سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران 24 نومبر کو ہوئے تشدد میں مسلم کمیونٹی کے پانچ لوگوں کی گولی لگنے سے موت ہوگئی تھی۔ اب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ جس جگہ یہ تشدد ہوا تھا، وہاں سے اسے پاکستانی کارتوس ملا ہے۔
نئی دہلی: سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران 24 نومبر کو ہوئے تشدد کے حوالے سےاب اتر پردیش پولیس نے اس معاملے میں ‘پاکستان کنکشن’ پیش کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ پر تشدد ہوا وہاں سے انہیں پاکستانی کارتوس ملا ہے۔
معلوم ہو کہ اس تشدد میں مسلم کمیونٹی کے پانچ افراد گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے، جس کو اب پولیس، میڈیا چینلوں اور نیوز پورٹلوں نےپاکستان سے براہ راست کنکشن کااینگل دے دیاہے۔
اس تشدد کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی دوڑ میں کچھ ہندی میڈیا ویب سائٹس نے پولیس کے دعووں کی بنیاد پر یہاں تک کہہ دیا ہےکہ تشدد میں مبینہ طور پرغیر ملکی فنڈنگ کے استعمال کا بھی امکان ہے۔
واضح ہو کہ منگل (3 دسمبر) کی شام سنبھل کے ایس پی کرشن کمار بشنوئی نے کہا کہ پولیس نے اس مقام کے قریب ایک نالے سے چھ کارتوس برآمد کیے ہیں جہاں واقعہ کے بعد ایک لاش ملی تھی۔
افسر نے مزید کہا کہ چھ کارتوسوں میں سے پانچ ‘فائر’ ہوئی تھے، جبکہ ایک ‘مس فائر’ تھا۔ ان کارتوسوں میں پاکستان میں بنایا گیا پی او ایف 9ایم ایم 68-26لکھا ایک فائر کیس بھی شامل ہے۔ پی او ایف کا مطلب پاکستان آرڈیننس فیکٹری ہے۔
ایس پی بشنوئی نے جائے وقوعہ پر سرچ آپریشن کے بعد صحافیوں کو بتایا، ‘پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے ملنے والا اسلحہ یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔’
پولیس نے یہ بھی بتایا کہ فرانزک ٹیم اور مقامی میونسپل کارپوریشن نے جائے وقوعہ سے امریکہ میں بنایا ہوا 12 ایم ایم ونچسٹر بور کا کارتوس بھی برآمد کیا ہے۔ بشنوئی کے مطابق، ‘ان بوروں میں سے کوئی بھی پولیس کے کے ذریعے استعمال کیے گئے ہتھیاروں کا نہیں ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ان کارتوسوں کا بیلسٹک تجزیہ ماہرین کریں گے اور اسے فرانزک لیب کو بھیجا جائے گا۔
تاہم، افسر نے پاکستانی میں بنے کارتوس کی برآمدگی کو ‘حساس معاملہ’ قرار دیا، اور یہ بھی کہا کہ ‘سنبھل میں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا کہ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے وقتاً فوقتاً سنبھل میں چھاپے مارے ہیں اور وہاں کے بہت سے مجرم اب دبئی میں ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کی اسلحے کی اسمگلنگ کے پہلو سے بھی تفتیش کی جائے گی۔
غورطلب ہے کہ بشنوئی کی جانب سے پاکستانی کارتوس برآمد کرنے کا دعویٰ کرنے کے فوراً بعد ٹیلی ویژن چینلوں اور نیوز ویب سائٹس نے سنبھل واقعے کے پیچھے پاکستان لنک کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کردیں۔
اس حوالے سے مشہور ہندی ویب سائٹ دینک جاگرن نے اپنی خبر کا عنوان دیا،’تشدد کے پیچھے غیر ملکی فنڈنگ کا شبہ’۔ اسی وقت، جاگرن نے بغیر کسی ذرائع کےیہ اندازہ لگایا کہ اس برآمدگی سے ثابت ہوتا ہے کہ تشدد ایک ‘منصوبہ بند سازش’ تھا۔ بغیر کسی الزام کے یہ بھی بتایا گیا کہ مرکزی ایجنسیاں تحقیقات میں شامل ہو سکتی ہیں اور پولیس غیر ملکی فنڈنگ کے پہلو کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ایک اور نیوز چینل نیوز 18 نے سنبھل میں ہوئے تشدد سے براہ راست ہندوستان کے پڑوسی ملک کوجوڑنے کی کوشش کی۔ ان کے یوٹیوب چینل پر خبر کا عنوان دیا گیا، ‘سنبھل تشدد میں پاکستان کا ہاتھ’۔ ایک اور نیوز ویب سائٹ نے سنبھل تشدد کے ‘پاکستان کنکشن’ کو اجاگر کیا۔ اس کی سرخی میں لکھا تھا، ‘شاہی جامع مسجد کے قریب سے پاکستانی گولیاں اور کارتوس ملے۔’
اس حوالے سے بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے کہا کہ ان ہتھیاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کے بنائے گئے ہتھیاروں کی مدد سے ہندوستان میں ‘خانہ جنگی’ شروع کرنے کے کچھ عناصرکے ذریعے تیاررکھی گئی چیزیں تھیں۔ ترپاٹھی نے مطالبہ کیا کہ ‘پاکستانی ہتھیاروں’ سے پولیس پر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ غدار ہیں۔’
اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک نے بھی پاکستان میں بنے کارتوس کے خول کی برآمدگی پر کہا کہ معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور جو بھی اس میں ملوث ہے اسے بخشا نہیں جائے گا۔
جب سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو سے دہلی میں صحافیوں نے اس معاملے پر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ غیر ملکی خول کی برآمدگی اتر پردیش پولیس کا ‘حیران کن کام’ ہے۔ انہوں نے یوپی پولیس سے یہ بھی بتانے کوکہا کہ وہ کن ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں۔
اکھلیش یادو نے کہا، ‘سچ یہ ہے کہ بی جے پی کےما تحت پولیس لوگوں کو جھوٹے پھنسانے کے لیے یہ کام کرتی ہے۔ پولیس صرف لوگوں کو پھنسا رہی ہے، انہیں انصاف نہیں دے رہی۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )