ایک حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق، 2022 میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے تقریباً 97.7 فیصد واقعات 13 ریاستوں میں درج کیے گئے، جن میں یوپی، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ایسے جرائم سب سے زیادہ درج ہوئے۔
نئی دہلی: ایک نئی سرکاری رپورٹ کے مطابق، 2022 میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے تقریباً 97.7 فیصد واقعات 13 ریاستوں میں درج کیے گئے، جن میں اتر پردیش، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ایسے جرائم سب سے زیادہ ریکارڈ کیے گئے۔
دی ہندو نے لکھا ہے کہ ، ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے خلاف مظالم کی اکثریت بھی 13 ریاستوں میں تھی، جہاں 2022 میں تمام معاملوں کا 98.91 فیصد معاملہ درج کیا گیا تھا۔
سال 2022 میں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کے لیےقانون کے تحت درج کیے گئے 51656 معاملوں میں سے اتر پردیش میں12287معاملوں کے ساتھ کل معاملوں کا 23.78فیصد تھا، اس کے بعد راجستھان میں8651 (16.75فیصد) اور مدھیہ پردیش میں 7732 (14.97فیصد) معاملے درج کیے گئے۔
دیگر ریاستوں میں جن میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف مظالم کے اہم واقعات اس طرح درج کیے گئے- بہار 6799 (13.16فیصد) ،اڑیسہ 3576 (6.93فیصد) اور مہاراشٹرا 2706 (5.24فیصد)۔
ان چھ ریاستوں میں کل معاملوں کا تقریباً 81 فیصد حصہ تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا،’سال 2022 کے دوران آئی پی سی کے ساتھ ایس سی ایس تی ایکٹ کے تحت درج فہرست ذاتوں کےلوگوں کے خلاف مظالم کے جرائم سے متعلق کل معاملوں (52866) میں سے 97.7 فیصد (51656) ) تیرہ ریاستوں میں رجسٹر ہوئے۔
اسی طرح درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کے زیادہ تر معاملات 13 ریاستوں میں تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درج فہرست قبائل کے لیے قانون کے تحت درج کیے گئے 9735 معاملوں میں سے مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ 2979 (30.61فیصد) معاملے درج کیے گئے۔
راجستھان میں2498(25.66فیصد)معاملے سامنے آئے، جو دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ اڑیسہ میں 773 (7.94فیصد) معاملے سامنے آئے۔ دیگر ریاستوں میں مہاراشٹر میں691 (7.10فیصد) اور آندھرا پردیش میں 499 (5.13فیصد) معاملے سامنےآئے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈیٹا میں ایکٹ کے تحت تفتیش اور چارج شیٹ کی صورتحال کے بارے میں بھی معلومات دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ سے متعلق معاملوں میں 60.38 فیصدمعاملے میں چارج شیٹ داخل کی گئیں، جبکہ 14.78 فیصد معاملوں میں جھوٹے دعوے یاشواہد کے فقدان جیسی وجوہات کی بنا پر حتمی رپورٹ دی گئی۔
سال 2022 کے آخر تک 17166 معاملوں کی تفتیش زیر التوا تھی۔
درج فہرست قبائل سے متعلق معاملات میں 63.32 فیصد معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی، جبکہ 14.71 فیصد معاملوں میں حتمی رپورٹ دی گئی۔
رپورٹنگ کی مدت کے اختتام پر درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم سے متعلق 2702 مقدمات ابھی بھی زیر تفتیش تھے۔
رپورٹ میں سب سے زیادہ تشویشناک رجحانوں میں سے ایک ہے اس ایکٹ کے تحت معاملوں میں سزا کی شرح میں گراوٹ۔ سزا کی شرح 2020 میں 39.2 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 32.4 فیصد رہ گئی۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں اس قانون کے تحت معاملوں کو نمٹانے کے لیے قائم خصوصی عدالتوں کی ناکافی تعداد کی نشاندہی بھی کی گئی۔
چودہ ریاستوں کے 498 اضلاع میں سے صرف 194 نے ہی ان معاملوں میں تیزی لانے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی تھیں۔
رپورٹ میں ایسے اضلاع کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو خاص طور پر مظالم کا شکار ہیں، جن میں سے صرف 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے ایسے اضلاع کا اعلان کیا ہے۔ باقی ریاستوں نے کہا کہ ایسا کوئی ضلع نہیں ہے جو اس طرح کے مظالم کا شکار ہو۔
اتر پردیش، جہاں درج فہرست ذاتوں کے خلاف مظالم کے سب سے زیادہ معاملےسامنے آئے، ان صوبوں میں سے ایک تھا، جس نے کہا کہ ‘اتر پردیش میں مظالم کے شکار کسی علاقے کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔’
رپورٹ میں ان اضلاع میں نسلی تشدد کے واقعات کو روکنے اور کمزور طبقات کے لیے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، میگھالیہ، میزورم، اڑیسہ، پنجاب، راجستھان، سکم، تمل ناڈو، تلنگانہ،تریپورہ، اتر پردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، انڈمان اور نکوبار جزائر، چندی گڑھ، قومی دارالحکومت دہلی، جموں و کشمیر، لداخ اور پڈوچیری میں ایس سی/ایس ٹی پروٹیکشن سیل قائم کیے گئے ہیں۔
پانچ ریاستوں – بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، کیرالہ اور مدھیہ پردیش – نے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے خلاف جرائم کی شکایات درج کرنے کے لیے خصوصی پولیس اسٹیشن قائم کیے ہیں۔