طلسم بمبئی، ایک پارسی مصنف کی اُردو میں لکھی ہوئی کتاب ہے، شہر کی سیر و سیاحت کے تعلق سے جہاں اُردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، وہیں کسی بھی زبان میں شہر کے لیے ابتدائی رہنما کتابوں میں بھی اس کا نام لیا جا سکتا ہے۔
انگریزی متن سے ترجمہ: سید کاشف
پچھلی چند صدیوں میں ممبئی کے حدود اور خط و خال (قنطور) کی نئی تعبیریں پیش کرنے کی ان گنت کوششیں کی گئی ہیں۔ اس شہر کو وجودی پیرہن عطا کرنے والے اُن سات خیالی جزیروں کے علاوہ—جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ ممبئی انہی مجمع الجزائر پر آباد تھا—ممبئی اپنے تدریجی سفر میں حدود اربعہ کے کئی جزائر مثلا سالسٹ، ترومبے اور چیمبورمیں ضم ہو کر طبعی وجود حاصل کرتا رہا ہے۔ اب مجموعی طور پر یہی میٹرو پو لیٹن ممبئی کہلاتا ہے۔ غالباً شہر کی تاریخ کا سب سے اہم ری-ماڈلنگ پروجیکٹ 1860 کی دہائی میں قلعہ (فورٹ) کی دیواروں کو مہندم کیے جانے کے ساتھ شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں انگریزی کے حروف تہجی ’وی‘ سے مماثلت رکھنے والے شہرممبئی کی دونوں ساحلی پٹیاں بالکلیہ بدل گئیں اور پہلے جیسا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ مشرقی ساحل پر قدیم بیسن (طاس / سمندر سے متصل نشیبی قطعہ) اور ڈاک (بندرگاہ) نے دو بڑے بازیابی یا بحالی کے منصوبوں (حصول اراضی) کی راہ ہموار کی؛مودی-بے ری کلیمیشن، منٹ (سرکاری ٹکسال، ممبئی؛ حکومت ہند کا وہ ادارہ جہاں سکے ڈھالے جاتے ہیں) سے لے کر قدیم ‘کرناک بندر’ تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا غیر معمولی پروجیکٹ ایلفنسٹن ری کلیمیشن شمال کی جانب مجگاؤں (مجگام) تک مزید ڈیڑھ میل کے فاصلے پر محیط ہے۔ ‘دی بامبے پورٹ’، جسے شہر کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، کو از سر نو تیار کیا گیا تا کہ بڑے بحری جہازوں کو اس کے ڈاک میں ٹھہرایا جا سکے۔ ایک نئی ریلوے لائن، جو کہ بمبئی، بڑودہ اور سینٹرل انڈیا ریلوے (اب ویسٹرن ریلوے) کی توسیع ہے، جزیرہ بمبئی کے مغربی کنارے کے ہمراہ چلتی ہوئی اپولو بندر کے قریب نو تعمیر شدہ گھاٹ پر مکمل ہو جاتی ہے۔ قلعہ کی دیواریں منہدم کرنے کے بعد، ایک بالکل نیا قصبہ ‘فریئر ٹاؤن ‘(سر ہینری بارٹل فریئر، بامبے پریزیڈنسی کے گورنر تھے، جنہوں نے قلعہ کی دیواریں منہدم کروائیں۔ جس کے نتیجے میں نیا قصبہ آباد ہوا، جو فریئر ٹاؤن کہلایا۔) قدیم ایسپلانیڈ (ساحل سمندر پر سیرگاہ) پر بسایا گیا، جس میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ 1870کی دہائی میں فریئر ٹاؤن میں کئی تاریخی عمارتیں تعمیر کی گئیں، جن میں ایلفنسٹن کالج، واٹسن ہوٹل، ہائی کورٹ، یونیورسٹی اور سکریٹریٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ گرچہ یہ نام جلد ہی متروک ہو گیا، لیکن فریئر ٹاؤن کی ساخت / خاکہ بندی اور اس کی عمارتیں آج بھی ممبئی شہر کی کلیدی پہچان ہیں۔ سن 1875 تک، یعنی 15 سال بعد شہر میں آنے والے کسی بھی سیاح کے لیے رہنمائی کے بغیر اس شہر کی سیر سیاحت آسان نہیں تھی۔
مودی-بے ری کلیمیشن [Moody Bay Reclamation]
ایلفنسٹن ری کلیمیشن [Elphinstone Reclamation]
لکھنؤ میں پارسی
شمالی ہندوستان میں سفر کرنے والے اولین پارسی 1830 اور 40 کی دہائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی رجمنٹ کے کیمپ کے پیروکار تھے۔ وہ یورپ سے امپورٹ کیے گئےاشیاء کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے خریدار زیادہ تر یورپی فوجی اور شہری ہوتے تھے، اور شاید ایک دو نواب بھی ان کے خریداروں میں شامل تھے۔ 1850 کی دہائی تک پارسیوں نے دہلی، الہ آباد اور کانپور جیسے شہروں میں دکانیں کھول لیں تھیں۔ یورپی اشیاء کے علاوہ، وہ شراب اور بیئر کے اپنے ذخیرے (اسٹاک) کے لیے بھی معروف تھے۔ گرچہ 1857-59 کی جنگ آزادی کے بعد دریائے گنگا کے میدانی علاقوں میں پارسی قوم کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا، لیکن شمالی ہندوستان میں پارسیوں کی آبادی انیسویں صدی کے اواخر تک کم تھی اور اکثر بکھری ہوئی تھی۔ لکھنؤ کے ایک پارسی باشندے کو ‘فائر ٹیمپل’ (آتش کدہ) کی زیارت کے لیے کسی بھی سمت میں ایک ہزار کلومیٹر تک سفر کرنا پڑتا تھا۔ وہ یا تو مغرب میں لاہور جا سکتا تھا یا مشرق میں کلکتہ۔ اگر وہ ممبئی کے لیے جنوب کی جانب سفر کرتا تو وسطی ہندوستان میں مہو (مدھہ پردیش کا ایک شہر، جو اب امبیڈکر نگر کہلاتا ہے) میں ’آتش کدے‘ کی زیارت کرسکتا تھا۔ بہرحال، لکھنؤجب اودھ کے نوابوں کادارالحکومت نہ رہا اور ایک نوآبادیاتی کالونی میں تبدیل ہو گیا، تو کاروبار میں اپنا مقدر آزمانے کے خیال سے پارسیوں نے یہاں کا رخ کرنا شروع کیا۔ 1870 کی دہائی کے اوائل تک، لکھنؤ میں پارسیوں کی تعداد 100 کے قریب تھی، جن میں چند خاندان بھی شامل تھے۔ ‘دی لکھنؤ پارسی انجمن’ نے ایک ‘آرام گاہ’ (پارسیوں کا قبرستان) کی بنیاد رکھی۔ 1872 میں ‘ہرمزد باغ’ (اہورا مزدا) کے نام سے ایک کمیونٹی ہال، جو اب تک ان کی یادگار کے طور پر قائم ہے، فرم جی شاپورجی کوچ بلڈر کے فنڈز سے ‘آرام گاہ ‘کے ٹھیک سامنے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ’طلسم بمبئی‘ کے مصنف سیٹھ نوروجی ولد مانک جی لکھنؤ تشریف لائے۔ چونکہ وہ کوئی معروف شخصیت نہیں تھے، لہذا، ان کے بارے میں بہت کم احوال دستیاب ہیں۔ کیا وہ نوروجی ما نک جی کا نٹریکٹر ہو سکتے ہیں، جنہیں پارسی پرکاش نے 1868 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک پاس کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا ہے؟ اس بات کا قوی امکان ہے، کیونکہ میٹرک کے بعد انہوں نے کاروبار میں مقدر آزمانے کے لیے لکھنؤ کا رخت سفر باندھا تھا۔منشی نول کشور اور ان کا مطبع
منشی نول کشور (1836-95) کے نول کشور پریس (قیام :1859) نے جلد ہی شمالی ہندوستان کے ممتاز پبلشرز اور پرنٹرز کی حیثیت سے شہرت حاصل کرلی تھی۔ 1870 کے وسط تک، اس مطبع کے کیٹلاگ میں ہندی، اردو، عربی اور فارسی کی کتابوں کی ایک وسیع فہرست شامل ہوچکی تھی۔ اس دور میں کتابوں کی دنیا آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہی تھی۔ پرنٹرز خود ہی کتابیں چھاپنے لگے تھے اور پبلشر کا رول ادا کرنے لگے تھے۔ مزید برآں، نوآبادیاتی حکومت کے تعلیمی محکمے بڑی تعداد میں درسی کتابوں کے پرنٹ آرڈر جاری کرنے لگے تھے۔ پرنٹنگ کے کاروبار نے منشی نول کشور کو ترقی کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔ وہ پہلے اردو پرنٹرز میں سے ایک تھے جو ترقی کر کے پبلشر بن گئے۔ نول کشور مطبع سے چھپنے والی کتابوں میں اکثر نصابی کتابیں شامل تھیں، جیسے منشی شیو پرساد (1859) کی تصنیف جغرافیہ کی نصابی کتاب ‘جام جہاں نما’ (اُردو) یا رام شرن داس (1860) کی ‘پٹواریوں کے حساب کی کتاب’ (ہندی)۔ لیکن نول کشور پریس نے جلدی ہی شعری اصناف سے متعلق کتابیں بھی شائع کرنا شروع کردیں، جن کی ان دنوں خوب مانگ تھی۔ مثال کے طور پر للو جی لال کی ‘پریم ساگر’ یا تلسی داس کی ‘گیتاولی’۔ منشی نول کشور نے غالب، میر، ظفر اور مومن جیسے شاعروں کی تخلیقات بھی شائع کیں، اور اس میں شاعر کے بقید حیات ہونے کی پابندی نہیں تھی۔ فارسی کلاسکی متون اور ان کے اردو تراجم منشی نول کشور کے مطبع کی ایک اور کلید تھے۔ 1868 میں نول کشور پریس کی جانب سے پہلی بار شائع ہونے والے قرآن کے شاندار لیتھوگرافک ایڈیشن کو ہزاروں خریدار نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ منشی نول کشور نے کتابوں کی تجارت اور طباعت کے بازار کو وسعت دینے کی جی توڑ کوشش کی۔ انہوں نے مترجمین کی ایک ٹیم بھی بنا ئی، جو انگریزی، سنسکرت اور فارسی سے اردو اور ہندی میں ترجمہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے متعدد کتابوں کے کاپی رائٹ مصنفین یا ان کے وارثین سے حاصل کیے۔ وہ طباعت کی دنیا میں نت نئے ڈھب اور طریقے تلاش کرنے اور اس کو اپنانے میں سرگرداں رہتے تھے۔ 1840 کی دہائی سے اردو میں سفرنامے شائع ہونے لگے تھے، لیکن تجارتی اعتبار سے ابھی یہ صنف زیادہ سود مند نہیں تھی۔ یاترالٹریچر کی ہندی میں پرانی تاریخ ہے اور نول کشور نے ہندی یاترا کے چند کتابچے شائع بھی کیے تھے؛ کنہیا لال کی ‘بن یاترا’ (1868) اور گرشرن لال کی ‘اودھ یاترا’ (1869) خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے باوجود، یہ بات قابل غور ہے کہ کسی شہر سے متعلق ایک گائیڈ بک کی اشاعت کا خیال ان کے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا۔ آخر منشی نول کشور کے ذہن میں ممبئی کے لیے ایک گائیڈ بک کا خیال کیسے آیا؟ اور وہ یہ گائیڈ بک کسے فروخت کرنا چاہتے تھے؟ ایک طرف چند پارسی شمالی ہندوستان کی جانب کوچ کر رہے تھے کہ انہیں ممبئی سے بہتر اور بڑے مواقع حاصل ہوں (جوان کے خیال میں اب ممبئی میں نہیں تھے) اور دوسری طرف شمالی ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد مخالف سمت میں ہجرت کر رہی تھی۔ شہر میں ترقی کی رفتار تیز تر ہو گئی تھی۔ لہذا، یہاں کی معیشت ہر اس شخص کے لیے ثمرآور ثابت ہو سکتی تھی جو اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہو۔ ریلوے کی آمد سے شہر اورا سٹیشنوں کے درمیان ٹریفک میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ تاجر، طلباء، سیاح اور زائرین بڑی تعداد میں شہر کا رخ کرنے لگے۔ حج کے سفر کے لیے ممبئی کا بندرگاہ شمالی ہندوستا ن سے تعلق رکھنے والے زائرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگا۔ ہر سال ہزاروں مسلمان شہر میں ڈیرہ ڈالتے تھے۔ سفری پاس اورٹکٹ وغیرہ کے حصول کے بعد وہ عرب جانے والے بحری جہازوں میں سوار ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ وقت اورحالات پر گہری نظر رکھنے والے نول کشور نے یہ ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ممبئی کے لیے ایک گائیڈ بک تیار کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔ ایک اہل مصنف کو تلاش کرتے ہوئے ان کا سامنا ایک نوجوان اور تعلیم یافتہ پارسی سے ہوا ہوگا، جو حال ہی میں ممبئی سے لکھنؤ آیا تھا؛ اور جس کے بارے میں ان کا خیال رہا ہوگا کہ وہ اس شہر کی تاریخ، اہم مقامات اورر دیگر معاملات سے خاطر خواہ واقفیت رکھتا ہوگا۔جادوئی شہر ممبئی
’طلسم بمبئی‘ 16 صفحات پر مشتمل لیتھوگراف پر چھپی ہوئی کتاب ہے۔ یہ دو حصوں میں منقسم ہے، اولین آٹھ صفحات میں سرورق کے علاوہ ایک طویل مقدمہ شامل ہے جو شہر کی تاریخ، اس کے باشندے اور ان کے فلاحی کاموں کی رو داد ہے۔ آخری آٹھ صفحات بمبئی اور اس کی تاریخی عمارتوں کے لیے ایک گائیڈ ہے۔ متن کی خطاطی دلکش اور طباعت دیدہ زیب ہے۔ بمبئی کے باشندے کے طور پر، نوروجی اردو کے بمبئی ورژن یا بمبیا اردو سے بخوبی واقف رہے ہوں گے۔ تاہم، متن میں ہجے کی بے شمار غلطیوں سے، بالخصوص پارسی ناموں کے املا سے، معلوم ہوتا ہے کہ نوروجی اردو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ انہیں ممبئی کا حال لکھنے کے لیے کسی اہل زبان کی ضرورت پڑی ہوگی۔ ایسے میں کتاب کےعنوان سے ممکنہ طور پر اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ نوروجی نے کس کی معاونت سے اس کارنامے کو انجام دیا ہوگا۔ ایک عربی لفظ جس کی یونانی جڑیں انگریزی لفظ ‘طلسمان’ کے ساتھ ملتی ہیں، ‘طلسم’ کے لیے اردو میں متعدد معنی ہیں؛ تماشا، جادو، اسرار، سحر کاری۔ نول کشور پریس پہلے ہی دو کتابیں شائع کرچکا تھا، جن کے عنوان میں لفظ ’طلسم‘ کا سابقہ استعمال کیا گیا تھا۔ ایک فارسی داستان کا ترجمہ ’طلسم شایان‘ کے نام سے 1862 میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح 500 صفحات پر مشتمل اودھ کی تاریخ ’طلسم ہند‘ 1874 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دونوں کتابیں طوطارام ‘شایان’ لکھنوی کی کاوش تھیں۔ وہ اُردو کے شاعر تھے اور بطور مترجم نول کشور پریس سے وابستہ تھے۔ بہت ممکن ہے کہ منشی نول کشور نے طوطارام کو نوروجی کے ساتھ تعاون کر کے اردو متن تیار کرنے کا کام سپرد کیا ہوگا۔ ممبئی کے بارے میں نوروجی کا علم یا نظریہ ان کے اپنے تجربات تک محدود تھا، جو زیادہ تر پارسی قوم کے حوالے سے تھا۔ شاید اس لیے کتاب (گائیڈ بک) کے دونوں حصوں ‘مقدمہ’ اور ‘گائیڈ’ پر پارسی بیانیہ حاوی ہے۔ انہوں نے پارسی فلاحی اداروں جیسے ‘پارسی پنچایت’ اور ’ایسوسی ایشن فار امیلیو ریٹنگ دی کنڈیشن آف دی زورو آسٹرین پا پولیشن آف پرشیا‘ کے بارے میں خوب لکھا ہے۔ پارسی سیٹھوں جیسے جمشید جی جی جی بھائی اور بھائیکلہ میں ان کے ہسپتال کی فلاحی خدمات کو بھی وضاحت کے ساتھ قلمبند کیا گیا ہے۔محلہ کوٹ
ٹکسال سرکاری اس میں بذریعہ کل روپیہ پیسہ بنایا جاتا ہے۔انگریز بازار،اس میں انگریزی و ہندوستانی سوداگروں کی کوٹھیاں ہیں ، کیا خوب جگہ دلچسپ قابل دید ہے۔
فیروز کامدرسہ، کیا عمدہ عمارت ہے۔
گوروں کی ہسپتال، یہ بھی نہایت عالیشان عمارت ہے۔
پارسیوں کا جماعت خانہ، معروف بہ اسم مانک جی سیٹھ کی باڑی کیا عمدہ مکان ہے۔
قلعہ بنبئی (بمبئی )اس میں تمام ہتھیار و مکان قابل دیدہیں۔ گرجا گھرانگریزوں کابہت عمدہ عمارت اور عالیشان مکان ہے۔
پارسی قوم کی لڑکیوں کا مدرسہ، نہایت عمدہ ہے۔
دواخانہ پارسی لوگو ں کے روپیہ سے بنا ہے ، بہت عمدہ مکان ہے۔
ٹون حال (ٹاؤن ہال) واسطے کمیٹی عام لوگوں کے ہے جو کہ رئیس ہیں اور کتب خانہ و نیز تصویرات تجار بنبئی (بمبئی )اس میں ہیں؛ مدرسہ اس میں پہلوی و فارسی وژنڈ زبان کے علوم پڑھائے جاتے ہیں، سر جمشید جی جی جی بھائی نے بنوایا ہے، کیا خوب عمارت ہے۔مدرسہ سرکاری درجہ دوم بہت عمدہ عمارت ہے۔
مکان سر جمشید جی جی جی بھائی کیا عمدہ عمارت ہے۔
فریئرٹون(ٹاؤن) اوراس کے گردا گرد کے مکان اور اندر کا باغیچہ قابل دید ہے۔ مدرسہ اس میں فقط پارسی لڑکے و لڑکیوں کو انگریزی اور گجراتی علوم پڑھایا جاتا ہے، سر جمشید جی جی جی بھائی نے بنوایا ہے۔ یہ عمارت بھی نہایت نفیس ہے۔ ڈونگری قلعہ، بہت رفیع الشان عمارت ہے۔ کثرت خانہ، یہ بھی بہت عمدہ عمارت ہے۔
گائیڈ بک میں دادر کے حوالے سے جو تذکرہ ہے وہ ابتدائی تذکروں میں سے ایک ہے۔