یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں سے کہا ہے کہ وہ بیداری پھیلانے کے مقصد سے کیمپس میں مودی حکومت کی ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ اسکیم کا لوگو ڈسپلے کریں اور اسے ویب سائٹ، پورٹل اور اسٹیشنری کے سامان وغیرہ پر بھی استعمال کریں۔
نئی دہلی: یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں سے کہا ہے کہ وہ نریندر مودی حکومت کی ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ (بی بی بی پی) اسکیم کا لوگو اپنے کیمپس میں اور اپنی ویب سائٹس اور اسٹیشنری سامان پر بھی لگائیں۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی اپیل کے بعد، یو جی سی نے تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور تمام کالجوں کے پرنسپل کو لڑکیوں کو اہمیت دینے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بی بی بی پی لوگو کا استعمال کرنے کے لیے لکھا ہے۔
واضح ہو کہ یہ وزارت صنفی امتیاز کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے اس اسکیم کو چلاتی ہے۔
یو جی سی کے سکریٹری منیش جوشی کی جانب سے جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ وزارت نے بچیوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور بیٹی بچاؤ اسکیم کا لوگو اور ٹیگ لائن بھیجی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے کیمپس، ویب سائٹ، پورٹل، اسٹیشنری کے سامان، پروگرامز اور نمایاں جگہوں پر مذکورہ لوگو استعمال کریں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سرگرمی سے متعلق تفصیلات، تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ یونیورسٹی ایکٹیویٹی مانیٹرنگ پورٹل پر اپ لوڈ کی جا سکتی ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل دسمبر کے آغاز میں کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم مودی کے کٹ آؤٹ کے ساتھ سیلفی پوائنٹ بنائیں ۔
اس کے بعد یو جی سی نے یونیورسٹیوں سے طلباء اور فیکلٹی ممبران کو وزیر اعظم کی تقریر سننے کی ترغیب دینے کو کہا تھا ۔ اس وقت مودی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ‘وکست بھارت@ 2047: نوجوانوں کی آواز’ مشاورتی پروگرام میں بولنے والے تھے۔ یونیورسٹیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے کیمپس سے پروگرام دیکھنے کے انتظامات کریں۔
بیٹی بچاؤ یوجنا کے لوگو والے حالیہ حکم نامے کو لے کر دو ماہرین تعلیم نے یو جی سی کی تنقید کی ہے۔ وہیں، وزارت تعلیم کے ایک افسر نے یو جی سی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیاں معاشرے کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کی اکیڈمک کونسل (اے سی) کی رکن مایا جان نے یو جی سی کے خط کو حکومت کے لیے سیاسی پروپیگنڈہ کرنے کا فرمان بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے ادارے کی توجہ تدریس اور تحقیق جیسے اہم شعبوں سے ہٹ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ ایک پیٹرن بن گیا ہے کہ حکومت اور یو جی سی باقاعدگی سے تعلیمی اداروں سے جی-20 اور صفائی مہم جیسی سرگرمیاں کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یہ سراسر سیاسی پروپیگنڈہ ہے۔ تعلیمی اداروں کی خود مختاری میں مداخلت کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اس عمل میں اداروں کو نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان کی توجہ پروگرام پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ ترجیحات تدریس اور تحقیق سے غیر تعلیمی سرگرمیوں میں بدل جاتی ہیں۔ سب سے بری چیز تعمیل کی توقع ہے۔’
ایک سینئر ماہر تعلیم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یو جی سی ایکٹ کے مطابق، یو جی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کے ذریعہ تعلیمی معیار کو برقرار رکھے، جس سے وہ انحراف کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح نظریاتی اور دیگر غیر تعلیمی بنیادوں پر وائس چانسلرز کی تقرری کی جا رہی ہے وہ یو جی سی کے ذریعے منظور کیے گئے حکومتی احکامات سے متصادم نہیں ہے۔ ایسے معاملات پر فیصلہ کرنے کا حق یونیورسٹیوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
ایک اسٹیٹ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ ان احکامات کو ایک پی آئی ایل کے ذریعے عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے، ‘یو جی سی جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ غیر تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے یوجی سی اور سرکار کو تعلیمی اداروں کے معاملات میں مداخلت کرنے سے روکنے کے لیے اسے عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔یو جی سی کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ وہ تعلیم کے معیار کو کیسے بہتر کرے، جو مسلسل خراب ہو رہا ہے۔’