جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ خالد کی ضمانت کی عرضی 7 اکتوبر کو جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور کی بنچ کے سامنے ازسر نو سماعت کے لیے درج کی گئی تھی، لیکن بنچ سماعت کے لیے نہیں بیٹھی۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے دہلی تشدد معاملے کے ملزم عمر خالد، خالد سیفی، شرجیل امام اور دیگر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے اگلی تاریخ 25 نومبر مقرر کی ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، عمر خالد کی ضمانت کی درخواست سوموار (7 اکتوبر) کو جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کورکی بنچ کے سامنے نئے سرے سے سماعت کے لیے درج کی گئی تھی، لیکن بنچ سماعت کے لیے نہیں بیٹھی، جس کی وجہ سے اس معاملے پر ایک با ر پھر سے سماعت نہ ہو سکی۔
کورٹ ماسٹر کے مطابق، اب یہ بنچ منگل یعنی 8 اکتوبر کو بھی نہیں بیٹھے گی، اس لیے کیس کو 25 نومبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
خبر کے مطابق ، پہلے یہ کیس جسٹس سریش کمار کیت کی سربراہی والی بنچ کے سامنے درج تھا، لیکن حال ہی میں ان کا تبادلہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کیا گیا ہے۔
پچھلی سماعت میں جسٹس سریش کمار کیت اور جسٹس گریش کٹھ پالیہ کی بنچ نے 24 جولائی کو دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے خالد کی ضمانت کی درخواست پر جواب طلب کیا تھا۔
تاہم، پولیس 29 اگست کو ہونے والی اگلی سماعت سے پہلے اپنا جواب داخل کرنے میں ناکام رہی تھی۔
دہلی فسادات معاملے کے دیگر ملزمان شرجیل امام، میران حیدر، سلیم خان اور شفا الرحمان کی درخواست ضمانت پر بھی 29 اگست کو سماعت ہونی تھی۔ لیکن اس سے پہلے بھی دہلی ہائی کورٹ کے جج امت شرما نے 22 جولائی کو خالد کی ضمانت کی سماعت سے پہلے خود کو دہلی فسادات کیس سے الگ کر لیا تھا۔ 29 اگست کو جسٹس شرما اور جسٹس پرتبھا ایم سنگھ کی بنچ ہی اس کیس کی سماعت کرنے والی تھی۔
غور طلب ہے کہ جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کے سابق طالبعلم عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ خالد پر یو اے پی اے (انسداد دہشت گردی قانون ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ) کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔ عمر خالد رواں سال 14 ستمبر کو جیل میں چار سال مکمل کر چکے ہیں۔
اس سے قبل 28 مئی 2024 کو نچلی عدالت نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں ان کی درخواست ضمانت کی سماعت گزشتہ چار سالوں میں 14 بار ملتوی ہونے کے بعد انہوں نے ٹرائل کورٹ کا رخ کیا تھا۔
اس سے قبل آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد مارچ 2022 میں دہلی کی ایک سیشن عدالت نے خالد کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خالد نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ اکتوبر 2022 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
دسمبر 2022 میں کڑکڑڈوما عدالت نے دہلی فسادات سے متعلق ‘پتھراؤ’ کیس میں خالد کو بری کر دیا تھا، لیکن فسادات سے متعلق ‘بڑی سازش’ کے سلسلے میں انہیں حراست میں رکھا گیا تھا۔
عمر خالد کی طویل قید کو عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دہلی فسادات کے حوالے سے خالد کے ساتھ ہی طالبعلم رہنما شرجیل امام اور کئی دوسرے لوگوں کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان سبھی پر فروری 2020 کے فسادات میں مبینہ طور پر ‘سازش’ کرنے کا الزام ہے۔
یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی حمایت اور خلاف مظاہروں کے دوران ہوئے تھے۔ ان میں 53 افراد ہلاک جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور کئی دیگر کے خلاف فسادات کے سلسلے میں سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔