معاملہ ویر بہادر سنگھ پوروانچل یونیورسٹی کا ہے، جہاں ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں یہ انکشاف ہوا ہےکہ فارمیسی کورس کے امتحان میں کچھ طالبعلموں نے ‘جئے شری رام’ اور کرکٹ کھلاڑیوں کے نام لکھے تھے۔ اس کے باوجود انہیں اچھے نمبر دیے گئے۔
نئی دہلی: آر ٹی آئی کے تحت دائر ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ اتر پردیش واقع سرکاری ویر بہادر سنگھ پوروانچل (وی بی ایس پی) یونیورسٹی میں امتحان کے دوران پرچے میں ‘جئے شری رام’ اور ٹاپ ہندوستانی کرکٹروں کے نام لکھنے والے فارمیسی کورس کے پہلے سال کے کم از کم چار طالبعلموں کو 50 فیصد نمبر دیے گئے۔
ٹائمز آف انڈیا نے بتایا ہے کہ جونپور کی ایک یونیورسٹی میں ڈپلومیسی ان فارما کورس کے چار طالبعلموں کو سوالوں کے صحیح جواب نہ دینے کے باوجود نمبر ملے۔
تاہم، ہندوستان ٹائمز نے بتایا ہے کہ ایسے طالبعلموں کی تعداد 18 تک ہو سکتی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، مذہبی نعروں اور گانوں کے بول سے مزین پرچوں پر طالبعلموں کو نمبر دینے کے الزام میں یونیورسٹی کے دو پروفیسر ونے ورما اور منیش گپتا کو معطل کر دیا گیا ہے۔
آر ٹی آئی درخواست یونیورسٹی کے سابق طالبعلم دیویانشو سنگھ نے دائر کی تھی۔ انہوں نے طالبعلموں کو دیے گئے نمبروں پر سوال اٹھایا اور وزیر اعظم، یوپی کے وزیر اعلیٰ، گورنر اور وائس چانسلر کو خط لکھ کر الزام لگایا کہ ایک طالبعلم جس کو صفر ملنا چاہیے تھا، اس نے یونیورسٹی حکام کے ساتھ ملی بھگت سے امتحان میں 60 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل، جو یونیورسٹی کی چانسلر بھی ہیں، کی جانب سےمعاملے کی تحقیقات کا حکم دیے جانے کے بعد یونیورسٹی نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ وائس چانسلر وندنا سنگھ نے کہا کہ کمیٹی نے ‘اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبعلموں کو زیادہ نمبر دیے گئے ہیں۔’
این ڈی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نے پرچے دیکھے ہیں جن میں ‘کیریئر کے طور پر فارمیسی’ کے بارے میں لکھے گئے جواب کے بیچ میں ‘جئے شری رام’ لکھا ہوا تھا۔ اسی جواب میں ہاردک پانڈیا، وراٹ کوہلی اور روہت شرما جیسے کرکٹروں کے نام بھی لکھے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق، انہوں نے تصدیق کی کہ کمیٹی نے دونوں اساتذہ کی خدمات ختم کرنے کی سفارش کی ہے، جسے یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی سے ابھی منظور کیا جانا ہے۔
وی بی ایس پی کے وائس چانسلر نے کہا، ‘اساتذہ کو خبردار کیا گیا ہے تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ کمیٹی نے اس میں ملوث اساتذہ کو برخاست کرنے کی سفارش کی ہے۔ لیکن ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہے اور اس کے خاتمے کے بعد آگے کی کارروائی کی جائے گی۔