اتر پردیش کے مظفرنگر میں شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں پولیس نے تقریباً 259 لوگوں پر فساد، آگ زنی اورقتل کی کوشش کا الزام لگایا اورتقریباً82 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے مظفرنگر میں شہریت (ترمیم)ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میں پولیس نے تقریباً 259 لوگوں پر فساد کرنے، آگ زنی اور قتل کی کوشش کرنے کا الزام لگایا اورتقریباً 82 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔حالانکہ، لگ بھگ ایک مہینے بعدمقامی عدالتوں نے ان میں سے تقریباً 40 لوگوں کو ضمانت دے دی ہے اور ان کے خلاف لگائے گئےدفعا ت بھی ہٹا دیے ہیں۔
دی ہندو کے مطابق، سنیچر کو مدرسہ علمیہ کے تین اسٹوڈنٹ کو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ روی کانت یادو نے ضمانت دے دی تھی۔ ان پردفعہ 307 سمیت کئی سنگین الزام لگائے گئے تھے۔ صرف دفعہ 188(دفعہ 144 کی خلاف ورزی)اور 143(غیرقانونی اجلاس) ان کے خلاف اب بھی قائم ہیں۔
اس سے پہلے جمعہ کو ضلع جج سنجے کمار پچوری نے 20 دسمبر، 2019 کو احتجاج اور مظاہرے کے سلسلے میں گرفتار 14 لوگوں کی ضمانت عرضی منظور کی۔انہوں نے ہدایت دی کہ ہرایک ملزم کے ذریعےایک ایک لاکھ روپے کی دو ضمانت رقم جمع کرانے کے بعد ہی انہیں رہا کیا جائے۔
غور طلب ہے کہ اس مہینے کی شروعات میں سعادت ہاسٹل سے گرفتار کئے گئے مدرسہ علمیہ کے دس اسٹوڈنٹ کو ضمانت دے دی گئی تھی۔ پابندیوں کی خلاف ورزی کے علاوہ پولیس کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔اس سے پہلے اسی مدرسے کے پانچ اسٹوڈنٹ اور چار سرکاری حکام کو آئی پی سی کی دفعہ 169 کے تحت چھوڑا گیا تھا۔
ایڈیشل ضلع مجسٹریٹ اتل کمار نے کہا، ‘مناسب کارروائی کی جا رہی ہے۔ الزاموں کو صرف الزام نامہ کی سطح پر ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ جہاں کوئی ثبوت نہیں ملنے کے ایسے معاملوں میں لوگوں کو سی آر پی سی کی دفعہ 169 کے تحت رہا کیا جا رہا ہے۔’اس بیچ، پولیس نے سوشل میڈیا اور اخباروں کے ذریعے ایک مدرسہ کے اسٹوڈنٹ کا پولیس کی حراست میں جنسی استحصال کئے جانے کی جھوٹی خبرمبینہ طور پر پھیلانے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف بھی ایک معاملہ درج کیا ہے۔
پولیس کے مطابق، اس بارے میں ایک شخص نے شکایت درج کرائی تھی۔ مدرسہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کے کسی بھی اسٹوڈنٹ کے ساتھ جنسی استحصال کا معاملہ نہیں ہوا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)