نوٹس جاری کر ان سے ان جانکاریوں کاسورس پوچھا ہے جس کی بنیاد پر دوسرے ضلع میں آکسیجن بھیجے جانے کی خبروں کو شائع کیا گیااور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ان رپورٹس میں الزام  لگایا گیا ہے کہ ضلع میں ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران 20 میٹرک ٹن میڈیکل آکسیجن رائےبریلی سے پڑوسی ضلع کانپور بھیجا گیا۔ضلع انتظامیہ  نے دعویٰ کیا کہ نیوز رپورٹس میں لگائے گئے الزام بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

انتظامیہ نے دو صحافیوں  شوم کمار اور انج اوستھی سے آکسیجن فراہمی کو لےکر بالترتیب ڈیلی نیوز ایکٹوسٹ اور کینوز ٹائمس میں چھپی خبروں کے بارے میں جانکاری مانگی۔رپورٹ کے مطابق، انج رائےبریلی میں کینوز ٹائمس کے بیورو چیف ہیں، جبکہ شوم ڈیلی نیوز ایکٹوسٹ کے لیے رائبریلی کے نامہ نگارہیں۔

تیسرے صحافی کی پہچان درگیش سنگھ کے طورپر کی گئی ہے جو کہ ایک مقامی  اخبار راشٹریہ کوچ کے لیے کام کرتے ہیں۔ کانپور میں آکسیجن کی فراہمی  پر ایک پوسٹ  فیس بک پر شیئر کرنے پر انہیں بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

گزشتہ30 اپریل کو رائے بریلی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ(ایڈمنسٹریشن)رام ابھیلاش نے تینوں صحافیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے ذریعےفیس بک پر شیئر کی گئی جانکاری کا سورس بتانے کے لیے کہا اور اس کے ساتھ مضمون لکھنے والے شخص کے نام کا بھی انکشاف  کرنے کے لیے کہا۔

انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ان کےتبصروں  اور ان کے ذریعے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے مضامین کے دعووں کو پہلی نظر میں  غلط پایا گیا۔نوٹس میں آگے کہا گیا ہے کہ ان کاتبصرہ عوام کو گمراہ  کرنے اور جھوٹےپروپیگنڈہ  کے لیے تھاجو کہ آئی ٹی ایکٹ 2000 کی دفعہ  66-اے کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر تین مئی سے پہلے وہ  وضاحت  کے ساتھ جواب نہیں دیتے ہیں تو قانونی کارروائی کی جائےگی۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے تینوں صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ضلع انتظامیہ کو اپنا جواب بھیج دیا ہے۔ ایک صحافی نے کہا، ‘ہم نے انتظامیہ کو جواب دے دیا ہے۔’

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رام ابھیلاش نے کہا،‘فیس بک پر جھوٹی اطلاع نشر کرنے کے لیے انہیں نوٹس بھیجے گئے تھے کہ آکسیجن(رائےبریلی سے)کانپور بھیجا گیا تھا۔ میں نے انہیں یہ بتانے کے لیے کہا ہے کہ انہیں ایسی جانکاری کہاں سے ملی۔ میرے پاس اب تک ان کے جواب نہیں ملے ہیں۔’

اوستھی نے سوشل میڈیا پر لکھا،‘حکومت میں اپنے نمبر بڑھانے کے لیے جن افسروں نے 20 ٹن آکسیجن کانپور بھیج کر یہاں کے لوگوں کو موت کے منھ میں دھکیلا ہے، ان کو رائےبریلی کی عوام معافی نہیں کرےگی۔’

ان سے کینوز ٹائمس میں شائع ایک رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

اس کے بعدانتظامیہ نے چوہان سے ان کے اس فیس بک پوسٹ پر سوال کیا جس میں انہوں نے کہا تھا، ‘رائےبریلی، اتر پردیش (میں)کوئی تو ہے جس کی وجہ سے رائےبریلی کی عوام کا حق مارا جا رہا ہے۔ عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ پہلے 20 میٹرک ٹن آکسیجن کانپور گئے پھر پرینکا گاندھی نےخصوصی ٹینک رائے پور سے بھیجا جس میں پانچ میٹرک ٹن آکسیجن رائےبریلی کے حق کا آکسیجن تھا، وہ بھی نہیں ملا۔’

ان سے بھی کانپور میں آکسیجن کی فراہمی  کو لےکر ایک ہندی اخبار کا مضمون شیئر کرنے پر سوال پوچھا گیا۔ترویدی نے ان سے ان کے اس تبصرے پر جواب مانگا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا، ‘ضلع میں قحط، پھر بھی کانپور بھیجا گیا20 ٹن آکسیجن۔’