یونین بجٹ میں مسلمانوں کو کیا ملا؟

اس بجٹ میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم کے لیے جاری تمام اسکیموں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔

اس بجٹ میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم کے لیے جاری تمام اسکیموں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور اے ایم یو کا باب سید۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Wikipedia- Hhkhan/CC BY-SA 3.0)

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور اے ایم یو کا باب سید۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Wikipedia- Hhkhan/CC BY-SA 3.0)

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے لگاتار ساتواں بجٹ پیش کیا ہے۔ اپوزیشن نے اسے ‘کرسی بچانے والا’ بجٹ قرار دیا ہے، کیونکہ حکومت نے چیف منسٹر چندربابو نائیڈو (ٹی ڈی پی) کی قیادت والی آندھرا پردیش (15000 کروڑ) اور نتیش کمار (جے ڈی یو) کی قیادت والی بہار (26000 کروڑ) کے لیے خصوصی پیکیج دیا ہے۔ آخر انہی  کی بیساکھی پر  بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت  3.0 نے حلف لیا ہے۔ لیکن اقلیتوں کے لیے  کیا ہے؟ بالخصوص مسلمانوں کے لیے؟

یہ واضح ہے کہ مودی حکومت کے لیے مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے، لیکن گزشتہ 77 سالوں میں پہلی بار مرکزی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ مودی حکومت نے 2 بدھ، 2 سکھ اور 1 عیسائی کو اقلیتوں کے نام پر وزیر کی حیثیت سےشامل کیا ہے۔

مودی حکومت نے 2022-23 کے بجٹ میں اقلیتی امور کے لیے 5020 کروڑ روپے مختص کیے تھے اور 24-2023 میں 38 فیصدکٹوتی کر کے 3097 کروڑ روپے مختص کیا تھا۔

اس بجٹ میں حکومت نے اس میں انتہائی معمولی اضافہ کرتے ہوئے 3183 کروڑ روپے کردیا ہے جو کہ صرف 2.7 فیصد کا اضافہ ہے۔ یہ ‘اضافہ’ پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کے لیے 300 کروڑ روپے کے اضافے کی وجہ سے بھی ذرا ساضخیم ہو گیا ہے – جو ملک بھر میں تقریباً 1300 اقلیتی مرکوز علاقوں میں ترقیاتی خسارے کو کم کرنے کا ایجنڈہ ہے۔ یہ وہی 90 اضلاع ہیں جن کی نشاندہی پی ایم منموہن سنگھ نے کی تھی۔

جس شان و شوکت کے ساتھ بی جے پی حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی اسکیموں کے بارے میں اقلیتی امور کی ویب سائٹ پر اعلان کرتی ہے اس کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرکزی اسکیموں کے تحت اب لاکھوں اقلیتی طلبہ (یعنی مسلمان) کو گیارہویں اور بارہویں،تکنیکی اور پیشہ ورانہ کورسز،تسلیم شدہ اداروں میں گریجویشن اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیےاسکالرشپ پچھلے سال کے بجٹ 1065 کروڑ روپےسے محض  80 کروڑ روپےبڑھائی گئی  ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن کی گرانٹ بھی 61 کروڑ روپے پر ہی برقرار ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے لیے مرکوز اسکل ڈیولپمنٹ اور روزگار اسکیموں کے لیےبھاری کٹوتی کرتے ہوئے  صرف 3 کروڑ روپے کا مختص ہے، جبکہ پچھلے سال یہ مختص 64.4 کروڑ تھا۔

یہ کہنا غلط  نہیں ہوگا کہ بی جے پی کے لیے مسلمانوں کی تعلیم سب سے نچلے پائیدان  پر ہے۔اس کے لیے 2023-24 میں مختص 1689 کروڑ تھا اور اب 1575 کروڑ ہے۔ یہاں تک کہ پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم بھی 2023-24 میں مختص 433 کروڑ روپے کے مقابلے میں گھٹا کر 326.2 کروڑ روپے کر دیا گیاہے۔

ملک کے پہلے وزیر تعلیم کو منسوب مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اب تقریباً بستر مرگ پر ہے۔ اس کے لیے 2023-24 میں مختص رقم 96 کروڑ روپے کو گھٹا کر صرف 45 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، یہ  نصف سے بھی کم ہے! پہلے سے ہی اس اسکیم کے تحت 2000 طالبعلم اپنے اسکالرشپ اور الاؤنسز کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

وہیں، مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیموں کے لیے 2023-24 میں مختص کیے گئے 30 کروڑ روپے کے مقابلے اس بار صرف 10 کروڑ روپے ہی دیے گئے ہیں۔

قومی اقلیتی کمیشن کا بجٹ 3 کروڑ روپے سے گھٹا کر 1 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند اقلیتی طلباء کے تعلیمی قرضوں پر سود پر سبسڈی 21 کروڑ روپے سے کم کر کے 15.3 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔

ثقافت کے تحفظ کے لیے ‘ہماری دھروہر ‘ پروگرام کے تحت اب کسی بھی مسلم وراثت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے لیے گزشتہ سال دیے گئے  10 لاکھ روپے بھی چھین لیے گئے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے ملک کے اہم تعلیمی اداروں کے سالانہ بجٹ میں15 فیصد کی کٹوتی کی گئی ہے اور اس کے برعکس بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669 کروڑ روپے سے بڑھ کر 1303 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ یہ واضح طور پر بی جے پی حکومت کاامتیازی رویہ  ہے۔

دراصل، بجٹ سے پہلے ہی مرکزی حکومت ایسے اقدامات کرتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش کے مدارس کو مرکزی حکومت کی طرف سے دی جانے والی گرانٹ کو ایک سال پہلےہی پورے طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس طرح بی جے پی کے ڈبل انجن ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پہلے مرکزی حکومت اور بعد میں یوپی حکومت نے اس سال جنوری میں مدرسہ جدید کاری پروگرام کے تحت شروع کیے گئے تقریباً 25000 مدرسوں کے اساتذہ کا اعزازیہ روک دیا تھا۔ اس کے بعد 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ  دیا تھا کہ یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن 2004 ایکٹ غیر آئینی اور سیکولرازم اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس نے ہنگامہ برپا کر دیا کیونکہ 17 لاکھ طالبعلم  اور 10000 سے زیادہ اساتذہ کسمپرسی کی حالت میں آ گئے، جب تک کہ سپریم کورٹ نے فیصلے پر روک نہیں لگادی ۔

اب جون کے بعد یوپی حکومت نے تقریباً 8449 غیر رجسٹرڈ مدارس کے طلباء کو سرکاری اسکولوں میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ قومی حقوق اطفال کمیشن ایکٹ-2005 کے بالکل برعکس ہے۔

حکومت کی  ایسی حرکتیں اب مسلمانوں کو ذرا بھی حیران نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی امید کی جا سکے۔

(حیدر عباس اتر پردیش کے سابق ریاستی انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)