خفیہ ایجنسیوں کے مشورے پر مرکزی حکومت نے رائٹ ٹو پرائیویسی بل کو تار تار کر دیا

خفیہ ایجنسیوں نے پرائیویسی کے مجوزہ قانون سے ’مکمل استثنیٰ‘ طلب کیا تھا، جسے مودی حکومت نے تسلیم کر لیا اور شہریوں کو غیر قانونی سرولانس سے محفوظ رکھنے کے لیے قانون لانے کے اپنے ایک دہائی پرانے وعدے سے مکر گئی۔

خفیہ ایجنسیوں نے پرائیویسی کے مجوزہ قانون سے ’مکمل استثنیٰ‘ طلب کیا تھا، جسے مودی حکومت نے تسلیم  کر لیا اور شہریوں کو غیر قانونی سرولانس سے محفوظ رکھنے کے لیے قانون لانے کے اپنے ایک دہائی پرانے وعدے سے مکر گئی۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: 2012  میں اس وقت کی کانگریس کی قیادت والی حکومت نے پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ رائٹ ٹو پرائیویسی کا قانون بنایا جا رہا ہے۔ اس قانون کا سب کوبے صبری سے انتظار تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ یہ سرکاری سرولانس (نگرانی) کے خلاف عوام کے لیے تحفظ (سیفٹی آرمر)کے طور پر کام کرے گا ، کیونکہ اس کے بارے میں واضح قوانین ہوں گے کہ حکومت شہریوں کی جاسوسی کب کر سکتی ہے۔

قانون بناتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مطالبات کا خیال رکھا جا رہا تھا، ناراض خفیہ افسران  کا بھی۔ لیکن ابھی بل تیار ہی ہو رہا تھا کہ حکومت بدل گئی۔

پرائیویسی کے تحفظ کے لیے قانون کا مسودہ تیار کرنے پر کانگریس کی قیادت والی  مرکزی حکومت کی پہلی یقین دہانی۔ ماخذ: www.sansad.in

پرائیویسی کے تحفظ کے لیے قانون کا مسودہ تیار کرنے پر کانگریس کی قیادت والی  مرکزی حکومت کی پہلی یقین دہانی۔ ماخذ: www.sansad.in

سابقہ حکومت کی طرف سے کرائی گئی ابتدائی یقین دہانی کے تین سال بعد ، بی جے پی کی قیادت والی نو منتخب مرکزی حکومت نے بھی 2015 میں پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ رائٹ ٹو پرائیویسی سے متعلق ایک بل تحریر کیا جا رہا ہے۔

مودی حکومت نے 2015 میں پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ پرائیویسی بل  کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ماخذ: www.sansad.in

مودی حکومت نے 2015 میں پارلیامنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ پرائیویسی بل  کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ماخذ: www.sansad.in

لیکن آٹھ سال بعد، آخر کار نئی حکومت نے جو قانون بنایا وہ ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق تھا ، جوشخصی رازداری اور غیر قانونی سرکاری جاسوسی سےتحفظ کے قانونی حق کے وعدوں کی نفی کرتے ہوئے ، لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنےوالی اور کمپنیوں اور حکومت کے لیے ایک ریگولیٹری نظام بنانے پر مرکوز تھا۔

دی رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جس  وزارت  کی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس ہے، اس نے پرائیویسی  کے بل کو رد کر دیا، کیونکہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں نے قانون سے ‘مکمل استثنیٰ’ طلب کیا تھا۔ حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کے مطالبات تسلیم کر لیے ، اور پارلیامنٹ کو قانون لانےکی جو یقین دہانی کرائی تھی، اس سے  خاموشی سے منھ موڑ لیا گیا۔

مودی حکومت نے باضابطہ طور پر اعتراف کیا کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے خدشات کے بعد پرائیویسی بل کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ ماخذ: سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 56ویں رپورٹ

مودی حکومت نے باضابطہ طور پر اعتراف کیا کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کے خدشات کے بعد پرائیویسی بل کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ ماخذ: سرکاری یقین دہانیوں پر کمیٹی کی 56ویں رپورٹ

لیکن اس سے پہلے ہی یہ الزامات سامنے آئے کہ حکومت  نے اسرائیلی فوج کے ذریعے استعمال  کیے جانے والے اسپائی ویئر پیگاسس کے ذریعے ناقدین اور صحافیوں کی جاسوسی کی۔ اس کے بعد ، آئی فون استعمال کرنے والے سرکار کے ناقدین کو ایپل کی جانب سے ‘سرکار کی سرپرستی ‘ میں ہونے والے حملوں کی وارننگ ملی۔ جیسا کہ رپورٹرز کلیکٹو نے پہلے بتایا ہے ، کچھ کاسٹ مخالف کارکنوں کے آلات پر ایسی فائلیں آن لائن منتقل کر دی گئی تھیں کہ وہ قصوروار نظر آئیں۔

بعد میں سیکورٹی ایجنسیوں نے ان فائلوں کو ‘برآمد’ کرنے کا دعویٰ کیا اور انہیں بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار 16 سماجی کارکنوں کے خلاف کیس کا حصہ بنا دیا ۔ گرفتار کارکنوں میں سے ایک اسٹین سوامی بھی تھے ، جن کی بعد میں موت ہو گئی۔

اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح مودی حکومت نے پرائیویسی قانون لانے کے بارے میں پارلیامنٹ میں کرائی گئی یقین دہانیوں سے پہلو تہی کیا۔ ایسا کرنے کے لیے حکومت نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ایک الگ قانون بنایا جا رہا ہے ، اور پارلیامنٹ کو جھانسہ  دیا کہ پرائیویسی قانون کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔

یقین دہانیوں کی ابتدا

منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت 2011 میں شہریوں کے پرائیویسی کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے ایک بل پر کام کر رہی تھی۔ اس مجوزہ قانون کے ابتدائی مسودے لیک ہو گئے تھے ، جس کے مطابق اس کا مقصد شہریوں کی پرائیویسی کو قانونی حق کے طور پر مرتب کرنا تھا  ۔

مسودہ بل میں ان پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کسی فرد کی رازداری کے لیے ضروری ہیں؛  بات چیت اور ٹیلی کمیونی کیشن کا تحفظ ، عزت اور ساکھ کا تحفظ ، نجی اور خاندانی زندگی کی رازداری ، تلاشی اور حراست سے تحفظ ، جسمانی اور الکٹرانک نگرانی سےتحفظ ، مالیاتی رازداری اور صحت کی معلومات  کی رازداری اور آخر میں ، فرد سے متعلق ڈیٹا کا تحفظ۔

ڈیجیٹل پالیسی پر نظر رکھنے والوں نے اس مسودے پر حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت کا جائزہ لیا ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے اٹارنی جنرل غلام واہنوتی نے اصرار کیا تھا کہ ان مخصوص حالات کی فہرست بنائی جائے جب ملک کی ایجنسیاں باہمی رابطے کی نگرانی کر سکتی ہیں۔ وزیر اعظم کے اس وقت کے سکریٹری نے کہا تھا کہ یہ ‘شق ‘ ملک کی سلامتی کے لیے خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کی جانے والی نگرانی میں مانع نہیں ہونی چاہیے۔

سال 2012 میں  ممبران پارلیامنٹ نے محکمہ پرسونل اینڈ ٹریننگ سے پوچھا کہ کیا پرائیویسی کا بل زیر غور ہے۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا مجوزہ بل ‘افراد اور سیاست دانوں ‘ کو ‘ فون ٹیپنگ اور مواصلات کی نگرانی’سے تحفظ فراہم کرے گا ۔ کانگریس کے اس وقت کے مرکزی وزیر مملکت برائے عملہ ، عوامی شکایات اور پنشن نے کوئی خاص معلومات دینے سے گریز کیا اور کہا کہ بل پر کام جاری ہے۔

ان کے اس بیان کو سرکاری یقین دہانی کی کمیٹی نے اس یقین دہانی کے طور پر ریکارڈ کیا کہ حکومت شہریوں کے لیے رازداری کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ایک قانون لائے گی۔

ابھی رازداری کے قانون کا مسودہ تیار کیا ہی جا رہا تھا کہ 2014 میں حکومت بدل گئی  اور نریندر مودی اقتدار میں آگئے ۔

اقتدار میں آنے کے فوراً بعد،  نومبر 2014 میں ، حکومت نے پارلیامنٹ سے پرائیویسی قانون پر کرائی گئی یقین دہانی کو ترک کرنے کی درخواست کی ، یعنی پرائیویسی  بل کے بارے میں دوبارہ نہ پوچھا جائے۔

پارلیامنٹ سے جان چھڑانے کے لیے حکومت نے تفصیل سے بتایا کہ مجوزہ قانون پر کتنی بحث ہو رہی ہے۔ عملہ ، عوامی شکایات اور پنشن کی مرکزی وزارت ، جو براہ راست وزیر اعظم کے اندر کام  کرتی ہے، نے تفصیل سے بتایا کہ پچھلی یو پی اے حکومت کے دوران اس بل میں کس طرح کئی ترامیم کی گئیں۔ اس نے  کہا  کہ 2014 تک ایک اور مسودہ تیار ہوچکا تھا۔

بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ، مرکزی وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے اگست 2014 میں مسودہ قانون پر ایک اور میٹنگ کی۔ فیصلہ کیا گیا کہ خفیہ ایجنسیوں اور مرکزی وزارت داخلہ سے دوبارہ مشاورت کی جائے۔

حکومت نے بل کو پارلیامنٹ میں پیش کرنے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی۔ اس کے بجائے حکومت نے پارلیامانی کمیٹی سے بل کے بارے میں پوچھنا بند کرنے کی درخواست کی۔ کمیٹی نے حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا اور دسمبر 2015 میں حکومت سے کہا کہ وہ بل پارلیامنٹ میں پیش کرے۔

اسی مہینے میں ایک بار پھر مجوزہ قانون پر پارلیامنٹ میں سوال اٹھایا گیا۔ اے آئی اے ڈی ایم کے ایم پی آر پی ماروتھراجا نے 9 دسمبر 2015 کو وزیر اعظم سے پوچھا کہ کیا حکومت نے ‘ پرائیویسی بل کے دائرہ کار سے مکمل استثنیٰ کے خفیہ ایجنسیوں کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے ۔’

ایک بار پھر عملہ ، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت میں مرکزی وزیر مملکت نے کہا کہ بل کا مسودہ ابھی ‘ابتدائی مرحلے ‘ میں ہے اور ‘ تفصیلات کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے ‘ – اس سرکاری زبان کا مطلب تھا کہ بل میں اور وقت لگے گا۔ لیکن پھر بھی یہ جواب قدرے راحت کا تھا کیونکہ پہلی بار مودی حکومت نے باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ بھی پرائیویسی قانون لانے کے لیے پرعزم ہے۔

کمیٹی نے اس جواب کو ایک بار پھر یقین دہانی سمجھا۔ اس وقت تک، مجوزہ پرائیویسی  قانون پر 2012 اور 2015 کے درمیان پانچ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں ۔ چار سال کے اندر کرائی گئی ان پانچ یقین دہانیوں میں کہا گیا کہ حکومت بل کو حتمی شکل دے رہی ہے جو کہ ابھی ‘ابتدائی مرحلے ‘ میں ہے۔

دو سال گزر گئے لیکن بل کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔ مارچ 2018 میں ، مرکزی حکومت نے کمیٹی کو خط لکھ کر دوبارہ یقین دہانی پر نظرثانی بند کرنے کو کہا۔ اس بار حکومت نے پارلیامانی کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا کہ خفیہ ایجنسیاں مجوزہ قانون کے بارے میں ‘ شکوک و شبہات میں مبتلا’ تھیں اور ‘ مکمل آزادی’ چاہتی تھیں ۔

سادہ لفظوں میں کہیں تو خفیہ ایجنسیاں چاہتی تھیں کہ چیزیں جوں کی توں چلتی رہیں اور پرائیویسی قانون کی صورت میں کوئی نیا سر درد پیدا نہ ہو۔ سابق ٹیلی گراف ایکٹ ( اب ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ ) جیسے کئی ہندوستانی قوانین کے تحت سرکاری ایجنسیاں اپنی مرضی سے مواصلات کی نگرانی کر سکتی ہیں۔ پرائیویسی قانون ان دفعات کو ختم کر سکتا تھا ، جس کی وجہ سے شاید شہریوں کی نگرانی قانونی طور پرزیادہ مشکل ہو جاتی۔

آخر کار حکومت نے کہا کہ ‘ رائٹ ٹو پرائیویسی بل آگے نہیں بڑھ سکا ‘۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو پرائیویسی  بل ختم ہو چکا تھا۔

کمیٹی کو یقین دلانے کے لیےحکومت نے کہا کہ الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی مرکزی وزارت اب ڈیٹا پروٹیکشن قانون پر کام کر رہی ہے جس میں ’پرائیویسی بل میں شامل بہت سی پالیسیاں‘ شامل ہوں گی ۔

حکومت نے یقین دہانی کمیٹی کو بتایا کہ وہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون کا انتظار کرے گی اور پھر فیصلہ کرے گی کہ کیا اس کے بعد بھی پرائیویسی قانون کی ضرورت ہے۔

تقریباً دو سال بعد 20 جنوری 2020 کو پارلیامنٹ نے دوسری بار حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ کمیٹی نے کہا کہ ‘وزارت کی طرف سے دی گئی وجوہات یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ وزارت الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی طرف سے تیار کیے جا رہے ڈیٹا پروٹیکشن قانون کاسیاق و سباق مختلف ہے ۔‘ کمیٹی نے وزارت سے کہا کہ وہ’معاملے کو تیزی سے آگے بڑھائے  اور یقین دہانی کو جلد از جلدپورا کرے ۔‘

ایک سال بعد ، فروری 2021  میں ، حکومت نے اس یقین دہانی کو منسوخ کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس بار ، وہ کمیٹی کے پاس نئی معلومات لے کرگئی۔

ڈیٹا پروٹیکشن بل 2019 لوک سبھا میں پیش کر دیا گیا تھا اور اسے بحث کے لیے مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیجا گیاتھا۔ حکومت نے کہا کہ ایک بار ڈیٹا پروٹیکشن قانون آنے کے بعد ، وزارت یہ دیکھے گی کہ کیا’پرائیویسی کے دیگر خدشات کو دور کرنے ‘کے لیے علیحدہ ایکٹ کی ضرورت ہے ۔

اس بار حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب رہی۔ پہلی یقین دہانی کے تقریباً ایک دہائی بعد ، پارلیامانی کمیٹی نے فوری طور پر تمام پانچ زیر التواء یقین دہانیوں کو حذف کر دیا۔

اگست 2023 میں، پارلیامنٹ نے کئی تکرار کے بعد ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ منظور کیا ۔ یہ قانون اس بات سے متعلق ہے کہ نجی کمپنیاں اور حکومتیں لوگوں کا ڈیٹا کیسے حاصل کر سکتی ہیں اور وہ اسے کیسے استعمال اور منیٹائز کر سکتی ہیں۔ جبکہ مجوزہ رائٹ ٹو پرائیویسی ایکٹ شہریوں کو پرائیویسی کے حق کی ضمانت دینے والا تھا ، نئے ڈیٹا پروٹیکشن قانون میں کہیں بھی لفظ ‘پرائیویسی’ کا ذکر نہیں ہے اور حکومت کو لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کو حاصل کرنے اور پروسس کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔

حکومت کا رویہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سپریم کورٹ میں دلیل دی کہ شہریوں کو پرائیویسی کا بنیادی حق نہیں ہے ، اور پھر 2023 میں ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ پاس کر کے پرائیویسی کے تصور کو ہی ایک مہلک دھچکا لگا دیا ۔ اس قانون نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کئی ایسے اختیارات دیے جن کے ذریعے وہ ٹیلی کمیونی کیشن کی نگرانی کر سکتی تھیں  اور یہاں تک کہ قومی سلامتی کے لیے نیٹ ورک ٹاوروں کو اپنے   قبضے میں لےسکتی تھیں۔

یہ بالکل ویسے ہی اختیارات تھے جن سے پرائیویسی بل ہندوستانی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا تھا۔

ٹیلی کمیونی کیشن کی نگرانی کا اہتمام یو پی اے حکومت کے ذریعے پیش کردہ پرائیویسی  بل کے ایک ورژن میں بھی تھا ، لیکن مجوزہ قانون میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اس طرح کی نگرانی صرف تحریری حکم کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھاکہ اس طرح کی نگرانی ‘قانون’، ‘جائز مقصد کے لیے’، ‘مناسب انداز میں’ ہوگی اور بل میں طے کیے گئے ‘ پرائیویسی اصولوں ‘ کے مطابق ہوگی۔

فی الحال،کم از کم پبلک لائف میں رہنے والوں کے لیے پرائیویسی کا مطلب ہے ، ‘ششس رکو ، ایسے نہیں ، ملنے پر بات کریں گے ۔’

یہ وعدے بھی پورے  نہیں ہوئے

یو پی ایس سی کے امیدواروں کے لیے برابری کےمواقع  کا فقدان

مارچ 2017 میں  اے آئی اے ڈی ایم کے کے ایم پی ٹی رتھی ناویل نے محکمہ پرسونل اینڈ ٹریننگ سے پوچھا کہ کیا سول سروس کے امیدواروں کو امتیازی امتحانی پرچے کا سامنا کرنا پڑا  ہے، جس کی وجہ سے انہیں  یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے امتحان میں زیادہ بار بیٹھنا پڑا  ہے۔ انہوں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا امیدواروں نے برابری کے مواقع  کا مطالبہ کیا ہے اور مرکزی حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کیا ہے کہ امتحان سب کے لیے منصفانہ ہو۔

یو پی ایس سی کے امیدواروں کے لیے برابری کے مواقع  پر ایم پی ٹی رتھی ناویل کا پارلیامنٹ میں سوال۔ ماخذ: www.sansad.in

یو پی ایس سی کے امیدواروں کے لیے برابری کے مواقع  پر ایم پی ٹی رتھی ناویل کا پارلیامنٹ میں سوال۔ ماخذ: www.sansad.in

اس کے جواب میں حکومت نے پارلیامنٹ کو یقین دلایا کہ اسے بسوان کمیٹی کی رپورٹ مل گئی ہے اور یو پی ایس سی اس کا مطالعہ کر رہی ہے۔

بسوان کمیٹی سے حکومت کا مطلب ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر بی ایس بسوان کی قیادت والی  ایک کمیٹی  سےتھا، جو دیگر چیزوں کے ساتھ ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی تھی کہ یو پی ایس سی امتحان میں امیدواروں کے ساتھ ان کے پس منظر کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہ ہو ۔

پرسونل وزارت میں ریاستی وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ‘ بسوان کمیٹی کی رپورٹ فی الحال یو پی ایس سی کے زیر غور ہے اور اس رپورٹ پر یو پی ایس سی کی تجاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی ہیں۔ ‘

چار سال بعد ، 2 دسمبر ، 2021 کو ، حکومت نے یقین دہانی کمیٹی کو مطلع کیا کہ یو پی ایس سی نے رپورٹ پر اپنی تجاویز دی ہیں ، لیکن ان کی تفصیل نہیں بتائی۔

کمیٹی نے اسے معاملے کا حل  تسلیم نہیں کیا۔

کمیٹی نے حکومتی یقین دہانیوں پر نامکمل معلومات فراہم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانیوں پر راجیہ سبھا کمیٹی کی 76ویں رپورٹ

کمیٹی نے حکومتی یقین دہانیوں پر نامکمل معلومات فراہم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا۔ ماخذ: حکومتی یقین دہانیوں پر راجیہ سبھا کمیٹی کی 76ویں رپورٹ

غور طلب ہے کہ 82 ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ یقین دہانی التوا میں  ہے۔ اوسطاً، ہر سال دس لاکھ سے زیادہ امیدوار امتحان میں شریک ہوتے ہیں ، لیکن پارلیامنٹ اور عوام دونوں اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ حالیہ برسوں میں یو پی ایس سی  کا امتحان کتنا منصفانہ رہا ہے۔

دسمبر 2023 میں مرکزی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ بسوان کمیٹی کی رپورٹ ابھی  تک زیر غور ہے۔

زیر غور : سول سروسز کے امتحانات میں آیوروید

جب حکومتیں کچھ کرنا نہیں چاہتی ہیں تو وہ چیزوں کو روک کر رکھتی ہیں۔

اگست 2017 میں ، حکومت سے پارلیامنٹ میں سوال کیا گیا کہ کیا سول سروسز کے امتحانات میں آیوروید کو اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی ، اور کیا آیوش کی وزارت نے باضابطہ طور پر دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ اس معاملےکو اٹھایا تھا۔

یو پی ایس سی میں آیوروید کو اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنےکے بارے میں  پارلیامنٹ میں سوامی کا سوال۔ ماخذ: www.sansad.in

یو پی ایس سی میں آیوروید کو اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنےکے بارے میں  پارلیامنٹ میں سوامی کا سوال۔ ماخذ: www.sansad.in

محکمہ پرسونل اینڈ ٹریننگ نے جواب دیا کہ ایسی باضابطہ درخواست کی گئی تھی ، اور یہ مسئلہ حکومت کے زیر غور ہے۔

اس کے بعد سے ، اس معاملے پر مزید کوئی خبر نہیں ہے۔

اس وقت  امیدوار زراعت اور سماجیات سے لے کر الکٹریکل انجینئرنگ اور لٹریچر تک اختیاری مضامین کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ اس کی اپنی آیوش وزارت آیوروید کو یو پی ایس سی امتحان میں اختیاری مضمون کے طور پر شامل کرنا چاہتی ہے ، مرکزی حکومت اس خیال پر آگے نہیں بڑھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ علم بذات خود سائنسی طور پر غیر ثابت شدہ ہے۔

چونسٹھ  ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ یقین دہانی التوا میں ہے۔

(یہ رپورٹ  دی رپورٹرز کلیکٹو  پر شائع ہوئی ہے۔)