اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب میں ابھی تقریباً پانچ مہینے باقی ہیں،لیکن سیاسی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ کابینہ میں تبدیلی سے لےکرسیاسی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ تک دیکھنے کو مل رہے ہیں۔لیکن صوبے کی عوام کیا بدلاؤ چاہتی ہے یا موجودہ نظام میں ان کا بھروسہ بنا ہوا ہے؟
یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/MYogiAdityanath)
اتر پردیش اسمبلی انتخاب دراصل2024 کے لوک سبھا انتخاب سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یوگی کی قیادت میں یہ پہلا اہم انتخاب ہوگا اور یہ ان کا امتحان ہے۔ اس میں ایک سخت گیر ہندو نواز اورشدت پسند حکمراں کےطورپر ان کی امیج کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ یہ انتخاب طے کرےگا کہ وہ کبھی ہندوستان کے وزیر اعظم بن پائیں گے یا نہیں۔
دوسرا اگر بھاجپا کسی بھی وجہ سے یہ انتخاب ہار جاتی ہے تو عوام میں ان کی ناقابل تسخیریا مودی شاہ کے انتخابی طلسم کا بھرم ٹوٹ جائےگا اور اس کا سیدھا اثر 2024 کے انتخاب پر پڑےگا۔ دوسرے لفظوں میں اتر پردیش کی ہار بی جے پی کے لیے الٹی گنتی شروع کر دےگی۔
اتر پردیش کے انتخابی ماحول کا یہ پہلا مطالعہ اور تجزیہ ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ رسمی سروے سے گمراہ کن نتیجے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ پبلک میں کسی گرماگرم بحث میں پڑنے سے بچنے کے لیے سیدھے سوال پوچھنے پر اپنے پتے کھولنا نہیں چاہتے اور اس لیے ایمانداری سے جواب نہیں دیتے۔
اس لیےاس مطالعہ کے لیے میں نے اور میرے ساتھیوں نے‘ایلس ٹیشن’ نام کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس میں لوگوں کو باتوں میں الجھا کر انتطار کیا جاتا ہے کہ وہ لاشعوری طور پراپنے خیالات کا اظہار کر دیں۔ اس مطالعے کا مقصد عوام کےتصورات کا پتہ لگانا تھا جن کی بنیاد پر وہ ووٹ کرتے ہیں۔
عوام اپنےتصورات پر ووٹ دیتی ہے ریاضی کی بنیاد پر نہیں۔یہ تصورات کیسے بنتے ہیں،یہ ایک الگ مضمون کا موضوع ہے۔
یہاں آپ اتنا ہی سمجھ لیں یہ سبجیکٹو عمل ہے، معروضی(آبجیکٹو)نہیں۔سیاسی پروپیگنڈہ اور کارپوریٹ سیکٹر کےمصنوعات کےاشتہار میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا۔دونوں میں ہی گراہک کےاستدلال کی صلاحیت کو دباکر اس کےصوابدیدکو سلب کر لیا جاتا ہے، جس سے اس کی پسند اپنےحق میں متاثر کی جا سکے۔
ہم یہ واضح کر دیں کہ ذاتی طور پرکسی پارٹی میں ہماری عقیدت نہیں ہے۔ اس مطالعہ کے لیے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مودی یوگی شاہ یا راہل اکھلیش مایا وغیرہ اصل میں کیا ہیں، کیا کر رہے ہیں، کیا کر چکے ہیں یا کیا کریں گے۔ہمیں صرف اس سےمطلب ہے کہ عوام میں ان کے بارے میں تصورات کیا ہیں۔ اس لیے جب ہم عوام کے ان تصورات کی بات کر رہے ہیں تو اسے ان لوگوں یا دوسرے موضوعات پر ہماراتبصرہ نہ سمجھا جائے۔
ہمارے مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ 2022 میں فی الحال یوگی آدتیہ ناتھ کا پلڑا واضح طورپر بھاری دکھتا ہے۔
بی جے پی حکمرانی میں ووٹوں کا پولرائزیشن فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا ہے، وہ بذات خودیوگی کی جیت کے لیے کافی ہے۔ایودھیا میں رام مندر کو لےکرپیدا ہوئی خوشی ابھی باسی نہیں پڑی ہے۔ بھلے ہی فیصلہ سپریم کورٹ کا رہا ہو،عوام نے اس کا سہرا بی جے پی کو دیا ہے۔
عوام میں یوگی کی امیج ہندوؤں کےسخت گیراور جارحانہ حامی کےطورپر ہے۔اس میں انہیں مودی سے بیس ہی سمجھا جا رہا ہے اور یہ مانا جا رہا ہے کہ اگر وہ نہ رہے تو ہندو ‘خطرے میں پڑ جا ئیں گے’۔
عوام میں یوگی کے حق میں سب سے بھاری چیزنظم ونسق کو لےکر ان کی ایک سخت حکمراں یا ایک‘ٹف اور سٹرانگ مین’کی امیج کی ہے۔پولیس انکاؤنٹروں یا نام نہاد‘آپریشن لنگڑا’کی اخلاقی بنیاد پر جو بھی تنقید کی جائے، ہم نے عوام کو اس سے خوش پایا۔ عوام بدنام زمانہ مافیا لوگوں پر کی گئی قرقی اور گھر توڑنے کی کارروائی سے بھی بےحد خوش ہے۔
عوام کا ماننا ہے کہ یوگی نے مسلمانوں کو ‘ٹائٹ’کر دیا ہے اور اب وہ اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔ بھلے ہی ہائی کورٹ کےمتعدد فیصلے(جیسے ڈاکٹرکفیل خان،سی اےاےمخالف دنگوں میں مسلمانوں پر کارروائی، پوسٹرس کا معاملہ، گائے کے گوشت کی فروخت کےمعاملے، لو جہاد یابین مذہبی شادی،یا ہاتھرس کیس) ریاستی سرکار کےخلاف رہے ہوں، عوام نے یہ مان لیا ہے کہ یوگی تو مسلمانوں کو ‘ٹھیک’ کر دینا چاہتے ہیں پر ہمارانوآبادیاتی عدالتی نظام آڑے آ جاتا ہے۔
میڈیا میں اکثر یہ سنا جاتا ہے کہ لوگ کورونا کی ٹریجڈی بھولیں گےنہیں۔اس کےبرعکس ہم نے پایا کہ ٹیکہ کاری کےپروپیگنڈہ کی ہوا میں کورونا کی ٹریجڈی، آکسیجن کی قلت، رشتہ داروں کی موتیں اور ندیوں میں بہتی لاشوں کے منظر کو لوگ نوشتہ تقدیر مان کر بھول بھی چکے ہیں۔
اسی طرح سے رافیل کا مدعا بھلا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں پٹرول اور گیس کی قیمتیں بھی انتخاب کو متاثر نہیں کرتی پائی گئیں۔
ایک تو اپوزیشن اس پرعوام کو مشتعل کرنے میں مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے۔دوسرےوہاٹس ایپ یونیورسٹی نے عوام کو یہ نیریٹو بیچ دیا ہے کہ پچھلی سرکاروں نے بھینکر غیرملکی قرض چھوڑا تھا جو مودی کو چکانا پڑا ہے اور فوج کے لیے نئے نئے ہتھیار خریدے گئے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمتوں کا فائدہ عوام کو نہیں مل پایا۔
عوام کو جانکاری نہیں چاہیے، ان کے لیے بےحد آسان جواب ہی صحیح جواب ہے۔
مہنگائی، بےروزگاری ان سب کے لیے عوام کو وہاٹس ایپ یونیورسٹی نے سمجھا دیا ہے کہ وہ آرٹیکل 370 کے فیصلے سے خوش رہیں پندرہ لاکھ کا کیا رونا رونا، یہ کم ہے کیا کہ سرینگر کے گنپتیار مندر میں گنیش چترتھی کی پوجا ہوئی؟
تین طلاق کے مسئلے پر ہم نے کئی مسلمانوں میں یہ خوف پایا کہ ان کی کمیونٹی کی عورتیں کہیں چپکے سے بی جے پی کو ووٹ نہ دے دیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسدالدین اویسی اکثر مسلم ووٹ کٹوا ہی پائیں گے، جس سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔
کسانوں کی تحریک ابھی زندہ مسئلہ ہے لیکن فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو پچھاڑ پائےگا اس میں شک ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ مودی نے اسے بڑی چالاکی سے لمبا کھنچواکر اس کی دھار کند کر دی ہے۔کسانوں کی تحریک جلد کی بیماری کی طرح ہو گئی ہے، جس نے شروع میں تو پریشان کیا لیکن دھیرے دھیرےاس سے دھیان جاتا رہا۔
یوگی کی امیج پر ٹھاکرواد کا الزام تھا۔ وہ ان کےمحبوب اعلیٰ افسروں کے انتخاب اور دھننجے سنگھ جیسے لوگوں پر کارر وائی سے کنٹرول ہوا ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن نے برہمنوں کو پھسلانے کی جو بچکانہ قواعد کی ہے، اس سے یوگی کو ذرا بھی نقصان نہیں ہوا ہے۔
ہم نے پایا کہ کچھ عدم اطمینان کے باوجود برہمنوں کے پاس بی جے پی کے علاوہ کوئی ٹھوس متبادل نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اپوزیشن میں ان کی حقیقی صورتحال کیا ہوگی۔نام نہادسوشل انجینئرنگ برہمنوں کو بی جے پی سے دور نہیں کر سکتی۔
اپوزیشن کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ووٹوں کے مذکورہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا مقابلہ وہ صرف پسماندہ اورایس ٹی ووٹوں کے پولرائزیشن سے ہی کر سکتے ہیں اور فی الحال اس کے کوئی آثار نہیں نظر آتے۔
منڈل نے کمنڈل کو ایک بار حاشیے پر لا دیا تھا، اب مشکل ہے۔ لوگ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ غیریادو پسماندہ کمیونٹی جیسے نونیا، کوئری، بھر، راج بھر، کمہار، گڑیریا، نائی وغیرہ کے ووٹ ابھی بھی بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہیں باہر کھینچ پانا مشکل ہے۔
مشرقی اتر پردیش میں یادو ووٹوں کےلیے بھی کہا جا رہا ہے کہ گڑھواگھاٹ مٹھ کے مہنت، جن کا ادھر کے یادووں پر بڑا اثر ہے، ان کےشاگرد رادھےشیام سنگھ یادو اور بھوپیندر یادو کافی یادو ووٹ بی جے پی کے لیے کھینچ رہے ہیں۔
عوام کو بی جے پی میں اندرونی کشیدگی ، عدم اعتماد فریب کا علم ہے اور بہتیرے کیشو موریہ اےکے شرما کا ذکر بھی کرتے ہیں۔انہیں یوگی اور سنگھ کے تعلقات میں کشیدگی کا بھی پتہ ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے ان کے یوگی کو ووٹ دینے کے فیصلےپر اثر نہیں پڑےگا۔
عوام کا ماننا ہے کہ 2024 کے انتخاب کے مدنظر سنگھ 2022 کے انتخاب کی اہمیت کوبخوبی سمجھتا ہے اور اس لیے ان کی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائےگی۔ اس تناظر میں لوگ سنگھ کے ذریعے جولائی میں ہی چترکوٹ اور ورنداون میں منعقد دو چنتن کیمپوں کا ذکر کر رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن سو رہی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نہ صرف عوام کے بیچ جاکر عوام کے مدعے اٹھانے میں بری طرح ناکامیاب رہا ہے، وہ یہ بتانے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار سونپا گیا تو وہ ایسا کیا کر دیں گے جو یوگی ابھی نہیں کر رہے ہیں۔
ابھی انتخاب میں وقت باقی ہے۔ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو عین وقت پر عوام کو بد کا سکتی ہیں۔ جیسےانتخاب کے پہلے کہیں کورونا کی تیسری لہر آ گئی جس سے افراتفری مچ جائے تو سرکار کی امیج بگڑےگی۔ کہیں ایسے دنگے ہو گئے جنہیں کنٹرول کرنے میں وقت لگ جائے تو بھی امیج بگڑےگی۔ مگر فی الحال یوگی کا وجئے رتھ رکتا نہیں نظر نہیں آ رہا۔
(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )