ایودھیا میں صدر رام ناتھ کووند کو اپنے خطاب میں نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کی یاد آئی، نہ ہی اپنے آبائی شہر کانپور کےاس رکشےوالے کی، جسے گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً ‘جئے شری رام’ بلوا کر اپنی ‘انا’ کی تسکین کا سامان کیا تھا۔
آزادی کے 75ویں سال میں‘اونچی اڑانوں’کے ریکارڈ بنانے کی سرکاری عجلت پسندی میں گزشتہ اتوار کو ایک اور کڑی تب جڑگئی، جب ملک کے پہلےشہری رام ناتھ کوونداپنے چاردنوں کے اتر پردیش دورے کے آخری دن ایودھیا پہنچے اور رام للا وراجمان کے ‘درشن و پوجن’ کرنے والے پہلےصدر جمہوریہ بن گئے۔
اس موقع پر انہوں نےایودھیا کی تاریخی ہنومان گڑھی میں سجدہ کیا، سریوکے کنارےواقع رام کتھا پارک میں رامائن کانکلیو کا افتتاح کیا اور رام، رامائن و ایودھیا کا ہی نہیں، مہابھارت تک کی بھرپور‘عظمت’بیان کی۔ یہ کہنے سے بھی نہیں ہی باز آئے کہ باپو نے ملک میں اسی ایودھیا کے رام کے راجیہ کا خواب دیکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ رام سب میں اور سب کے ہیں تو لگا کہ اپنے خطاب میں سنت شاعروں کے اقوال کا عکس اتارنا چاہتے ہیں۔
یاد آیا کہ کیسےگوسوامی تلسی داس سارے جگ کو سیارام کا جان کر دونوں ہاتھ جوڑکر پرنام کر گئے ہیں اور کیسے ان کے صدیوں بعد اپنے مہاکاویہ‘ساکیت’ کی تخلیق شروع کرتے ہوئے قومی شاعر میتھلی شرن گپت کو رام سے سیدھےیہ سوال پوچھنے میں بھی ہچک نہیں ہوئی تھی:‘رام، تم مانو ہو؟ ایشور نہیں ہو کیا؟/وشو میں رمے ہوئے نہیں سبھی کہیں ہو کیا؟/تب میں نریشور ہوں، ایشور شما کرے/تم نہ رمو تو من تم میں رماکرے۔’
لیکن اس کے بعد صدرکی شخصیت کوگرہن لگانے والے کئی سوال ہوا میں تیرنے لگے اس سوال کو درکنار کرنے کے باوجود کہ ایک سیکولر ملک کے صدر کے طور پر انہیں اس طرح مقتدرہ پارٹی کا مذہبی ایجنڈہ آگے بڑھانے میں معاون کارول نبھانا چاہیے تھایا نہیں۔
ان سوالوں میں سب سے بڑا یہ کہ ایودھیا آکر بھی وہ اسے یا اس کی معرفت ملک کو کوئی ویسا پیغام کیوں نہیں دئے پاے، جیسا مہاتما گاندھی نے 10 فروری،1921 کو ایودھیا آکر دیا تھا۔ یہ جان کر کہ ان دنوں گوری سرکار کے ظلم کےخلاف تحریک میں شامل اودھ کے کسان باربار تشدد پر اتر رہے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ خلافت تحریک کےپیروکار ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے ان کے استقبال میں کھڑے ہیں، مہاتما نے ان کی سخت مذمت کی اور کہا تھا، ‘تشدد بہادری کی نہیں بزدلی کی علامت ہے اور تلواریں کمزوروں کا ہتھیار ہیں۔’
آج جب مہاتما کے رام راجیہ کے تصورکو ہی پراگندہ نہیں کر دیا گیا ہے، ان کے رام کے نام پر مارنے پیٹنے اور ڈرانے دھمکانے کے کھیل لامحدود ہو چلے ہیں،صدر کوئی نیاپیغام دینے کے بجائے مہاتما کے اس ایودھیا دورے کویاد کرتے ہوئے ان کے اس پیغام کو ہی دہرا دیتے تو وہ دور تک سنا جاتا۔
لیکن المیہ یہ ہےکہ انہوں نے ایودھیا آکر خود کو صدر سے زیادہ داستان گوبنا لیا اور ایودھیا کو اس کی و اس کے رام کی عظمت کا ترانہ کچھ ایسے سناتے رہے، جیسے اپنی حقیقی شخصیت کی پہچان کے لیے وہ ان کے اس ترانے کی محتاج ہو۔
سچ پوچھیے تو آج یہ بات کہ ‘رام سب کے اور سب میں ہیں’ سب سے زیادہ انہیں بتانے کی ضرورت ہے جو رام نام کے سیاسی فائدہ کے لیے انہیں لازمانی اور لا مکانی تو کیا، اس ملک کے تمام باشندوں کا بھی نہیں رہنے دے رہے۔ جو بھی شہری اس جماعت سے متفق نہیں ہیں، اور اس کی بدقسمتی سے زیادہ تر غیرمتفق ہی ہیں، ان کا دھرم جو بھی ہو، وہ ان پر اس طرح حملہ آور ہوئی جا ری ہے، جیسے رام کے آفاقی امیج کو اپنے سیاسی نعرے میں تبدیل کر لینے کا اسے پیدائشی حق ہو اور اس نعرے کی مخالفت کرنے والوں کا جرم کلی طور پر ناقابل معافی۔
ایک خاص طبقے کے لوگوں کو اس نعرے کی آڑ میں پاکستان جانے کا فرمان یہ جماعت ایسے سناتی ہے جیسے انگریزوں کے ذریعے 1947 میں کھینچ دی گئی تقسیم کی لکیر کے بعد اس پار کی رام کی حکمرانی ختم ہو گئی ہو اور وہ زمین کا حصہ اس دنیاسے باہر ہو گیا ہو، جسے تلسی داس سیارام کا کہہ گئے ہیں۔
کاش عزت مآب صدر اپنے ایودھیادورے کا اس جماعت کے لوگوں سے یہ پوچھنے میں استعمال کر پاتے کہ کیا یہ‘سب کے رام اور سب میں رام’کے ان کے عقیدےکی توہین نہیں ہے؟
وہ انہیں سمجھا دیتے کہ یہ اصل میں اس کی توہین ہی ہے کیونکہ رام صرف ان کے یا کسی خاص مذہب کے نہیں ہیں اور انہیں کئی عقیدت مند ملک اورزمانے کےدائرےسے باہر مانتے ہیں، اسی لیے کئی ایسےطبقوں کے ذریعےبیرونی ممالک میں بھی رام کتھا کہی اوراسٹیج کی جاتی ہے، جو ہندو نہیں ہیں، توملک کی بڑی خدمت کرتے۔ کیونکہ تب مذہبی تنگ ذہنی سے نجات کی سمت میں تیزی سے بڑھ جانے کے ملک کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور ہو جاتی، جو ابھی اس کے قدموں کی بیڑی بنی ہوئی ہیں۔
تب تنوع سے مالامال اس ملک کا اقتدار خود اس کےتکثیری شکل سےدشمنی نہیں برت پاتا،‘جئے شری رام’ نہ بولنے کے لیے کسی کی جان نہیں لی جاتی، نہ کسی کو رام یا کرشن کے نام کا بورڈ لگانے کو لے کرہراساں کیا جاتا۔ نہ ہی سیکولر ازم جیسی مقدس آئینی قدروں کا مذاق اڑایا جاتا اور نہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر حملے کیے جاتے۔
خود کو رام بھکت کہنے والے لوگ تب اپنے محلوں میں سبزی بیچنے و چوڑی پہنانے آنے والوں پر اس لیے حملےنہیں کرتے کہ وہ دوسرے دھرم کے ہیں، کیونکہ تب رام کو ان کا بھی مانا جاتا، ان میں بھی دیکھا جاتا۔ تب کسی کو بھی اپنی مذہبی پہچان چھپانی اور ہندوؤں جیسے نام میں سماجی تحفظ تلاش نہیں کرنی پڑتی۔
لیکن صدرکو اپنے خطاب کے وقت نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کے ذریعے فروغ دیے گئے عقائد یاد آئے، نہ ہی اپنےآبائی شہر کانپور کے اس رکشےوالے کی شکل، جسے کچھ ہی دنوں پہلے بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً‘جئے شری رام’کے نعرے لگواکر اپنی‘انا ’ کی تسکین کا سامان کیا۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صدر کے نام کو اس لیے سچائی کی علامت بتایا کہ اس میں رام ہے، لیکن صدرکو اپنے خطاب میں اس سچائی سے روبرو ہونا بھی گوارہ نہیں ہوا کہ ایودھیا کی جس ہنومان گڑھی میں سجدہ کر کےانہوں نے خود کو خوش قسمت محسوس کیا، اس کی تعمیر اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے کرائی تھا، جو اسی مذہب کے پیروکار تھے، جس کے ہونےکی وجہ سے ان کے آبائی شہر کے رکشےوالے کو مار پیٹ کر ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگوائے گئے۔
کیا پتہ ایودھیا میں کسی نے انہیں بتایایا نہیں کہ ملک میں دھرم نگریاں اور بھی ہیں، لیکن ایودھیا کا نرالا پن ہمیشہ اس بات میں رہا ہے کہ وہ ہر کسی کو اپنے احساسات کےمطابق اپنے خدا کی مورت گڑھنے اور دیکھنے کو آزاد رکھتی ہے۔ ہاں، رام کی بھی۔ ایسی تمام خاردار باڑوں سے پرے، جو سچائی کو اس کی جامعیت میں نہیں دیکھنے دیتیں، وہ رگ وید کی رچا ‘ایکمسدوپرا بہدھا ودنتی’ میں اپنے یقین کی تکمیل کرتی رہنے میں ہی فخر محسوس کرتی ہے۔
اسی فخر سےسرشار اس کے البیلے شاعر شمیم احمد شمیم کبھی یہ سناکر محفلیں لوٹ لیا کرتے تھے: ‘یہ ایودھیا ہے یہاں یدھ نہیں ہو سکتا۔’
بلاشبہ یہ ایودھیا کی اس ناقابل تسخیرفطرت سے آگے کی بات تھی، جس کا صدر نے اپنے بیس منٹ کے خطاب میں ذکرکیا۔ جب وہاں یدھ ہی نہیں ہو سکتا، تو جیت ہار کی بات ہی کہاں اٹھتی ہے؟
صاف کہیں تو ایودھیا کا ماضی بھی شاہد ہے اور حال بھی کہ اس کا بہتے پانی جیسامزاج کسی کی بھی جنگی خواہش کوپورا نہیں ہونے دیتا۔ کوئی کیسا بھی حملہ کیوں نہ کرے، وہ بے انتہا صبر وتحل کے ساتھ اسے برداشت کر لیتی، اپنی راہ پکڑ لیتی ہے اور اپنا مستوی تلاش کر لیتی ہے۔ جو بھی اس کے آڑے آتا ہے، اسے وہ اپنے بہاؤمیں بہا لے جاتی ہے۔
افسوس کہ عزت مآب رام ناتھ کووند ایودھیا آکر بھی اقتدار کے ایک خاص طرح کے چکاچوندھ میں ہی پھنسے رہ گئے اور ایودھیا کے اس روپ سے ناواقف رہ گئے۔ ایودھیا کو کم از کم ان سے ایسی امید نہ تھی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)