سابق فوجیوں کا کہنا ہے کہ جب آپ لڑکوں کو چار سال کے معاہدے پر بھرتی کریں گےتو ممکن ہے کہ کہیں کم اورکمتر لڑکے فوج میں جائیں گے، جن کے اندر جنون کم ہوگا، اور ملک کے لیے جذبہ ایثار و قربانی بھی نہیں ہوگا۔ کیا فوج کو اس سطح اور معیار کے جوان مل پائیں گے جو انہیں مطلوب ہیں؟
اتر پردیش کے گہمر گاؤں میں فوج کی تیاری کرتے نوجوان۔ (تمام تصاویر: آشوتوش کمار پانڈے)
غازی پور: دو سال قبل جب اگنی پتھ اسکیم کی مخالفت شروع ہوئی تھی تو ہندوستانی فوج نے دلیل دی تھی کہ یہ اسکیم اس کی جدید کاری کے لیے ضروری ہے اور اس سے بہتر فوجیوں کے انتخاب میں مدد ملے گی۔ ان دنوں دی وائر کے صحافی ‘فوجیوں کے گاؤں’ کہے جانے والے ملک کے کئی اہم علاقوں میں اس اسکیم کے اثرات کی زمینی چھان بین کر رہے ہیں۔
دی وائر نے پایا ہے کہ ان علاقوں میں اس اسکیم کے نفاذ کے بعد بڑی تعداد میں امیدواروں نے فوج کی تیاری ترک کر دی ہے۔
مثال کے طور پر، اتر پردیش کے غازی پور ضلع میں گنگا کے جنوبی کنارے پر آباد فوجیوں کا ایک گاؤں گہمر، جس کو آبادی کے لحاظ سے ایشیا کا سب سے
بڑا گاؤں سمجھا جاتا ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے 76 سالہ رام لکشمن سنگھ نے بتایا کہ گاؤں کی خوشحالی کی ایک ہی وجہ ہے، یہاں کے زیادہ تر لڑکے فوج میں ہیں۔ ہر گھر کے دو تین لوگ فوج میں ہیں۔ فوج کی زندگی سے گاؤں میں خوشحالی اور عزت آئی ہے۔ آج ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ اگنی ویر کی چار سال کی نوکری کے بعد کیا ہوگا؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر بہت سے اہل امیدوار فوج کا راستہ چھوڑ دیں گے تو کس طرح کے نوجوان فوج میں بھرتی ہوں گے؟
رام لکشمن سنگھ کہتے ہیں،’لڑکوں کے حوصلے کے ساتھ فوج پر بھی منفی اثر پڑے گا۔’
گہمر میں رافیل اکیڈمی چلانے والے سابق فوجی کنال سنگھ کہتے ہیں، ‘یہ حکومت کا یکطرفہ فیصلہ ہے۔ اس سے فوج کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔’
ان سابق فوجیوں کا کہنا ہے کہ جب آپ لڑکوں کو چار سال کے معاہدے پر بھرتی کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ کہیں کم اور کمتر لڑکے فوج میں جائیں گے، جن کے اندر جنون کم ہوگا، اور ملک کے لیے جذبہ ایثار وقربانی بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح کیا فوج کو اس سطح اور معیار کے جوان مل پائیں گے جو انہیں مطلوب ہیں؟
گہمر علاقے کے سابق فوجیوں کی تنظیم کے صدر صوبیدار میجر مارکنڈے سنگھ ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ‘یہاں سے کچھ لڑکے اگنی پتھ میں گئے ہیں۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا جاتا۔ ہتھیار چلانے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ فوجی افسران اگنی ویروں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ان سب کا وہاں دل نہیں لگتاہے۔’
ثقافتی تشخص
گہمر مشہور جاسوسی ناول نگار گوپال رام گہمری کی جائے پیدائش ہے۔ گاؤں والوں نے ان کی یاد میں یہاں ایک اشوک استمبھ بنوایا ہے۔ گاؤں میں پکے گھر ہیں۔ نالیاں صاف اورستھری ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے گہمر میں داخل ہونے والی مرکزی سڑک چکنی اور صاف ہے۔ یہ گاؤں فوج کی شاندار روایت کا علمبردار ہے۔ آرمی سروس نے فوجیوں کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کو ایک منفرد شناخت دی ہے اور خصوصی ثقافتی تشخص عطا کیا ہے۔
اس گاؤں کی آب و ہوامیں قدم قدم پر آرمی کلچر نظر آتا ہے۔ گاؤں کے محلوں کا نام جوانوں کے نام پر ہے۔ اس گاؤں کے بھوجپوری شاعر بھولاناتھ گہمری نےکبھی لکھا تھا —
جب جب دیسوا پر
پرلی بپتیا
مور سپاہی ہو، جیا کے توں ہی رکھوار
باپ – مہتاری تیجل
تیجل، جیاوا
مورسپاہی ہو، تیجل تو گھروا — دوار
(اس ملک پر جب بھی کوئی آفت آئی، ہمارے فوجیوں نے اس ملک کی حفاظت کی۔ اس ملک کی حفاظت کے لیے ہمارے فوجیوں نے اپنے ماں باپ، گاؤں اور گھر سمیت اپنی جانیں قربان کی ہیں۔)
غور طلب ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اس گاؤں کے کئی فوجی شہید ہوئے تھے۔ وہ مختلف محاذوں پر لڑنے گئے تھے۔ لیکن ان دنوں اس خوشحال گاؤں پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ اگر ایک سوال نوکری کا ہے، تو دوسرا اس گاؤں کے مخصوص کردار اور ثقافتی تشخص کے بارے میں ہے۔
اگر لڑکے فوج میں نہیں جائیں گے تو اس گاؤں کا سماجی منظر نامہ بھی بدل جائے گا۔جب بچے فوج میں جائیں گے نہیں تو یہ گاؤں فوجیوں کا نہیں رہے گا،’ مارکنڈے سنگھ کہتے ہیں۔
گہمر کے مقامی لوگ اور (دائیں) 89 سالہ سابق فوجی ونشی دھر سنگھ۔
یہ اپریل کا آخری ہفتہ ہے۔ دن کے تقریباً دس بجے ہیں۔ ٹھاکر کی اکثریت والے گہمر گاؤں کے ہنومان چبوترے پر کچھ لڑکے پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھے ہیں۔ 20 سالہ دیپ سنگھ نے بتایا، ‘اگنی پتھ اسکیم کے آنے کی وجہ سے یہاں کے لڑکے اب دوسرے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ چار سال نوکری کرکے کیا فائدہ؟’
ایک درخت کے نیچے بزرگ تاش کھیل رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر فوج سے ریٹائرڈ ہیں۔ 89 سالہ ریٹائرڈ صوبیدار بنشی دھر سنگھ نے تاش کے پتوں کو سمیٹتے ہوئے بتایا کہ وہ 1953 میں فوج میں شامل ہوئے اور 1977 تک سروس میں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگنی پتھ اسکیم نے نوجوانوں کے بھروسے کو توڑ دیا ہے۔’
تاہم، کچھ دوسرے لوگ ان سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے پاس بیٹھے 60 سالہ انل سنگھ صوبیدار کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم کے نفاذ سے پہلے ان کے دو بیٹے فوج میں شامل ہو ئے ہیں۔ انل سنگھ نے بتایا، ‘اگنی پتھ ایک اچھی اسکیم ہے۔ بیرونی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔’
وہاں بیٹھے ہوئے لوگ فوراً اس سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔ تاش کے کھیل میں خلل پڑتا ہے۔ آخر میں کھیل ختم جاتا ہے۔
گہمر میں تالاب کے کنارے ٹہل رہے منیش کمار سنگھ نے بتایا، ‘میں نے سال 2021 میں کوالیفائی کیا تھا۔ میڈیکل ابھی ہونا باقی تھا۔ تب تک اگنی پتھ اسکیم سامنے آگئی۔ قبل ازیں بحالی رد کر دی گئی تھی۔ مستقبل کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں سوچا ہے۔ سوچنے کا طور طریقہ مجھے معلوم نہیں ہے۔’ یہ کہتے ہوئے منیش کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
اس گاؤں کے ایک اور رہائشی ونے کمار سنگھ ہیں، جو تکنیکی وجوہات کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہ ہو سکے۔ وہ اپنے پاؤں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت لمبی پریکٹس کی، لیکن فوج کی نوکری نہیں ملی۔
ونے کو اس گاؤں کا انسائیکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ہنومان میدان کے وسط میں بنائے گئے اشوک استمبھ کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ اسے حکومت نے نہیں بلکہ گاؤں کے لوگوں نے ناول نگار گوپال رام گہمری کی یاد میں بنوایا ہے، جنہوں نے ہندی میں جاسوسی ناول کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا تھا۔
اس گاؤں میں سمراٹ اشوک کا ستون دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ لوگ کسی کی یاد میں مندر، پیو وغیرہ بناتے ہیں، لیکن اشوک استمبھ؟ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہاں سے سارناتھ قریب ہے، اس لیے بدھ کا کچھ اثر رہا ہے۔
گہمر گاؤں کے مشہور ہنومان میدان کے وسط میں واقع اشوک استمبھ۔
اس گاؤں میں وشو ہندو پریشد کے تنظیمی وزیر 42 سالہ ڈاکٹر بدھ نارائن اپادھیائے بھی رہتے ہیں۔ ان کے والد اور دونوں بھائی فوج میں رہ چکے ہیں۔ ان کے دروازے پر دو دیسی گائیں بندھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بدھ نارائن نے بتایا، ‘اگنی پتھ اسکیم ملک کے مفاد میں ہے۔ اس سے ملک کے تمام لوگوں کو کام کا موقع ملے گا۔اتحاد و یگانگت کا ابلاغ ہوگا۔’ان کی باتیں سن کر پاس سے گزرتے ہوئے نوجوان کسان ویوسوان اپادھیائے ٹھٹک کر رک جاتے ہیں اور تلخی سے کہتے ہیں، ‘گاؤں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اب یہ لڑکے کیا کریں گے؟’
یہ غصہ شوم سنگھ کے چہرے پر بھی ہے۔ ‘اگنی پتھ اسکیم کے نفاذ سے پہلے یہاں کے لڑکے فوج کی تیاری کرتے تھے۔ میدان میں پریکٹس کرتے تھے۔ اس اسکیم نے نوجوانوں کا مستقبل تقریباً تباہ کر دیا ہے۔ اب وہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔’
اکیس سالہ شوم کا مزید کہنا ہے کہ ‘اب فوج کے لیے میری عمر کی حد بھی ختم ہونے والی ہے۔’ شوم تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ سب سے بڑے بھائی ابھیشیک سنگھ ہندوستانی فوج میں ہیں اور دوسرے موہت سنگھ سی آئی ایس ایف میں جوان ہیں۔
صوبیدار میجر مارکنڈے سنگھ کہتے ہیں،’اگنی پتھ اسکیم نے نوجوانوں کے خوابوں پر تالا لگا دیا ہے۔ میرا گاؤں فوجیوں کا گاؤں ہے۔ ہر سال یہاں سے 18-20 لڑکے بھرتی کیے جاتے تھے۔’ ان کے مطابق اس گاؤں کے تقریباً پندرہ ہزار افراد فوج میں کام کر رہے ہیں اور بیس ہزار سے زیادہ ریٹائرڈ ہیں۔
بتایا گیا کہ یہاں کے آباؤ اجداد نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ وہ 1962 کی بھارت اور چین جنگ، پاکستان کے ساتھ ہوئے 1965 اور 1971 کے جنگوں اور پھر 1999 کی کارگل جنگ کا بھی حصہ تھے۔
فروری 2022 میں لوک سبھا میں جاری کردہ وزارت دفاع کے
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2019-2020 میں ہندوستانی فوج نے مودی حکومت کے دور اقتدار میں سب سے زیادہ بھرتیاں (80572) کی تھیں، اور ان میں سب سے زیادہ بھرتیاں (8425) اتر پردیش سے ہوئی تھیں۔
فوج کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اگنی پتھ اسکیم کے آغاز کے بعد سے اب تک 40000 اگنی ویروں کے دو بیچوں کی تربیت مکمل ہو چکی ہے اور انہیں تعینات کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نومبر 2023 سے 20 ہزار نوجوانوں کے ایک نئے بیچ کی ٹریننگ شروع ہو چکی ہے۔ اسی مدت کے دوران 7385 اگنی ویروں کے تین بیچوں نے بحریہ میں تربیت مکمل کی ہے۔ جبکہ 4955 اگنی ویر نے فضائیہ میں تربیت حاصل کی ہے۔
فوجی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم کے آغاز کے بعد سے کل بھرتی کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ پہلے بھی بھرتیوں کی تعداد تقریباً 55000-60000 سالانہ رہتی تھی۔
غازی پور سے اگنی پتھ کے تحت کی گئی بھرتیوں کے بارے میں جاننے کے لیے دی وائر نے ضلع انتظامیہ سے رابطہ کیا، جس نے کہا کہ ان کے پاس فوج کی بھرتی کے بارے میں کوئی ٹھوس ڈیٹا نہیں ہے۔
گہمر گاؤں غازی پور لوک سبھا کے تحت آتا ہے۔ موجودہ ایم پی افضل انصاری ہیں۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ فخر کی بات ہے کہ میں اس علاقے کا عوامی نمائندہ ہوں۔ اگنی پتھ اسکیم سے فوج میں بھرتی ہونے کا خواب دیکھنے والے نوجوان اور ان کے والدین خوفزدہ ہیں۔’
شام تقریباً 5.30 بجے گہمر کے مٹھیا گراؤنڈ میں کچھ نوجوان ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں مٹھیا یوا سمیتی میدان کے صدر کندن سنگھ بھی ہیں جو نوجوانوں کے لیے میدان تیار کرتے ہیں۔
انہوں نے تقریباً مایوس لہجے میں کہا، ‘پہلے یہاں ڈیڑھ سے دو ہزار لڑکے پریکٹس کرتے تھے۔ آج بیس لڑکے بھی نہیں ہیں۔ اگنی پتھ اسکیم نے بچوں کے خوابوں کو تباہ کردیا ہے۔’
یہ کہتے ہوئے کندن سنگھ غروب ہو رہے سورج اور گہرے ہوتے اندھیرے کے درمیان گھر کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔
(آشوتوش کمار پانڈے آزاد صحافی ہیں)