یہ سچ ہے کہ شیعہ ‘ڈیلر’ بی جے پی کی طرف مائل اور ملتفت ہیں، لیکن عام طور پر شیعہ کمیونٹی نے کبھی منظم ہو کر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔ مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لیے ہر الیکشن سے پہلے ایسی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے خلاف کھڑا کرنا بی جے پی کی خوبی رہی ہے۔ اس پارٹی کا ایک پرانا پروپیگنڈہ یہ ہے کہ شیعہ مسلمان بی جے پی کے ووٹر ہیں۔ اس پروپیگنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے بی جے پی اور سنگھ ہمیشہ کچھ ایسے شیعہ لیڈروں کو ساتھ لاتا رہا ہے جو اپنے مفادات کے ساتھ سنگھ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ایک دہائی قبل کلب صادق صاحب ،جنہیں بعد از مرگ بی جے پی حکومت نے پدم بھوشن سے نوازا ، نے مسلم پرسنل لا بورڈ کا نائب صدر رہتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ مسلمان بی جے پی کو قبول کرسکتے ہیں لیکن نریندر مودی کو نہیں۔ لیکن مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے بھتیجے اور آصفی مسجد لکھنؤ کے شاہی امام کلب جواد کی قلب ماہیت ہوگئی اور انہوں نے وزیر اعظم کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کر دی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ گجرات کے مسلمانوں کو مودی کو معاف کر دینا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چچا اور بھتیجے ایک دوسرے کے مخالف سمجھے جاتے تھے، لیکن بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے وہ اپنی تمام تر مخالفت بھول گئے اورہم زبان ہو گئے۔ اب جبکہ مودی نے تیسری بار وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مولانا کو ان بیانات کا کیا صلہ اور انعام ملتا ہے۔
شیعوں کی نہ صرف لکھنؤ میں متاثر کن آبادی ہے، بلکہ ان کا اثرورسوخ اتر پردیش کے کچھ دوسرے علاقوں جیسے امروہہ، اعظم گڑھ، علی گڑھ، بارہ بنکی، فیض آباد، غازی پور، جونپور، مظفر نگر اور اتراولا وغیرہ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ عام خیال کہ شیعہ ووٹروں کی موجودگی صرف لکھنؤ تک محدود ہے غلط ہے۔
سال 2014 کے انتخابی نتائج کے بعد لکھنؤ کی شیعہ قیادت، جسے ‘ڈیلرشپ’ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، بی جے پی حکومت کے سامنے اوندھے منھ گرگئی۔
دو شیعہ رہنماؤں – بکل نواب اور محسن رضا کو بی جے پی نے ایم ایل سی بنا دیا۔ اس شیعہ ڈیلرشپ کے کئی بڑے نام – آغا روحی، کلب رشد، یعسوب عباس، حمید الحسن، علی محمد (علی گڑھ) سیف عباس جیسے شیعہ اسلام کے مبلغین،حسینی ٹائیگرز کے شمیل شمسی، وفا عباس (امبر فاؤنڈیشن)، شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین علی زیدی، فخرالدین علی میموریل کمیٹی کے چیئرمین طراز زیدی، اتر پردیش اقلیتی کمیشن کے رکن کنور اقبال حیدر اور اتر پردیش حکومت کے سابق وزیر عمار رضوی —رام مندر کی تعمیر میں حصہ لینے کی اس مسابقت اور دوڑمیں شامل تھے، جو اس جگہ پر تعمیر کی گئی جہاں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔
کیا شیعہ بی جے پی کے پاس سنی کی مخالفت کی وجہ سے جاتے ہیں؟
لکھنؤ کے شیعوں کی اس نام نہاد بی جے پی کی حمایت کو باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا شیعہ اسلام کی سنی مخالف جڑیں بی جے پی کی حمایت کی بنیاد بنتی ہیں؟
اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔
ایران کے باہر لکھنؤ کبھی ہندوستان کی واحد شیعہ ریاست (1722 – 1856) ہوا کرتی تھی۔ شیعہ اسلام کی شاخ کااس ایران سے نکلتی ہے جب وہاں صفوی خاندان اقتدار میں آیا۔ لکھنؤ میں کبھی شیعہ مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ زیادہ تر بڑے زمیندار اور جائیداد کے مالک شیعہ تھے۔ سیاست اور عدلیہ سے متعلق معاملات میں بھی ان کا اثر ورسوخ واضح تھا۔ یہ صورتحال 1967 تک جاری رہی جب کانگریس نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو اپنی رکنیت دینا شروع کر دی۔ چونکہ سنیوں کی تعداد شیعوں سے زیادہ تھی اس لیے کانگریس میں بھی سنیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔
جب شیعوں کو کانگریس میں اپنے لیے جگہ تنگ محسوس ہونے لگی تو انہوں نے اس بھارتیہ جن سنگھ میں اس کا سیاسی متبادل تلاش کرنا شروع کیا جس سے موجودہ بی جے پی نکلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شیعہ ‘ڈیلرشپ’ کا ایک حصہ جن سنگھ کی طرف منتقل ہونے لگا۔
پھر 1980 کے بعد کادور آیا جب عرب ممالک نے محنت کش طبقے کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ عرب ممالک جانے والے مزدوروں کی طرف سے بھیجی گئی رقم سے سنی مسلمانوں کی معاشی حالت تیزی سے بہتر ہوئی۔ اس پیسےسے لکھنؤ کی سماجی، سیاسی، تعلیمی اور معاشی حالت میں تیزی سے تبدیلی آئی اور آج سنی مسلمان ترقی کے تقریباً تمام اشاریوں میں شیعوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
اس نئے سماجی و اقتصادی نظام کی وجہ سے دونوں برادریوں کے درمیان فسادات تقریباً بند ہوگئے۔
شیعہ کا ووٹ کس کے لیے؟
یہ سچ ہے کہ شیعہ ‘ڈیلر’ بی جے پی کی طرف مائل اور ملتفت ہیں، لیکن عام طور پر شیعہ کمیونٹی نے کبھی منظم ہوکر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔ مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لیے ہر الیکشن سے پہلے ایسی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
اپنے مفاد میں اندھے شیعہ ‘ڈیلرز’نے کبھی سی اے اے-این آر سی مخالف تحریک میں مارے گئے مسلمانوں یا ان درجنوں مسلمانوں کے لیے جنہیں یو اے پی اے کے تحت جیل رسید کیا گیا، آج تک ایک لفظ نہیں کہا۔ لکھنؤ کے وہ شیعہ گھرانے، جنہوں نے تقریباً پچپن سال قبل 1967 میں لکھنؤ ویسٹ اسمبلی سے جیتنے والے جن سنگھ کے امیدوار لالو شرما کی حمایت کی تھی، آج بھی ان کی سیاسی وابستگی اسی نظریاتی جماعت کے ساتھ ہے۔
یہ ڈیلر راج ناتھ سنگھ کو ‘غلط پارٹی میں صحیح آدمی’ کہتے ہیں۔ اگر وہ واقعی صحیح آدمی ہیں،تو پھربلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے والوں کو مہذب بتانے والی، کٹھوعہ میں آصفہ کےریپسٹ کے حق میں ریلی نکالنے والی پارٹی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ لیکن اسی طرفداری کی وجہ سے راج ناتھ سنگھ نے کلب صادق کو پدم بھوشن اور وحید الدین خان کو پدم وبھوشن دلوا دیا تھا۔
یہاں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دونوں ہی ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے حامی تھے۔
لیکن عام شیعہ مسلمان اس سیاسی دلالی کو مسترد کرتا ہے۔ اور اس کی تصدیق اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔
اس بار لکھنؤ لوک سبھا سیٹ پر راج ناتھ سنگھ نے (612709) ایس پی کے روی داس مہروترا (477550) سے 135159 ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کی ہے۔ حسین آباد ٹرسٹ جیسے شیعہ اکثریتی بوتھ پر راج ناتھ سنگھ کو 224 ووٹ ملے جبکہ روی داس مہروترا کو 1061 ووٹ ملے۔ یونٹی کالج بوتھ پر یہ اعدادوشمار بالترتیب 220/1796، شیعہ یتیم خانہ پر 315/2841، سی ایم ایس حسن پوریا پر 258/2180 ووٹ کا رہا۔
شیعہ اثر والے لکھنؤ ویسٹ اور لکھنؤ سینٹرل کے علاقوں میں راجناتھ سنگھ 5670 اور 7584 ووٹوں سے پیچھے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کلب جوادکے اپنے جوہری محلہ سے راج ناتھ سنگھ کو صرف 72 ووٹ ملے جبکہ روی داس مہروترا کو 627 ووٹ ملے۔
کیا بی جے پی اب بھی شیعہ ڈیلر پر ڈورے ڈالتی رہے گی؟
(حیدر عباس اتر پردیش حکومت کے سابق انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)