کمیٹی کے خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان کے قومی انسانی حقوق کمیشن کو 2023 سے قومی انسانی حقوق کے اداروں کے عالمی اتحاد نے زمرہ ‘اے’ میں جگہ نہیں دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک انسانی حقوق کے شعبے میں اچھا کام نہیں کر رہا اس لیے اسے اس درجہ بندی سے محروم رکھا گیا ہے۔
نئی دہلی: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی (یو این ایچ آر سی) نے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ہندوستان کا رویہ انٹرنیشنل کنونشن آن سول اینڈ پالیٹکل رائٹ (آئی سی سی پی آر) کے معاہدے کے مطابق نہیں ہے۔ آئی سی سی پی آر کی نگرانی کرنے والے ماہرین کےادارہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے جمعرات (25 جولائی) کو ہندوستان کی جانب سے معاہدے کی تعمیل پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔
ہندوستان کو اب تک تین بار آئی سی سی پی آر کے جائزے سے گزرنا پڑا ہے، آخری جائزہ 1997 میں لیا گیا تھا۔ ہندوستان نے 1979 میں آئی سی سی پی آر میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ چوتھا جائزہ تقریباً دو ہفتے قبل لیا گیا۔ ہندوستانی وفد کی قیادت اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کی۔ 15 اور 16 جولائی کو دو دنوں تک، ہندوستانی وفد نے یو این ایچ آر سی کے ساتھ بات چیت کی۔
وزارت خارجہ کے پریس نوٹ میں کہا گیا تھا ، ‘بات چیت کے دوران کمیٹی کے اراکین نے ہندوستان کی روایات اور اخلاقیات کی تعریف کی، جوتکثیریت، عدم تشدد اور تنوع جیسے اصولوں کا مجموعہ ہے۔’
جائزہ میٹنگ کے دس دن بعد25 جولائی کو یو این ایچ آر سی نے ہندوستان کے نفاذ کے بارے میں اپنے نتائج کو نشان زد کرتے ہوئے رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ میں حکومت ہند کی طرف سے کچھ قانون سازی کی پیش رفت کو تسلیم کیا گیا ہے، لیکن رپورٹ بنیادی طور پر ‘تشویش کے اہم معاملوں’ اور ‘سفارشات’ پر مرکوز ہے۔
جن خدشات کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان کے قومی انسانی حقوق کمیشن کو 2023 سے قومی انسانی حقوق کے اداروں کے عالمی اتحاد سے زمرہ ‘اے’ میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک انسانی حقوق کے شعبے میں اچھا کام نہیں کر رہا ہے اور اس وجہ سے اسے اس درجہ بندی سے محروم رکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں کمیٹی کا تبصرہ ہے کہ کمیٹی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات میں پولیس افسران کی شمولیت کے بارے میں فکر مند ہے۔ اس سے ہیومن رائٹس کمیشن کی آزادی متاثر ہو رہی ہے۔ کمیٹی کو مسلح افواج کی جانب سے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے کم اختیارات پر بھی تشویش ہے۔
رپورٹ کے ایک بڑے حصے میں ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس میں لکھا گیا ہے، ‘کمیٹی مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد جیسے کہ مئی 2023 سے منی پور میں ہونے والے واقعات اور 2002 میں گجرات میں ہوئے فسادات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ماورائے عدالت ہلاکتوں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جوابدہی کی کمی۔‘
اس کے علاوہ رپورٹ میں ‘2022 کے رام نومی جلوس کے دوران فسادات کے بعد مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور گھروں کو مسمار کرنے، مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف گئو رکشکوں کے تشدد اور لنچنگ کے واقعات’ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں خصوصی طور پر گئو رکشکوں کے تشدد اور لنچنگ کو غیر قانونی اعلان کرتے ہوئے قانون بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیٹی نے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال اور سیاستدانوں کی ہیٹ اسپیچ اور اقلیتوں کے خلاف عوامی تشدد کو ہوا دینے والی خبروں کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات کو اجاگر کیا۔
رپورٹ میں تارکین وطن کے خلاف ہیٹ اسپیچ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جو تیزی سے پرتشدد ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی تقاریر، جن میں میانمار کے روہنگیا بھی شامل ہیں، جنہیں عوامی سطح پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔
کمیٹی نے آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) اور انسداد دہشت گردی قانون کی بعض دفعات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے۔ اس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ منی پور، جموں و کشمیر اور آسام جیسے ’ڈسٹربڈ ایریاز‘میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے طویل نفاذ کے نتیجے میں انسانی حقوق کی وسیع اور سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
کمیٹی نے ہندوستان سے گزارش کی کہ وہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں اور دیگر حفاظتی اقدامات عارضی، متناسب اور عدالتی جائزہ کے تابع ہوں۔ مزید برآں، اس نے ہندوستان سے ان علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ذمہ داری قبول کرنے اورسچائی سے پردہ اٹھانے کے لیے ایک سسٹم قائم کرنے کی اپیل کی۔