اترپردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی میں جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف ہو رہا مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا،جس میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کی علی گڑھ پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے 6 طلبا کے خلاف غنڈہ ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا پروسیس شروع کر دیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، دہلی کے جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کی مخالفت میں 15 دسمبر کو اے ایم یو میں ہوئے مظاہرے میں حصہ لینے کے لیے ان طلبا پر یہ ایکٹ لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔
پچھلے ہفتے پولیس نے علی گڑھ ضلع مجسٹریٹ کو اپنی رپورٹ بھیجی تھی، جس میں 6 میں سے چار اسٹوڈنٹ ندیم انصاری، حمزہ صوفیان،حذیفہ عامر اور عامر منٹو کے مجرمانہ ریکارڈ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ان طلبا پر پہلے بھی دفعہ 353 سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ انصاری اور حذیفہ اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے سابق نائب صدر ہیں، امت سابق سکریٹری اور منٹو اسٹوڈنٹ رہنما ہیں۔
سول لائنس کے سرکل آفیسر انل کمار نے کہا، ‘ضلع انتظامیہ نے سبھی چاروں طلبا کو نوٹس جاری کر انہیں جواب دینے کو کہا ہے۔’انہوں نے کہا کہ اگر ان طلبا پر غنڈہ ایکٹ لگا تو یہ 6 مہینے کے لیے علی گڑھ سے برخاست ہو جائیں گے۔ پولیس دیگر دو اسٹوڈنٹ رہنما شرجیل عثمانی اور فرحان کے لیے بھی یکساں رپورٹ تیار کر رہی ہیں۔
بتا دیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ہوئے تشدد کے بعد پولیس کی کارروائی کو لےکر فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 24 دسمبر کو ایک رپورٹ جاری کی تھی۔فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ ‘دی سیز آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی’میں کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جامعہ سے بھی زیادہ بے رحمی سے طلبا کو پیٹا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ، ‘یونیورسٹی کے وائس چانسلر، رجسٹرار اور پراکٹر کا کہناتھا کہ پتھراؤ اورتشدد کی دوسری وارداتوں کی وجہ سے انہیں ریپڈ ایکشن فورس اور پولیس کو یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کی منظوری دینی پڑی تاکہ کیمپس میں امن کی بحالی ہو سکے اور جان و مال کا نقصان نہ ہو۔’
لیکن رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ، ‘اگر حقیقت میں ایسا تھا تو یہ ابھی تک صاف نہیں ہے کہ باب سید (گیٹ) اپنے آپ چار ٹکڑوں میں کیسے ٹوٹ گیا۔ لوہے کے بھاری گیٹ کے کونے کیسے اتنی باریکی سے کٹے ہوئے پاے گئے، جبکہ گیٹ کے تالے صحیح سلامت تھے۔’
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے مبینہ طور پر طلبا کا پیچھا کیا اور ان پر اندھادھن لاٹھی چارج کیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے، اسٹن گرینیڈ اور گولیوں کا استعمال کیا۔رپورٹ میں پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس پر الزام لگائے گئے کہ انہوں نے زخمی طلبا کو طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کرایا۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی کے جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے ساتھ کی گئی کارروائی کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا،جو پر تشدد ہو گیا۔طلبا اور پولیس اہلکاروں کی جھڑپ میں میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ان میں کچھ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔