مرکز کی مودی حکومت نے گزشتہ ماہ جولائی میں پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ ریاستی حکومتوں اور یونین ٹریٹری نے بالخصوص آکسیجن کی کمی کی سے کسی بھی موت کی اطلاع نہیں دی ہے۔حالاں کہ ایک ماہ بعد اگست میں پہلی بار مرکز نے اعتراف کیا تھاکہ آکسیجن کی کمی کے باعث کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی موت ہوئی۔
مئی2021 میں اتر پردیش کے زیور کے میولا گوپال گڑھ گاؤں میں اپنی بیمار ماں کے ساتھ دینیش کمار۔ (فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے جمعرات کو قانون ساز کونسل میں دعویٰ کیا کہ ریاست میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی سے کسی بھی شخص کی موت کی اطلاع نہیں ہے۔
وقفہ سوال کے دوران کانگریس کے رکن دیپک سنگھ کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صوبےکے وزیر صحت جئے پرتاپ سنگھ نے کہا، صوبے میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی کسی بھی شخص کی موت کی اطلاع نہیں ہے۔
دیپک سنگھ نے اس پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا، حکومت کے کئی وزیروں نے خط لکھ کر کہا ہے کہ صوبے میں آکسیجن کی کمی سے موتیں ہو رہی ہیں۔اس کے علاوہ کئی ارکان پارلیامنٹ بھی ایسی شکایتیں کر چکے ہیں۔ اتر پردیش میں آکسیجن کی کمی سے موت کے کئی معاملےسامنے آئے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا، کیا پورے صوبے میں آکسیجن کی کمی سے ہونے والی موت کے بارے میں حکومت کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے؟ کیا حکومت کو گنگا میں تیرتی لاشیں اور آکسیجن کی کمی سے تڑپتے لوگوں کی تکلیف نظر نہیں آئی تھی؟
ایس پی ممبر ادے ویر سنگھ نے سوال کیا،اتر پردیش حکومت نے آگرہ کے پارس اسپتال کے خلاف کارروائی کی، کیونکہ ان کے اسپتال کے ڈاکٹر کا ویڈیو وائرل ہوا تھا اور یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے آدھے مریضوں کو ہی آکسیجن دی گئی اور آکسیجن کی سپلائی نہ ہونے سے آدھے مریضوں نے دم توڑ دیا، کیونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ہدایت پر آکسیجن کی سپلائی بند کر دی گئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ،ریاستی حکومت نے خود اس معاملے میں ایکشن لیا ہے، ایسے میں وہ ایوان میں غلط بیانی کیسے کر سکتی ہے کہ اتر پردیش میں آکسیجن کی کمی سے کسی کی موت نہیں ہوئی۔
وزیر صحت نے کہا کہ اسپتال میں داخل مریضوں کی موت ہونےکی صورت میں ڈاکٹر کی طرف سے اس کی موت کا سرٹیفکیٹ تحریری طور پر دیا جاتا ہے۔ صوبے میں کووڈ-19 کی وجہ سے اب تک 22915 مریضوں کی موت ہوئی ہے، سرٹیفکیٹ میں کہیں بھی آکسیجن کی کمی سے موت کا ذکر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مختلف بیماریوں اور لاعلاج بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔آکسیجن کی کمی پہلےتھی۔ سب جانتے ہیں کہ اس دوران آکسیجن کا انتظام دوسری ریاستوں سے لا کر کیاگیا تھا۔
وزیر صحت نے مزید کہا کہ، جہاں تک پارس اسپتال کی بات ہے تو اس معاملے کی پوری جانچ کی گئی تھی۔ ضلع مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر کی جانچ رپورٹ بھی آئی تھی، جس میں ماک ڈرل کی بات آئی تھی۔ اس میں آکسیجن کی کمی سے کسی کی موت کا ذکر نہیں ہے۔
اس پر ادے ویر سنگھ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاستی حکومت ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کے بجائے فنا لکھے تو کیا موت کی حقیقت بدل جائے گی۔ جب حکومت نے کسی کو آکسیجن بند کرنے کی وجہ سے ہوئی موت کے الزام میں جیل بھیجا تو پھر وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ آکسیجن کی کمی سے کسی کی موت نہیں ہوئی۔
دیپک سنگھ نے دلیل دی کہ حکومت کے جن وزیروں نے آکسیجن کی کمی سے متعلق خط لکھے تھے، کیا وہ جھوٹے تھے؟
دنیش شرما نے کہا کہ وزیر صحت نے پوچھے گئےسوال کا جواب دے دیا ہے۔ اپوزیشن کویہ کہنا چاہیے کہ اتر پردیش حکومت کی مستعدی اور تیزی کی وجہ سے دوائیوں کی دستیابی اور علاج کے انتظامات کی وجہ سے ہم ممکنہ بڑے حادثے کو ٹالنے میں کامیاب رہے۔
حکومت کے اس جواب کے بعد کانگریس نے جمعہ کو ٹوئٹ کیا اور کہا، پارلیامنٹ ہو یا قانون ساز کونسل، بی جے پی ہر جگہ اپنا سفاک چہرہ دکھاتی ہے۔ یوپی قانون ساز کونسل میں کانگریس کے ایم ایل سی دیپک سنگھ کے سوال پر حکومت کی طرف سے آکسیجن کی کمی سے موت نہ ہونے کا بیان بڑا سفاکانہ ہے۔
ایک اور ٹوئٹ میں، کانگریس نے کہا، وزیر اعظم کے پارلیامانی حلقے سے لے کر وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع تک سانسوں کے لیے تڑپتے ہوئے لوگوں کی تصویریں اتر پردیش نہیں بھولے گا۔ بی جے پی حکومت بھلے ہی قانون ساز کونسل میں آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات سے انکار کردے، لیکن عوام کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ دور نہیں ہوگی۔
گزشتہ مئی کے مہینے میں محنت اور روزگار کے وزیر سنتوش گنگوار نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا تھا جس میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے اسپتال میں داخل ہونے میں بدنظمی ،افراتفری اور افسران کے فون نہ اٹھانے کی شکایت کی تھی۔
مرکزی وزیر نے ملٹی پیرا مانیٹر، بایو پیک مشین، وینٹی لیٹر اور دیگر ضروری آلات بازار میں ڈیڑھ گنا قیمت پر فروخت کیے جانے کی بھی شکایت کی تھی اور حکومت سے ان چیزوں کی قیمت طے کرنے کی درخواست کی تھی۔
گنگوار نے خط میں کہا تھا کہ بریلی میں آکسیجن کے خالی سلنڈروں کی شدید کمی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شہر کے بہت سے لوگوں نے احتیاط کے طور پر اپنے گھروں میں آکسیجن سلنڈر رکھے ہوئے ہیں اور وہ انہیں من مانی قیمتوں پر فروخت بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے درخواست کی کہ انتظامیہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکےان کے خلاف کارروائی کرےتاکہ ضرورت مندوں تک آکسیجن سلنڈر پہنچایا جاسکے۔
مئی کے مہینے میں ہی اتر پردیش کی بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے دو ایم ایل اے نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے اضلاع میں آکسیجن اور دیگر ضروری اشیاء کی کمی ہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کی موت ہو رہی ہے۔
یہ خط اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع کے محمدی اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ایم ایل اے لوکندر پرتاپ سنگھ اور بستی ضلع کے رودھولی سے بی جے پی ایم ایل اے سنجے پرتاپ جیسوال نے لکھا تھا۔
ان ایم ایل اے کے علاوہ اپریل میں وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر لکھنؤ کے موہن لال گنج سے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ کوشل کشور نے الزام لگایا تھا کہ جان بچانے کے لیے ضروری وینٹی لیٹر اسپتالوں میں پڑے دھول مٹی کھا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے ٹوئٹ کر کے لکھا تھا، الیکشن کمیشن سے میری اپیل ہے لکھنؤ میں کووڈ قابو سے باہر ہے، لکھنؤ میں کئی ہزار خاندان کورونا کی لپیٹ میں بری طرح تباہ ہو رہے ہیں، شمشان گھاٹوں پر لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ الیکشن ضروری نہیں ہے،لوگوں کی جان بچانا ضروری ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کو فوراً نوٹس لیتے ہوئے پنچایت کے انتخابات کو لکھنؤ میں مقررہ پولنگ کی تاریخ سے ایک ماہ کے لیےبڑھا دینا چاہیے، جان بچانا ضروری ہے، الیکشن کرانا ضروری نہیں ہے۔
اس سے پہلے وزیر قانون برجیش پاٹھک نے صوبے کے اعلیٰ صحت حکام کو خط لکھ کر راجدھانی میں صحت کے بگڑتے نظام کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی۔
یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)
معلوم ہو کہ اتر پردیش کے آگرہ کے پارس اسپتال میں جون کے آغاز میں مبینہ طور پرایک ماک ڈرل کے دوران پانچ منٹ کے لیے آکسیجن کی سپلائی روکے جانے کے واقعہ میں22 مریضوں کی موت کے الزامات لگے تھے۔ اس واقعہ کے بعد اس کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اسپتال کو سیل کر دیا گیا تھا۔
حالاں کہ جانچ میں اسپتال کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔اس کی جانچ کے لیےبنائی گئی سرکاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسپتال میں اس مبینہ ماک ڈرل سے کسی کی موت نہیں ہوئی۔
دی وائر نے کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران مئی میں223 اموات کی تفصیلات کے ساتھ ایک فہرست مرتب کی تھی، جس میں اسپتال کے عہدیداریا مقامی انتظامیہ نے آکسیجن کی کمی کی تصدیق کی تھی، اور 70 دیگر اموات جن میں مریضوں کے اہل خانہ نے آکسیجن کی کمی سے موت ہونے کا الزام لگاتا تھا، لیکن حکام نے اس الزام کی تصدیق نہیں کی تھی۔
اس
فہرست میں اتر پردیش میں دو مصدقہ معاملوں کی تفصیلات ہیں، دونوں میرٹھ کے تھے اور دو غیر مصدقہ واقعات — ایک میرٹھ اور علی گڑھ کے تھے۔
بی بی سی نے وبا کی دوسری لہر کے دوران خبر دی تھی کہ اتر پردیش کے کچھ اسپتالوں نے باہر ‘آکسیجن آؤٹ آف اسٹاک’کے بورڈ لگائے تھے اور صوبے کی راجدھانی لکھنؤ کے اسپتالوں میں مریضوں کولے جانے کے لیے کہاتھا۔
اس کے بعد
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کی اطلاع دینے والوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) لگاتے ہوئے انہیں’غیرسماجی عناصر’بتایا تھا۔
دی پرنٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ، اتر پردیش میں انتشار کا ماحول تھا، کیونکہ جن لوگوں کو آکسیجن کی ضرورت تھی، وہ ایک سرکاری آرڈر کی وجہ سے آکسیجن حاصل کر پانے میں اہل نہیں تھے کیوں کہ لوگوں کو آکسیجن کی فراہمی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
کئی لوگوں کو اپنے اہل خانہ کے لیے آکسیجن سلنڈر دوبارہ بھروانے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تھا، جن کی حالت تشویشناک تھی۔ اس کے ساتھ ہی صوبے کے اسپتال یا تو لوگوں کی رسائی میں نہیں تھے یا بھرے ہوئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، لکھنؤ کے 96 پرائیویٹ اسپتالوں میں کووڈ-19 کے مریضوں کا علاج کرنے والی کی سرکاری فہرست کاکوئی فائدہ نہیں تھا، کیونکہ ان کے موبائل نمبر بند کر دیے گئےتھے یا وہ رسائی سے باہر تھے۔
بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے اس سال کی شروعات میں بھی آکسیجن کی کمی سے ہونے والی موتوں کی تعداد کے بارے میں ایک سوال کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں حکومت نے جولائی میں کہا تھا کہ ریاستی حکومتوں اور یونین ٹریٹری نے خاص طور پر آکسیجن کی کمی کی سے کسی بھی موت کی اطلاع نہیں دی۔
حالاں کہ ایک ماہ بعد اگست میں پہلی بار
مرکزی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ آکسیجن کی کمی سے کورونا مریضوں کی موت ہوئی تھی اور کہا تھا کہ آندھرا پردیش نے خاص طور پر آکسیجن کی فراہمی کی کمی کی سےکووڈ-19 سے ہونے والی اموات کی اطلاع دی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)