ایگزٹ پول ایک فی الفور واقعہ ہوتا ہے، مثلاً آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ کیوں ووٹ دیا؟ آپ کا تعلق کس برادری سے ہے؟ یہ سوال رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ اتر پردیش میں ایسی ہی تبدیلیوں نے وزیر اعظم مودی کے ‘400 پار’ کے نعرے کی ہوا نکال دی۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
اتر پردیش کا وسیع رقبہ، بڑی آبادی اور اس کی سیاسی اہمیت ایسی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اس ریاست میں اپنی سیاسی برتری بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ یہاں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں۔ اسمبلی میں 403 نشستیں ہیں۔ مرکزی حکومت میں لیے گئے فیصلے اتر پردیش کی راہوں سے ہوکر گزرتے ہیں۔ ایسے میں پچھلے تیس سالوں میں چو رخی مقابلہ چلتا رہا ہے — کانگریس، بی ایس پی، ایس پی اور بی جے پی کے درمیان۔ اتر پردیش میں پہلے کانگریس غائب ہوئی پھر بی ایس پی اور اس کے ایس پی۔ اس الیکشن میں کانگریس اور ایس پی نے اتر پردیش میں زبردست واپسی کی ہے۔
اترپردیش میں 2007 میں مایاوتی، 2012 میں اکھلیش یادو اور 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے؛ بی ایس پی، ایس پی اور بی جے پی نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، جس میں موجودہ دہائی میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔
سال 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہندوتوا اور کاسٹ کے حوالے سے سیاسی قواعد کرنے میں مہارت رکھنے والی بی جے پی نے ‘ناقابل تسخیر مودی’ کا متھ تشکیل دیا۔ اس متھ کا طلسم 2024 میں ٹوٹ گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس الیکشن کو اپنے کندھوں پر لے لیا تھا۔ بی جے پی کا منشور اس کی ایک مثال ہے۔ اتر پردیش میں، دو ‘لڑکوں’ نے براہ راست وزیر اعظم مودی کو چیلنج کیا اور 272 سیٹوں کے جادوئی اعداد و شمار سے بہت پہلے بی جے پی کو روک دیا۔ یہ ایک بڑی جیت مانی جا رہی ہے جب بی جے پی ‘ہندوتوا کی لیبارٹری’ میں کمزور ہوئی۔ خود وزیر اعظم مودی وارانسی سیٹ 2019 کے مقابلے میں بہت کم فرق سے جیتنے میں کامیاب ہو پائے۔
آنکھوں دیکھی؛
میں 2010 سے اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں الگ الگ برادریوں کے درمیان فیلڈ ورک کرتا رہا ہوں جو الیکشن سے متعلق نہیں تھے۔ سماجی علوم کا کوئی بھی طالبعلم ہمیشہ ‘الیکشن موڈ’ میں رہتا بھی نہیں ہے۔ وہ صرف سماجی حقائق کے بدلتے ہوئے نقوش پر نگاہیں بنائے رکھتا ہے۔ وہ ایک ہی چیز کو ہزار بار دیکھتا ہے۔ وہ اکثر کوئی سوال پوچھے بغیر فیلڈ سے لوٹ آتا ہے۔ اس سے تجربہ ہوتاہے، باریک بینی پیدا ہوتی ہے۔
ایگزٹ پول ایک فی الفور واقعہ ہوتاہے، مثلاً آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ ووٹ کیوں دیا؟ آپ کا تعلق کس برادری سے ہے؟ ایگزٹ پول کے سوال ان تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے جو رفتہ رفتہ رونما ہوتے ہیں۔
اتر پردیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے وزیر اعظم مودی کے ‘400 پار’ کے پراعتماد نعرے کی ہوا نکال دی۔ اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کی جوڑی نے کامیابی سے اپنے ہر پیغام کو دور افتادہ علاقوں تک پہنچایا اور اس کے ساتھ ہی اپنے انتخابی نشان کوذہن نشیں کروا دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ‘کمل’ کے تئیں کتنے مصر نظر آتے ہیں۔ وہ ہر ریلی میں ، کار میں بیٹھے ہوں یا رتھ پر کھڑے ہوں ‘کمل’ دکھاتے رہتے ہیں۔
اس بار، باندہ ضلع میں لوک سبھا انتخابات کے بعد، دریائے جمنا کے کنارے ایک گاؤں میں فیلڈ ورک کر رہا تھا۔ اس گاؤں کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ نشادوں پرمشتمل ہے۔ ایک سن رسیدہ عورت نے کہا کہ وہ ‘مشین میں پنجہ نشان’ تلاش کر رہی تھی ،اسے نہیں ملا، پھر اس نے اپنے بیٹے کو بلاکر پوچھا۔تب اس نے ‘سائیکل’ پر ووٹ ڈالا۔ دراصل، کانگریس وہاں الیکشن نہیں لڑ رہی تھی، لیکن وہ عورت کانگریس کو ووٹ دینا چاہتی تھی۔
جب میں فروری 2021 میں جمنا کے کنارے واقع اسی گاؤں میں گیا تو حالات مختلف تھے۔ کم از کم اس وقت وہاں کانگریس کا کوئی ذکر نہیں تھا، جبکہ اس بار اسی گاؤں کے مرد حضرات اور نو عمر خواتین کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ‘اکھلیش-راہل’ مودی جی کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سال 1989 کے بعد اتر پردیش میں کانگریس کی ‘الیکٹورل میموری’ کا بہت تیزی سے خاتمہ ہوا تھا۔ لوگ کانگریس کو ووٹ دینا بھول چکے تھے۔ اس بار کے انتخابات میں اس نے پھر سے، جزوی طور پر پر ہی صحیح، اس کو حاصل کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ جہاں تک ایس پی کا تعلق ہے، وہ اس نقطہ نظر سے اوجھل نہیں تھی۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ہی ، اس نے کم و بیش اتر پردیش کے ووٹروں کے درمیان اپنی موجودگی بنائے رکھی۔ اس کا سہرا ایس پی کارکنوں اور قیادت کو جاتا ہے۔
الہ آباد، جسے انتظامی طور پر پریاگ راج کہا جاتا ہے، میں جہاں گنگا اور جمنا کا سنگم ہوتا ہے، وہاں سے تقریباً 7-8 کلومیٹر دور پڑتا ہے بنسوار گاؤں۔ فروری 2021 میں، ریاستی انتظامیہ نے وہاں نشادوں کی ریت نکالنے والی کشتیوں کو توڑ دیا تھا اور کئی لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی لکھوایا تھا۔ اس وقت بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ اس واقعہ کی وجہ سے پورے اتر پردیش کے نشاد شدید طور پر مشتعل ہوگئے تھے۔ اس دوران میں اس گاؤں میں فیلڈ ورک کر رہا تھا، جس کا ذکر میں نے ‘
ندی پتر‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
اس بار جب میں دوبارہ گیا تو دیکھا کہ اس جمنا تیرے گاؤں میں لوگ نہ صرف ‘اکھلیش-راہل’ کے بارے میں بات کر رہے تھے بلکہ وہ ڈاکٹر سنجے نشاد سے کافی خفاتھے۔ پرینکا گاندھی خود 2021 میں بنسوار گاؤں گئی تھیں۔ اس کے فوراً بعد اکھلیش یادو الہ آباد گئے تھے اور ڈاکٹر سنجے نشاد بھی اس گاؤں میں گئے تھے۔
ایک طویل عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی نشاد برادری کو اپنا فطری حلیف سمجھ رہی تھی۔ الہ آباد میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے کی اپنی 2014، 2019 اور 2024 کی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم مودی نے ‘نشادراج’ کے بہانے نشاد برادری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ‘پریاگ راج کی سرزمین سے’ وہ ایک بڑا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک سال سے بی جے پی نے شرنگویر پور کی ترقی کے ذریعہ اس برادری کو اپنے انتخابی ڈھانچے میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس میں نشاد پارٹی نے حلیف کا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر سنجے نشاد کو اتر پردیش حکومت نے کابینہ وزیر بھی بنایا گیا۔
لیکن خود ڈاکٹر سنجے نشاد کے بیٹے پروین نشاد سنت کبیر نگر لوک سبھا سیٹ سے الیکشن ہار گئے۔ مینکا گاندھی جیسی قدآور رہنما کو رام بھووآل نشاد نے الیکشن میں شکست دی۔
ایسا نہیں ہے کہ نشاد برادری نے بی جے پی کو بالکل ووٹ نہیں دیا ہے۔ بی جے پی کی سیٹیوں پر نشاد امیدوارنے جیت بھی حاصل کی ہیں، لیکن ایس پی نے اس بڑے اور فرقہ وارانہ طور پر متحد کمیونٹی کے درمیان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
اسی طرح دریائے سریو کے کنارے فیض آباد اور امبیڈکر نگر لوک سبھا سیٹوں پر بھی اس کمیونٹی کی بڑی تعداد ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں امبیڈکر نگر لوک سبھا سیٹ مایاوتی کے لیے بہت اہم ہواکرتی تھی۔ وہ وہاں سے ایم پی ہوا کرتی تھیں۔ ‘ابھی بھی’ ان کی نشاد برادری میں گہری پیٹھ ہے لیکن بی جے پی کی انتخابی مشین نے انہیں بے دخل کردیا۔
اس بار ایودھیا اور امبیڈکر نگر لوک سبھا سیٹوں سے ایس پی کی جیت نے بڑا سیاسی پیغام دیا ہے۔
میں آپ کو کانپور دیہات کی طرف لے چلتا ہوں۔ اس ضلع کے دس گاؤں میں سپیرا برادری کی بڑی آبادی ہے۔ میں 2018 سے مسلسل یہاں کا دورہ کر رہا ہوں۔ بلاشبہ ان برادریوں کو ریاستی اور مرکزی حکومت کی اسکیموں سے فائدہ ہوا ہے۔ سرکاری رہائش، بجلی، پانی اور سب سے بڑھ کر اناج کی دستیابی نے ان کی زندگی کی تکالیف کو کم کر دیا ہے۔ ایک بزرگ سپیرے نے مجھے 2021 میں بتایا تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار ایک ماہ تک مسلسل پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
یہ اس کی کہانی نہیں تھی بلکہ زیادہ تر سپیروں کی کہانی تھی۔ ان گاؤں—دیہات نے 2022 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کوجم کر ووٹ دیا تھا، لیکن اس بار جب میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے دوبارہ گیا تو انہی لوگوں میں ‘بریک ڈاؤن’ نظر آیا۔ اب ان کا معاملہ راشن سے آگے کا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت کو ‘کچھ اور’ کرنا چاہیے۔ ان دیہاتوں میں ‘ڈگری ہولڈر نوجوان’ بہت کم ہیں، لیکن جو ہیں، ان کی توجہ روزگار کے مطالبے پر زیادہ تھی۔
اتر پردیش میں جس دلت موبلائزیشن نے مایاوتی کو چار بار وزیر اعلیٰ بنایا،اس کہانی میں دانشوروں نےسنگین خامیوں کی نشاندہی کی ہے، سال 2016 میں شائع ہونے والی بدری نارائن کی کتاب ‘
فریکچرڈ ٹیلز: ان ویزیبلز ان انڈین ڈیموکریسی‘ میں بتایا گیا تھا کہ اتر پردیش کی 66 درج فہرست ذاتوں میں سے صرف ان چار سے پانچ ذاتوں کو سیاسی اور انتخابی فائدہ حاصل ہوا ہے جن کی تعداد زیادہ ہے۔ باقی پیچھے رہ گئے ہیں۔
اتر پردیش میں 2017 اور 2022 کے اسمبلی انتخابات اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی انہیں اپنے ساتھ لانے میں کامیاب رہی۔ مختلف سرکاری اسکیموں کا ‘لابھارتھی ووٹر’ تیار کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اتر پردیش میں ایس پی-کانگریس اتحاد نے اس ووٹر گروپ کو توڑ لیا اوراس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں ووٹ دیا۔
ایک آخری بات۔ یہ بات آئین اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ہے۔ ان دونوں علامتوں کے ذریعے راہل گاندھی اور اکھلیش یادو لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ بابا صاحب کا بنایا ہوا آئین خطرے میں ہے۔ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اسے بدل دے گی۔
میں نے یہ بات اگست 2022 کے ‘ہنس’ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھی ہے اور میں اسے ایک بار پھر دہرا رہا ہوں کہ سال 2015 سے پورے اتر پردیش میں محروم طبقات، دلتوں، خانہ بدوشوں اور آزاد برادریوں میں یہ احساس واضح طور پر گامزن تھا کہ ان کی زندگی آئین اور ڈاکٹر امبیڈکر نے بدلی ہے۔ وہ اس کے بارے میں آہستگی سے بات کر رہے تھے۔ اس بار انتخابات میں جب راہل گاندھی نے اپنی ہر تقریر میں لال دفتی والی آئین کی کاپی لہرانا شروع کی تو لوگوں کو لگا کہ جیسے وہ دہلی میں مقیم سول سوسائٹی کے رکن ہیں، لیکن جلد ہی ان کے اس بیان نے عوام میں ڈسکورس پیدا کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایودھیا سے بی جے پی کے امیدوار للو سنگھ، جنہوں نے آئین کو تبدیل کرنے کی بات کی تھی،
الیکشن ہار گئے ۔
یہ الیکشن بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اتر پردیش سے اسے زندگی ملی ہے۔ وہیں سے اسے غذائیت ملتی ہے۔ 2027 کے اسمبلی انتخابات میں ان کے پیروں کے نیچے زمین کھسکنے والی ہے جس پر کھڑا ہونا ان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوگا۔
مسلسل خراب انتخابی کارکردگی اور مایاوتی کی سست پالیسیوں کی وجہ سے اتر پردیش میں دلت برادری تیزی سے ایس پی اور کانگریس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
(رماشنکر سنگھ مؤرخ ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ‘ندی پتر: اتر بھارت میں نشاد اورندی‘ شائع ہوئی ہے۔)