ہندوستانی حکومت نے ایلون مسک کی اسٹارلنک اور امبانی کی جیو سمیت کچھ کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس کی منظوری دے دی ہے، لیکن نیلامی کے بغیر ہوئے اس مختص پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کیایہ الاٹمنٹ شفاف ہے؟ کیا اس سے قومی مفاد کو خطرہ ہے اور معاشی نقصان کا اندیشہ ہے؟

ایلون مسک اور امبانی کی کمپنیوں کو ہوئے سیٹلائٹ مختص سے کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ | (بائیں سے) مکیش امبانی اور ایلون مسک، پس منظر میں اسٹارلنک سیٹلائٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: ریلائنس/وکی پیڈیا اور برٹانیکا)
قومی سلامتی کو خطرہ ۔ معاشی نقصان کا اندیشہ۔ حکومت کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان۔
یہ چند سوالات ہیں جو حکومت ہند کی جانب سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک اور مکیش امبانی کی کمپنی جیو سمیت متعدد کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی باضابطہ منظوری کے بعد اٹھ رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک یہ عام نہیں کیا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن شرائط کے تحت اور کس شرح پر ان کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر پون گوینکانے تصدیق کی کہ اسٹار لنک کے لیے زیادہ تر رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
ہندوستان جیسے وسیع ملک میں پہاڑی یا دور دراز کے علاقوں میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس یک انقلابی حل بن سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اکیلےا سٹار لنک 100 سے زیادہ ممالک کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے جس طرح سے کچھ کمپنیوں کو اس سروس کی منظوری دی ہے اس سے کئی سنگین سوال پیدا ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا، مودی حکومت نے ان کمپنیوں کو لائسنس نیلامی کے عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ محض ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اسٹار لنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو جاری کیے جا رہے لائسنس کی شرائط کیا ہیں۔ اس سے جانبداری اور وسائل کے غیرشفاف مختص کا سوال اٹھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 2023 میں کہا گیا ہے کہ سیٹلائٹ خدمات کے لیے اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ نیلامی کے بجائے ‘ایڈمنسٹریٹو پروسس’ یعنی انتظامی فیصلے کے ذریعے کیا جائے گا۔
حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت کے کابینہ سکریٹری ڈاکٹر ٹی وی سومناتھن اور ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری نیرج متل کو خط لکھ کر اس موضوع پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور قومی مفاد کو خطرہ
دی وائر سے بات کرتے ہوئے شرما نے کہا،’اسٹار لنک جیسی کمپنیوں کو براہ راست سیٹلائٹ اسپیکٹرم سونپنا سپریم کورٹ کے 2 جی اسپیکٹرم کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے وسائل کی تقسیم ایک شفاف اور عوامی عمل کے ذریعے کی جانی چاہیے، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔’
سابق سکریٹری نے اس بات کو طے کرنے کے لیے آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا اسپیکٹرم کی تقسیم نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیا حکومت نے اس عمل میں نجی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے؟
شرما اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی مانتے ہیں۔ ‘اسٹار لنک کے امریکی فوج کے ساتھ روابط ہیں۔ انہیں ہندوستان میں سیٹلائٹ سے براہ راست نگرانی کرنے کی اجازت دینا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔
سیٹلائٹ انٹرنیٹ جدید جنگ کا ایک اوزار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک غیر ملکی کمپنیوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ایران کی پارلیامنٹ نے حال ہی میں اسٹار لنک پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد بیرونی اثرات کو روکنے کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
روس اور چین میں بھی اسٹار لنک کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل روس میں بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جنہیں خرید کر اسٹار لنک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس استعمال کی جا رہی ہے۔
اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس یوکرین سے سوڈان تک تنازعات والے علاقوں میں فوری اور نسبتاً محفوظ رابطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت ڈرون اور دیگر جدید فوجی ٹکنالوجی کے آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے – جو آج جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اسٹار لنک ڈیوائسز کے آسان اور تیز ایکٹیویشن ہارڈویئر کی وجہ سے ایلون مسک کا اسپیس ایکس بہت سے پرتشدد تنازعات کا حصہ بن جا رہا ہے۔
ہندوستان بھی اس کا خمیازہ بھگت چکاہے۔ پانچ ماہ قبل دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منی پور میں عسکریت پسند گروپ حکومت کی انٹرنیٹ پابندی کو چکمہ دینے کے لیے اسٹار لنک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹار لنک کی خدمات ابھی تک ہندوستان میں شروع نہیں کی گئی ہیں، لیکن منی پور سے متصل ملک میانمار میں اس کی اجازت ہے۔ میتیئی علیحدگی پسند عسکریت پسند تنظیم ‘پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور (پی ایل اے)’کے ایک رہنما کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کر دیا، تو انہوں نے انٹرنیٹ کے لیے اسٹار لنک ڈیوائسز کا سہارا لیا۔
سرکاری خزانے کو نقصان کا اندیشہ
چونکہ حکومت نے نہیں بتایا ہے کہ اسپیکٹرم کس شرح پرسونپا گیا ہے، اس لیے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے۔ نیز، جس طرح سے اسپیکٹرم الاٹ کیا گیا ہے اس سے اجارہ داری کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
شرماکہتے ہیں،’اسٹار لنک ہندوستان کے معروف ٹیلی کام آپریٹرجیواور ایئر ٹیل کے ساتھ ایک ‘کارٹیل’ بنا رہا ہے، جو انہیں سیٹلائٹ اسپیکٹرم پر اجارہ داری کی اجازت دے سکتا ہے – اور اس سے لاکھوں صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’
حکومت شروع سے ہی اس معاملے پر شفافیت سے گریز کرتی رہی ہے۔ اس سال مارچ میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے لوک سبھا میں وزیر مواصلات سے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔ اس وقت حکومت نے کسی بھی درخواست گزار کی فہرست شیئر نہیں کی تھی۔
کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے وزیر مواصلات سے پوچھا تھا؛
الف- ہندوستانی حکومت سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو کس طرح منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟
ب-جب اسپیکٹرم نیلامی کے بجائے انتظامی فیصلے کے ذریعے مختص کیا جائے گا، تو حکومت شفافیت، غیرجانبدار اورا سپیکٹرم کے بہترین استعمال کو کیسے یقینی بنائے گی؟
ج- خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر، ملک میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو آسان بنانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
د- حکومت نے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے غلط استعمال یا حفاظتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اختیار کیے گئے حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے؟
وزیر مملکت برائے مواصلات، ڈاکٹر پیمسانی چندر شیکھر نے جواب دیا تھاکہ یہ کمپنیاں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہونی چاہیے اور تمام حفاظتی شرائط کی تعمیل ضروری ہے – جیسے کہ سیٹلائٹ گیٹ وے ہندوستان میں ہونا چاہیے، تمام ٹریفک وہیں سے ہو کر گزرے، اور سرحدوں پر بفر زون بنایا جائے۔

منیش تیواری کے سوالات
اس کے بعد ، اپریل 2025 میں، وینکٹیش نائک، ڈائریکٹر، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آئی) نے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔
آر ٹی آئی درخواست اور سی پی آئی او کا گول مول جواب
آر ٹی آئی کے ذریعے پوچھا گیا تھاکہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی اجازت سے متعلق کیا شرائط ہیں؟ کن کمپنیوں نے اپلائی کیا، کن کن شرائط پر منظوری ملی۔
مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کے ناموں کا تو انکشاف کیا جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے کا لائسنس دیا گیا، لیکن اس کے تحت استعمال ہونے والے معیارات، شرائط اور عمل کی وضاحت کرنے والے دستاویزات کو شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔
پہلی اپیل دائر کیے جانے کے بعد 28 مئی کو، فرسٹ درخواست گزار اتھارٹی نے اپنا حکم جاری کیا، جس میں ان کمپنیوں کی فہرست شیئر کی جنہیں لائسنس دیا گیا ہے، لیکن دیگر معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور 8(1)(ای) کا حوالہ دیتے ہوئےروک دیا۔
یہ دفعات عام طور پر ‘تجارتی رازداری’ اور ‘وفادارانہ تعلقات’ کی بنیاد پر معلومات مہیا کرنے سے روکنےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
جب ان سے ہندوستان میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں اور مذکورہ کمپنیوں کو جاری کردہ اجازت ناموں کی کاپیاں مانگی گئیں، تو حکومت نے کہا کہ یہ معلومات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کے تحت خفیہ ہے اور فراہم نہیں کی جا سکتی۔
آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کیا کہتی ہیں؟
آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی اور 8(1)(ای) کے تحت، کچھ معلومات عوامی معلومات کے دائرےمیں نہیں آتی ہیں اور ان کو شیئر کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔
دفعہ 8(1)(ڈی)؛
اگر معلومات تجارتی رازداری سے متعلق ہے (جیسے کمپنی کی ٹکنالوجی یا کاروباری حکمت عملی)، ٹریڈ سیکریٹس یا دانشورانہ املاک اور اس کے افشاء سے کمپنی کی مسابقتی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے — توایسی معلومات آر ٹی آئی ے تحت شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ سیکشن 8(1)(ای)؛
اگر معلومات کسی شخص یا تنظیم کو کسی مخلصانہ تعلقات کے تحت موصول ہوئی ہیں — جیسے کہ کسی وکیل کو اس کے مؤکل سے موصول ہونے والی معلومات، بینک کلائنٹ کا رشتہ، وغیرہ— تو اس معلومات کا اشتراک نہیں کیا جا سکتا۔
اس کیس میں ان دفعات کا استعمال کیوں ہوا؟
ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ کمپنیوں کی درخواست اور انہیں دی گئی منظوریوں کے دستاویز تجارتی رازداری (8(1)(ڈی) کے تحت آتے ہیں۔ اور یہ معلومات ایک مخلصانہ تعلق – 8(1)(ای) کے تحت دی گئی ہیں۔
لیکن وینکٹیش نائک کا کہنا ہے کہ محکمہ کو یہ معلومات سرکاری کام کے تحت ملی ہیں، نہ کہ نجی بھروسے کے تحت— اس لیے دفعہ 8(1)(ای) لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ خدمات عوام کو فراہم کی جانی ہیں اور اسپیکٹرم ایک عوامی وسیلہ ہے- اس لیے کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس اور شرائط شفاف ہونے چاہیے۔
وینکٹیش نائک نے محکمہ کے جواب کو ‘قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4(1)(بی) (xiii) کے تحت لائسنس اور اجازت کے دستاویزات کو پبلک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ بھی آر بی آئی بہ نام جینتی لال مستری کیس میں یہ واضح کر چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے قانونی کاموں کے حصے کے طور پر جمع کی جانے والی کوئی بھی معلومات فیڈوشری نہیں ہے۔’
اس کیس میں آر بی آئی کا استدلال یہ تھا کہ وہ جو معلومات بینکوں سے اکٹھا کرتا ہے وہ ایک مخلصانہ تعلق کے تحت ہے، اس لیے اسے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘اگر کوئی محکمہ قانون کے تحت کمپنیوں سے درخواست یا معلومات لیتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹرسٹ (وفادارانہ تعلقات) کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ عوام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔’
اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے آر ٹی آئی کی دفعات کا غلط استعمال کرکے شفافیت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے دی گئی اجازت عوامی وسائل (اسپیکٹرم) سے متعلق ہے، جن کی خدمات عام لوگوں کو دی جانی ہیں۔
ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ سے نہیں ملا کوئی جواب نہیں
آر ٹی آئی کے ذریعے جن سوالوں کا جواب نہیں مل سکا تھا، انہیں اور کچھ اضافی سوالات کے ساتھ دی وائر نےمحکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری نیرج متل اور میڈیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ہیمیندر کمار شرما کو ای میل پر سوالات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔