یوپی: پڑوس میں ایک مسلم خاتون کے مکان خریدنے کے خلاف ہندوؤں کا احتجاج، اجتماعی طور پر نقل مکانی کی دھمکی

معاملہ بریلی کے پنجاب پورہ علاقے کا ہے۔ یہاں کے سابق رہائشی وشال سکسینہ نے اپنا گھر ایک مسلم خاتون شبنم کو فروخت کر دیا تھا، جو اب وہیں رہ رہی ہیں۔ علاقے کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مسلمان لو جہاد کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔

معاملہ بریلی کے پنجاب پورہ علاقے کا ہے۔ یہاں کے سابق رہائشی وشال سکسینہ نے اپنا گھر ایک مسلم خاتون شبنم کو فروخت کر دیا تھا، جو اب وہیں رہ رہی ہیں۔ علاقے کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مسلمان لو جہاد کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔

بریلی۔ (تصویر بہ شکریہ: گوگل ارتھ)

بریلی۔ (تصویر بہ شکریہ: گوگل ارتھ)

نئی دہلی: اتر پردیش کے بریلی میں ایک ہندو اکثریتی علاقے پنجاب پورہ ، جو مقامی طور پر وکیل والی گلی کے نام سے جانا جاتا ہے،کے رہائشیوں نے اس علاقے میں ایک مسلم خاتون کے گھر خریدنے کے خلاف سوموار (19 اگست) کو احتجاج کیا۔ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب علاقے کے سابق رہائشی وشال سکسینہ نے اپنا گھر شبنم نامی ایک مسلم خاتون کے ہاتھوں فروخت کر دیا، جو اب وہیں رہ رہی ہیں۔

اس علاقے میں شہر کے کئی وکیلوں کے گھر ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مسلم خاتون کی جائیداد کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ پنجاب پورہ کے کچھ ہندو باشندوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ اجتماعی طور پر نقل مکانی کریں گے۔ مزید برآں، مقامی لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازوں پر ‘ساموہک پلاین (اجتماعی طور پرنقل مکانی)’ کا اعلان کرتے ہوئے پوسٹر بھی لگائے ہیں۔

بریلی کی بار ایسوسی ایشن کے سابق سکریٹری اروند سریواستو نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مکان کی خریداری کے سودے میں ایک آسامی مولانا شامل ہیں، جو ایک مقامی مسجد پر ناجائز قبضے میں بھی ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیشی اور آسامی لوگ آگے نہیں آئیں گے۔’  سریواستو نے پوچھا، ‘اس سے جو ‘لو جہاد’ پیدا ہوگا، اس کے لیے  کون ذمہ دار کون ہوگا؟’

واضح ہو کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح کو زیادہ تر ہندو فرقہ پرست تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ اسے ہندوستان میں ہندوؤں کو اقلیت بنانے کی مسلمانوں کی  سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس میں مسلم نوجوانوں کے ذریعے  ہندو خواتین کو بہلا پھسلا کرشادی کی  جاتی ہے۔

پنجاب پورہ کی کچھ خواتین نے کہا کہ اگر ‘مسلمان’ ان کے علاقے میں آئیں گے تو ان کے لیے باہر بیٹھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

ایک ہندو خاتون نے مقامی رپورٹر کو بتایا، ‘ہم یہاں رات 1 بجے تک بیٹھتے  ہیں… لیکن جب سے وہ (مسلمان) آئے ہیں، وہ علاقے میں کام دھندہ کرتے ہیں اورگھومتے پھرتے فون پر بات کرتے ہیں۔’

ایک اور خاتون نے کہا، ‘وہ (مسلمان) گوشت کھاتے ہیں، جبکہ ہم اپنی  زندگی میں ساتوکتا (تقدس )کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔’

ایک خاتون نے کہا، ‘ہم بچپن سے یہاں رہ رہے ہیں اور اگر وہ (مسلمان) یہاں آنا شروع ہو گئے تو ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہو جائے گا۔’ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کو ان کے (یعنی ہندوؤں کے) مذہبی رواج  اور تہواروں میں مداخلت کی عادت  ہوتی ہے۔

علاقے میں ایک گھر کے باہر لگا پوسٹر، جس میں 'اجتماعی طور پر نقل مکانی' کی دھمکی دی گئی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: دی لیڈر ہندی یوٹیوب چینل سے اسکرین شاٹ)

علاقے میں ایک گھر کے باہر لگا پوسٹر، جس میں ‘اجتماعی طور پر نقل مکانی’ کی دھمکی دی گئی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: دی لیڈر ہندی یوٹیوب چینل سے اسکرین شاٹ)

دریں اثنا، شبنم کے بھائی محمد نسیم بشیری، جو ایک قریبی درگاہ پر پھول فروخت کرتے ہیں، نے مقامی میڈیا کے سامنے احتجاج کرنے والے لوگوں کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا، ‘اگر وہ ہمیں پہلے بتا دیتے تو ہم یہ گھر ان کو خریدنے کے لیے چھوڑ دیتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس گھر کو خریدنے کے پیچھے ہمارا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا اور ہم اس کا حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی قلعہ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر کے بلائے جانے پر بھی انہوں نے یہی بات کہی تھی۔

کچھ مقامی لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے میں پڑھے لکھے شہری رہتے ہیں اور وہ یہاں پر ایک پھول بیچنے والے  کا رہنا پسند نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ،پڑوس میں’جس قسم کے لوگ آنا شروع ہو جائیں گے’ مقامی لوگوں کو اس پر اعتراض ہے۔

دی وائر کے رابطہ کرنے پر نسیم بشیری نے کہا کہ گھر بیچنے والے سکسینہ منگل (20 اگست) کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر لے گئےاور انہوں نے کہا کہ وہ جس کو بھی یہ گھر چاہیے ، اسے بیچنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر علاقے کا کوئی گھر خریدنا چاہتا ہے تو وہ موجودہ خریدار یعنی مسلمان خاتون کو اس کی ادائیگی واپس کر دیں  گے۔

مقامی لوگوں نے مسلم خاندان پر بریلی میں 2010 کے فسادات کے ‘ماسٹر مائنڈ’ ہونے کا الزام بھی لگایا ہے، اس بابت  دی وائرکے سوال پوچھنے پر نسیم بشیری نے کہا کہ وہ ایک نسل سے زیادہ عرصے سے پھول بیچ رہے ہیں اور مقامی پولیس اسٹیشن کو اس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔

جب دی وائر نے ان سے پوچھا کہ وہ مقامی باشندوں کے ان الزامات کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں کہ وہ بریلی میں 2010 کے فسادات کے ‘ماسٹر مائنڈ’ تھے، تو نسیم بشیری نے کہا کہ وہ ایک نسل سے زیادہ عرصے سے پھول فروخت کر رہے ہیں اور مقامی پولیس اسٹیشن  کوان کے بارے میں سب کچھ پتہ  ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خریداروں میں ہندو باشندے بھی شامل ہیں، تو انھوں نے کہا، ‘ہاں، بہت سے لوگ صبح کی پوجا کے لیے پھول خریدنے آتے ہیں۔’

دی وائر نے سابق مالک مکان سکسینہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اگر کوئی ردعمل موصول ہوا تو اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔