اتر پردیش میں پولیس کانسٹبل بھرتی کا پیپر لیک ہونے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب نوجوانوں کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے۔ بھرتی امتحانات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے واقعات کے پیش نظر نوجوان اکثر سڑکوں پر جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں، وہیں بھرتیوں کا طویل انتظار بھی ان کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔
نئی دہلی: ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے۔ اس حکومت کی یہ دوسری میعاد ہے اور ریاست میں پیپر لیک اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے۔
بھرتی پیپر میں بے ضابطگی اور دھاندلی کی وجہ سے ریاست کے نوجوان اکثر ہی سڑکوں پر جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں، وہیں دوسری طرف بھرتیوں کا طویل انتظار بھی ان کے مستقبل کو تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے۔
دی وائر کی سرکاری بھرتیوں میں گھوٹالے کی اس کڑی میں ہم اتر پردیش کے کچھ بدنام زمانہ پیپر لیک اور بھرتی گھوٹالوں پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔
پچھلے سالوں میں مقابلہ جاتی امتحانات کے پیپر لیک اور اس پر کی گئی کارروائی
پیپر لیک اتر پردیش میں ایک ‘منظم جرم’ ہے۔ نقل اور پیپر لیک کا ریکٹ چلانے والوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ اس کی تحقیقات اسپیشل ٹاسک فورس کرتی ہے۔
اتر پردیش اسٹیٹ لاء کمیشن نے پچھلے سال مقابلہ جاتی اور اکیڈمک امتحانات سے متعلق سوالناموں کو لیک ہونے سے روکنے اور پیپر حل کرنے والے گروہ پر لگام لگانے کے لیے ایک قانونی مسودہ تیار کیا تھا ۔ اس مجوزہ قانون میں 14 سال قید اور 25 لاکھ روپے تک کے جرمانے کا اہتمام ہے۔
اس کے علاوہ ریاست میں نقل کے خلاف دو قانون موجود ہیں۔ پہلا، اتر پردیش پبلک اگزامینیشن (پریونشن آف ان فیئر مینس) ایکٹ 1992 اور اتر پردیش پبلک اگزامینیشن (پریونشن آف ان فیئر مینس) ایکٹ 1998۔ ان قوانین میں نابالغ امیدواروں کی کم عمری کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف علامتی سزا کے لیے اہتمام تھے۔
انہتر ہزار اساتذہ بھرتی کا گھوٹالہ
انہتر (69) ہزار اساتذہ بھرتی گھوٹالے کو یوپی کا ‘ویاپم گھوٹالہ’ بھی کہا جاتا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے 1 دسمبر 2018 کو ریاستی حکومت نے اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری کے لیے 69000 اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے امتحان 6 جنوری 2019 کو منعقد ہوا تھا۔ مئی 2019 میں جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو امیدواروں نے پایا کہ ریزرویشن دینے کے طریقے میں کئی طرح کے تضادات ہیں۔
امیدواروں نے دعویٰ کیا کہ 18500 سیٹوں کے مقابلے جو درج فہرست ذات (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور او بی سی زمروں کے امیدواروں کے لیے مختص کی جانی تھیں، مخصوص زمرے صرف 2637 نشستیں مختص کی گئیں۔
امیدواروں نے الزام لگایا کہ بنیادی طور پر ریزرو زمروں کی 15863 سیٹیں جنرل زمروں کے امیدواروں امیدواروں کو الاٹ کی گئیں۔ اسی طرح کے الزامات درج فہرست ذات (ایس سی) زمرے کے امیدواروں کے لیے مختص نشستوں کے بارے میں بھی لگائے گئے تھے۔ امتحان دینے والوں کا کہنا تھاکہ درج فہرست ذات کے امیدواروں کو لازمی 22.5 فیصد کے بجائے صرف 16 فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا ۔
جب یہ معاملہ دیگر پسماندہ طبقات کے قومی کمیشن تک پہنچا تو کمیشن نے جانچ کے بعد امتحان کے لیے اپنائے گئے ریزرویشن کے طریقے میں تضاد پایا۔ کمیشن کی رپورٹ کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپریل 2021 میں اس معاملے کا نوٹس لیا اور شکایات کا ازالہ کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، اس وقت تک ریاستی اسمبلی انتخابات ( 2022) کا وقت آ چکا تھا اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) نافذ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے بھرتی کا عمل روک دیا گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، جون 2020 تک یوپی پولیس نے اس مبینہ گھوٹالے میں 10 لوگوں کو گرفتار کیا تھا ۔ اس وقت پولیس نے ملزمین کے پاس سے 22 لاکھ روپے اور دو لگژری کاریں ضبط کی تھیں ۔ کلیدی ملزم کی شناخت سابق ضلع پنچایت ممبر کے ایل پٹیل کے طور پر ہوئی تھی۔
نو سال بعد منسوخ ہوئی امداد یافتہ سیکنڈری اسکولوں میں پرنسپل کی بھرتی
بلیا کے برجیش یادو بتاتے ہیں کہ تقریباً ایک دہائی قبل سال 2013 میں امداد یافتہ (ایڈیڈ) سیکنڈری اسکولوں میں پرنسپلوں کی بھرتی کے لیے امتحان لیا گیا تھا۔ اسی سال سیکنڈری ایجوکیشن سروس سلیکشن کمیشن نے پرنسپل کی 632 آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کیا تھا۔ کئی سالوں تک تنازعات کی وجہ سے معاملہ ٹھنڈے بستے میں رہنے کے بعد سلیکشن بورڈ نے نومبر 2022 کے درمیان 632 میں سے 581 آسامیوں کے نتائج کا اعلان کیا ۔ لیکن ابھی منتخب افراد میں سے صرف نصف نے ہی چارج سنبھالے تھے کہ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فروری 2023 میں سلیکشن کےعمل میں نو سال لگنے کا حوالہ دیتے ہوئے بھرتی کو منسوخ کر دیا ۔ یہ ان امیدواروں کے ساتھ بیہودہ مذاق تھا، جنہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال اس میں جھونک دیے۔
غور طلب ہے کہ کئی بھرتی امتحانات میں پیپر لیک اور دھاندلی کے واقعات کے درمیان یوپی کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے چار لاکھ نوکریوں کے دعوے والے پوسٹر نہ صرف یوپی میں بلکہ کئی دیگر ریاستوں میں بھی لگائے گئے تھے۔
نوجوانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ’یووا ہلہ بول‘ کے قومی جنرل سکریٹری پرشانت کمل نے دی وائر کو بتایا کہ ان کی تنظیم نے اس کے خلاف مضبوط آواز اٹھائی تھی، ’فیک نیوز اسپاٹیڈ مہم‘ چلائی تھی، سرکار سے سوال کیا تھا کہ آپ نے کس محکمے میں، کہاں کتنی نوکریاں دی ہیں؟ اس کے جواب میں حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ بالآخر ہر طرف سے تنقید کے بعد حکومت کو ان پوسٹروں کو ہٹانا پڑا تھا۔
پیپر لیک کے لیے سرکار ذمہ دار؟
پرشانت کمل کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں بھی پیپر لیک اور روزگار کا مسئلہ تھا، لیکن اس وقت کی حکومتیں اس مسئلے کا نوٹس لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
پرشانت کہتے ہیں،’پچھلے کچھ سالوں میں تقریباً ہر بھرتی کے امتحان میں دھاندلی کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ اول تو حکومت کو سرکاری نوکریوں کو پورا کرنے میں برسوں لگ رہے ہیں۔ اس کے بعد پیپر لیک نوجوانوں کو دوبارہ صفر پر پہنچا دے رہا ہے۔’
الہ آباد یونیورسٹی کے طالبعلم پیپر لیک کے لیے سسٹم اور حکومت کو قصوروار مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپر لیک اور بھرتی گھوٹالوں میں بھی کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر انوپم کمار کا کہنا ہے کہ ‘پیپر لیک ہونے سے نہ صرف نوجوانوں کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کے خواب بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ زیادہ تر وہ طالبعلم سرکاری نوکری کی تیاری کرتے ہیں، جو نچلے متوسط گھرانوں سے آتے ہیں۔ ایسے میں پیپر لیک ہونے کی وجہ سے ان کی برسوں کی محنت اور پیسہ ایک ہی بار میں ضائع ہو جاتا ہے۔’
(اس سیریز کی تمام رپورٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )