مودی نے سی اے اے کا کریڈٹ لیا، اپوزیشن نے اس کو انتخابات کے پیش نظر تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش بتایا

وزیر اعظم نریندر مودی نے گرو نانک جینتی کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں کہا تھاکہ ہم نےپارٹیشن کے شکار ہندو –سکھ خاندانوں کو شہریت ترمیمی ایکٹ بنا کرشہریت دینےکی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن نے اسے تفرقہ انگیز اور انتخابی فائدے کے لیے دیا گیا بیان قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے گرو نانک جینتی کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں کہا تھاکہ ہم نےپارٹیشن  کے شکار  ہندو –سکھ خاندانوں کو شہریت ترمیمی ایکٹ بنا کرشہریت دینےکی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن نے اسے تفرقہ انگیز اور انتخابی فائدے  کے لیے دیا گیا بیان قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر: رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار کو کہا کہ ان کی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے ذریعے ملک کی تقسیم سے متاثرہ ہندو اور سکھ خاندانوں کو شہریت دینے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس بیان  کو اپوزیشن نے تفرقہ انگیز اور انتخابی فائدے  کے لیے دیا گیا بیان قرار دیتے ہوئےاس کی  مذمت کی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے سوموار کو قومی اقلیتی کمیشن اقبال سنگھ لال پورہ کی رہائش گاہ پر پہلے سکھ گرو نانک دیو کے 553 ویں یوم پیدائش کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں کہا تھاکہ،تقسم میں ہمارے پنجاب کے لوگوں نے، ملک کے لوگوں نے جو قربانیاں دیں ، اس کی  یاد میں ملک نے پارٹیشن ہارر میموریل ڈے کا آغاز کیا ہے۔پارٹیشن کے شکار  ہندو سکھ خاندانوں کے لیے ہم نے سی اے اے قانون بناکر انہیں شہریت دینے کی  راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا تھا، ‘کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں حالات کیسے خراب ہو گئے تھے۔ ہم نے وہاں  سے ہندو سکھ خاندانوں کو واپس لانے کے لیے ایک مہم چلائی۔ ہم گرو گرنتھ صاحب کے یادگاروں کو بھی بحفاظت لے آئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ گجرات نے بیرون ملک ہراسانی کے شکارسکھ خاندانوں کو شہریت دی ہے اور انہیں یہ احساس دلایا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی سکھ ہیں، ہندوستان ان کااپنا گھر ہے۔

سی اے اے قانون پر ان کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے ترنمول کانگریس نے کہا کہ یہ گجرات اسمبلی اور آنے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ ڈسکورس  پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

ترنمول نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ مغربی بنگال میں کبھی بھی اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دے گی۔ پارٹی کے ترجمان کنال گھوش نے کہا کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، بی جے پی نئے ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرتی ہے۔

گھوش نے کہا کہ جو لوگ پاکستان اور سابقہ مشرقی پاکستان سے ہندوستان آئے تھے انہیں پہلے ہی شہریت مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا، سی اے اے کا یہ ایشو لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ جب بھی انتخابات آتے ہیں بی جے پی فرقہ وارانہ ڈسکورس پیدا کرنے کے لیے اس مسئلے کو اٹھاتی ہے۔ یہ ایک پرانی چال بن گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘گجرات کا الیکشن اب بہت قریب ہے، بی جے پی دوبارہ اس معاملے کو بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب اسے چاہیے کہ وہ اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لے کر ڈسکورس بنانا بند کرے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، انہوں نے کہا، ملک کے موجودہ نظام میں شہریت حاصل کرنے کے اہتمام ہیں۔ اب سی اے اے جیسا نیا نظام صرف لوگوں میں تفرقہ  پیدا کرے گا کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ دراندازی روکنے کے لیے بارڈر سکیورٹی کو بہتر کرنا ہوگا۔ لیکن مرکز شہریت دینے کے معاملے میں امتیازی رویہ اپنا رہا ہے۔ بنگال کے عوام ایسے قوانین کو یہاں لاگو نہیں ہونے دیں گے۔

مغربی بنگال میں کانگریس کے صدر ادھیر چودھری نے کہا، کسی شخص کے مذہب کی بنیاد پر شہریت نہیں دی جا سکتی۔ ہندوستان کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ملک کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہ اسمبلی انتخابات سے پہلے گجرات کے عوام کو پولرائز کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سی پی آئی (ایم) کے رہنما سوجان چکرورتی نے کہا کہ اس سے ان لوگوں کے پرانے زخم تازہ ہوں گے، جنہوں نے تقسیم کے المیے  کا سامنا کیا۔

چکرورتی نے کہا، ‘ملک نے 75 سال پہلے تقسیم دیکھی تھی۔ کیا پچھلے 75 سالوں سے ملک میں رہنے والے ہندوستان کے شہری نہیں ہیں؟ اگر نہیں تو ایسی صورتحال پیدا کرنے کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ انہیں ایک طویل عرصے سے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اتنے عرصے تک انہیں شہری نہ ماننے کے بعد اب مرکز انہیں شہریت دینے کی بات کر رہا ہے۔ یہ سیاست کے سوا کچھ نہیں۔

تاہم، بی جے پی نے یہ کہہ کر وزیر اعظم کا دفاع کیا کہ ملک تکثیری سماج کی تعمیر میں یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہاتقسیم کے دوران سکھوں کو ناقابل تصور پریشانیوں سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے لوگوں کی ہجرت دیکھی ہے اور ان کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ وہ شہریت کے مستحق ہیں اور مرکز انہیں ان کے حقوق دلانے کے لیے پابند عہد ہے۔

غور طلب  ہے کہ سی اے اے 2019 میں وجود میں آیا ہے، لیکن اس کے قوانین کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)